Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Israa : 85
وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ١ؕ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا
وَيَسْئَلُوْنَكَ
: اور آپ سے پوچھتے ہیں
عَنِ
: سے۔ْمتعلق
الرُّوْحِ
: روح
قُلِ
: کہ دیں
الرُّوْحُ
: روح
مِنْ اَمْرِ
: حکم سے
رَبِّيْ
: میرا رب
وَمَآ اُوْتِيْتُمْ
: اور تمہیں نہیں دیا گیا
مِّنَ الْعِلْمِ
: علم سے
اِلَّا
: مگر
قَلِيْلًا
: تھوڑا سا
اور تم سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہہ دو کہ وہ میرے پروردگار کی ایک شان ہے۔ اور تم لوگوں کو (بہت ہی) کم علم دیا گیا ہے۔
ظالموں کے ایک معاندانہ سوال کا جواب قال اللہ تعالیٰ : ویسئلونک من الروح .... الیٰ .... ان فضلہ کان علیک کبیرا۔ (ربط) گزشتہ آیت ولا یزید الظلمین الا خسارا : میں جن ظالموں کی عداوت کا ذکر فرمایا یہ ظالم قرآن عظیم اور نبی کریم ﷺ پر طرح طرح کی نکتہ چینیاں کرتے تھے ازاں جملہ یہ ہے کہ ایک بار قریش نے باہم فیصلہ اور مشورہ کیا کہ یہود اہل علم اور اہل کتاب ہیں ان سے دریافت کرکے کوئی بات محمد ﷺ سے ایسی پوچھنی ہے کہ جس کا جواب آپ ﷺ سے نہ بن سکے۔ چناچہ قریش نے یہود سے دریافت کرنے کے لیے کچھ لوگوں کو مدینہ بھیجا انہوں نے مشرکین سے کہلا بھیجا کہ وہ آپ ﷺ سے تین باتیں پوچھیں۔ (1) روح کی بابت سوال کرو۔ (2) اصحاب کہف کا حال دریافت کرو کہ وہ کون تھے اور کیوں غائب ہوگئے۔ (3) ذوالقرنین کا حال پوچھو کہ وہ کون تھا اور کہاں گیا اور اس نے کیا کیا ؟ اور یہود نے یہ کہلا بھیجا کہ آپ ﷺ سے یہ تین باتیں پوچھیں پس اگر آپ ﷺ ان سب باتوں کا جواب دیں یا ان میں سے کسی کا بھی جواب نہ دیں تو آپ ﷺ نبی نہیں اور اگر آپ ﷺ ان سب ناتوں کا جواب دیں اور تیسری بات (روح) کا جواب دیں تو سمجھ لو کہ وہ نبی ہیں کیونکہ روح کی کیفیت کسی آسمانی کتاب میں مذکور نہیں اور توریت میں ہے کہ روح کی حقیقت سوائے اللہ کے کسی کو معلوم نہیں۔ پس اگر آپ ﷺ کی حقیقت نہ بیان کریں تو سمجھ لو کہ آپ ﷺ نبی ہیں۔ چناچہ ان لوگوں نے مکہ واپس آکر آپ ﷺ سے یہ سوالات کئے ایک سوال روح کا کیا کہ وہ کیا ہے اس سوال کا جواب تو اس آیت میں مذکور ہے اور باقی سوالوں کے جواب دوسرے مقام پر مذکور ہیں۔ آیت کا یہ شان نزول مذکورہ سطور بالا ابن عباس ؓ سے منقول ہے اور یہی قرین قیاس ہے کیونکہ یہ تمام سورت مکی ہے اور مکہ ہی میں اتری اور بخاری کی بعض روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سوال یہود نے مدینہ میں آنحضرت ﷺ کے آزمانے کے لئے کیا اس قول کی بنا پر یہ آیت مدنی ہوگی اسی وجہ سے اس آیت کے مکی اور مدنی ہونے کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے اور ممکن ہے کہ اس آیت کا نزول مکرر ہو پہلی بار قریش کے سوال پر آیت مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی اور پھر جب یہود نے مدینہ میں آپ ﷺ سے روح کے متعلق سوال کیا تو یہ آیت دوبارہ مدینہ میں یہود کے سوال پر نازل ہوئی۔ (ربط) گزشتہ آیت میں بطور تہدید مشرکین کے حق میں آنحضرت ﷺ کو یہ حکم دیا گیا تھا قل کل یعمل علی شاکلتہ اے نبی کریم ﷺ ! آپ ان ظالموں سے بطور تہدید کہہ دیجئے کہ ہر ایک شخص خواہ وہ سعید ہو یا شقی اپنی فطرت اور جبلت کے مطابق عمل کرتا ہے جو اس کی جوہر روح کے ہم شکل ہوتا ہے ہر شخص کا عمل اور ہر جسم کا ہر فعل اس کی روح اور اس کے روحانی مزاج اور طبیعت کے مشاکل اور مماثل ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کو تمہاری سعادت اور شقاوت کا پہلے ہی سے علم ہے قرآن کریم کو تم پر اتمام حجت کے لیے اور تمہاری روح میں ہو صلاحیت اور استعداد پوشیدہ ہے اس کے اظہار کے لیے نازل کیا ہے کہ جس نے قرآن کی ہدایت کو قبول کیا اور اس نسخہ شفا کو استعمال کیا۔ معلوم ہوا کہ اس کی روح سعید ہے اور جس نے اس نسخہ شفاء سے منہ موڑا وہ شقی ہے۔ اللہ نے جس فطرت اور جبلت پر تم کو پیدا کیا ہے وہ پہلے ہی تم سے خوب آگاہ ہے تم اگر اپنی سعادت و شقاوت کو جاننا چاہتے ہو تو اس کا معیار یہ نسخہ شفاء اور نسخہ ہدایت ہے اور خوب سمجھ لو کہ یہ قرآن کیمیاء سعادت ہے اس لیے آئندہ آیت میں روح کے متعلق سوال کا ذکر فرماتے ہیں۔ اے نبی ﷺ یہ لوگ آپ سے امتحانا روح انسانی کے متعلق سوال کرتے ہیں کہ اس کی حقیقت اور کنہ کیا ہے جس سے انسان کی زیست متعلق ہے سو آپ ﷺ ان کے جواب میں کہہ دیجئے کہ تمہارے لیے اجمالی طور پر اتنا جان لینا کافی ہے کہ روح ایک خاص چیز ہے کہ جو میرے پروردگار کے کے حکم سے پیدا ہوئی ہے جب اس کے حکم سے بدن میں جان ڈالی جاتی ہے تو بدن جی اٹھتا ہے۔ اور جب اس کے حکم سے نکال لی جاتی ہے تو مرجاتا ہے اور باقی اس کی مفصل حقیقت اور اصل کنہ اور ناہیت کی معرفت کا تو خیال بھی نہ کرنا اس لئے کہ تم کو بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے صرف چند چیزوں کی چند صفات اور چند کیفیات کا تھوڑا سا علم بقدر ضرورت اور بطور عاریت چند روز کے لیے تم کو دیا گیا ہے اور اکثر چیزوں کا علم تم سے مخفی رکھا گیا ہے جہاں نہ تمہارے حواس ظاہرہ کی رسائی ہے اور نہ حواس باطنی کی۔ پس روح کو بھی اسی کثیر یعنی ان ہی بیشمار چیزوں میں داخل کرلو جن کا تم کو بالکل علم نہیں تمہارا مبلغ علم صرف اتنا ہء کہ تم حق تعالیٰ کے عطا کردہ حواس سے کچھ شدھ بدھ حاصل کرلیتے ہو باقی اصل حقیقت اور کنہ تمہیں کسی چیز کی بھی معلوم نہیں صرف چند مادی چیزوں کے صفات اور چند کیفیات کا تم کو کچھ علم حاصل ہوا ہے۔ جس پر فلاسفہ اور سائنس دان اترا رہے ہیں فرحوا بما عندھم من العلم۔ اور یہ نہیں سمجھتے کہ یہ تھوڑا بہت علم جو ان کو ملا ہے وہ بطور رعایت ہے جس طرح انسان کا نفس وجود اس کا ذاتی نہیں بلکہ من جانب اللہ لباس عاریت ہے اسی طرح انسان کا علم اور ادراک بھی اس کا ذاتی نہیں بلکہ وجود کی طرح چند روز عاریت ہے اور تنبیہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے بھول چوک ساتھ لگا دی ہے تاکہ یہ نادان انسان اپنے آپ کو اس علم و ادراک کا مالک نہ سمجھے۔ حضرت امام قرطبی قدس سرہ فرماتے ہیں کہ روح کے علم کو انسان سے پوشیدہ رکھا کہ انسان کو اپنا عاجز اور قاصر ہونا معلوم ہوجائے کہ میں اس درجہ قاصر ہوں کہ اپنی حقیقت کو بھی نہیں سمجھ سکتا اور اپنی روح کو بھی نہیں جان سکا جس سے میری زندگی ہے کہ اس کی حقیقت کیا ہے ؟ تو خداوند دو جہاں کو کیسے سمجھ سکتا ہے۔ (تفسیر قرطبی ص 324 جلد 10) حق تعالیٰ نے انسان کو قلیل علم اور معرفت سے سرفراز فرمایا مگر اس کو خود اپنی حقیقت کی معرفت سے محروم کردیا۔ خلاصہ کلام یہ کہ روح عالم امر کی ایک خاص چیز ہے جو تمہاری عقل اور ادراک سے بالا ہے تم کو جو علم دیا گیا ہے وہ بہت تھوڑا ہے اس علم قلیل کے ذریعہ سے تم دنیا کی چند چیزوں کو کچھ سمجھ لیتے ہو عالم آخرت اور عالم غیب کی چیزوں کو کیا جانو اور کیا سمجھو یعلمون ظاہرا من الحیاۃ الدنیا وہم عن الاخرۃ ہم غوفلون تمہارے علم کا حال تو یہ ہے کہ تم پانی اور خاک کی حقیقت سے بھی واقف نہیں تم روح اور جان کو کیا جانو روح کے متعلق خدا تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علی ہو سلم نے جتنا بتلا دیا اتنا جان سکتے ہو اس سے زائد کچھ نہیں جان سکتے نہ مرجائے مرکب تواں تاختن کہ جاہا سپر بابد انداختن انسان اپنی عقل اور فکر سے فقط اشیاء کے وجود کو معلوم کرسکتا ہے خواہ وہ اشیاء محسوس ہوں یا غیر محسوس مگر ان کی کنہ اور اصل حقیقت کو نہیں جان سکتا کہ آگ اور پانی موجود ہے مگر ان کی اصل حقیقت نہیں بتلا سکتا کہ وہ کیا ہے زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ اس کے کچھ اوصاف بتلا دے گا مگر ان اجزاء کی پوری حقیقت اور اصل ماہیت اور ان کی پوری کمیت اور پوری کیفیت نہیں بیان کرسکے گا انسان صرف اتنا کہہ سکتا ہے کہ پانی میں آکسیجن اور ہائیڈروجن ہے مگر جب اس سے یہ پوچھو کہ آکسیجن اور ہائیڈروجن کی حقیقت اور ماہیت کیا ہے تو نہیں بتلا سکے گا فلاسفہ جدید و قدیم جو سماعت اور بصارت اور فہم و فراست اور جہالت و حماقت کے وجود کے بلا اختلاف قائل ہیں مگر سماعت اور بصارت کی حقیقت اور کیفیت کے بیان کرنے میں حیران و سرگردان ہیں اور فہم و فراست اور جہالت اور حماقت کی حقیقت بتلانے سے عاجز اور درماندہ ہیں آج تک کوئی بڑے سے بڑا حکیم اور فلسفی اور کوئی بڑے سے بڑا سائنس دان یہ نہیں بتلا سکتا کہ فہم و فراست اور جہالت و حماقت کی اصل حقیقت اور اس کی کنہ اور ماہیت کیا ہے پس جب کہ انسان ان چیزوں کی حقیقت نہیں بتا سکتا جو روز مرہ اس کے مشاہدہ اور تجربہ میں آتی رہتی ہیں تو اسی طرح یہ بھی سمجھو کہ انسان اپنی عقل سے روح کے وجود کو تو معلوم کرسکتا ہے مگر اس کی حقیقت کو معلوم نہیں کرسکتا اور کسی شئے کے وجود کا محض اس لیے انکار کردینا کہ ہمیں اس کی حقیقت معلوم نہیں ہوئی یا ہم نے اپنی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ نہیں کیا۔ کھلی ہوئی بےعقلی اور نادانی ہے ابتداء آفرنیش عالم سے لے کر اب تک عالم کے کل عقلاء نے مجموعی طور پر جن چیزوں کو جانا ہے وہ محدود ہیں اور نہایت معدود ہیں اور جن چیزوں کو نہیں جانا اور نہیں پہنچانا وہ غیر محدود اور لامتناہی ہیں اور محدود کو غیر محدود سے وہ نسبت بھی نہیں جو قطرہ کو سمندر سے ہے اس لئے کہ سمندر خواہ کتنا ہی وسیع ہو مگر بہر حال محدود اور متناہی ہے اور اللہ تعالیٰ کا علم غیر محدود اور غیر متناہی ہے۔ حضرت شاہ عبد القادر (رح) موضع القرآن میں فرماتے ہیں کہ حضرت محمد ﷺ کے آزمانے کو یہود نے پوچھا سو اللہ تعالیٰ نے کھول کر نہ بتایا کیونکہ ان میں سمجھنے کا حوصلہ نہ تھا آگے بھی پیغمبروں نے خلق سے ایسی باریک باتیں نہیں کیں اتنا جاننا کافی ہے اور بس ہے کہ اللہ کے حکم سے ایک چیز بدن میں آپڑی اور وہ جی اٹھا جب نکل گئی وہ مرگیا (انتہیٰ ) صرف اتنی بات تو قطعی اور یقینی ہے کہ روح ایک چیز ہے کہ جو بدن میں آگئی تو بدن زندہ ہوگیا اور جب بدن سے نکل گئی تو مردہ ہوگیا اس کے سواء سب باتیں ظنی ہیں غرض یہ کہ روح ایک حقیقت نورانیہ اور واقعیہ ہے مگر محسوس نہیں اور اس کے غیر محسوس ہونے سے اس کا عدم لازم نہیں آتا ایتھر وغیرہ بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو حواس سے محسوس نہیں ہوتیں مگر انکے وجود سے انکار نہیں کیا جاسکتا اسی طرح روح بلاشبہ ایک حقیقت واقعہ ہے اگرچہ وہ ہم کو محسوس نہیں اس کا علم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے کسی بندہ کو اللہ نے اس کا پورا علم نہیں دیا اور آیت کے ختم پر یہ فرمانا کہ تم کو بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے یہ خطاب تمام مخلوق کو ہے۔ فائدہ جلیلہ : اس آیت میں تمام عالم کے علم کو جو قلیل فرمایا وہ بہ نسبت علم الٰہی کے فرمایا کہ بمقابلہ علم الٰہی بہت ہی قلیل ہے اور دوسری آیت میں جو کتاب اور حکمت کے علم کو خیر کثیر فرمایا وہ بندوں کے اعتبار سے فرمایا کہ بہ نسبت متاع دنیا علم حکمت خیر کثیر ہے کتاب و حکمت کا علم اگرچہ قلیل ہو مگر وہ بھی خیر کثیر ہے اس آیت میں کثیر خیر کی صفت ہے نہ کہ علم کی لہٰذا دونوں آیتوں میں کوئی تعارض نہیں۔ نکتہ : آیت کا آغاز سوال سے فرمایا اشارہ اس طرف ہے کہ یہ لوگ ازراہ تعنت وعناد غیر ضروری مسائل میں آپ ﷺ سے جھگڑتے ہیں اور نسخہ شفاء (قرآن کریم / جو روح ہدایت ہے اس سے حیات اور زندگی حاصل نہیں کرتے۔ اقوال حکماء و علماء دربارہ روح روح انسانی کی ماہیت میں عقلاء کے درمیان اختلاف ہے کیونکہ آدمی جب جاتا ہے تو اس میں سے سوائے خون کے کوئی چیز کم نہیں ہوتی اور بعض کا قول یہ ہے کہ وہ سانس کا نام ہے کیونکہ سانس کے رک جانے سے آدمی مرجاتا ہے اور اضہاء یہ کہتے ہیں کہ خون کے بخارات لطیفہ کا نام روح ہے اور یورپ کے فلاسفہ کا یہ قول ہے کہ روح ایک لطیف بھاپ اور اسٹیم کا نام ہے جس سے جسم کی تمام کل میں چلتی رہتی ہیں جب یہ بھاپ بننا بند ہوجاتی ہے تو آدمی مرجاتا ہے۔ اور حضرات متکلمین اور اولیاء و عارفین یہ کہتے ہیں کہ روح ایک جسم نورانی اور لطیف کا نام ہے جو تمام بدن میں اس طرح سرایت کیے ہوئے ہے جیسے عرق گلاب گلاب کے پتوں میں اور جیسے پانی درخت کی رگوں میں جب تک اس جسم لطیف کا تعلق بدن سے باقی رہتا ہے اس وقت تک انسان زندہ رہتا ہے اور جب اس جسم لطیف کا تعلق بدن سے منقطع ہوجائے تو اس کا نام موت ہے امام الحرمین (رح) اور امام رازی (رح) کے نزدیک یہی مختار ہے۔ پس یہ روح انسان ایک جسم لطیف اور دو امی ہے اور عالم امر کی ایک چیز ہے جو ساعت اور مقدار سے بڑی ہے اور روح حیوانی ایک بخار لطیف کا نام ہے جس اس روح انسان کے لیے بمنزلہ سواری کے ہے اور یہ جسم نورانی لطیف، صورت ظاہرہ اور اعضاء ظاہری میں جسم ظاہری کثیف کا شریک ہے جسم لطیف اپنے اعضاء کے ذریعہ سنتا ہے اور دیکھتا ہے اور جب اس جسم لطیف نورانی کا اس جسم ظاہری اور حسی سے تعلق منقطع ہوجاتا ہے تو یہ جسم نورانی عالم ملکوت کی طرف چلا جاتا ہے جہاں سے آیا تھا وہیں واپس ہوجاتا ہے۔ امام غزالی (رح) فرماتے ہیں کہ انسان میں دوروحیں ہیں ایک روح حیوانی اور ایک روح انسانی۔ روح حیوانی اس بخار لطیف کا نام ہے کو اخلاط اربعہ خون اور بلغم اور صفراء اور سودا سے پیدا ہوتا ہے اور ان چاروں کی چار اصلیں ہیں۔ آگ، پانی، خاک، ہوا اور علم طب میں اسی روح سے بحث ہوتی ہے کیونکہ مزاج اور طبیعت کا اعتدال اسی سے وابستہ ہے گرمی اور سردی اور خشکی اور تری کی کمی زیادتی کی وجہ سے مزاج میں تغیر آتا ہے اور یہ روح حیوانی عالم سفلی سے ہے اور جنس حیوانی سے ہے جس کی حقیقت ایک ہوائے لطیف اور بخار لطیف ہے اور روح انسانی وہ ایک نورانی اور لطیف شے ہے جو اس عالم سفلی سے نہیں بلکہ عالم علوی سے ہے اور فرشتوں کی جنس سے ہے اور یہ عالم اس کے لئے ایک مسافر خانہ ہے اور روح حیوانی اس کے لئے بمنزلہ سواری کے ہے اور یہ روح انسانی عالم آخرت سے سفر کرکے اس عالم دنیا میں اس لیے آتی ہے تاکہ یہاں آکر تجارت کرے اور ہدایت حاصل کرے اور آخرت کے لئے توشہ لے جیسا کہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے قلنا اھبطوا منھا جمیعا فاما یاتینکم منی ھدی فمن تبع ھدی فلا خوف علیہم ولاہم یحزنون۔ خلاصہ کلام یہ کہ جس قدر علم تم کو دیا ہے وہ بہت ہی تھوڑا ہے روح کی حقیقت اور ماہیت کے سمجھنے کے لیے کافی نہیں اور پھر وہ قلیل علم جو ہم نے تم کو عطا کیا ہے اس کے متعلق ہم کو اختیار ہے کہ جب چاہیں تو وہ قلیل علم بھی تم سے واپس لے لیں چناچہ فرماتے ہیں اور اے ہمارے رسول ﷺ ہم نے جس قدر علم آپ ﷺ کو دیا وہ ہمارا فضل اور احسان ہے اگر ہم چاہیں تو وہ علم بھی واپس لے لیں جو ہم نے بذریعہ وحی آپ ﷺ کو عطا کیا ہے یعنی جو قرآن ہم نے آپ ﷺ پر وحی کیا ہے سو ہم اس پر قادر ہیں کہ اس کو آپ ﷺ کے سینے سے ایسا محو کردیں کہ آپ ﷺ کو اس کا ایک حرف بھی یاد نہ رہے اور لوگوں کے سینوں سے بھی قرآن نکال دیں اور کاغذوں سے مٹا دیں جو خدا سینہ میں علم پہنچا سکتا ہے وہی خدا سینہ سے اس علم کو نکال بھی سکتا ہے جس طرح دنیا اس کے اختیار میں ہے اسی طرح چھیننا بھی اس کے اختیار میں ہے تو آپ ہمارے لے جانے کے بعد اس کے واپس لانے کے لیے کوئی کارساز نہ پائیں گے کہ کوئی دوبارہ اس قرآن کو سینوں میں اور مصاحف میں واپس لے آئے مگر تیرے پروردگار نے اپنی مہربانی سے اس علم کو تیرے پاس باقی رکھا اور اپنے عطا کیے ہوئے علم کو تجھ سے واپس نہیں لیا۔ یعنی اگر ہم چاہتے تو اس قرآن کو واپس لے جاتے مگر بمقتضائے فضل و کرم ایسا نہیں کرتے یا یہ معنی ہیں مگر یہ کہ اللہ تجھ پر رحم کرے اور سلب اور محو کرنے کے بعد وہ علم دوبارہ آپ ﷺ کو واپس کر دے اور بذریعہ وحی جدید کے وہ علم پھر آپ کو دوبارہ عطا کر دے معلوم ہوا کہ علم کی عطاء اور پھر اس کی بقاء یہ سب اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہے بیشک اللہ کا فضل تجھ پر بہت بڑا ہے کہ اس کے فضل سے یہ قرآن آپ ﷺ پر نازل ہوا اور اسی نے اپنے فضل سے اس قرآن کو آپ ﷺ کے سینہ میں باقی رکھا۔ منجانب اللہ اس قرآن عظیم کا آنا یہ بھی اس کا فضل ہے اور آپ ﷺ کے سنہ میں بلا کم وکاست محفوظ رہنا یہ بھی اس کا فضل ہے۔ ان آیات میں خطاب اگرچہ آنحضرت ﷺ کو ہے لیکن مقصود لوگوں کو سنانا ہے کہ اے اے لوگو اس قرآن کو اللہ کی نعمت جانو اور اس پر عمل کرو اور اس نعمت کی ناقدری نہ کرو ورنہ خوب سمجھ لو کہ ہم اس پر قادر ہیں کہ اس نعمت کو تم سے واپس لے لیں۔ چناچہ جب دنیا میں گمراہی عام ہوجائے تو ہم اس قرآن کو اٹھا لیں گے اور قیامت قائم کردیں گے۔ لطائف و معارف پہلی معرفت قرآن کریم کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان میں اس ظاہری جسم اور اس مادی بدن کے علاؤ کوئی اور چیز موجود ہے جس کا نام روح ہے جو اللہ کے حکم سے فائض ہوتی ہے جس سے ہم زندہ ہیں اور وہ ہم کو نظر نہیں آتی۔ دنیا میں عقلاء کا ایک گروہ یہ کہتا ہے کہ روح فقط ایک لطیف بھاپ کا نام ہے کہ جس کے زور سے ذی روح بدن کی تمام کلیں چل رہی ہیں جب یہ بھاپ ختم ہوجاتی ہے تو تمام کلیں بند ہوجاتی ہیں اور سب کام بگڑ جاتا ہے۔ اسی کا نام موت ہے مرنے کے بعد پھر کوئی شئے باقی نہیں رہتی اسی وجہ سے یورپ کے دھری لوگ اور ماری لوگ مرنے کے بعد کسی حساب و کتاب کے قائل نہیں اس لئے کہ مرنے کے بعد کوئی شئے باقی ہی نہیں رہتی تو ثواب و عذاب کس پر ہوگا مگر یہ خیال غلط ہے اور اب یورپ میں بھی فلاسفہ کا ایک گروہ پیدا ہوگیا ہے جو اس غلطی کا اقرار کرتا ہے۔ (1) تمام ادیان اور مذاہب اس پر متفق ہیں کہ انسان کے اندر جسم کے علاوہ کوئی اور چیز ہے جس کو روح اور جان اور ادان کے لفظوں سے تعبیر کرتے ہیں بچپن سے لے کر بڑھاپے تک جسم میں ہزاروں بلکہ لاکھوں تغیرات پیش آتے ہیں مگر وہ چیز جس کی وجہ سے یہ شخص بعینہٖ وہی شخص کہلاتا ہے جو پہلے تھا اس میں کوئی تغیر نہیں آتا طبی تحقیقات سے یہ امر ثابت ہے کہ سات برس کے بعد جسم کے اجزاء اور ذات ختم ہوجاتے ہیں اور نئے اجزاء اور ذرات پیدا ہوجاتے ہیں معلوم ہوا کہ یہ جسم اور یہ بھاپ اور یہ لطیف بخار ان میں سے کوئی چیز روح نہیں بلکہ روح حقیقی وہ چیز ہے کہ جو ابتداء پیدائش سے لے کر اخیر عمر تک یکساں رہتی ہے جس کو انسان ” انا “ اور ” میں “ سے تعبیر کرتا ہے اور یہ امر بدیہی ہے اور اس پر تمام عقلاء کا اتفاق ہے اور ظاہر ہے کہ عقلا عالم کا اتفاق اور اجماع خود ایک مستقل دلیل ہے لہٰذا جو شخص روح کے وجود کا منکر ہے وہ عقلاء عالم و اجماع کا منکر ہے۔ عقلاء عالم اگرچہ اب تک روح کی حقیقت اور کیفیت کے بتلانے سے قاصر رہے لیکن کسی شئے کی حقیقت اور کیفیت کا جاننا اور چیز ہے دنیا کی ہزاروں بلکہ لاکھوں چیزیں ایسی نکلیں گی کہ دنیا ان کی حقیقت اور کیفیت کے جاننے سے عاجز اور قاصر ہے مگر اصل شئے کی قائل ہے۔ لہٰذا اب یہ کیا جاسکتا ہے کہ جس طرح وجود باری تعالیٰ کا اقرار ایک امر فطری ہے اسی طرح روح کے وجود کا اقرار بھی ایک امر فطری ہے۔ (2) نیز چالیس سال کے بعد آدمی کے تمام اعضاء میں نقصان اور انحاطا شروع ہوجاتا ہے مگر عقلی قوت بڑھ جاتی ہے تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جس شے کے ساتھ قوت عقلی قائم ہے وہ کوئی جسمانی شئے نہیں۔ (3) نیز خواب کی حالت میں تمام جسمانی قوتیں معطل ہوجاتی ہیں قوت سامعہ اور قوت باصرہ اور قوت شائبہ وغیرہ وغیرہ یہ تمام قوتیں نیند کی حالت میں بےکار ہوجاتی ہیں لیکن نیند کی حالت میں روحانی قوتوں میں اور اضافہ ہوجاتا ہے پس جو چیز ان جسمانی قوتوں کے معطل ہوجانے کے بعد قوی اور تیز ہوجاتی ہے اور دوسرے عالم کی چیزوں کا مشاہدہ کرتی ہے وہی روح ہے۔ (4) نیز انسان بسا اوقات اپنے اعضاء کو اپنی طرف مضاف کرتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ میرا سر اور میرا دعماغ اور میرا بدن اور میرا پیر وغیرہ وغیرہ معلوم ہوا کہ انسان کی حقیقت ان اعضاء کے سوا ہے اس لیے کہ مضاف الیہ مضاف کے سوا ہوتا ہے۔ بسا اوقات انسان یہ کہتا ہے کہ میں نے یہ کیا پس اگر اس لفظ ” میں “ کا مصداق بھی اعضاء اور جوارح ہوتے تو لازم آتا کہ ہاتھ اور پیر کٹ جانے کے بعد انسان انسان نہ رہے معلوم ہوا کہ اس لفظ ” میں “ کا مصداق اس جسم ظاہری کے علاوہ کوئی اور شئے ہے اور وہی روح ہے۔ (5) نیزانسان بسا اوقات کسی کام میں ایسا منہمک ہوتا ہے کہ اس وقت وہ اپنے تمام ظاہری اور باطنی اعضاء سے بالکل غافل ہوجاتا ہے لیکن اس حالت میں وہ اپنی حقیقت سے غافل نہیں ہوتا اس لیے کہ وہ اس حالت میں یہ کہتا ہے کہ میں یہ کیا اور یہ دیکھا اور یہ سنا تو معلوم ہوا کہ آدمی کی حقیقت ان اعضاء اور جوارح کے سوا کوئی اور چیز ہے اور وہی روح ہے۔ (6) انسان کے شعور و ادراک اور کمال کی کوئی حد نہیں اور جسم اور عالم جسمانی سب محدود ہے معلوم ہوا کہ اس غیر محدود شعور کا تعلق کسی جسمانی چیز سے نہیں اس لیے کہ اگر ادراک اور شعور کا تعلق اس جسم سے محسوس ہوتا تو بقدر اس کے طول اور عرض اور عمق کے ہوتا یہ غیر محدود علوم اور ادراکات اس محدود جسم میں کیسے سماگئے۔ (7) جو شخص بھی جسم پر غور کرے گا اس پر یہ بات بالبداہت منکشف ہوجائے گی کہ جسم میں جو چیز بھی ہے وہ کسی دوسری چیز کے لیے آلہ اور وسیلہ ہے خود مقصود نہیں پس جو چیز ان آلات کو استعمال کرنے والی ہو وہ جسم کے علاوہ کوئی اور شئے ہے انسان کے تمام اعضاء ظاہرہ بمنزلہ آئینہ کے ہیں اور دیکھنے والا کوئی اور ہے۔ (8) نیز ہم دیکھتے ہیں کہ انسان بسا اوقات خالص امور معنویہ اور عقلیہ کا ادراک کرتا ہے جیسے اجتماع نقیضین اور ارتفاع نقیضین اور اس ادراک میں وہ جو اس ظاہرہ کا مطلق محتاج نہیں ہوتا معلوم ہوا کہ جسم انسانی میں کوئی شئے ایسی ضرور ہے جو اس ظاہری جسم کے علاوہ ہے۔ (9) حق تعالیٰ کا ارشاد ہے ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا بل احیاء عند ربھم یرزقون : اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ قتل کے بعد شہید زندہ ہے اس کو مردہ کہنا جائز نہیں حالانکہ جسم مردہ ہے معلوم ہوا کہ یہ جسم ظاہری انسان کی حقیقت نہیں۔ (10) آیت قرآنیہ اور احادیث نبویہ سے یہ امر قطعی طور پر ثابت ہے کہ انسان مرنے کے بعد پھر زندہ کیا جاتا ہے اور جنت اور جہنم پر پیش کیا جاتا ہے حالانکہ ان تمام حالات میں جسم انسانی مردہ ہوتا ہے معلوم ہوا کہ انسان اس جسم کے علاوہ کوئی دوسری حقیقت ہے۔ بعض جاہل مدعیان فلسفہ یہ کہتے ہیں کہ ہم تو مردہ کے منہ سے کوئی شئے نکلتی ہوئی نہیں دیکھتے روح اگر کوئی چیز ہوتی تو نکلتے ہوئے ہم کو دکھائی دیتی اور محسوس ہوتی۔ جواب : اس کا یہ ہے کہ روح کا محسوس نہ ہونا اس کے عدم کی دلیل نہیں ہوسکتا کیونکہ ممکن ہے کہ وہ لطافت کی وجہ سے محسوس نہ ہوتی ہو جیسے ہوا اور ایتھر جس کے علماء طبعیات بھی قائل ہیں اور فرشتہ بھی اللہ کی ایک لطیف اور نورانی مخلوق ہے اللہ نے اس کو قوت اور طاقت دی ہے کہ وہ جسم انسانی میں سے اس لطیف چیز (یعنی روح) کو خداداد قوت سے نکال لے۔ خلاصہ کلام یہ کہ روح اس جسم کا نام نہیں بلکہ اس کے علاوہ ایک اور حقیقت ہے جو اس جسم میں مستور اور مخفی ہے اور اس جسم ظاہری کے لئے مدبر اور حاکم ہے اور یہ جسم اس کے لیے بمنزلہ سواری کے ہے پس اگر کوئی شخص یہ سمجھے کہ میری حقیقت محض یہ ظاہری جسم ہی ہے تو اس کی مثل ایسی ہے کہ جیسے کوئی گدھے پر سوار ہو کر یہ سمجھے کہ میری حقیقت صرف یہی گدھا ہے جس پر میں سوار ہوں سو اس کا علاج کسی کے پاس نہیں۔ حضرات متکلمین فرماتے ہیں کہ روح ایک جسم لطیف اور صاف و شفاف کا نام ہے جو بدن میں اس طرح سرایت کیے ہوئے ہے جس طرح کوئلہ میں آگ اور سبز شاخ میں پانی سرایت کیے ہوئے ہوتا ہے۔ اور براء بن عازب ؓ کی ایک حدیث میں ہے جو مسند احمد اور سنن ابو داؤد میں ہے کہ ملائکۃ الموت اچھے لوگوں کی روح کو جنت کے کپڑوں میں لپیٹ کر آسمان پر لے جاتے ہیں اور برے لوگوں کی روح کو ٹاٹ کے کفن میں لپیٹ کرلے جاتے ہیں اس قسم کی بیشمار احادیث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ روح ایک جسم لطیف ہے اور نورانی ہے کیونکہ کپڑوں میں لپیٹنا یہ شان جسم سے ہے۔ امام رازی قدس اللہ سرہ نے تفسیر کبیر ص 451 جلد 5 میں اسی قول کو راجح قرار دیا ہے اور یہ کہا ہے کہ یہی قول قوی ہے اور کتب الٰہیہ کے بہت زیادہ قریب اور مطابق ہے اور یہی حضرات متکلمین کا قول ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ روح ایک جسم لطیف نورانی اور علوی ہے اور زندہ ہے اور متحرک ہے اور تغیر و تبدل کی آماج گاہ ہے اور وہ جسم لطیف نورانی جو اس جسم کثیف کے اندر مستور ہے وہ کون فساد اور تغیر و تبدل سے پاک ہے اور یہ جسم نورانی اس جسم محسوس میں اس طرح سرایت کیے ہوئے ہے اس جسم نوارانی کا اس جسم کثیف کے ساتھ تعلق موجب حیات ہے اور اس سے علیحدگی اور بےتعلقی موجب موت ہے اور اسی قول کو علامہ آلوسی (رح) نے اختیار کیا اور فرمایا کہ یہی قول صحیح ہے اور اسی پر کتاب اور سنت اور اجماع صحابہ اور ادلہ عقلیہ اور فطریہ دلالت کرتے ہیں۔ (دیکھو روح المعانی ص 144 جلد 15) اور حافظ ابن قیم (رح) نے کتاب الروح میں اس قول کو صحیح اور صواب بتلا یا ہے کتاب الروح حقیقت میں عجیب کتاب ہے جس سے روح تازہ ہوجاتی ہے کہ روح ایک جسم لطیف نورانی کا نام ہے حضرات متکلمین اور محدثین کا یہی مذہب ہے اور اکثر حکماء قدیم کے نزدیک روح جوہر مجرد ہے اور حکماء کے نزدیک روح ایک عرض ہے۔ دوسری معرفت روح اللہ کی مخلوق اور حادث ہے اس لیے کہ روح مربوب ہے اور جو مربوب ہے وہ مخلوق اور حادث ہے اور اسی پر تمام انبیاء ومرسلین کا اجماع ہے کہ روح مخلوق اور حادث ہے فلاسفہ میں سے افلاطون اس طرف گیا ہے کہ روح قدیم ہے۔ تیسری معرفت ارواح اپنی صفات اور کمالات کے اعتبار سے مختلف المراتب ہیں اس لئے کہ رب اعلیٰ کی تربیت کے درجات مختلف ہیں اور قل الروح من امر ربی میں رب کی یائے متکلم کی طرف اضافت اس طرف مشیر ہے کہ روح نبوی رب اکرم کی تربیت کا مظہرائم اور مورد اعظم ہے اور عجب نہیں کہ عرش اور سدرۃ المنتہیٰ تک سیر کرانے میں اشارہ اس طرف ہو کہ روح نبوی ﷺ کمالات نبوت و رسالت کا سدرۃ المنتہیٰ ہے اس عروج حسی سے عروج معنوی کی طرف اشارہ ہو واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔ چوتھی معرفت اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ روح کے کمالات ذاتی نہیں بلکہ رب کریم کا عطیہ ہیں اور وہ کمالات محدود اور معدود ہیں چناچہ وما اوتیتم من العلم الا قلیلا اس پر صراحتہً دلالت کرتا ہے کہ علم اللہ کا عطیہ ہے اور جو علم تم کو دیا گیا ہے وہ نہایت ہی قلیل اور محدود ہے اس لیے کہ لفظ قلیلاً کا مادہ بھی قلت پر دلات کرتا ہے اور قلیلاً کی تنوین بھی تقلیل کے لیے ہے۔ بندہ کتنا ہی بڑا عالم کیوں نہ ہوجائے مگر اس کا علم اس کے جہل سے کبھی نہیں بڑھ سکتا اس لیے کہ انسان کا علم محدود اور متناہی ہے اور جہل غیر محدود اور غیر متناہی بالفعل ہے ہے جن چیزوں کو انسان نہیں جانتا ان کی کوئی حد اور شمار نہیں معلوم ہوا کہ انسان کا جہل اور اس کی لاعلمی غیر محدود اور غیر متناہی ہے اور پھر انسان کو جن چند چیزوں کا علم ہوتا ہے وہ بھی فقط ان چیزوں کے چند ظاہری احوال اور چند صفات اور چند کیفیات کا علم ہوتا ہے مفصل حقیقت اور ماہیت کا اور پوری صفات اور تمام کیفیات کا وہاں بھی علم نہیں ہوتا بلکہ انسان جس چیز کے علم کا مدعی ہوتا ہے اس ایک چیز کے علم میں بھی اس کا جہل اس کے علم پر غالب رہتا ہے وجہ اس کی یہ ہے کہ علم اور ادراک کا معدن اور مخزن دل اور دماغ ہے جو حق تعالیٰ کے کے قبضہ قدرت اور دست تصرف میں ہے جس کو چاہے عقل دے اور جتنی چاہے اتنی ہی دے اور جس کو چاہے عقل سے بالکل محروم کر دے جس طرح عقل اور ادراک اور شعور کا دنیا اس کے اختیار میں ہے اسی طرح چھیننا بھی اس کے اختیار میں ہے وہ جس کو چاہے فرزانہ بنا دے اور جس کو چاہے دیوانہ بنا دے بہرحال انسان کا ادراک اور شعور محدود ہے وہ کسی ایک شئے کا بھی احاطہ نہیں کرسکتا۔ پانچویں معرفت لفظ ” خلق “ اور لفظ ” امر “ کی تشریح اور ان کا باہمی فرق قرآن کریم میں لفظ خلق اور لفظ امر بکثرت مستعمل ہوا ہے اور سورة اعراف کی اس آیت الا لہ الخلق والامر میں دونوں لفظوں کو یکجا لایا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خلق اور امر دونوں ایک دوسرے سے جدا اور علیحدہ ہیں کیونکہ امر کو خلق کے مقابلہ میں ذکر کیا گیا ہے اور عطف بھی مغایرت کو چاہتا ہے رہا یہ امر کہ خلق اور امر میں کیا فرق ہے ؟ سو آیت کے سیاق وسباق میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ خلق کے معنی پیدا کرنے کے ہیں اور امر کے معنی حکم اور فرمانروائی کے ہیں۔ یعنی جو چیز اس کی قدرت اور مشیت سے جس کام اور جس مقصد کے لیے پیدا کی گئی ہے اس کے حکم سے اس کام اور اس غرض کے لیے اس کا جاری ہوجانا یہ ” امر “ ہے مثلا کسی مشین کا ڈھانچہ تیار کرنا اور اس کی کل اور پرزوں کو ایک خاص انداز پر بنایا یہ ایک مرحلہ ہے اور اس کے بعد دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ مشین فٹ ہوجانے کے بعد اس میں بجلی کا کرنٹ چھوڑا جائے تاکہ مشین چالو ہوجائے اور اپنی اپنی ساخت کے مطابق تمام کل پرزے حرکت میں آجائیں۔ اسی طرح سمجھو کہ حق تعالیٰ نے آسمان اور زمین میں طرح طرح کی مشینیں بنائیں جس کو ” خلق “ کہتے ہیں اور پھر ہر مشین کا چھوٹا اور بڑا پرزہ ایک خاص انداز کے مطابق بنایا جس کو ” تقدیر “ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ فقدرہ تقدیرا۔ اور پھر اس مشین کے تمام کل اور پرزوں کو جوڑ کر مشین کو فٹ کیا جس کو حق تعالیٰ نے ” تصویر “ اور ” تسویہ “ کے لفظ سے تعبیر فرمایا خلقناکم ثم صورناکم، فاذا سویتہ ونفخت فیہ من روحی : اور پھر اس میں بجلی کا کرنٹ چھوڑ کر یعنی روح پھونک کر اس کو جاری اور چالو کیا جس کو حق تعالیٰ نے ” نفخ روح “ سے تعبیر کیا فاذا سویتہ ونفخت فیہ من روحی پس جب کرنٹ چھوڑا جاتا ہے تو ہر مشین اپنی اپنی ساخت اور بناوٹ کے موافق چلنے لگتی ہے اور کام کرنے لگتی ہے غرض یہ کہ کسی مشین کو بنانا یہ ” خلق “ ہے اور جس کام کے لیے وہ مشین بنائی گئی اس کے لیے اس کو چالو کرنے کا نام ” امر “ ہے۔ جب تک امر الٰہی کی بجلی نہ چھوڑی جائے اس وقت تک دنیا کی کوئی مشین چالو نہیں ہوسکتی خدا کی طرف سے امر اور حکم ہوا کہ ” چل “ فورا چلنے لگی انما امرہ اذا اراد شیئا ان یقول لہ کن فیکون جب اللہ کا حکم ہوجاتا ہے تو ہر مشین اپنی اپنی ساخت اور بناوٹ کے موافق حرکت کرنے لگتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ جسم انسانی بمنزلہ قمقمہ کے ہے اور روح اس برقی رو کی مانند ہے کہ جو قمقموں کے اندرونی تاروں کو روشن اور منور کرتی ہے اور قمقمہ میں بجلی کے کرنٹ چھوڑ دینے کا نام نفخ روح ہے جب تک برقی رو کا تعلق قمقموں کے تاروں سے باقی رہے گا اس وقت تک تمام قمقمے روشن رہیں گے اور جب اس برقی رو کا تعلق ان تاروں سے منقطع ہوجائے گا تو معا روشنی معدوم ہوجائے گی۔ اسی طرح جب تک روح کا تعلق بدن سے رہے گا تو تمام قویٰ اور اعضاء حس و حرکت میں رہیں گے اور جب روح کا تعلق بدن سے بالکلیہ منقطع ہوجائے گا تو بدن کی حس و حرکت یکلخت ختم ہوجائے گی اول الذکر حالت کا نام ” حیات “ ہے اور دوسری حالت کا نام ” موت “ ہے۔ اور اگر روح کا تعلق بدن سے بالکلیہ منقطع نہیں ہوا بلکہ من وجہ باقی ہے تو یہ خواب اور نیند کی حالت ہے نیند کی حالت میں انسان کے ظاہری حواس معطل ہوجاتے ہیں مگر بعض طبعی افعال بدستور باقی رہتے ہیں مثلا تنفس اور دوران خون اور ہضم طعام اور کروٹیں بدلنا وغیرہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بدن سے روح کا تعلق بالکلیہ منقطع نہیں ہوا بلکہ ایک طرح کا مجہول الکیف علاقہ بدن کے ساتھ قائم ہے بخلاف موت کے کہ اس میں تمام حواس اور تمام قوتیں یکلخت بےکار اور ختم ہوجاتی ہیں۔ اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے۔ اللہ یتوفی الانفس حین موتھا قالتی لم تمت فی منامھا، فیمسک التی قضی علیہا الموت ویرسل الاخری الی اجل مسمی اس آیت سے صراحۃً معلوم ہوتا ہے کہ جسم اور روح دو الگ الگ چیزیں ہیں نیز یہ کہ روح جسم سے جدا ہونے کے بعد اپنے جسم کو بھولتی نہیں دوبارہ اپنے ہی جسم میں واپس آتی ہے نیز یہ کہ روح بعض مرتبہ خواب میں سالہا کسی شہر میں مقیم رہتی ہے اور یہاں جسم سے صرف چند گھنٹے جدا رہتی ہے بلکہ بعض مرتبہ چند منٹ ہی گزرتے ہیں کہ آنکھ کھل جاتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس عالم کے لیل و نہار سے مختلف ہیں۔ چھٹی معرفت جس طرح انسانی اجسام باہم متمیز ہیں اور ہر ایک کی ایک خاص صورت اور ایک خاص شکل ہے اسی طرح ارواح انسانی باہم متمیز ہیں اور ہر روح کی خاص صورت اور خاص شکل ہے جو اس جسم کثیف کے ہم شکل اور ہم صورت ہیں روح کی شکل بعینہٖ وہی ہے جو انسان کی ہے جس طرح جسم کے آنکھ اور ناک اور کان اور ہاتھ اور پیر ہیں اسی طرح روح کے بھی آنکھ اور ناک اور ہاتھ اور پیر ہیں اصل انسان تو روح ہے اور یہ ظاہری جسم روح کے لیے بمنزلہ لباس کے ہے جسمانی ہاتھ روحانی ہاتھوں کے لئے بمنزلہ آستین کے ہیں اور ٹانگیں بمنزلہ پاجامہ کے ہیں اور چہرہ بمنزلہ نقاب کے ہے وقس علی ھذا۔ ساتویں معرفت مرنے کے بعد اگرچہ روح بدن سے علیحدہ ہوگئی مگر روح کا اس مادی جسم کے ساتھ ایک قسم کا تعلق باقی رہتا ہے جس کی حقیقت اور کیفیت سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کو معلوم نہیں۔ جس طرح نیند کی حالت میں روح کو اس جسم کے ساتھ ایک تعلق ضرور رہتا ہے مگر اس کی حقیقت کے ادراک سے عقل قاصر ہے اسی طرح سمجھو کہ مرنے کے بعد بھی روح کو جسم میت کے ساتھ ایک قسم کا تعلق باقی رہتا ہے مگر اس کی حقیقت اور کیفیت کے ادراک سے عقل قاصر ہے اور اسی تعلق کا نام حیات ہے جس کی بناء پر مردہ منکر نکیر کے سوال کا جواب دیتا ہے جس قسم کا اور جس درجہ کا تعلق ہے اسی قسم کی اور اسی درجہ کی حیات ہے اسی تعلق کی بناء پر مردہ قبر پر گزرنے والے اور سلام کرنے والے کے سلام کو سنتا ہے اور جسے وہ دنیا میں پہچانتا تھا وہ اس وقت بھی اس کو پہچانتا ہے۔ اور قرآن اور حدیث نے عالم برزخ کے متعلق جو خبر دی ہے وہ سب حق اور صدق ہے کیونکہ انبیاء کرام (علیہ السلام) نے کبھی بھی ایسے امر کی خبر نہیں دی جو عقلا محال اور ناممکن ہو عالم آخرت کے متعلق جو خبر دی ہے یا تو وہ خود ان کی چشم دیدی ہے یا جن فرشتوں نے ان کو خبر دی ہے ان کی چشم دیدی ہے اور تمام عقلا کے نزدیک یہ قاعدہ مسلم ہے کہ جو شے عقلا ممکن ہو اور کوئی مخبر صادق اسکے وجود اور وقوع کی خبر دے تو عقلا اس خبر کو قبول کرنا اور تسلیم کرنا لازم اور ضروری ہے خود مشاہدہ اور معاینہ تو دلیل ہے ہی اور کسی مخبر صادق کا اپنے مشاہدہ کی خبر دینا یہ بھی تمام عقلاء کے نزدیک دلیل اور حجت ہے اور کسی کا کسی چیز کو نہ دیکھنا یہ کسی عاقل کے نزدیک بھی اس شئے کے عدم کی دلیل نہیں۔ بینا کا مشاہدہ نابینا پر حجت ہے اور نابینا کا نہ دیکھنا بینا پر حجت نہیں۔ فلاسفہ عالم آخرت کے بارے میں نابینا ہیں اور حضرات انبیاء کرام ﷺ بینا ہیں عالم آخرت کے متعلق حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) جو کچھ مشاہدہ بیان کریں وہ عقلا قابل قبول ہوگا کیونکہ انبیاء کرام سرتاپا صدق ہیں اور ان کے قول اور فعل میں ذرہ برابر بھی کذب کا امکان نہیں اور عالم آخرت کے نابیناؤں یعنی فلاسفہ پر اولیٰ الایدی والابصار کا مشاہدہ حجت ہوگا۔ آٹھویں معرفت روح نظر کیوں نہیں آتی روح ایک حقیقت واقعیہ ہے مگر لطافت کی وجہ سے نظر نہیں آتی اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ہم میں سے کوئی شئے مخفی اور پوشیدہ ہوتی ہے اور ہم اس کو محسوس نہیں کرسکتے مگر اس کے آثار کا مشاہدہ کرتے ہیں تو ایسی شئے کے وجود کا انکار نہیں کیا جاسکتا دیکھو ایتھر کہ جس کا حواس سے ادراک نہیں ہوسکتا مگر اس کے وجود کا انکار بھی نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ روشنی کا دار و مدار ایتھر پر ہے ایتھر ایک قسم کی گیس ہے جو تمام خلاء میں پھیلی ہوئی ہے اور وہ بذاتہ ساکن ہے جب تک کوئی دوسرا جسم اس کو حرکت نہ سے وہ حرکت میں نہیں آتا۔ جس طرح ہوا کسی آواز کو بذریعہ تموج کے کان تک پہنچاتی ہے اسی طرح ایتھر روشنی کو تموج کے ذریعے قوت باصرہ تک پہنچاتا ہے۔ غرض یہ کہ دنیا میں بیشمار چیزیں ایسی ہیں کہ ان کے احساس سے ہمارے حواس قاصر ہیں مگر لامحالہ ان کے وجود کا اقرار کرنا پڑتا ہے۔ نویں معرفت روح اور نفس میں فرق علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ روح اور نفس دونوں ایک ہی شئے ہیں یعنی روح اور نفس ایک ہی شئی کے دو نام ہیں یا دو علیحدہ علیحدہ حقیقتیں ہیں روح انسان کو آخرت کی طرف بلاتی ہے اور نفس دنیا کی طرف بلاتا اور کھینچتا ہے نفس کو سوائے کھانے اور پہننے کے اور کچھ معلوم نہیں۔ نفس، لذات اور شہوات کے اعتبار سے کتا ہے اور غیظ و غضب کے اعتبار سے درندہ ہے اور مکرو فریب کے اعتبار سے شیطان کا حقیقی بھائی معلوم ہوتا ہے (واللہ اعلم) استاد ابو القاسم قشیری قدس سرہ فرماتے ہیں کہ اخلاق حمیدہ کے معدن اور منبع کا نام ” روح “ ہے اور اخلاق ذمیمہ کے معدن اور سرچشمہ کا نام ” نفس “ ہے مگر جسم لطیف ہونے میں دونوں مشترک ہیں جیسے ملائکہ اور شیاطین جسم لطیف ہونے میں دونوں شریک ہیں فرق صرف یہ ہے کہ ملائکہ نورانی ہیں نور سے پیدا ہوئے ہیں اور شیطان ناری ہیں نار سے پیدا ہوئے ہیں۔ حافظ ابن عبد البر (رح) نے تمہید شرح موطائیں اس بارے میں ایک حدیث نقل کی ہے وہ یہ ہے۔ ان اللہ خلق آدم جعل فیہ نفسا وروحا فمن الروح عفافہ وفھمہ وحلمہ وسخاء ہ ووفاء ہ ومن النفس شھوتہ وطیشہ وسفہہ وغضبہ ونحوھذا کذا فی الروض الانف شرح سیرۃ ابن ہشام ص 197 جلد 1۔ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا اور ان میں نفس اور روح کو ودیعت رکھا پس عفت اور فہم اور حکم اور سخاوت اور وفا اس قسم کے پاکیزہ اخلاق اور صفات روح سے نکلتے ہیں اور شہوت اور طیش اور سفاہت اور غیظ و غضب وغیرہ اس قسم کے تمام اخلاق رذیلہ نفس سے ظاہر ہوتے ہیں (روض الانف) یہ حدیث اس بات پر صاف طور پر دلالت کرتی ہے کہ آدم کی فطرت میں یہ دو متضاد چیزیں پیوست کردی گئی ہیں ایک روح جو جنس ملائکہ سے ہے اور ایک نفس جو جنس شیاطین سے ہے بلکہ بقول بعض اولیاء ” نفس “ شیطان کا جڑواں بھائی ہے جس طرح قرآن حکیم نے شیطان کو انسان کا دشمن بتایا ہے اسی طرح حدیث میں نفس کو سب سے بڑا دشمن بتایا ہے جیسا کہ ایک ضعیف الاسناد حدیث میں ہے اعدی عدوک نفسک التی بین جبیک : اے انسان تیرا سب سے بڑا دشمن تیرا نفس ہے جو تیرے دو پہلوؤں کے درمیان واقع ہے اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک تو یہ کہ نفس انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ شیطان تو اعوذ باللہ پڑھنے سے بھاگ جاتا ہے مگر نفس اعوذ باللہ پڑھنے سے بھی نہیں بھاگتا نیز شیطان جب انسان کو گمراہ کرتا ہے تو نفس کے واسطے سے گمراہ کرتا ہے شیطان اپنے کام میں نفس کا محتاج ہے اور نفس گمراہ کرنے میں شیطان کا محتاج نہیں اس لئے آپ ﷺ نے نفس کو بڑا دشمن قرار دیا۔ حضرت شیخ فرید الدین عطار (رح) فرماتے ہیں۔ نفس و شیطاں زد کریما راہ من رحمتت باشد شفاعت خواہ من شیخ فرید الدین (رح) نے نفس کو شیطان سے پہلے ذکر کیا کہ اغواء میں نفس شیطان کا محتاج نہیں شیطان کو گمراہ کرنے والا اس کا نفس ہے کسی شیطان نے شیطان کو گمراہ نہیں کیا بہر حال نفس انسان کا دشمن ہے اور روح انسان کی دشمن نہیں اس لئے اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ روح اور نفس کو جہاد اکبر فرمایا۔ کیونکہ نفس قریبی دشمن ہے اور دار الحرب کے کافر دور کے دشمن ہیں اور حق تعالیٰ کا حکم یہ ہے یایھا الذین امنوا قاتلوا الذین یلونکم من الکفار ولیجدوا فیکم غلظۃ : یعنی اے مسلمانو ! قریبی کافروں سے جہاد و قتال کرو اس لئے اس قریبی دشمن (نفس) سے جہاد کرنا جہاد اکبر ہوا بہرحال قرآن اور حدیث میں نفس سے جہاد کا حکم آیا ہے روح سے جہاد کا حکم نہیں آیا اور قرآن اور حدیث نے تمام اخلاق ذمیمہ کی جڑ ہوائے نفس کو قرار دیا ہے کہ نفس انسان کو لذات اور شہوات کی طرف دعوت دیتا ہے حق تعالیٰ کے اوامرو نواہی کی پرواہ نہیں کرتا۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ نفس اور روح دو الگ الگ چیزیں ہیں روح جنس ملائکہ سے ہے اور نفس جنس شیطان سے ہے روح نورانی اور روحانی ہے اور نفس ناری ہے۔ جس میں کچھ آمیزش (طین) گارے اور مٹی کی بھی ہے اور یہ انسان جو ایک پتلہ خاکی ہے عجیب معجون مرکب ہے کہ مادہ روحانی اور مادہ شیطانی کو ملا کر بنایا گیا ہے۔ کبھی خیر کی طرف مائل ہوتا ہے اور کبھی شر کی طرف عقل جس کا محل قلب ہے کما قال تعالیٰ لہم قلوب یعقلون بھا۔ یا بقول بعض کہ عقل کا محل دماغ ہے وہ روح کی معین اور مددگار ہے اور نفس شیطان کا مددگار بلکہ اس کا نمائندہ اور اس کا قائم مقام ہے عقل ایک جوہر نورانی ہے اور نفس ایک جوہر ظلمانی ہے گوئے توفیق وسعادت درمیان افگندہ اند کس بمیداں درنمی آید سواراں راچہ شد دوسری بات جو حدیث اعدی عدوک نفسک التی بین جنبیک سے معلوم ہوئی وہ یہ ہے کہ نفس کا مقام دو پہلوں کے درمیان ہوتا ہے اس سے بھی روح کا نفس سے مغایر ہونا ثابت ہوا اس لیے کہ روح سر سے پیر تک تمام اعضاء بدن میں جاری وساری ہے پہلو کے ساتھ مخصوص نہیں بہرحال نفس اور روح الگ الگ حقیقتیں ہیں البتہ کتاب و سنت میں نفس کا اطلاق روح پر بھی آیا ہے اس لیے دونوں کے ایک ہونے کا اشتباہ ہوگیا۔ دسویں معرفت عارفین کا قول ہے کہ روح انسانی نر اور مرد ہے اور بمنزلہ شوہر کے ہے اور نفس حیوانی مادہ اور مؤنث ہے اور بمنزلہ زوجہ کے ہے اور دونوں میں اللہ تعالیٰ نے باہمی محبت ڈال دی دونوں کا باہم نکاح ہوگیا پھر دونوں کے باہمی تعلق سے اولاد پیدا ہونے لگی اور وہ اولاد اعمال ہیں جو روح اور نفس کے امتزاج سے متولد ہیں انا خلقنا الانسان من نطفۃ امشاج نبتلیہ : حدیث میں ہے کہ اگر مرد کا نطفہ غالب اور سابق ہوا تو اولاد نر پیدا ہوتی ہے اور اگر عورت کا نطفہ غالب اور سابق ہوا تو لڑکی پیدا ہوتی ہے۔ اسی طرح سمجھو کہ اگر نفس اور روح کے مخالطف اور معاشرت میں غلبہ روح کا ہوا تو اعمال صالحہ کا تولد ہوگا اور اگر غلبہ نفس کا ہوا تو اعمال سیۂ کا تولد ہوگا اور تمام ائمہ لغت اور ائمہ نحو کے نزدیک لفظ ” نفس “ مؤنث سماعی ہے نفس کے لیے جو فعل یا ضمیر لائی جائے گی وہ فعل مؤنث کا ہوگا اور ضمیر بھی مؤنث کی ہوگی اور حدیث میں ہے کہ عورتیں جو مشورہ دیں اس کی مخالفت میں خیرو برکت ہے۔ لہٰذا مرد مومن کو چاہئے کہ نفس کے مشورہ پر نہ چلے روح کے مشوروں پر چلے فتلک عشرۃ کاملۃ دریں مشہد زگویائی مزن دم سخن را ختم کن واللہ اعلم (اطلاع) روح اور نفس کے فرق پر میں نے سیرۃ المصطفیٰ حصہ اول میں بھی کچھ لکھ دیا ہے اس کو بھی دیکھ لیا جائے (واللہ اعلم بالصواب)
Top