Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 13
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ اٰمِنُوْا كَمَاۤ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْۤا اَنُؤْمِنُ كَمَاۤ اٰمَنَ السُّفَهَآءُ١ؕ اَلَاۤ اِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَآءُ وَ لٰكِنْ لَّا یَعْلَمُوْنَ
وَإِذَا : اور جب قِيلَ : کہاجاتا ہے لَهُمْ : انہیں آمِنُوا : تم ایمان لاؤ کَمَا : جیسے آمَنَ : ایمان لائے النَّاسُ : لوگ قَالُوا : وہ کہتے ہیں أَنُؤْمِنُ : کیا ہم ایمان لائیں کَمَا : جیسے آمَنَ السُّفَهَاءُ : ایمان لائے بیوقوف أَلَا إِنَّهُمْ : سن رکھو خود وہ هُمُ السُّفَهَاءُ : وہی بیوقوف ہیں وَلَٰكِنْ لَا يَعْلَمُونَ : لیکن وہ جانتے نہیں
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جس طرح اور لوگ ایمان لے آئے تم بھی ایمان لے آؤ تو کہتے ہیں کہ بھلا جس طرح بیوقوف ایمان لے آئے ہیں اسی طرح ہم بھی ایمان لے آئیں ؟ سن لو کہ یہی بیوقوف ہیں لیکن نہیں جانتے
منافقین کی تیسری قباحت قال تعالیٰ واذا قیل لھم امنوا کما امن الناس۔۔ الی۔۔۔ الا انھم ھم السفہاء و لکن لا یعلمون اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم ایمان لاؤ جیسا کہ ایمان لائے وہ لوگ جو حقیقۃً انسان اور آدمی ہیں۔ انسان حقیقت میں وہی ہے جو اللہ اور اس کے رسول پر اخلاص کے ساتھ ایمان رکھتا ہو ورنہ وہ شخص " نہ ابن آدم بل غلاف آدمند " کا مصداق ہے۔ ناس سے اس جگہ مطلقآً صحابہ کرام مراد ہیں یا علماء بنی اسرائیل مراد ہیں جیسے عبداللہ بن سلام وغیرہ اور تاریخ ابن عساکر میں ابن عباس سے کما آمن الناس کی تفسیر اس طرح منقول ہے۔ کما آمن ابوبکر وعمر وعثمان وعلی اور ان چار کی تخصیص اس لیے فرمائی کہ ایمان وہی معتبر ہے جو خلفائے راشدین کے منہاج اور منوال پر ہو اور کما آمن الناس کے لفظ سے اس طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ ایمان اور تصدیق اسی قسم کی معتبر ہے جس قسم کی صحابہ کرام اور خلفاء راشدین نے تصدیق کی۔ ورنہ جو شخص ملائکہ اور جنت اور جہنم وغیرہ وغیرہ کی تصدیق اس معنی کے لحاظ سے نہ کرے کہ جس معنی سے صحابہ کرام تصدیق کرتے تھے۔ بلکہ اپنی ہوائے نفسانی اور شیطان قرین کے القاء کیے ہوئے معنی کے لحاظ سے کرے تو وہ اصلاً معتبر نہیں ایسی تصدیق تکذیب کے مترادف ہے اور ایسا ایمان بلاشبہ کفر کے ہم معنی ہے۔ الحاص جب منافقین سے یہ کہا جاتا ہے کہ تم ایسا ایمان لاؤ کہ جیسا صحابہ کرام ایمان لائے تو جواب میں یہ کہتے ہیں کہ کیا ہم ایمان لائیں جیسا کہ ایمان لائے بیقوف کہ دین کے دیوانے بنے ہوئے ہیں اور زمانہ کے انقلابات سے نہیں ڈرتے۔ ممکن ہے کہ دوسری طرف کا غلبہ ہوجائے دین کی محبت میں دنیاوی مصالح کو نظر انداز کردیا۔ روافض اور خوارج بھی صحابہ کرام کو احمق اور کافر اور منافق کہتے ہیں۔ سفیہ اس کو کہتے ہیں جو اپنے نفع اور ضرر کو نہ پہچانتا ہو۔ صحابہ کرام ؓ عنا وعنہم چونکہ آخرت کے نفع اور ضرر کے فکر میں اس درجہ سرشار اور منہمک تھے کہ آخرت کے مقابلہ میں دنیا کے کسی نفع اور ضرر کی ذرہ برابر ان کو پرواہ نہ رہی تھی۔ اس لیے دنیا کے کتے ان کو دیوانہ اور بیوقوف کہتے تھے۔ اوست دیوانہ کہ دیوانہ نشد اوست فرزانہ کہ فرزانہ نشد منافقین کا مخلصین کو دیوانہ اور سفیہ کہنا بھی ان کے عقل اور سمجھ دار ہونے کی دلیل ہے۔ واذا اتتک مذمتی من ناقص فھی الشھادۃ لی بانی کامل ناقص العقل کا میر مذمت کرنا یہی میرے کامل العقل ہونے کی شہادت ہے اس لیے آگے ارشاد فرماتے ہیں۔ آگاہ ہوجاؤ کہ یہی لوگ احمق اور بیوقوف ہیں جنہوں نے باقی کو چھوڑ کر فانی کو اختیار کیا ہے۔ اور عاقلوں کو احمق سمجھتے ہیں۔ اور حق کو باطل اور ہدایت کو ضلالت سمجھتے ہیں۔ شداد بن اوس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ الکیس من دان نفسہ وعمل لما بعد الموت والاحمق من اتبع نفسہ ھواھا وتمنی علی اللہ (رواہ الترمذی وابن ماجہ) عاقل اور سمجھ دار وہ ہے کہ جس نے اپنے نفس کو اللہ کا مطیع اور فرمانبردار بنایا اور مابعد الموت یعنی آخرت کے لیے عمل کیا اور احمق اور بیوقوف وہ ہے کہ جس نے ہوائے نفسانی کا اتباع کیا اور اللہ پر آرزوئیں اور منتائیں باندھیں (ترمذی شریف ابن ماجہ) علاوہ ازیں لیل ونہار آپ کے معجزات کا مشاہدہ کیا اور جو نعت اور صفت آپ کی آسمانی کتابوں میں دیکھی اور پڑھی تھی وہ ہوبہو آپ پر منطبق پائی اور پھر بھی ایمان نہ لائے۔ اس سے بڑھ کر کیا حماقت ہوگی۔ اور یہ منافق ایسے احمق اور بیوقوف ہیں کہ وہ اپنی حماقت اور بیوقوفی کو بھی نہیں جانتے۔ جو احمق اپنی حماقت کو جانتا ہو وہ غنیمت ہے لیکن جو احمق اپنی حماقت اور سفاہت کو دانائی اور فراست سمجھتا ہو اس کا مرض لا علاج ہے۔ ان آیات میں یہ بیان فرمایا کہ منافقین اہل اخلاص کو زبان سے بیوقوف بتلاتے ہیں۔ آئندہ آیات میں یہ بتلاتے ہیں کہ محض زبان سے نہیں دل سے بھی ان کو بیوقوف سمجھتے ہیں چناچہ فرماتے ہیں۔
Top