Maarif-ul-Quran - Al-Hijr : 78
وَ اِنْ كَانَ اَصْحٰبُ الْاَیْكَةِ لَظٰلِمِیْنَۙ
وَاِنْ : اور تحقیق كَانَ : تھے اَصْحٰبُ الْاَيْكَةِ : ایکہ (بن) والے (قوم شعیب) لَظٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور بن کے رہنے والے (یعنی قوم شعیب کے لوگ) بھی گنہگار تھے۔
قصہ اصحاب ایکہ واصحاب حجر قال اللہ تعالیٰ : وان کان اصحب الایکۃ لظلمین .... الیٰ .... فما اغنی عنھم ما کانوا یکسبون۔ (ربط) اوپر کی آیتوں میں قوم لوط پر عذاب نازل ہونے کا ذکر تھا اب اصحاب ایکہ اور اصحاب حجر کے عذاب کا ذکر کرتے ہیں مقصود سب سے تحقیق رسالت ہے کہ جو نبی کو نہ مانے وہ مستحق عذاب ہے۔ ” ایکہ “ اس بستی کا نام ہے جہاں شعیب (علیہ السلام) پہنچ گئے تھے۔ اصل میں یہ شہر مدین کا ایک مقام ہے چونکہ یہاں درخت زیادہ تھے اس لئے اس کو ایکہ فرمایا۔ ایکہ عرب میں درختوں کے بن کو کہتے ہیں اور ” حجر “ اس وادی کو کہتے ہیں جو شام اور عرب کے درمیان واقع ہے اور اصحاب حجر سے حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم مراد ہے جو بہت بدکار تھی اور پہاڑوں کو تراش کر مکانات بناتی تھی ان ہی کو صالح (علیہ السلام) نے ناقہ کا معجزہ دکھایا تھا اس پر بھی عناد سے باز نہ آئے بالآخر ہلاک ہوئے قوم لوط کی ہلاکت کے بعد اب مختصراً ان دو قصوں کو بیان فرماتے ہیں۔ قصہ اصحاب ایکہ : اور تحقیق تھے اصحاب ایکہ یعنی بن والے لوگ (اس سے شعیب (علیہ السلام) کی قوم مراد ہے) بڑے ہی ظالم جنہوں نے شعیب (علیہ السلام) کی تکذیب کی سو ہم نے عذاب نازل کرکے ان سے اس تکذیب کا انتقام لے لیا اور بیشک یہ دونوں بستیاں یعنی قوم لوط کی بستی دونوں کشادہ اور چلتی سڑک پر واقع ہیں جن کو لوگ آتے جاتے دیکھتے ہیں گزرنے والوں کے لیے عبرت کے نشانات موجود ہیں قصہ اصحاب حجر : اور البتہ تکذیب کی حجر والوں نے یعنی قوم ثمود نے رسولوں کی۔ یعنی صالح (علیہ السلام) کی ” حجر “ مدینہ اور شام کے درمیان ایک میدان ہے جہاں قوم ثمود آباد تھی۔ اس قوم نے صرف صالح (علیہ السلام) کو جھٹلایا تھا۔ مگر چونکہ ایک نبی کا جھٹلانا حقیقت میں سب نبیوں کا جھٹلانا ہے اس لیے فرمایا کہ حجر والوں نے سب رسولوں کو جھٹلایا اور ہم نے ان کو اپنی نشانیاں دیں۔ جن سے اللہ کی وحدانیت اور حضرت صالح (علیہ السلام) کی نبوت ثابت ہوتی تھی۔ منجملہ ان معجزات کے ایک معجزہ ناقہ کا تھا۔ سو وہ لوگ ان نشانیوں سے منہ پھیر لیتے تھے۔ یعنی ان کی طرف التفات نہیں کرتے تھے۔ اور یہ لوگ پہاڑوں کو تراش کر مکان بناتے تھے درآں حالیکہ وہ اپنے گمان میں بہت عمدہ مکانوں کی وجہ سے مامون اور بےخوف و خطر تھے۔ ان لوگوں کو یہ اندیشہ نہ تھا کہ ہمارے مکان منہدم ہوجائیں گے۔ یا کوئی چوران میں نقب لگا سکے گا۔ مگر یہ نہ سمجھا کہ کوئی قلعہ اور کوئی مکان عذاب الٰہی سے امن وامان نہیں دے سکتا۔ پس اسی خواب خرگوش میں تھے کہ صبح ہوتے ہی عذاب الٰہی کی ایک سخت اور تند آواز نے آپکڑا۔ اور اس طویل خواب غفلت سے ان کو بیدار کردیا۔ پس عذاب کے دفع کرنے میں کچھ کام نہ آیا جو وہ کماتے تھے۔ یعنی مال و دولت اور سازو سامان اور پہاڑوں کے مکان اور عیش و عشرت کے سامان جن پر وہ مغرور تھے کوئی کام نہ آیا سب دھرا رہ گیا اور جب آنکھ کھلی تو تدارک ممکن نہ تھا۔ دیکھتے ہی رہ گئے کہ دم کے دم میں کیا ہوگیا۔ گرفتاری کا وارنٹ اسی طرح جاری ہوتا ہے اور پولیس اخیر رات میں آکر چھاپہ مارتی ہے اور پکڑ کرلے جاتی ہے۔
Top