Maarif-ul-Quran - Al-Israa : 49
وَ قَالُوْۤا ءَاِذَا كُنَّا عِظَامًا وَّ رُفَاتًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ خَلْقًا جَدِیْدًا
وَقَالُوْٓا : اور وہ کہتے ہیں ءَاِذَا : کیا۔ جب كُنَّا : ہم ہوگئے عِظَامًا : ہڈیاں وَّرُفَاتًا : اور ریزہ ریزہ ءَاِنَّا : کیا ہم یقینا لَمَبْعُوْثُوْنَ : پھر جی اٹھیں گے خَلْقًا : پیدائش جَدِيْدًا : نئی
اور کہتے ہیں کہ جب ہم (مر کر بوسیدہ) ہڈیاں اور چور چور ہوجائیں گے تو کیا از سرِ نو پیدا ہو کر اٹھیں گے۔
اثبات معاد قال اللہ تعالیٰ وقالوا ءاذا کنا عظاما ورفاتا .... الیٰ .... ان لبثتم الا قلیلا۔ (ربط) گزشتہ آیات میں الہٰیات اور نبوات کے متعلق کلام فرمایا اب ان آیات میں منکرین قیامت کا ایک شبہ نقل کرکے اس کا جواب دیتے ہیں منکرین قیامت یہ کہا کرتے تھے کہ جب آدمی مرجائے گا اور گوشت پوست اس کا گل سڑ کر ریزہ ریزہ ہوجائے گا تو پھر وہ کیسے زندہ ہوگا اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ یہ نوبت آسان ہے جس خدا نے تم کو پہلی مرتبہ پیدا کیا اس خدا کو تمہارا دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہے۔ مرنے کے بعد تمہارے اجزاء خواہ ہوا میں اڑ جائیں یا آگ میں جل جائیں یا مٹی میں مل جائیں اللہ تعالیٰ کے خزانہ علم اور احاطہ قدرت سے باہر نہیں جاسکتے جس قادر مطلق نے پہلی مرتبہ تمہارے بدن کے اجزاء منفرد کو جمع نطفہ سے تمہارا پتلہ تیار کیا وہ دوبارہ ان اجزاء منفرد کو جمع کرکے تمہارا پتلا تیار کرنے پر قادر ہے۔ قطرہ کو در ہوا شدیا کہ ریخت از خزینہ قدرت تو کے گریخت اور جب وہ اس دلیل قطعی سے لاجواب ہوتے ہیں تو سرہلا کر پوچھتے ہیں متی ھو اچھا پھر وہ قیامت کب آئے گی اس کا جواب یوں دیا گیا کہ عنقریب آنے والی ہے مگر اس کے آنے کا وقت نہیں بتایا گیا۔ چناچہ فرماتے ہیں اور جس طرح یہ لوگ قرآن اور نبی سے نفور اور بیزار ہیں اور اس کا تمسخر کرتے ہیں اسی طرح یہ لوگ آخرت کے بھی منکر ہیں اور بطور استہزاء و تمسخر یہ کہتے ہیں کہ بھلا جب ہم مرنے کے بعد ہڈیاں اور چورا چورا ہوجائیں گے تو کیا ہم نئی پیدائش سے دوبارہ زندہ کیے جائیں گے مطلب یہ ہے کہ اس منکر کا یہ کہنا کہ مرنے پیچھے زندہ ہوگا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ شخص مسحور ہے اس پر کسی نے جادو کردیا ہے جس سے اس کی عقل جاتی رہی اے نبی آپ ان سے کہہ دیجئے کہ تم ہڈیوں کی دوبارہ زندگی کو بعید از عقل سمجھتے ہو اچھا تم سختی میں پتھر اور قوت اور وزن میں لوہا بن جاؤ جن میں حیات کے قبول کرنے کی صلاحیت ہی نہیں یا کوئی اور مخلوق ہوجاؤ جو تم کو ہاتھ کے دبانے سے بڑی معلوم ہو تب بھی تم ضرور زندہ کیے جاؤ گے مطلب یہ ہے کہ تم ہڈیوں کو دوبارہ جوڑنے اور زندہ کرنے کو بعید از عقل سمجھتے ہو حالانکہ وہ ایک عرصہ دراز تک محل حیات رہ چکی ہیں۔ پس اگر بالفرض تم پتھر یا لوہا وغیرہ جن کو دنیا میں روح اور حیات سے تعلق نہیں اگر ہوسکتے ہو تو ہوجاؤ تب بھی اللہ تعالیٰ تم کو دوبارہ زندہ کرے گا جس خدا نے پہلی بار ہڈیوں میں حیات پیدا کی اسے ان میں دوبارہ حیات پیدا کرنا کیا مشکل ہے تم جو چاہو ہوجاؤ ضرور دوبارہ زندہ کیے جاؤ گے۔ پس قریب ہے کہ یہ سن کر وہ یہ کہیں گے کہ مرنے کے بعد ہم کو دوبارہ کون پیدا کرے گا آپ ﷺ جواب میں کہہ دیجئے وہی جس نے پہلی بار تم کو پیدا کیا تھا وہ تمہارے دوبارہ پیدا کرنے سے عاجز نہیں ہوا اس کی قدرت کاملہ جیسے پہلے تھی ویسی ہی اب بھی ہے۔ اور تمہاری فطرت اور قابلیت اور صلاحیت بھی ویسی جیسے پہلی تھی۔ اللہ کی قدرت کے اعتبار سے گوشت اور پوست اور لوہا اور پتھر اور ماضی اور حال اور استقبال سب برابر ہیں پس اس پر یہ لوگ استہزاء اور تمسخر سے تیری طرف اپنے سر مٹکائیں گے اور سر ہلا ہلا کر کہیں گے کہ اچھا یہ بتائیے کہ یہ دوبارہ زندہ ہونا کب ہوگا آپ کہہ دیجئے کہ شاید وہ قریب ہی ہو اس کو دور نہ سمجھو دنیا بھی چند روزہ ہے اور تمہاری زندگی بھی چند روزہ ہے جب انسان مرگیا تو اس کی قیامت تو آگئی اور اس نے اپنی قیامت اپنی آنکھوں سے دیکھ لی خوب سمجھ لو کہ جو چیز آنے والی ہے وہ قریب ہے پہلے ہی سے اس کی فکر کرلو اور یہ واقعہ اس روز ہوگا جس دن اللہ تعالیٰ تم کو تمہاری قبروں میں سے زندہ کرکے نکالے گا اور میدان حشر کی طرف تم کو پکارے گا اور بلائے گا تو تم اس آواز کو سنتے ہی اضطراری طور پر خدا کی حمدوثنا کرتے ہوئے میدان حشر میں جمع ہوجاؤ گے کسی کو سرتابی کی مجال نہ ہوگی اور جس چیز کو اس وقت محال بتا رہے ہو اس وقت اس کا آنکھوں سے مشاہدہ کرلو گے۔ سعید بن جبیر (رح) کہتے ہیں کہ لوگ قبروں سے سبحانک اللہم وبحمدک کہتے ہوئے نکلیں گے مگر کافر کو اس حمد وثناء سے کوئی فائدہ نہ ہوگا اس لیے اس کا یہ کہنا اضطراری طور پر جبرا و قہرا ہوگا اور گمان کرو گے کہ ہم نہیں ٹھہرے دنیا میں یا قبر میں مگر بہت تھوڑا اور حیران اور پریشان ہو کر باہم گفتگو کریں گے کہ ہم دنیا میں کس قدر ٹھہرے یقسم المجرمون مالبثوا غیر ساعۃ مجرمین قسم کھا کر کہیں گے کہ ہم ایک ساعت سے زیادہ نہیں ٹھہرے پس عقلمند کو چاہئے کہ اس تھوڑی سی زندگی کو اس دائمی زندگی کے لیے صرف کرے تاکہ اس دن حسرت اور ندامت کی ذلت میں مبتلا نہ ہو۔ بدنیا توانی کہ عقبی خری بخرجان من ورنہ حسرت بری کسے گوئے دولت زدنیا سپرد کہ باخود نصیبے بہ عقبی سپرد
Top