Maarif-ul-Quran - Al-Hijr : 2
رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِیْنَ
رُبَمَا : بسا اوقات يَوَدُّ : آرزو کریں گے الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جو کافر ہوئے لَوْ كَانُوْا : کاش وہ ہوتے مُسْلِمِيْنَ : مسلمان
کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے کہ اے کاش وہ مسلمان ہوتے۔
بیان حسرت اہل غفلت در روز قیامت قال اللہ تعالیٰ : ربما یود الذین کفروا لو کانوا مسلمین .... الیٰ .... وما یستاخرون۔ (ربط) گزشتہ آیت میں قرآن کریم کا من جانب اللہ ہونا بیان کیا۔ اب آئندہ آیت میں اس کے نہ ماننے والوں کا انجام بیان کرتے ہیں کہ یہ لوگ جو آج دنیا کی شہوات و لذات میں غرق ہیں اور غفلت کا پردہ ان کے پڑا ہے قیامت کے دن یا بوقت مرگ نہایت حسرت کے ساتھ کہیں گے کہ کاش ہم مسلمان ہوتے اور اس کتاب پر ایمان لائے یا یہ کہ جب کفار یہ دیکھیں گے کہ انبیاء (علیہ السلام) کے ماننے والوں کو ثواب مل رہا ہے اور ان کے نہ ماننے والوں کو عذاب مل رہا ہے تو اس وقت یہ خواہش کریں گے کہ کاش ہم مسلمان ہوتے۔ چناچہ فرماتے ہیں جن لوگوں نے دنیا میں کفر کیا ہے اور اس قرآن مبین کا انکار کیا ہے جب قیامت کے دن اس کفر اور انکار کا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے تو بار بار یہ تمنا کریں گے کہ کاش ہم دنیا میں مسلمان ہوتے اور اس قرآن مبین کو اور اس قرآن کے لانے والے کو مانتے مگر اس وقت یہ تمنا محض بےسود ہوگی۔ اے بنی ! آپ ﷺ کو ان کے حال پر چھوڑ دیں کہ خوب کھائیں اور دنیاوی لذات سے فائدہ اٹھائیں اور لمبی آرزو ان کو آخرت سے غفلت میں ڈالے رکھے یعنی طویل آرزو میں ان کو ایسا غافل بنا دیں کہ انجام کا خیال بھی نہ کریں اور آخرت کو بھولے رہیں پس عنقریب وہ حقیقت حال کو جان لیں گے۔ مرنے کے بعد ان کو حقیقت حال معلوم ہوجائے گی اور اس غفلت اور طول امل کا انجام آنکھوں کے سامنے آجائے گا اور ان کافروں کو جو مہلت دی گئی اور فورا ان کو ہلاک نہیں کیا گیا سو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا قاعدہ یہ ہے کہ ہم نے کسی بستی کو ہلاک نہیں کیا مگر پہلے سے اس کے لیے ایک میعاد مقرر لکھی ہوئی تھی۔ اور کوئی جماعت نہ اپنی مدت مقررہ سے پہلے ہلاک ہوتی ہے اور نہ وہ چھپے رہ سکتی ہے جب وقت آتا ہے تب ہلاک ہوتی ہے جب اللہ کی حجت پوری ہوجائے اور عذر ختم ہوجائے تب اللہ کا عذاب آتا ہے۔
Top