Maarif-ul-Quran - Al-Israa : 90
وَ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ یَنْۢبُوْعًاۙ
وَقَالُوْا : اور وہ بولے لَنْ نُّؤْمِنَ : ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے لَكَ : تجھ پر حَتّٰى : یہانتک کہ تَفْجُرَ : تو رواں کردے لَنَا : ہمارے لیے مِنَ الْاَرْضِ : زمین سے يَنْۢبُوْعًا : کوئی چشمہ
اور کہنے لگے کہ ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ (عجیب و غریب باتیں نہ دکھاؤ یعنی یا تو) ہمارے لئے زمین میں سے چشمہ جاری کردو۔
معاندین کے سوالات اور ان کے جوابات قال اللہ تعالیٰ وقالوا لن نؤمن لک حتی تفجر .... الیٰ .... وکان الانسان قتورا۔ (ربط) گزشتہ آیت میں قرآن کے اعجاز کا ذکر تھا جب مشرکین جواب سے عاجز اور لاچار ہوگئے تو انہوں نے ازراہ عناد آپ ﷺ سے بیشمار بےسروپا فرمائشیں شروع کیں اور کہا کہ اگر آپ ﷺ سچے نبی ہیں تو یہ نشانات دکھلائیے جن کا آئندہ آیت میں ذکر ہے ان کے جواب میں یہ آیتیں نازل ہوئیں ان آیات میں کفار کے ان شبہات کا جواب دیا گیا جو آنحضرت ﷺ کی رسالت سے متعلق تھے چناچہ فرماتے ہیں۔ اور یہ لوگ باوجود یکہ قرآن کا اعجاز ان پر ظاہر ہوگیا اور آپ کی نبوت و رسالت اس سے ثابت ہوگئی پھر بھی یہ لوگ ایمان نہیں لاتے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ ہم تجھ پر ہرگز ایمان نہ لائیں گے۔ (1) یہاں تک کہ تو ہمارے لیے مکہ کی زمین سے چشمہ جاری کر دے جس سے تمام اہل مکہ سیراب ہوں۔ (2) یا خاص تیرے لیے کھجوروں یا انگوروں کا کوئی باغ ہو پھر تو ان کے درمیان میں نہریں جاری کر دے اور اس قسم کا باغ تیری سرداری اور برتری کا نشان ہو۔ (3) یا ہم پر کوئی بلا نازل کر جیسا کہ تو کہا کرتا ہے اور ہم کو ڈرانا رہتا ہے کہ ہم پر آسمان کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے گرا دے جس سے تیرے نہ ماننے والے مرجائیں۔ (4) یا لے آ تو اللہ کو اور فرشتوں کو ہمارے سامنے کہ ہم اپنی آنکھوں سے سب کو دیکھ لیں اور ہمارے سامنے یہ شہادت دیں کہ یہ خدا کا رسول ہے۔ (5) یا تیرے پاس سونے کا گھر ہو جس سے دنیا میں تیری کوئی شان ظاہر ہو۔ (6) اور یا تو آسمان میں چڑھ جائے اور ہم تجھے چڑھتا ہوا اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ (7) اور پھر ہم تیرے چڑھنے پر بھی تیری نبوت پر ہرگز ایمان نہ لائیں گے یہاں تک کہ تو ہم پر ایک کتاب اتار کر لائے جس کو ہم آپ پڑھ لیں اور اس میں یہ لکھا ہوا ہوا کہ یہ ہمارا رسول ہے تم اس کا اتباع کرو اگر تم ہماری ان باتوں کو پورا کر دو گے تو ہم تم کو سچا مان لیں گے اور جان لیں گے کہ اللہ کے یہاں تیرا بڑا مرتبہ ہے اور تم اس کے ایلچی ہو اس نے تم کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے آپ ان سب خرافات کے جواب میں کہہ دیجئے کہ یہ فرمائشیں اس شخص سے ہوسکتی ہیں جو اپنے لیے کمال قدرت کا مدعی ہو میرا پروردگار پاک ہے اس سے کہ اس کی قدرت کاملہ میں کوئی اس کا شریک ہو بشر میں یہ قدرت نہیں کہ وہ اس قسم کے نشانات دکھلا سکے میں نہیں ہوں مگر ایک بشر جس کو خدائے تمہاری ہدایت کے لیے بھیجا ہے مجھ کو اسی قدر قدرت حاصل ہے جو ایک بشر کو دی گئی ہے مگر میں اللہ کا رسول اور اس کافرستادہ ہوں اس کا پیغام اور اس کے احکام پہنچانے کے لیے بھیجا گیا ہوں ایسی باتیں کرنے کی مجھ میں قدرت نہیں جیسے پہلے رسول گزرے ہیں ایسا ہی میں بھی رسول ہوں اللہ تعالیٰ نے ہر زمانہ میں پیغمبروں کو مناسب حال معجزات عطا کئے اور ان معجزات کا ظہور اللہ کی قدرت اور مشیت سے تھا۔ رسولوں کے اختیار اور مشیت سے نہ تھا اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مجھ کو رسول بنا کر بھیجا اور میری تصدیق کے لیے بہت سے معجزات دئیے جو تمہارے ان فرمائشی معجزات سے ہرگز کم نہیں مثلا شق القمر اور انگلیوں سے پانی کا جاری ہوجانا وغیرہ وغیرہ اس قسم کے معجزات آپ ﷺ سے ظاہر ہوتے کہ جو آپ ﷺ کی صداقت ثابت کرنے کے لیے کافی اور شافی تھے اور مشرکین کے اس قول سے کہ ہم تیرے آسمان پر چڑھنے کو بھی نہیں مانیں گے۔ الیٰ آخرہ ان کا عناد اور ہٹ دھرمی صاف ظاہر ہے اور ضدی اور پیجی آدمی کا منہ کبھی بند نہیں ہوسکتا۔ جواب استعجاب کفار بر رسالت بشر اب آگے کافروں کے اس استعجاب کو ذکر کرکے اس کا رد فرماتے ہیں کافروں کا استعجاب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے بشر کو ہی رسول بنا کر بھیجا ملائکہ کو رسول کیوں نہیں بنایا چناچہ فرماتے ہیں۔ اور جب لوگوں کے پاس ہدایت یعنی قرآن آگئی تو ان کو ایمان لانے سے سوائے اس بات کے اور کسی امر نے نہیں روکا کہ انہوں نے کہا کہ کیا اللہ نے ایک بشر کو رسول بنا کر بھیجا ہے یعنی لوگوں کے پاس قرآن اور محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان نہ لانے کے متعلق سوائے اس کے اور کوئی عذر نہیں ہے کہ وہ بشر کے رسول ہونے کو مستبعد جانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ محمد بشر ہیں اور بشر رسول نہیں ہوسکتا۔ اگر اللہ رسول بھیجنا چاہتا تو اس کے یہاں فرشتوں کی کیا کمی تھی۔ یہ لوگ بشریت کو رسالت کے منافی سمجھتے تھے۔ حالانکہ پہلے جتنے بھی نبی گزرے وہ سب کے سب بشر ہی تھے ان میں سے کوئی فرشتہ نہ تھا۔ اے نبی ﷺ ! آپ ان کے جواب میں کہہ دیجئے اگر زمین میں فرشتے آباد ہوتے کہ اس میں اطمینان سے چلتے پھرتے تو پھر ان کے مناسب ضرور آسمان سے کوئی فرشتہ رسول بنا کر بھیج دیتے جو انہی کی جنس سے ہوتا کیونکہ تعلیم و تلقین کے لیے مناسبت اور باہمی جنسیت شرط ہے مگر چونکہ زمین پر آدمی رہتے ہیں تو آدمی ہی رسول ہونا چاہئے جواب اخیر مشتمل بر وعید سعیر اور اگر باوجود دلائل ظاہرہ اور آیات باہرہ کے یہ ظالم آپ ﷺ سے کہیں کہ آپ کی نبوت و رسالت کا گواہ کون ہے تو آپ جواب میں کہہ دیجئے کہ میرے نبی اور رسول ہونے پر میرے اور تمہارے درمیان اللہ کافی ہے۔ گواہ اللہ کی گواہی یہ ہے کہ اس نے میری زبان سے علم و حکمت کے چشمے جاری کر دئیے اور قسم قسم کے معجزات اور نشانات میرے ہاتھ سے تم کو دکھلا دئیے۔ یہی اللہ کی گواہی ہے بیشک وہ اپنے بندوں سے خبردار ہے ان کو دیکھنے والا ہے وہ صادق کو بھی جانتا ہے اور کاذب کو بھی اور سعادت اور شقاوت اور ہدایت اور ضلالت سب اس کے ہاتھ میں ہے جس کو اللہ ہدایت یعنی توفیق دے وہی ہدایت پانے والا ہے۔ یعنی جس کے دل میں اللہ کی ہدایت ڈال دے وہی ہدایت پانے والا ہے پھر کسی کو قدرت نہیں کہ اسے گمراہ کرسکے اور جس کو وہ گمراہ کرے تو تو اس کے لئے اللہ کے سوا کوئی مددگار نہ پائے گا جو اسے راہ ہدایت پر لے جاسکے اس سے مقصود آنحضرت ﷺ کو تسلی دینا ہے مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں کی قسمت میں اللہ نے ہدایت لکھ دی ہے وہ ضرور ہدایت پائیں گے اور جن کو وہ ازل میں گمراہ ٹھہرا چکا ہے ان کا حق اور ہدایت کی طرف آنا محال ہے پس ایسی صورت میں آپ کافروں کے اعراض سے رنجیدہ اور ملول نہ ہوں۔ قیامت کے دن سب کے اعمال کا نتیجہ ظاہر ہوجائے گا اور قیامت کے دن ہم ان گمراہوں کو ان کے منہ کے بل اندھا اور گونگا اور بہرا بنا کر اٹھائیں گے یہ سزا ان کو اس لیے دی جائے گی کہ وہ دنیا میں الٹے چلے تھے اور حق کے دیکھنے سے اندھے اور کہنے سے گونگے اور سننے سے بہرے بنے ہوئے تھے۔ ابتداء حشر کے وقت ان کی یہی حالت ہوگی تاکہ ان کی ذلت اور رسوائی سب پر ظاہر ہو بعد میں یہ حالت نہ رہے گی اس لیے کہ دوسری آیات اور احادیث سے ان کا دیکھنا اور بولنا اور سننا ثابت ہے ان گمراہوں کا ٹھکانا جہنم ہے جب وہ آگے بجھنے لگے گی تو ہم اس کو اور بھڑکا دیں گے یہ ان کی سزا ہے اس لیے کہ انہوں نے ہماری آیتوں کو نہ مانا اور کہا کہ جب ہم مرے پیچھے ہڈیاں اور بالکل ریزہ ریزہ ہوجائیں گے تو کیا ہم نئی پیدائش سے اٹھائے جائیں گے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انکا یہ خیال بالکل غلط ہے کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ جس خدا نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا وہ یقیناً ان کے مثل پیدا کرنے پر بھی قادر ہے و لیکن اللہ نے اسے دوبارہ پیدا کرنے کے لیے ایک وقت مقرر کردیا ہے جس میں کچھ شک نہیں جس طرح اس دنیاوی حیات کے لیے ایک وقت مقرر ہے اسی طرح دوبارہ زندگی کے لیے بھی وقت مقرر ہے اس پر بھی ظالموں نے سوائے ناشکری کے اور بات کے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ حاصل جواب یہ ہے کہ عذاب ضرور آکر رہے گا لیکن اس کی ایک مدد مقرر ہے اور آدمی جب مرگیا تو اس کی قیامت آگئی۔ اوپر کی آیتوں میں اللہ کے فضل اور رحمت کا ذکر تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و رحمت سے جس کو چاہے سرفراز فرمائے اور اس نے اپنے فضل سے آنحضرت ﷺ کو اپنی نبوت و رسالت سے سرفراز فرمایا ان فضلہ کان علیک کبیرا اس کے بعد مخالفین کے تعنت آمیز سوالات کا ذکر فرمایا جن میں ایک سوال یہ تھا کہ کافر یہ کہتے ہیں کہ ایمان جب لائیں گے جب زمین میں چشمے اور نہریں جاری ہوجائیں تاکہ زراعت سے اموال کثیرہ جمع ہوجائیں اور کھجور اور انگور کے باغات پیدا ہوجائیں اس سوال کے جواب میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اگر بالفرض تم اللہ کی رحمت پر قابض اور متصرف ہوجاؤ تو تم اپنی طبعی تنگ دلی اور جبلی بخل کی وجہ سے ختم ہوجانے کے خوف سے اپنا ہاتھ روک لوگے لہٰذا تمہاری یہ فرمائش پوری نہ ہوگی اور خزائن رحمت اور وسائل رزق و معیشت تمہارے اختیار میں نہیں دیئے جائیں گے اللہ کو اختیار ہے کہ وہ اپنی حکمت اور مصلحت سے جس پر چاہے رزق کو وسیع کرے اور جس پر چاہے تنگ کرے اور جس کو چاہے اپنے فضل سے اور رحمت سے نبوت اور قرآن عظیم عطا کرے اللہ اپنے بندوں سے باخبر ہے چناچہ فرماتے ہیں (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) آپ ان ظالموں سے کہہ دیجئے کہ اگر تم میرے پروردگار کے خزانہ ہائے رحمت کے مالک اور متصرف بن جاؤ تو البتہ اس وقت بھی تم اپنے ہاتھ خرچ کرنے سے روک لو گے اس ڈر سے کہ یہ خزانے خرچ ہو کر ختم ہوجائیں اور تم محتاج ہوجاؤ اور انسان بڑا تنگ دل ہے مطلب یہ ہے کہ اگر تم بیشمار خزانوں کے بھی مالک ہوجاؤ تو تب بھی تم اس بخل اور دناءت پر رہو گے لہٰذا تم ایسی باتوں کا کیوں سوال کرتے ہو تم اس قابل نہیں تم جیسوں کو دیتے سے کیا فائدہ (تفسیر کبیر ص 413 ج 5) اس آیت کے بارے میں علماء کے دو قول ہیں ایک یہ کہ یہ آیت خاص مشرکوں کے حق میں ہے اور دوسرا قول یہ ہے کہ عام ہے اور مقصود انسان کا من حیث انسان ہونے کا اعتبار سے حال بتلانا ہے کہ وہ طبعی طور پر بخیل ہے مگر جس کو اللہ تعالیٰ توفیق اور ہدایت دے کما قال تعالیٰ ومن یوق شح نفسہ فاولئک ہم المفلحون : اور جمہور کا قول یہ ہے کہ یہ آیت عام ہے۔ (تفسیر قرطبی ص 335 جلد 10) یہ تمام کلام منکرین کے تہدید میں تھا اب آگے پھر منکرین نبوت کے تہدید کے لئے موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ بیان کرتے ہیں۔
Top