Maarif-ul-Quran - Al-Israa : 53
وَ قُلْ لِّعِبَادِیْ یَقُوْلُوا الَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ١ؕ اِنَّ الشَّیْطٰنَ یَنْزَغُ بَیْنَهُمْ١ؕ اِنَّ الشَّیْطٰنَ كَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِیْنًا
وَقُلْ : اور فرما دیں لِّعِبَادِيْ : میرے بندوں کو يَقُوْلُوا : وہ کہیں الَّتِيْ : وہ جو ھِيَ : وہ اَحْسَنُ : سب سے اچھی اِنَّ : بیشک الشَّيْطٰنَ : شیطان يَنْزَغُ : فساد ڈالتا ہے بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان اِنَّ : بیشک الشَّيْطٰنَ : شیطان كَانَ : ہے لِلْاِنْسَانِ : انسان کا عَدُوًّا : دشمن مُّبِيْنًا : کھلا
اور میرے بندوں سے کہہ دو کہ (لوگوں سے) ایسی باتیں کہا کریں جو بہت پسندیدہ ہوں کیونکہ شیطان (بری باتوں سے) ان میں فساد ڈلوا دیتا ہے۔ کچھ شک نہیں کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔
تلقین حسن خطاب با اہل کتاب و جوابات از شبہات مشرکین قال اللہ تعالیٰ : وقل لعبادی یقولوا التی ہی احسن .... الیٰ .... الا طغیانا کبیرا۔ (ربط) توحید اور قیامت کی حقانیت پر دلائل قائم کرکے مسلمانوں کو تعلیم فرماتے ہیں کہ مخالفین سے جب بحث کی نوبت آئے تو الفاظ نرم ہونے چاہیں کیونکہ سختی سے بسا اوقات سب و شتم کی نوبت آجاتی ہے اور شیطان باہمی نفرت اور عداوت کا ذریعہ بن جاتا ہے اور مخالف ضد پر اتر آتا ہے ایسی ھالت میں دعوت و تبلیغ بےسود ہوجاتی ہے۔ بعد ازاں مشرکین کے چند شبہات کے جوابات دئیے جو نہایت نرم ہیں اور باوجود نرم ہونے کے نہایت محکم ہیں۔ چناچہ فرماتے ہیں اور اے نبی ﷺ ! میرے بندوں یعنی مسلمانوں سے کہہ دیجئے کہ کافروں سے بات چیت کریں تو وہ بات کہیں جو بہت اچھی ہو کفار اگر سخت کلامی کریں تو ان کا جواب نرمی سے دو بیشک شیطان سخت بات زبان سے نکال کر لوگوں میں فساد ڈلوا دیتا ہے۔ تو اندیشہ ہے کہ سختی کو جواب سختی سے دینے میں جھگڑا بڑھ جائے گا بیشک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے ہرگز اس کی بھلائی نہیں چاہتا۔ حضرت شاہ ولی اللہ قدس سرہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں شروع شروع میں مسلمان کافروں کو لعن طعن کیا کرتے تھے لہٰذا فتنہ اور فساد بڑھتا تھا اور عداوت کی بیخ مضبوط ہوتی تھی اور یہ اسلام کی ترقی میں حرج پیدا کرتا تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ چونکہ یہ آیت سورة بنی اسرائیل کی ہے جو مکہ میں نازل ہوئی اس لیے بلحاظ وقت نزول اس آیت میں عبادی سے خصوصیت کے ساتھ مہاجرین اولین مراد ہیں جو کفار قریش سے مجادلہ اور مخاصمہ کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے لفظ عباد کو یاء کی طرف مضاف کرکے عبادی فرمایا یعنی میرے خاص بندے اس میں لطف و کرم خاص ہے مہاجرین اولین کے ساتھ جس کے وہ مورد بنائے گئے وھو المقصود (حضرت شاہ ولی اللہ کے کلام کا ترجمہ ختم ہوا) (ازالۃ الخفاء) پس اے میرے خاص بندو ! تمہیں کافروں کی دعوت اور نصیحت میں شدت و خشونت یعنی سختی کی ضرورت نہیں اس لیے کہ تمہارا پروردگار تم کو خوب جانتا ہے ہر ایک کی صلاحیت اور استعداد کو اور ہر ایک کے انجام کو خوب جانتا ہے اور اپنی مخلوق کا مختار ہے جو چاہے کرے وہ اگر چاہے تو تم پر رحم کرے اور بغیر ناصح کی شدت اور خشونت ہی کے ہدایت دیدے یا اگر چاہے تو تم کو عذاب دے کہ باوجود ناصح کی شدت اور خشونت کے اس کو ہدایت نہ دے اور عذاب دنیاوی یا اخروی سے اسے ہلاک کرے مطلب یہ ہے کہ مشیت خداوندی تم سے پوشیدہ اور مستور ہے اور آپ ﷺ کو اور کسی کو اس کا انجام معلوم نہیں اور ان کی ہدایت آپ ﷺ کے ذمہ نہیں خدا جس کو چاہے ہدایت دے اور اے نبی ﷺ ! ہم نے تجھ کو ان پر داروغہ بنا کر نہیں بھیجا ہم نے آپ کو بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے جو آپ کی اطاعت کرے گا وہ جنت میں جائے گا اور جو آپ کی نافرمانی کرے گا وہ دوزخ میں جائے گا آپ ﷺ کا کام یہ ہے کہ ملاطفت اور نرمی سے ان کو تبلیغ اور دعوت اور نصیحت کرتے رہئیے اور آپ ﷺ ان پر نگہبان نہیں لہٰذا سختی اور درشتی بےکار ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ ” مذاکرہ میں حق والا جھنجھلانے لگتا ہے اور دوسرا صریح حق کو نہیں ماننا سو فرما دیا کہ تم ان کی ہدایت کے ذمہ دار نہیں اللہ بہتر جانتا ہے جس کو چاہے وہ سمجھادے “۔ (موضح القرآن) یعنی پیغمبر کا کام یہ ہے کہ اللہ کا پیغام پہنچا دے پھر جو کوئی مانے تو اس کا بھلا ہے اور جو نہ مانے اس کا برا ہے سختی کرنی بےسود ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ دعوت اور نصیحت میں نرمی اور حسن اخلاق کو ملحوظ رکھیں اور کسی کو دوزخی اور جہنمی نہ کہیں کیونکہ خاتمہ کا حال اللہ ہی کو معلوم ہے کہ ایمان پر ہوگا کہ کفر پر۔ اب آئندہ آیت میں آنحضرت ﷺ کو خطاب فرماتے ہیں کہ تیرا پروردگار خوب جانتا ہے جو آسمانوں میں اور زمین میں ہے ہر ایک کا حال اور مآل جانتا ہے اور جو بات جس کے حق میں مصلحت ہے یا مفسدہ ہے سب جانتا ہے اس لیے لوگوں کو اخلاق اور اعمال اور مال و منال اور حسن و جمال کے اعتبار سے مختلف بنایا اور اس اختلاف اور تفاوت کو باہمی تمایز کا ذریعہ بنایا وہ اپنے علم اور حکمت کے مطابق جس کو چاہتا ہے اپنی نبوت و رسالت کے لیے منتخب کرتا ہے۔ اور بعض کو بعض پر فضیلت دیتا ہے اور البتہ تحقیق ہم نے اپنے اسی علم کے موافق بعض نبیوں کو بعض نبیوں پر فضیلت دی جس کے لیے جو فضیلت چاہی وہ اس کو عنایت کی ابراہیم (علیہ السلام) کو خلت اور موسیٰ (علیہ السلام) کو مکالت عطا کی اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو احیاء موتیٰ اور ابراء اکمہ و ابرص جیسے معجزات عطا کیے اور داؤد (علیہ السلام) کو ہم نے زبور عطا کی جو حکمت اور فضل خطاب پر مشتمل تھی اور یہ عطاء زبور ان کی فضیلت کا ذریعہ بنی۔ حالانکہ داؤد (علیہ السلام) سب بھائیوں میں پست قد اور لوگوں کی نظروں میں حقیر و فقیر تھے مگر اللہ نے ان کو یہ فضیلت بخشی کہ نبوت و رسالت بھی عطا کی اور اس کے ساتھ بادشاہت بھی عطا کی تاکہ سلطنت و رسالت کا معین و مددگار اور خدمت گزار ہو۔ غرض یہ کہ بعض پر فضیلت دینا یہ حق تعالیٰ کی سنت قدیم ہے کوئی بدعت نہیں۔ حق تعالیٰ کا مقصود یہ ہے کہ پس اگر ہم نے محمد رسول اللہ ﷺ کو نبوت و رسالت عطاء کی اور آپ ﷺ کو جملہ انبیاء پر فضیلت دی اور ان پر قرآن عظیم اتارا تو اس میں استبعاد اور انکار کی کون سی بات ہے اس آیت میں قریش کے تعجب کا جواب دیا گیا جو یہ کہتے تھے کہ سارے عرب میں خدا کو رسول بنانے کے لیے ابو طالب کا یتیم ہی پسند آیا اللہ تعالیٰ نے بتلا دیا کہ بزرگی کا دارومدار مال و دولت پر نہیں بلکہ خداداد فضائل و شمائل پر ہے جیسا کہ انجیل میں ہے کہ ” جس پتھر کو معماروں نے خراب جان کر پھینک دیا وہی محل کا کنگرہ اور سرا ہوا “۔ نکتہ : اور زبور کی تخصیص اس لیے فرمائی کہ اس سے آپ ﷺ کی اور آپ ﷺ کی امت کی فضیلت کی طرف اشارہ ہے کہ جس طرح داؤد (علیہ السلام) نبوت و رسالت کے ساتھ صاحب سلطنت عظیم بھی تھے اسی طرح اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کی نبوت و رسالت کے ساتھ سلطنت عظیم بھی عطا فرمائے گا اور داؤد (علیہ السلام) کی طرح آپ ﷺ بھی صاحب جہاد ہوں گے جیسا کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے متعلق حدیث میں آیا ہے کان لایفر اذا لاقی یعنی داؤد (علیہ السلام) جہاد میں کبھی پیچھے نہ ہٹتے تھے اسی طرح اللہ تعالیٰ آنحضرت ﷺ کے لیے نبوت اور بادشاہت کو ایک کمبل میں جمع کرے گا اور پھر آپ کے بعد خلفائے راشدین ؓ اور صحابہ کرام ؓ سر زمین شام و فارش کے وارث اور حکمران ہوں گے جیسا کہ قرآن کریم میں اس کی خبر دی گئی ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر ان الارض یرثھا عبادی الصلحون۔ چناچہ بہ وعدہ خداوندی صحابہ کرام زمین ایران و شام کے وارث ہوئے اور ابوبکر و عمر ؓ کی خلافت اور بادشاہت سیدنا داؤد (علیہ السلام) کی خلافت اور بادشاہت کا نمونہ بنی ابوبکر وعمر ؓ اگرچہ سیدنا داؤد (علیہ السلام) کی طرف بنی نہ تھے لیکن بلاشبہ صدیق اکبر اور فاروق اعظم ؓ ولی بادشاہ تھے۔ داؤد (علیہ السلام) کی گدڑی میں نبوت اور خلافت جمع تھی اور ابوبکر و عمر ؓ کے کمبل میں ولایت اور خلافت جمع تھی اور جس کمبل میں ولایت اور بادشاہت دونوں جمع ہوجائیں تو اسی کا نام خلافت راشدہ ہے اور جو فرماں روا فضائل و شمائل میں نبی کا نمونہ اور ہمرنگ ہو تو وہ خلیفہ راشد ہے۔ سے وصف تو در کتاب موسیٰ (علیہ السلام) داے وصف وے در زبور داؤد (علیہ السلام) مقصود توتی ز آفرینش باقی بہ طفیل تست موجود مطلب یہ ہے کہ انبیاء کرام جن کو اللہ تعالیٰ نے قسم قسم کے فضائل و شمائل سے عزت بخشی وہ سب اللہ کے عبادت گزار بندے تھے تم کو چاہئے کہ ان کے نقش قدم پر چلو اور ان کو خدا کا برگزیدہ بندہ جانو نہ کہ معبود اس لیے آئندہ آیات میں پھر توحید کا مضمون ذکر فرماتے ہیں۔ رجوع بسوئے ابطال شرک مشرکین دلائل توحید سن کر اپنے معبودوں کے فضائل بیان کرتے اور کہتے کہ وہ یہ کرسکتے ہیں اور یہ کرسکتے ہیں حق تعالیٰ اس کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں۔ اے نبی ! آپ ان لوگوں سے کہہ دیجئے کہ جن کو تم خدا کے سوا معبود قرار دیئے ہوئے ہو جیسے ملائکہ اور جنات ذرا ان کو اپنی کسی تکلیف کو دور کرنے کے لیے پکارو تو سہی دیکھیں تو وہ تمہاری کیا مدد کرسکتے ہیں پس خوب سمجھ لو کہ وہ تم سے کسی تکلیف کے دور کرنے کا اختیار رکھتے ہیں اور نہ اس میں کسی تغیر و تبدل کا اختیار رکھتے ہیں کہ تم سے بلا کو ٹال کر کسی دوسرے پر ڈال سکیں پس جن کو اتنی بھی قدرت نہیں تو پھر کیوں تم ان کو معبود ٹھہراتے ہو اس آیت میں اشارہ اس طرف ہے کہ اہل مکہ جس قحط شدید میں تم اس وقت مبتلا ہو تمہارے یہ معبود اس کو دور نہیں کرسکتے اور معبود برحق وہ ہے کہ جو ایصال منفعت اور دفع مضرت پر اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پھیرنے پر قادر ہو اور جن کو تم معبود سمجھتے ہو وہ اس بات پر قادر نہیں معلوم ہوا کہ وہ معبود برحق نہیں اب آئندہ آیات میں یہ بتلاتے ہیں کہ جن کو تم معبود سمجھے ہوئے ہو وہ خود خدا کے عبادت گزار بندے ہیں اور اس کی رحمت کے امیدوار ہیں اس کے قہر سے ڈرنے والے ہیں پھر کہاں سے خدا ہوئے۔ چناچہ فرماتے ہیں کہ یہ گروہ ملائکہ و جنات جن کو مشرکین معبود اور مستعان سمجھ کر اپنی حاجتوں کے لیے پکارتے ہیں انکا حال خود یہ ہے کہ وہ اپنے پروردگار تک پہنچنے کا وسیلہ اور ذریعہ ڈھونڈھتے ہیں جیسے عیسیٰ و عزیز (علیہم السلام) اور ملائکہ کرام سب اللہ کی اطاعت اور عبادت میں مشغول ہیں اور اسی فکر میں ہیں کہ ان میں سے کون خدا کے زیادہ نزدیک تر اور مقرب بنتا ہے یعنی جن ہستیوں کو تم معبود سمجھ کر پکارتے ہو وہ طاعت اور عبادت کے ذریعہ سے پیش ازبیش خدا کا تقرب حاصل کرنے کی طمع اور حرص میں لگے ہوئے ہیں اور جیسے کوئی متابعت میں ایک دوسرے سے سبقت چاہتا ہے اسی طرح یہ حضرات عبادات اور طاعات کو وسیلہ بناتے ہیں کہ قرب مزید حاصل ہو اور ان کا حال یہ ہے کہ وہ امید رکھتے ہیں اس کی رحمت کی اور ڈرتے ہیں اس کے عذاب سے پس جب ان کا یہ حال ہے کہ تو وہ کیسے معبود ہوسکتے ہیں کیا معبود کی یہی شان ہے کہ کسی کے قرب حاصل کرنے کی تلاش میں لگا رہے اور اس کی رحمت کا امیدوار ہو اور اس کے قہر سے فرزاں و ترساں رہے معلوم ہوا کہ وہ کسی نفع اور ضرر کے مالک نہیں پھر معبود کیسے ہوئے اور اے نبی ﷺ ! ملائکہ اور جنات کا عذاب خداوندی سے ڈرنا بےجا نہیں۔ بیشک تیرے پروردگار کا عذاب ڈرنے ہی کی چیز ہے اس آیت میں مشرکین کی اس بات کا جواب دیا گیا جو یہ کہتے تھے کہ ہم بتوں کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ وہ اللہ سے ہماری سفارش کریں اور دنیاوی مصائب سے ہم کو محفوظ رکھیں اس کا جواب دیا کہ محض غلط ہے وہ ہرگز تمہاری مصیبت کو دفع نہیں کرسکتے۔ علامہ زمخشری (رح) اور قاضی بیضاوی (رح) اور امام رازی (رح) نے ان آیات کی یہی تفسیر فرمائی جو ہم نے ہدیہ ناظرین کی اور بعض مفسرین نے آیت مذکور یعنی اولئک الذین یدعون یبتغون الی ربھم الوسیلۃ ایہم اقرب کی دوسری تفسیر فرمائی وہ یہ کہ یہ کفار جن بزرگان دین اور مقبولان خداوندی کو اپنا حاجت روا سمجھ کر پکارتے ہیں اور خود اللہ کی جناب میں اللہ کے مقرب ترین بندہ کا وسیلہ ڈھونڈھتے ہیں اور اس تلاش میں ہیں کہ کون سا بندہ خدا کے زیادہ قریب ہے تاکہ اس کا وسیلہ پکڑیں یعنی اس کے اقتداء اور اتباع کو اور اس کی دعا کو حصول قرب خداوندی کا وسیلہ اور ذریعہ بنائیں۔ (دیکھو تفسیر روح المعانی ص 92 جلد 15) حضرت شاہ عبد القادر قدس اللہ سرہ کا میلان اسی معنی کی طرف ہے چناچہ تحریر فرماتے ہیں ” یعنی جن کا ذکر پوجتے ہیں وہ آپ ہی اللہ کی جناب میں وسیلہ ڈھونڈھتے ہیں کہ جو بندہ بہت نزدیک ہو اسی کا وسیلہ پکڑیں اور وہ وسیلہ سب کا پیغمبر ہے آخرت میں انہی کی شفاعت ہوگی “۔ (موضح القرآن) اور بلاشبہ بارگاہ خداوندی میں حصول قرب کا سب سے بڑا ذریعہ اور وسیلہ آنحضرت ﷺ کی ذات بابرکات ہے کہ بغیر آپ کے اتباع کے بجات نہیں۔ خلاف پیمبر کے رہ گزید کہ ہرگز منزل نہ خواہد رسید اور قیامت کے دن تمام اولین اور آخرین آپ ﷺ کا وسیلہ پکڑیں گے اور آپ ﷺ کی شفاعت کے وسیلہ سے اہل محشر کو انتظار کی تکلیف سے رہائی ہوگی۔ خلاصہ کلام : یہ کہ اس آیت کی تفسیر میں یہ دو قول ہیں جن کو امام نحوزجاج (رح) نے ذکر کیا اور دونوں قول ہم نے تشریح کے ساتھ ناظرین کے سامنے پیش کر دئیے ہیں تفصیل کیلئے روح المعانی کی مراجت کریں امام رازی (رح) نے تفسیر کبیر میں پہلے قول کو اختیار کیا حضرات اہل علم تفسیر کشاف اور تفسیر کبیر کی مراجعت فرمائیں۔ ترہیب کفار از قہر خداوند قہار گزشتہ آیت میں ان عذاب ربک کان مخذورا : میں اس بات کا ذکر تھا کہ عذاب خداوندی اسی بات کے لائق ہے کہ اس سے ڈرا جائے اب آگے اس عذاب کے وقوع کو بیان فرماتے ہیں کہ وہ ضرورت آکر رہے گا۔ چناچہ فرماتے ہیں اور کفار کی کوئی بستی ایسی نہیں جسے ہم قیامت سے پہلے ہلاک اور برباد نہ کریں یا قیامت سے پہلے اسے کسی سخت عذاب کا مزہ چکھا دیں یہ بات لوح محفوظ میں لکھی ہوتی ہے ضرور ظاہر ہو کر رہے گی خدا تعالیٰ کا یہ حتمی اور اٹل فیصلہ ہے جو ٹل نہیں سکتا ہے۔ فرمائشی معجزات کے اظہار سے انکار کفار مکہ آنحضرت ﷺ سے کہا کرتے تھے کہ اگر آپ ﷺ واقعی نبی ہیں تو آپ ہمارے لیے کوہ صفا کو سونے اور چاندی کا بنا دیں اور کہتے کہ پہلے پیغمبروں جیسے معجزات دکھائیے جیسا کہ حق تعالیٰ نے دوسری جگہ ان کا قول نقل کیا ہے۔ فلیاتنا بایۃ کما ارسل الاولون۔ یعنی عصائے موسیٰ (علیہ السلام) اور ناقہ صالح (علیہ السلام) وغیرہ۔ اس قسم کا معجزہ آپ ﷺ کیوں نہیں دکھاتے ان کے اس بےہودہ سوال کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی اور ہم کو اس قسم کے خاص فرمائشی معجزات کے بھیجنے میں کوئی شئے مانع نہیں مگر صرف یہ امر مانع ہے کہ پہلے لوگ بھی اس قسم کے فرمائشی معجزات دئیے جانے کے بعد ان کی تکذیب کرچکے ہیں اور ان کی اور انکی طبیعتیں ملتی جلتی ہیں۔ تشابھت قلوبھم : ان کی طرح یہ بھی تکذیب کریں گے اور ان کی طرح مستحق ہلاکت ہوں گے اور یہ ہمیں ابھی منظور نہیں اور نمونہ کے طور پر ایک قصہ بھی سن لو کہ ہم نے قوم ثمور کو ان کی فرمائش کے مطابق اونٹنی دی جو کھلا اور روشن معجزہ تھی۔ جسے دیکھ کر آنکھیں کھل جائیں صاف اور روشن نشانی تھی جس میں سحر کا شائبہ اور واہمہ بھی نہ تھا اس لائق تھی کہ اس کی بصارت سے بصیرت حاصل کرتے اور ناقہ اور ثمود کی مثال اس لئے دی کہ قوم ثمود کے کھنڈرات بلاد عرب سے قریب تھے اور ان کی ہلاکت اور عذاب کے نشانات کو اہل عرب دیکھتے تھے پس انہوں نے اس پر ظلم کیا یعنی اس کو نہ مانا اور ذبح کر ڈالا اور اس ظلم و ستم کی وجہ سے تباہ و برباد ہوئے۔ پس اگر ہم اہل مکہ کو ان کی فرمائش کے مطابق معجزہ عطا کردیں تو یہ بھی ویسے ہی ضدی اور عنادی ہیں۔ معجزہ دیکھ کر بھی ایمان نہیں لائیں گے اور اس کی سزا میں ہلاک ہوں گے مگر ہم کو ان کا ہلاک کرنا منظور نہیں ہماری بارگاہ میں یہ طے ہوچکا ہے کہ یہ امت پہلی امتوں کی طرح ہلاک نہ ہوگی۔ آئندہ چل کر خود ان میں سے بعض کامل مسلمان ہوں گے اور خدا کی راہ میں جہاد کریں گے اور ان کی اولاد بھی مسلمان ہوگی جو اس دین کی مدد کرے گی اس آخری امت کے متعلق اللہ کا ارادہ نہیں کہ پہلی امتوں کی طرح اس امت کو بالکیہ تباہ کردیا جائے بلکہ اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ یہ امت محمدیہ قیامت تک باقی رہے اور اس امت کو مہلت ملنا یہ آنحضرت ﷺ کی کرامت اور برکت ہے اور ہم جو نشانیاں بھیجتے ہیں وہ صرف ڈرانے کے لیے بھیجتے ہیں کہ ان نشانیوں کو دیکھ کر عبرت پکڑیں اور خدا کی نافرمانی اور خدا کے عذاب سے ڈر جائیں اور کچھ سوچیں سمجھیں پھر اگر معجزہ ظاہر ہونے کے بعد وہ کفر پر قائم رہیں تو نیست و نابود ہوجائیں۔ جیسے قوم عاد اور قوم ثمود کے ساتھ ہوا کہ اول ڈرانے کے لیے ان کو کچھ نشانیاں دکھلا دی گئیں پھر بھی جب ایمان نہ لائے تو نیست و نابود کر دئیے گئے لیکن اس آخری امت کے حق میں حکمت الٰہیہ یہ ہے کہ اس امت کو پہلی امتوں کی طرح تباہ اور برباد نہ کیا جائے گا اس لئے فرمائشی نشانات کا بھیجنا موقوف کیا گیا جمہور مفسرین اس طرف گئے ہیں کہ پہلی آیت میں یعنی وما منعنا ان نرسل بالایت : میں الف لام عہد کا ہے اور اس سے وہی مخصوص اور معہود معجزات مراد ہیں جن کا مشرکین آپ ﷺ سے سوال کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کے فرمائشی معجزات کے ظاہر کرنے سے انکار کردیا کہ ہم کو اہل مکہ کا ہلاک کرنا منظور نہیں اس لیے ان کی فرمائشیں اور خواہشیں پوری نہیں کی جائیں گی اس بارے میں مفسرین کا کوئی اختلاف نہیں اور دوسری آیت وما نرسل بالایت : میں مفسرین کی ایک جماعت یہ کہتی ہے کہ اس آیت میں بھی وہی آیات مخصوصہ مراد ہیں جن کا مشرکین مکہ سوال کرتے تھے اور بعض مفسرین کہتے ہیں کہ اس دوسری آیت وما نرسل بالایت میں مطلق نشانیاں مراد ہیں خواہ فرمائشی جیسے زلزلہ اور طاعون اور طوفان اور چاند اور سورج کا گہن ہونا وغیرہ وغیرہ۔ اور مطلب یہ ہے کہ ہم لوگوں کے ڈرانے کے لئے نشانیاں بھجتے ہیں اور طرح طرح سے اپنی قدرت کے نشان ظاہر کرتے ہیں تاکہ لوگ عبرت پکڑیں اور اللہ کے قہر سے ڈریں۔ پس اگر ڈریں تو نجات پاجائیں ورنہ پھر دو صورتیں ہوں گی ایک یہ کہ وہ آیات اور نشانات ان کی فرمائش کے مطابق ظاہر کیے گئے تھے تو دنیا ہی میں عذاب استیصال میں مبتلا ہو کر سب ہلاک ہوجاتے ہیں اور اگر وہ نشانات و آیات۔ آیات مقترحات نہ ہوں یعنی ان کے فرمائشی نشان نہ ہو تو پھر ایمان نہ لانے کی صورت میں ان کو اس زندگی میں مہلت مل جاتی ہے اور عذاب آخرت میں ماخوذ ہوتے ہیں۔ خلاصہ کلام : یہ کہ اگر آیت وما نرسل بالایت الا تخویفا میں آیات مقترحہ یعنی فرمائشی نشان مراد ہوں تو تحریف سے عذاب استیصال سے ڈرانا مراد ہوگا کہ جس سے بالکلیہ تباہی اور بربادی ہوجائے اور اگر آیات سے آیات غیر مقترحہ یعنی غیر فرمائشی مراد ہیں جیسے زلزلہ اور طوفان تو پھر تخویف سے عذاب آخرت سے ڈرانا مراد ہوگا۔ (سراج منیر ص 258۔ روح المعانی ص 67 ج 5۔ روح البیان ص 177 جلد 5) یہاں تک مشرکین کی جرأت اور طعن کو بیان کیا کہ وہ یہ کہتے تھے کہ اگر آپ سچے رسول ہیں تو ہماری فرمائش کے مطابق معجزات لائیے جو ہم نے آپ سے مانگے ہیں اور اس طعن کا جواب دے دیا گیا اب آئندہ آیت میں آنحضرت ﷺ کی تسلی فرماتے ہیں کہ آپ ان کے معاندانہ سوالات اور ظالمانہ ظلم وستم سے رنجیدہ نہ ہوں اور اے نبی ﷺ آپ اس وقت کو یاد کریں کہ جب ہم نے آپ سے یہ کہہ دیا تھا کہ تیرا پروردگار سب لوگوں کو اپنے احاطہ اور گھیرے میں لئے ہوئے ہے سب اس کے قبضہ قدرت میں ہے اللہ تیرا محافظ اور نگہبان ہے یہ تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ لہٰذا تو ان سے نہ ڈر اور ان کی پرواہ نہ کر اور تبلیغ و رسالت کا کام کئے جا اللہ تیرا حافظ و ناصر اور معین و مددگار ہے۔ چناچہ اب تک باوجود سخت عداوت کے کوئی کافر تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ یہ غیبی حفاظت تیری تصدیق نبوت کے لیے کافی ہے کسی فرمائشی معجزہ کی ضرورت نہیں اور یہ کافر تو صدہا معجزات دیکھ چکے ہیں۔ یہی کیا کم ہے کہ باوجود ان کی شدید مخالفت کے اور باوجود آپ ﷺ کی بےسروسامانی کے آپ ﷺ کو ایذاء پہنچانے پر قادر نہیں اگر اللہ تیرا مددگار نہ ہوتا تو تو ان میں ایک دن بھی نہ وہ سکتا اور بلحاظ اپنی قوت و شوکت اور اسباب ظاہری کے وہ ضرور اپنے ارادہ میں کامیاب ہوجائے۔ خلاصہ کلام : یہ کہ آپ ﷺ ان کی ایذاء اور طعن وتشنیع کی پرواہ نہ کیجئے اللہ تعالیٰ آپ کو قوت و نصرت دے گا اور یہ سب ذلیل و غوار اور مقتول و مقہور ہوں گے کما قال اللہ تعالیٰ واللہ یعصمک من الناس۔ سیھزم الجمع ویولون الدبر : چناچہ آپ ﷺ شباشب مکہ سے بہت المقدس پہنچے اور صبح کو صحیح سالم پھر مکہ واپس آگئے یہ واقعہ بھی حفاظت غیبی کا ایک کرشمہ تھا اور لوگوں کے لئے فتنہ اور آزمائش تھا جیسا کہ آئندہ آیت میں ذکر فرماتے ہیں۔ اور نہیں بنایا ہم نے اس دکھاوے اور نظارہ کو جو ہم نے تجھ کو شب معراج میں دکھلایا مگر لوگوں کی آزمائش اور امتحان کے لئے یعنی شب معراج میں ہم نے آپ ﷺ کو آیات قدرت کا نظارہ اور مشاہدہ کرایا جن کا لنریہ من ایتنا میں ذکر ہے اور جن عجائب ملکوت کو ہم نے آپ ﷺ کو بحالت بیداری اسی چشم سر کے ساتھ دکھلایا وہ آپ کے لیے کرامت عظیمہ ہے مگر اور لوگوں کے لیے فتنہ یعنی آزمائش اور امتحان تھی کہ دیکھیں کون مانتا ہے اور کون نہیں مانتا۔ جاننا چاہئے کہ اس آیت میں رؤیا (دکھاوے) سے شب معراج میں آیات کبریٰ کا بحالت بیداری اس چشم سر کے ساتھ دکھاوا اور نظارہ مراد ہے خواب کا دکھاوا مراد نہیں۔ جیسا کہ شروع سورت میں دلائل اور براہین سے اس بات کو واضح کیا جا چکا ہے کہ مشاہدہ معراج ازاول تا آخر اسی جسم اطہر کے ساتھ بحالت بیداری تھا معاذ اللہ خواب نہ تھا جو لوگ معراج جسمانی کے منکر اور اس کو خواب قرار دیتے ہیں ان کی گمراہی کا باعث یہ آیت بھی ہوتی ہے وہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں لفظ رؤیا واقع ہوا ہے جس کے معنی خواب کے ہیں مگر یہ ان کی گمراہی ہے۔ صحیح بخاری میں صراحۃً عبد اللہ بن عباس ؓ سے منقول ہے کہ وہ اس آیت کی تفسیر اس طرح فرماتے ہیں کہ آیت میں رؤیا سے رؤیا عین مراد ہے یعنی دکھاوے سے بحالت بیداری آنکھ کا دکھاوا مراد ہے جو شب معراج میں آپ ﷺ کو دکھایا گیا۔ خواب کا دکھاوا مراد نہیں اور لفظ رؤیا لغت عرب میں خواب کے لیے مخصوص نہیں بلکہ جس طرح یہ لفظ خواب کے دیکھنے کے لیے آتا ہے اسی طرح عالم بیداری میں دیکھنے کے لئے آتا ہے اور یہی تفسیر لفظ رؤیا کی سعید بن جبیر، ابراہیم نخعی، حسن بصری، مسروق، قتادہ، مجاہد عکرمہ۔ ابن جریج۔ عبد الرحمن بن زید وغیرہ اکابر تابعین رحم اللہ نے کی ہے (دیکھو تفسیر قرطبی و تفسیر ابن کثیر) امام رازی (رح) فرماتے ہیں کہ لغت کے اعتبار سے رؤیت اور رؤیا میں کوئی فرق نہیں دونوں کے معنی دیکھنے کے ہیں کہا جاتا ہے رایتہ، یعنی رؤیتہ ورؤیا یعنی میں نے اپنی آنکھ سے دیکھا۔ رؤیا رؤیت دونوں آنکھ کے دیکھنے میں مستعمل ہوتے ہیں (دیکھو تفسیر کبیر ص 425 جلد 5) قال ابن الانباری المختار فی ھذہ الرؤیۃ ان تکون یقظۃ ولا فرق بین ان یقول القائل رأیت فلانا رؤیتہ ورایتہ رؤیا الا ان الرویۃ یقل استعمالہا فی المنام والرؤیا بکثر استعمالہا فی المنام ویجوز کل واحد منھما فی المعنیین۔ (زاد المسیر لابن الجوزی ص 53 جلد 5) امام ابن انباری (رح) فرماتے ہیں کہ مختار اور صحیح قول یہی ہے کہ رؤیا سے بحالت بیداری دیکھنا مراد ہے اس لیے کہ کلام عرب میں راتیہ رؤیتہ اور رایت رؤیا دونوں کے معنی یہ ہیں کہ میں نے فلانے کو دیکھا رأیت کے بعد رؤیت کا لفظ کہو یا رؤیا کا لفظ کہو دونوں میں کوئی فرق نہیں صرف فرق اتنا ہے کہ رؤیت کا استعمال خواب کے دیکھنے میں کم ہے اور رؤیا کا استعمال خواب کے دیکھنے میں زیادہ ہوتا ہے۔ حافظ عسقلانی (رح) فرماتے ہیں کہ رؤیا کا استعمال بحالت بیداری دیکھنے میں بھی آتا ہے جیسا کہ متنبی کا قول ہے ع ورؤیاک اعلیٰ فی العیون من المحمض، (فتح الباری ص 302 جلد 8 کتاب التفسیر) نکتہ : واقعہ معراج بلاشبہ مشاہدہ بیداری تھا مگر زیادہ تر اس کا تعلق دوسرے عالم سے تھا جیسے خواب کا تعلق دوسرے عالم سے ہوتا ہے تو عجب نہیں کہ اس مناسبت سے اس مشاہدہ عینی اور نظارہ بیداری کو لفظ رؤیا سے تعبیر کیا گیوا ہو واللہ اعلم وعلمہ اتم واحکم۔ علاوہ ازیں کہ واقعہ معران اگر خواب ہو تو پھر وہ لوگوں کے لیے کسی طرح فتنہ اور آزمائش نہیں ہوسکتا دنیا میں کوئی بےعقوف سے بیوقوف بھی ایسا نہیں جو خواب کو جھٹلائے البتہ ظاہری آنکھوں سے دیکھنے کا دعویٰ ضرور فتنہ اور ذریعہ آزمائش ہے جب آنحضرت ﷺ نے لوگوں سے بیان کیا کہ میں اس شب میں بیت المقدس دیکھ کر آیا ہوں تو لوگوں نے اس کو مستبعد اور محال جان کر اس کو نہ مانا اور آپ کو جھٹلایا اور مومنین اور مخلصین نے اس کی تصدیق کی۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس معراج جسمانی اور اسی شب کے نظار ہائے بیداری کو لوگوں کی آزمائش اور امتحان کا ذریعہ بنایا اگر خواب کا واقعہ ہوتا تو کوئی تکذیب نہ کرتا۔ خواب میں تو ابوجہل اور ابولہب بھی بیت المقدس ہو کر آسکتے ہیں اس رؤیت کو اللہ تعالیٰ نے فتنہ (آزمائش) قرار دیا ہے اور ظاہر ہے کہ خواب کا واقعہ تو فتنہ (آزمائش) نہیں ہوسکتا ہے۔ فتنہ اور آزمائش تو کوئی عجیب و غریب چیز ہی ہوسکتی ہے بحالت خواب آسمانوں کی سیر نہ کوئی معجزہ ہے اور نہ کوئی عجیب و غریب چیز ہے جسے فتنہ کہا جاسکے۔ کافر کو بھی خواب میں آسمانوں کی سیر حاصل ہوسکتی ہے اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ اس آیت کو واقعہ معراج سے کوئی تعلق نہیں۔ اس آیت میں رؤیا سے دو خوان مراد ہے جو آنحضرت ﷺ نے حدیبیہ کے سال دیکھا تھا کہ آپ ﷺ مع اصحاب کے مدینہ طیبہ سے مکہ معظمہ تشریف لے گئے اور آپ ﷺ نے اور آپ کے اصحاب نے عمرہ کیا اس خواب کے بعد آپ ﷺ عمرہ کے ارادہ سے مکہ معظمہ روانہ ہوئے تو مشرکین مکہ نے آپ ﷺ کو روکا اور آپ ﷺ ان سے صلح کرکے بغیر عمرہ کے مدینہ واپس آگئے۔ منافقین نے طعن کیا کہ یہ خواب تو سجا نہ ہوا اور نتقاضائے شریعت بعض مسلمانوں کے دلوں میں یہی خطرے گزرے اور یہ خواب لوگوں کے حق میں موجب فتنہ اور امتحان بن گیا۔ اللہ تعالیٰ نے بتلا دیا کہ جو خواب اللہ نے آپ ﷺ کو دکھلایا وہ حق ہے اس خواب کی تعبیر آئندہ سال ظاہر ہوگی۔ خواب مطلق تھا اس میں کسی وقت کی تعیین نہ تھی۔ اس خواب میں مسجد حرام میں داخل ہونے کا وقت نہیں بتلایا گیا۔ آنحضرت ﷺ نے بیت اللہ کے شوق میں اسی سال ارادہ فرما لیا مگر مشیت ایزدی میں اس سال اس خواب کا پورا ہونا مقدر نہ تھا بلکہ اگلے سال پر موقوف تھا۔ چناچہ اگلے سال اس خواب کی تعبیر پوری ہوئی اور آپ ﷺ نے مع اصحاب کے بغایت اطمینان عمرہ ادا فرمایا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی لقد صدق اللہ رسولہ الرؤیا بالحق۔ امام قرطبی (رح) فرماتے ہیں کہ آیت کی یہ تاویل اور تفسیر ضعیف ہے کیونکہ یہ سورت مکی ہے مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی اور حدیبیہ کے خواب کا واقعہ مدینہ منورہ کا ہے۔ (تفسیر قرطبی ص 282 جلد 2) اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ اس رؤیا سے وہ خواب مراد ہے جو آپ ﷺ نے بدر میں جانے سے پہلے دیکھا کہ مسلمان اور کافروں میں لڑائی ہوئی اور کفار مغلوب ہوئے جب کافروں نے یہ خواب سنا تو انہوں نے اس کی ہنسی اڑائی اور خوب قہق ہے لگائے۔ لہٰذا ممکن ہے کہ آیت میں لفظ رؤیا سے ان میں سے کسی خواب کی طرف اشارہ ہو پس اس آیت سے اس امر پر استدلال کرنا کہ واقعہ معراج خواب تھا کسی طرح صحیح نہیں اس کا منشاء بجز الحاء اور زندقہ کے کچھ نہیں احادیث صحیحہ اور متواترہ سے یہ امر روز روشن کی طرح واضح ہے کہ یہ واقعہ معراج اول تا آخر بحالت بیداری اسی جسم اطہر کے ساتھ تھا۔ اور علیٰ ھذا ہم نے اس ملعون درخت کو بھی لوگوں کی آزمائش کا ذریعہ بنایا جس پر قرآن میں لغت کی گئی ہے وہ درخت زقوم کا ہے جب یہ آیت ان شجرۃ الزقوم طعام الاثیم : نازل ہوئی۔ اور یہ آیت نازل ہوئی انھا شجر تخرج فی اصل الجحیم : یعنی زقوم کا درخت جہنم کی جڑ میں نکلتا ہے تو ابو جہل بولا کہ محمد ﷺ تو تم کو ایسی آگ سے ڈراتا ہے جو پتھر تک چلا دیتی ہے۔ اور پھر یہ کہتا ہے کہ اس آگ میں ایک درخت اگتا ہے حالانکہ تم جانتے ہو کہ آگ درخت کو جلا دیتی ہے۔ یہ محمد ﷺ کی گھڑت نہیں تو اور کیا ہے مطلب آیت کا یہ ہے کہ ہم نے اس شجرہ ملعونہ یعنی زقوم کو آگ میں اس لیے پیدا کیا ہے کہ لوگوں کے لیے فتنہ اور آزمائش کا ذریعہ بنے اور اہل ایمان نے صدق دل سے اس کی تصدیق کی اور اس کا یقین کیا کہ اللہ کی قدرت کی کوئی حدود نہایت نہیں وہ جہاں چاہے درخت پیدا کرسکتا ہے اور ظالموں کے لیے یہ درخت فتنہ بن گیا ان ظالموں نے قادر مطلق کی قدرت کا اندازہ نہ کیا وما قدرو اللہ حق قدرہ اس لئے ظالموں نے اس کو خلاف نیچر سمجھ کر اسکا انکار کردیا۔ انا جعلناھا فتنہ للظالمین : کا مطلب یہ ہے اور اس درخت کے ملعون ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے کھانے والے ملعون ہوں گے یہ درخت جہنم میں ملعونین یعنی کفار اور مشرکین کی غذا ہوگا۔ اصل ملعون اس کے کھانے والے ہوں گے اور اس درخت کو مجازا معلون کہہ دیا گیا۔ بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ عرب میں ہر مضر اور مکروہ طعام کو ملعون کہتے ہیں۔ رہا کافروں کا یہ اعتراض کہ آگ میں ہرا اور سرسبز درخت کیونکر اگ سکتا ہے یہ ان کی جہالت اور حماقت کی دلیل ہے۔ نادان اتنا نہیں سمجھتے کہ خدا تعالیٰ قادر مطلق ہے آگ کا درخت کو نہ جلانا اور اس درخت کا آگ سے پرورش پانا عقلا محال نہیں بلاد ترک میں ایک جانور ” سمندل “ ہوتا ہے اس کی کھال کو ٹوپیاں اور رومال بنتے ہیں جب یہ رومال میلے ہوجاتے ہیں تو آگ میں ڈال دیئے جاتے ہیں۔ آگ ان کے میل کو جلا کر انہیں نکھار دیتی ہے اور ان میں اثر نہیں کرتی۔ شتر مرغ آگ کے انگارے کے انگارے نگل جاتا ہے اور اس سے اس کو کچھ نقصان نہیں ہوتا۔ نیز ہرے درخت سے آگ نکلتی ہے اور وہ آگ اس درخت کو نہیں جلاتی۔ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے وجعل لکم من الشجر الاخضر نارا یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے تمہاے فائدہ کے لیے سبز درخت سے آگ نکالی تاکہ تم آگ سے فائدہ اٹھاؤ مگر جو آگ اس سبز درخت سے نکلتی ہے اس سے وہ سبز درخت نہیں جلتا۔ پس ان نادانوں نے یہ نہ سوچا کہ جو خدا درخت میں آگ و دیعت رکھ سکتا ہے وہ آگ میں درخت کو اگا بھی سکتا ہے آگ کا کیڑا ہمیشہ آگ ہی میں رہتا ہے مگر آگ اس کو نہیں جلاتی۔ اس زمانے میں بہتیرے درخت ایسے معلوم اور منکشف ہوتے ہیں جو بجائے پانی کے آگ سے نشوونما پاتے ہیں۔ اور ان آیات مذکورہ اور نشانات مسطورہ کے علاوہ بھی ہم ان کو طرح طرح سے عذاب الٰہی سے ڈراتے ہیں سو وہ ڈرانا ان کے حق میں سوائے سخت تمرد اور سرکشی کے کسی بات کو زیادہ نہیں کرتا ایسے ملعون ہیں کہ شجرہ ملعونہ سے نہیں ڈرتے جتنا انہیں عذاب سے ڈراؤ اتنا ہی اور زیادہ تمرد اور سرکشی اختیار کرتے ہیں۔
Top