Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Israa : 78
اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ اِلٰى غَسَقِ الَّیْلِ وَ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ١ؕ اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُوْدًا
اَقِمِ
: قائم کریں آپ
الصَّلٰوةَ
: نماز
لِدُلُوْكِ
: ڈھلنے سے
الشَّمْسِ
: سورج
اِلٰى
: تک
غَسَقِ
: اندھیرا
الَّيْلِ
: رات
وَ
: اور
قُرْاٰنَ
: قرآن
الْفَجْرِ
: فجر (صبح)
اِنَّ
: بیشک
قُرْاٰنَ الْفَجْرِ
: صبح کا قرآن
كَانَ
: ہے
مَشْهُوْدًا
: حاضر کیا گیا
(اے محمد ﷺ سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک (ظہر، عصر، مغرب، عشاء کی) نمازیں اور صبح کو قرآن پڑھا کرو۔ کیونکہ صبح کے وقت قرآن کا پڑھنا موجب حضور (ملائکہ) ہے۔
حکم بہ مشغولی عبادت رب معبور و بشارت مقام محمود و تلقین دعاء ہجرت و اشارہ بسوئے قیام آسمانی بادشاہت و سلطنت قال اللہ تعالیٰ : اقم الصلوۃ لدلوک الشمس .... الیٰ .... اھدی سبیلا۔ (ربط) گزشتہ آیات میں کفار کی عداوت کا ذکر تھا اور اس بات کا ذکر تھا کہ کفار آپ ﷺ کو مکہ سے نکالنا چاہتے ہیں اب ان آیات میں آپ ﷺ کو یہ حکم دیتے ہیں کہ آپ ﷺ اللہ کی عبادت میں مشغول رہئے ان دشمنوں کی طرف التفات نہ کیجئے اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کا حامی و ناصر ہے۔ تمام عبادتوں میں سب سے اعلیٰ اور اشرف عبادت تماز ہے اس لیے اولا فرض نمازوں کی تاکید فرمائی اور آخر میں نماز تہجد کا تاکد عوام کے لئے نہیں بلکہ خواص کے لیے ہے بعد ازاں آپ کو مقام محمود کی بشارت دی عسی ان یبعثک ربک مقاما محمودا : جو بظاہر اس تہجد کی برکات میں سے ہے کہ عنقریب آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ شافع حشر بنا کر مقام محمود میں کھڑا کر دے گا ” مقام محمود “ سے مراد مقام شفاعت ہے جو عزت و کرامت کا اعلیٰ ترین مقام ہے جو بنی آدم میں سوائے آنحضرت ﷺ کے کسی اور کو نصیب نہیں شروع سورت میں اسراء اور معراج کی عزت و کرامت کا ذکر فرمایا اور اس آیت میں مقام محمود کی عزت و کرامت کا ذکر فرمایا اور چونکہ مشرکین مکہ آپ ﷺ کو مکہ سے نکالنے کے درپے تھے اس لیے من جانب اللہ آپ کو ہجرت کی دعا تلقین ہوئی وقل رب ادخلنی مدخل صدق واخرجنی مخرج صدق فاجعلنی من الدنک سلطانا نصیرا کیونکہ قضا و قدر نے ہجرت کو اسلام کی ترقی کا زینہ بنایا اور جس آسمانی بادشاہت و سلطنت کا خدا تعالیٰ نے آپ ﷺ سے وعدہ کیا تھا ہجرت کو اس کا پیش خمیہ بنایا۔ اس لیے آپ ﷺ کو ہجرت کی دعا کا کم ہوا اور واجعلنی من الدنک سلطانا نصیرا میں اس بادشاہی و سلطنت کی طرف اشارہ ہے اور قل جاء الحق وزھق الباطل میں اسلام کے ظہور اور غلبہ کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد ہے ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ۔ اور یہ قرآن جو نسخہ کیمیاء اور شفاء اور رحمت ہے اس کا پورا استعمال اس وقت شروع ہوگا کہ جب بدر میں کفر کے سر پر اسلام کی ضرب کاری لگے گی اور کفر کے غرور کا نشہ کافور ہوگا۔ چناچہ ایسا ہی ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے بجز و عافیت آپ ﷺ کو مدینہ منورہ پہنچا دیا اور ہجرت کے بعد اسلام کی شان و شوکت یوما فیوما زائد ہونے لگی اور حق غالب ہوا اور باطل مضمحل ہوا مکہ فتح ہوگیا اور نجد اور یمن کا تمام علاقہ اور حجاز کا علاقہ اسلام کی زیرنگیں آگیا اور شاہانہ طریقہ سے اللہ کے احکام جاری ہونے لگے اور اہل اسلام اس نسخہ کیمیاء (قرآن کریم) کے استعمال سے ایسے شفا یاب اور تندرست ہوئے کہ قیصر و کسری کا آپریشن کرنے کے لیے تیار ہوگئے اور جن ظالموں نے مال و دولت کے نشہ میں اس نسخہ کیمیاء کے استعمال سے گریز کیا وہ کفر اور شرک کے زہریلے مادہ سے ہلاک ہوگئے اور واذا انعمنا علی الانسان اعرض ونابجانبہ میں اشارہ اس طرف فرمایا کہ انسانیت کا تقاضا یہ ہے کہ جب خدا تعالیٰ کسی انسان پر انعام فرمائیں تو انسان کو چاہئے کہ اپنے منعم سے مانوس ہو نعمتوں میں مست ہو کر منعم سے متوحش نہ ہو۔ چناچہ فرماتے ہیں قائم کر اے نبی ﷺ ! نماز کو زوال آفتاب کے وقت سے لے کر رات کی تاریکی کے چھا جانے تک اس میں چار نمازیں آگئیں ظہر، عصر، مغرب، عشاء۔ جیسا کہ حدیث سے اس اجمال کی تفصیل ہوگئی اکثر صحابہ وتابعین کے نزدیک ” دلوک شمس “ سے زوال آفتاب مراد ہے اور مطلب یہ ہے کہ آفتاب ڈھلنے کے بعد رات کو کچھ حصہ گرز جانے تک کہ جب رات کی تاریکی افق پر چھا جائے نمازیں ادا کریں اور بعض صحابہ وتابعین یہ کہتے ہیں کہ دلوک شمس سے غروب آفتاب کے معنی مراد ہیں اس سے مغرب کی نماز مراد ہے اور غسق اللیل یعنی جب رات کی سیاہی افق پر پھیل جائے اس وقت عشاء کی نماز پڑھو اور لازم کرلو قرآن کا پڑھنا فجر کی نماز میں اشارہ اس طرف ہے کہ فجر کی نماز میں قرآن زیادہ پڑھا جائے اور بہ نسبت اور نمازوں کے فجر کی نماز میں قرأت قرآن زیادہ طویل ہونی چاہئے بیشک فجر کی قرأت یعنی نماز فجر محل حضور ملائکہ ہے اس وقت فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ حدیث میں ہے کہ فجر اور عصر کی نماز میں رات اور دن کے فرشتے جمع ہوتے ہیں پس جو فرشتے شب کو تم میں رہے وہ عروج کرتے ہیں پس اللہ عزوجل ان سے پوچھتا ہے حالانکہ وہ خوب جانتا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا وہ کہتے ہیں کہ جب ہم ان کے پاس گئے تھے۔ جب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ہم نے ان کو چھوڑا تب بھی نماز پڑھ رہے تھے اور چونکہ نماز صبح کا وقت نیند سے اٹھنے کا وقت ہے اس لیے نماز فجر کا حکم الگ بیان کیا پھر اسی کے متصل نماز تہجد کو بیان کیا جو شب کے اخیر میں پڑھی جاتی ہے اور خصوصی طور پر آنحضرت ﷺ کو اس کا خطاب فرمایا۔ چناچہ فرماتے ہیں اور اے نبی ﷺ رات کے کچھ حصہ میں قرآن کے ساتھ شب خیزی کرو یعنی رات کا کچھ حصہ تہجد کے لیے مخصوص کردو تہجد ہجور سے مشتق ہے معنی ترک خواب کے ہیں یعنی رات کے کچھ حصے میں خواب سے بیدار ہو کر نماز میں قرآن پڑھا کرو یہ نماز تہجد کا حکم خاص تیرے لیے زیادہ ہے۔ نماز پنجگانہ کے علاوہ خاص آپ ﷺ کے لیے یہ حکم زیادہ ہے کہ آپ ﷺ ضرورت تہجد پڑھ اکریں اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ آپ ﷺ کو سب سے زیادہ بلند مقام عطا کریں گے لہٰذا آپ ﷺ امید رکھئے کہ تیرا پروردگار تجھ کو ایک پسندیدہ مقام میں کھڑا کرے گا ” مقام محمود “ کے معنی مقام عزت کے ہیں۔ احادیث صحیحہ اور متواترہ سے ثابت ہے کہ آیت میں مقام محمود سے مقام شفاعت مراد ہے اور اس کو محمود اس لیے کہتے ہیں کہ اس مقام میں کھڑے ہو کر آنحضرت ﷺ اللہ کی عجیب و غریب حمد وثناء کریں گے کہ جو کسی بشر کے دل پر نہیں گزری ہوگی اور پھر اس مقام میں تمام امم اوراقوام عالم کے لیے شفاعت کریں گے تو تمام اولین اور آخرین آپ کی تعریف کریں گے جس کی مفصل کیفیت احادیث میں مذکور ہے۔ نکتہ : آیت میں لفظ ” عسیٰ “ امید دلانے کے لیے ہے اور درحقیقت وہ بشارت اور وعدہ ہے کیونکہ کریم کا امید دلانے کے بعد محروم کرنا یہ موجب عار ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے پاک اور منزہ ہے کہ وہ امید دلانے کے بعد پھر نہ دے۔ فائدہ : تہجد ابتداء اسلام میں سب پر فرض تھا بعد میں امت سے اس کی فرضیت منسوخ ہوگئی لیکن آنحضرت ﷺ کے بارے میں دو قول ہیں ایک قول تو یہ ہے کہ تہجد آپ ﷺ کے حق میں خاص طور پر فرض رہا اور دوسرا قول یہ ہے کہ آپ ﷺ پر فرض نہ رہا تھا اس لیے نافلۃ لک کے دو معنی بیان کیے گئے ایک یہ کہ تہجد خاص آپ ﷺ کے لیے فرض زائد ہے۔ دوم یہ کہ تہجد خاص آپ ﷺ کے لیے فضیلت زائدہ اور زیادتی مرتبہ کا موجب ہے۔ تلقین دعاء ہجرت و بشارت قیام حکومت وقل رب ادخلنی مدخل صدق .... الیٰ .... ان الباطل کان زھوقا۔ گزشتہ آیت میں مقام محمود یعنی مقام شفاعت کے وعدہ اور بشارت کا ذکر تھا جو آخرت سے متعلق ہے اب اس آیت میں دار کفر سے دارامان کی طرف ہجرت کی دعا تلقین فرماتے ہیں اور ایک دنیوی بشارت دیتے ہیں کہ ہجرت کے بعد اسلام کی شان یوما فیوما بلند ہوگی اور عنقریب مکہ مکرمہ فتح ہوگا اور جزیرۃ العرب پر اسلام کی حکومت اور سلطنت قائم ہوجائے گی حق ظاہر ہوگا اور باطل مٹ جائے گا۔ چناچہ فرماتے ہیں اور اے نبی ﷺ آپ کفار مکہ کی عداوت سے پریشان نہ ہوں آپ ﷺ تو یہ دعا مانگیں کہ اے میرے پروردگار داخل کر مجھ کو مقام صدق میں سچا داخل کرنا اور نکال مجھ کو دشمنوں کے نرغے سے سچا اور اچھا نکالنا یعنی مکہ سے اچھی طرح نکال اور اچھی طرح عزت کے ساتھ مدینہ میں داخل کر اور مجھ کو اپنے پاس سے ایسا غلبہ عطا کر جو دین کے بارے میں میرا معین و مددرگار ہو مطلب یہ ہے کہ ہر حال میں میری اعانت اور امداد کر کہ یہاں سے نکلتے وقت اور دوسری جگہ داخل ہونے کے وقت بھی یعنی اس شہر سے مجھ کو آبرو کے ساتھ نکال اور کسی جگہ مجھ کو آبرو سے ٹھہرا دے۔ اور ایسی حکومت اور ایسی سلطنت عطا فرما جو تیرے دین میں مدد دینے والی ہو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی دعا قبول فرمائی۔ مکہ سے اس خیرو خوبی اور خوش اسلوبی اور عزت و آبرو کے ساتھ آپ ﷺ کو نکالا کہ دشمن دیکھتے ہی رہ گئے اور پھر نہایت عزت و آبرو کے ساتھ آپ ﷺ کو مدینہ پہنچایا جہاں سے حق کا بول بالا ہوا اور مدینہ کے لوگ آپ ﷺ کے انصار اور یارومددگار بنے یہاں تک کہ مکہ مکرمہ فتح ہوا اور اسلام کی حکومت اور سلطنت قائم ہوئی اور دعا واجعل لی من لدنک سلطانا نصیرا : کا ظہور ہوا۔ اور اے نبی ﷺ ! جب مکہ فتح ہوجائے اور الہ کی فتح اور نصرت اور من جانب اللہ سلطانا نصیرا کو آپ ﷺ دیکھ لیں تو اس وقت یہ کہنا آگیا حق اور صدق یعنی دین اسلام اور نابود ہوا دین باطل یعنی کفر اور شرک سر زمین عرب سے دم دبا کر بھاگ نکلا اور بیشک وہ تو تھا ہی مٹنے والا باطل کو اگرچہ کسی وقت میں دولت و صولت حاصل ہوجائے تو وہ چند روزہ ہے جیسے کوڑا کرکٹ بظاہر اگرچہ پانی کے اوپر نظر آئے تو اس کا اعتبار نہیں وہ عارضی ہے جامع ترمذی میں ادخلنی اور اخرجنی کی تفسیر ہجرت کے ساتھ آئی ہے اور قل جاء الحق سے فتح مکہ کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے کہ فتح مکہ کے دن جب آپ ﷺ خانہ کعبہ میں داخل ہوئے تو تین سو ساٹھ بت اس کے اندر رکھے ہوئے تھے ہر قوم کا الگ بت تھا۔ آپ ﷺ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی جس سے بتوں کو کوچہ دیتے جاتے تھے اور یہ آیت پڑھتے جاتے تھے جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا۔ وما یبدی الباطل وما یعید (حق آگیا اور باطل مٹ گیا بیشک باطل مٹنے ہی والی چیز ہے) ۔ (اور آئندہ نہ باطل ابتداء پیدا ہوگا اور نہ لوٹے گا) ۔ آپ ﷺ یہ پڑھتے جاتے تھے اور بت منہ کے بل اوندھا ہوتا جاتا تھا حق جل شانہ نے باطل کی مغلوبی اور سرنگونی لوگوں کو بچشم سر مشاہدہ کرا دی اور غلبہ حق کی جو پیش گوئی کی تھی اس کا نظارہ کرا دیا حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے آیت کریمہ رب ادخلنی مدخل صدق واخرجنی مخرج صدق : کی تفسیر میں منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو مکہ معظمہ سے نکال کر باعزاز و اکرام مدینہ طیبہ پہنچایا نیز قتادہ (رح) کہتے ہیں کہ جب آنحضرت ﷺ نے دیکھا کہ حدود اور احکام شریعت بدون قوت اور سلطنت اور امارات محفوظ نہیں رہ سکتے تو آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی۔ حکومت اور امارات اعزاز الٰہی ہے جو اس نے بندوں کو عطا کیا ہے اور اگر حکومت اور امارات نہ ہوتی تو بعض لوگ بعض کو تباہ و برباد کردیتے اور قوی ضعیف کو ہلاک کردیتا۔ حسن بصری (رح) سلطانا نصیرا کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ سے وعدہ کیا تھا کہ ہم ملک فارس اور روم کافروں سے چھین کر تم کو دیں گے ان دعاؤں کی تلقین سے مقصود آنحضرت ﷺ کو تسلی و بشارت دینا ہے کہ آپ ﷺ کفار و فجار کی ستم رزنیوں سے گھبرائیں نہیں یہ باطل کا چند روزہ غلغلہ ہے۔ بالآخر دین حق غالب و سر بلند ہو کر رہے گا اور کفر ذلیل و خوار و سرنگوں ہوگا اور اے کافرو ! تمہاری تدبیریں کار آمد نہ ہوں گی لہٰذا اگر اپنی خیریت چاہتے ہو تو کفر وعناد کو چھوڑ دو اور طبیب روحانی یعنی محمد رسول اللہ ﷺ جو نسخہ شفاء یعنی (قرآن کریم) تمہارے لیے لے کر آئے ہیں اس کا استعمال کرو اور دیکھو کہ ہم نازل کرتے ہیں قرآن سے وہ چیز کہ جو امراض باطنی کے لیے شفاء ہے جس سے دل کے شکوک و شبہات دور ہوتے ہیں اس کے ماننے والوں کے لیے اور پھر اس کا استعمال کرنے والوں کے لیے رحمت ہے کہ اس نسخہ شفاء کو پیتے ہی چنگے ہوگئے اور دلوں کی ساری بیماریاں دور ہوگئی اور سارے شک و شبہ مٹ گئے اور نہیں زیادتی کرتا یہ قرآن ان ظالموں کے حق میں سوائے خسارہ اور نقصان کے کسی اور چیز کو چونکہ تمرد اور عناد میں مبتلا ہیں اس لیے قرآن سن کر جوش عداوت میں آجاتے ہیں اور استہزاء اور تمسخر پر اتر آتے ہیں لہٰذا بجائے رحمت کے لعنت اور بجائے شفاء کے مرض پیدا ہوتا ہے فی قلوبھم مرض فزادھم اللہ مرضا۔ اب آئندہ آیت میں اس خسارہ کا سبب بیان کرتے ہیں کہ انسان مال و منال اور جاہ و جلال کی محبت میں غرق ہے تکبر اور قساوت قلبی کی بیماری میں مبتلا ہے اور منعم حقیقی سے بےتعلق ہوگیا ہے اس لیے کوئی دوا اس کے حق میں کارگر نہیں ہوتی۔ چناچہ فرماتے ہیں۔ اور یہ قرآن جو شفاء اور رحمت کا سبب تھا وہ مرض اور خسارہ کا سبب کیسے بنا اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ہم انسان پر انعام کرتے ہیں یعنی صحت اور مال دیتے ہیں تاکہ وہ ہماری دی ہوئی نعمت کو ہمارے قرب اور رضا کا ذریعہ بنائے تو وہ بجائے قریب ہونے کے ہم سے منہ پھیر لیتا ہے اور اپنا پہلو ہم سے دور کرلیتا ہے یعنی نعمت ملنے کے بعد منعم حقیقی سے پہلو تہی اور کنارہ کشی اختیار کرتا ہے یہ کنایہ تکبیر سے ہے اور جب اس کو کوئی تکلیف اور سختی پہنچتی ہے یعنی زمانہ کے حوادث اور مصائب میں سے کوئی چیز اس کو لاحق ہوتی ہے تو وہ بالکل مایوس (ناامید) ہوجاتا ہے کہ اب اس کو کوئی خیر اور بھلائی نہیں ملے گی۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اگر آدمی کو نعمت اور دولت ملتی ہے تو وہ اس پر مغرور ہو کر منعم حقیقی کو یعنی خدا تعالیٰ کو بالکل بھول جاتا ہے اور اگر دنیا سے محروم ہوا تو اس پر غم اور افسوس چھا جاتا ہے اور خدا کی رحمت سے بالکل ناامید ہوجاتا ہے پس جو دنیا کا ایسا شیدائی اور فدائی ہوگیا وہ قرآن کی نعمت اور رحمت کو کیا جانے اور کیا سمجھے ان بندگان شکم کے حق میں قرآن جیسے نسخہ شفاء کے اسرار و حکم عبث ہیں آپ ﷺ کہہ دیجئے کہ یہ قرآن گو تمہارے نزدیک عبث ہو مگر ہمارے نزدیک عبث نہیں ازلی سعادت اور شقاوت کے ظہور کا ذریعہ ہے اس لیے کہ ہر ایک اپنی طبیعت اور فطرت اور روحانی مزاج کے مطابق عمل کرتا ہے شکر کرنے والا اور کفر کرنے والا جو بھی عمل کرتا ہے وہ عمل اس کی روح کے ہم شکل ہوتا ہے ہم نے اپنی حکمت سے مخلوق کو مختلف الانواع بنایا کسی کی فطرت میں نیکی و دیعت رکھی اور کسی کی فطرت میں برائی رکھی ہر ایک اپنی فطرت اور جبلت کے مطابق عمل کرتا ہے پس قرآن کے ماننے نہ ماننے سے انسان کی اس پوشیدہ استعداد اور صلاحیت کا ظہور ہوجاتا ہے اس سے اگر اعمال خیر کا صدور ہوا تو دنیا نے سمجھ لیا کہ یہ نیک جبلت ہے اور اگر اس سے اعمال شر کا صدور ہوا تو دنیا نے دیکھ لیا کہ یہ شخص بدجبلت ہے باقی تمہارا پروردگار پہلے ہی سے خوب جانتا ہے کہ ان دونوں فریق میں سے کون زیادہ ٹھیک راہ پر جا رہا ہے اس پر کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔ ہمیں تمہاری سعادت اور شقاوت کا پہلے ہی سے علم ہے یہ قرآن ہم نے تم پر الزام حجت کے لیے نازل کیا ہے جیسا عمل کرو گے اس کے مطابق تم کو جزاء دے گا۔ قال اللہ تعالیٰ : وقل للذین لا یؤمنون اعملوا علی مکانتم انا عاملون وانتظروا انا منتظرون۔ پس جب معلوم ہوگیا کہ خیر و شر کا مبداء اور منشاء انسان میں اس کی روح اور اس کی فطرت اور جبلت ہے جس سے روح کے مطابق اعمال سرزد ہوتے ہیں اس لیے آئندہ آیت میں روح کے متعلق سوال کا ذکر کرتے ہیں۔
Top