Maarif-ul-Quran - Al-Hijr : 45
اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍؕ
اِنَّ : بیشک الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار فِيْ : میں جَنّٰتٍ : باغات وَّعُيُوْنٍ : اور چشمے
جو متقی ہیں وہ باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔
ذکر نعمائے اہل جنت قال اللہ تعالیٰ : ان المتقین فی جنت وعیون .... الیٰ .... وان عذابی ھو العذاب الالیم۔ (ربط) اوپر کی آیتوں میں گنہگاروں کا اور ان کے لیے جہنم کی سزا کا ذکر تھا اب ان آیتوں میں پرہیزگاروں کے ثواب اور ان کی نعمتوں کا ذکر کرتے ہیں اور متقی وہ لوگ ہیں کہ جو بتوفیق الٰہی اور بتائید ایزدی شیطان کے اغواء اور تسلط سے محفوظ رہے اور ابلیس لعین کی تسویل و تزئین سے دنیا کی آرائش کے دلدادہ نہ بنے آخرت ہی کی فکر میں لگے رہے چناچہ فرماتے ہیں۔ تحقیق جن لوگوں نے تقویٰ اور پرہیزگاری کی راہ اختیار کی اور شیطان کے اغوا اور تزئین سے بچتے رہے وہ باغوں اور چشموں میں ہوں گے دودھ اور شراب کے چشمے ان میں جاری ہوں گے اس وقت ان سے کہا جائے گا کہ ان باغوں میں سلامتی کے ساتھ امن سے داخل ہوجاؤ اب تم کو کسی قسم کا خوف اور غم نہیں موت اور ہر آفت سے تم ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو اور ان نعمتوں کے زائل ہونے کا اندیشہ نہ کرو۔ بالکل بےخوف ہو کر رہو اور بمقتضائے بشریت دنیا میں جو ان کے سینوں میں کسی قسم کا کوئی کینہ یا خفگی اور ناگواری تھی۔ جنت میں داخل ہونے سے قبل ہی یک لخت ہم اس کو ان کے سینوں سے نکال ڈالیں گے اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ بمقتضائے بشریت دنیا میں ایسے دو شخصوں کے درمیان رنج و ملال پیش آجاتا ہے کہ جو دونوں خدا کے نزدیک متقی ہوتے ہیں اور دونوں اہل بہشت میں سے ہوتے ہیں جیسے جنت جمل اور جنگ صفین میں صحابہ ؓ کے درمیان رنج و ملال پیش آیا۔ جنت میں داخل ہونے سے قبل ان کا باہمی رنج و ملال سینوں سے نکال دیا جائے گا۔ پھر جنت میں داخل ہونے کے بعد وہ بھائی بھائی بنے آمنے سامنے محبت و الفت کے ساتھ جڑاؤ تختوں پر بیٹھے ہوں گے۔ اور محبت و الفت سے ایک دوسرے کو دیکھتے ہوں گے۔ اور ہم کلام ہوں گے۔ اسی طرح صحابہ کے مشاجرات اور باہمی اختلافات کو سمجھو کہ اصحاب علی ؓ اور اصحاب معاویہ ؓ ہر دو گروہ متقی اور پرہیزگار تھے اور ہر دو گروہ اہل جنت ہیں اور بہشت میں داخل ہوں گے۔ دنیا میں جو باہمی اختلاف کی وجہ سے رنج و ملال پیش آیا وہ جنت میں داخل ہونے سے پہلے ہی سینوں سے نکال دیا جائے گا۔ چناچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منقول ہے کہ میں کہتا ہوں کہ میں اور طلحہ ؓ اور زبیر ؓ ان ہی لوگوں میں سے ہوں گے جن کی بابت اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ارشاد فرمایا ہے ونزعنا ما فی صدورھم من غل اخوانا۔ اس ناچیز کا گمان ہے کہ ان حضرات کا دل دنیا ہی میں صاف ہوچکا تھا۔ جیسا کہ حضرت علی ؓ کا قول اس پر دلالت کرتا ہے۔ نہ ان کو وہاں تکلیف پہنچے گی۔ اور نہ وہاں سے نکالے جائیں گے کیوں کہ جنت دار الخلود ہے وہاں ہمیشگی ہے۔ یہاں تک یہ بیان کیا کہ جہنم غاوین کا ٹھکانہ ہے اور جنت متقین کا ٹھکانا ہے اب آگے گنہگاروں اور خطا کاروں کو تسلی دی جاتی ہے کہ یہ لوگ خدا کی مغفرت اور رحمت سے ناامید نہ ہوں۔ اے نبی ﷺ میرئے بندوں کو خبر دیجئے کہ تحقیق میں بڑا ہی بخشنے والا مہربان ہوں کسی گناہگار کو میری رحمت اور مغفرت سے ناامید نہ ہونا چاہئے اور یہ بھی خبر دے دیجئے کہ تحقیق میرا عذاب ہی دردناک عذاب ہے اس لیے عذاب سے کسی وقت بےکوف نہ ہونا چاہئے۔ خوف بھی اسی کا چاہئے اور امید بھی اسی کی چاہئے۔
Top