Maarif-ul-Quran - Al-Hijr : 16
وَ لَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَآءِ بُرُوْجًا وَّ زَیَّنّٰهَا لِلنّٰظِرِیْنَۙ
وَلَقَدْ جَعَلْنَا : اور یقیناً ہم نے بنائے فِي : میں السَّمَآءِ : آسمان بُرُوْجًا : برج (جمع) وَّزَيَّنّٰهَا : اور اسے زینت دی لِلنّٰظِرِيْنَ : دیکھنے والوں کے لیے
اور ہم ہی نے آسمان میں برج بنائے اور دیکھنے والوں کیلئے اس کو سجا دیا۔
بیان توحید قال اللہ تعالیٰ : ولقد جعلنا فی السماء بروجا .... الیٰ .... انہ حکیم علیم۔ (ربط) گزشتہ آیات میں آنحضرت ﷺ کی نبوت پر جو مشرکین کے شبہات تھے ان کا رد فرمایا اب ان آیات میں اپنی الوہیت اور وحدانیت اور قدرت کے دلائل بیان فرماتے ہیں کچھ تو آسمانی چیزوں سے اور کچھ زمینی چیزوں سے ان میں سے پہلی دلیل یہ ہے کہ آسمان کے بارہ برج ہیں۔ یعنی آسمان کے بارہ ٹکڑے مثل خربوزہ کے پھانک کے مختلف شکل کے ستاروں سے پیدا ہوگئے ہیں۔ ہر برج میں جس جانور کے ہم شکل ستارے ہیں وہ برج اسی نام سے عرب میں مشہور ہوگیا۔ حمل، ثور، جوزاء، سرطان، اسد، سنبلہ، میزان، عقرب، قوس، جدی، دلو، حوت۔ یہ حق تعالیٰ کی قدرت کی عجیب نشانی ہے کہ اس نے ایسی عجیب و غریب اشیاء کو پیدا فرمایا۔ اور دوسری دلیل والارض مددناھا الخ سے ذکر فرمائی کہ زمین کو پیدا کرنا اور اس میں پہاڑوں کا بانا۔ اور قسم قسم کے اشجار و نباتات کا اس سے اگانا یہ بھی اس کی قدرت کاملہ کی روشن دلیل ہے اور تیسری دلیل وارسلنا الریح لواقح سے ذکر فرمائی پھر اخیر میں اثبات توحید کے بعد حشر و نشر کا ذکر فرمایا وانا لنحن نحی و نیمت اور وان ربک ھو یحشرھم میں اثبات قیامت فرمایا چناچہ فرماتے ہیں۔ پہلی دلیل اور البتہ تحقیق بنائے ہم نے آسمان میں برج جن کی ہئیتیں اور صفتیں اور کیفیتیں مختلف ہیں آسمان بارہ برجوں پر منقسم ہے ہر بارھویں حصہ کا نام برج ہے پھر یہ بارہ برج اٹھائیس منزلوں پر منقسم ہیں اور ہر برج کے لیے دو منزلیں اور ثلث مقرر ہیں یہ اٹھائیس منزلیں قمر کی ہیں اور ہر برج کے تیس درجے مقرر ہیں اور بارہ برجوں کے تین سو ساٹھ درجے ہیں ان سب درجوں کو جب سورج طے کر لیاتا ہے تو اس کا ایک دورہ پورا ہوتا ہے یہ دورہ تمام فلک کا ہے سورج اس کو ایک سال اور چاند اٹھائیس دن میں طے کرتا ہے اور بروج کواکب سبع سیارہ کے لیے منزلیں ہیں مریخ کے لیے حمل اور عقرب ہے اور زہرہ کے لیے ثور اور میزان ہے اور عطارد کے لیے جوزاء اور سنبلہ ہے اور قمر کے لیے سرطان اور شمس کے لیے اسد اور مشتری کے لیے قوس اور حوت اور زحل کے لیے جدی اور دلو ہے اور جو لوگ ان علوم میں اشتعال رکھتے ہیں ان کا قول ہے کہ حمل اور اسد اور قوس کی طبیعت آتشی ہے اور ثور اور سنبلہ اور جدی کی طبیعت خاکی ہے اور جو زاء اور دلو اور میزان کی طبیعت ہوائی ہے اور سرطان اور عقرب اور حوت کی آبی ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ بروج کے کواکب سبعہ سیارہ کے منازل مراد ہیں اور مجاہد (رح) اور قتادہ (رح) یہ کہتے ہیں کہ بروج سے ستارے مراد ہیں اور بعضے جاہل یہ کہتے ہیں کہ آسمان کوئی چیز نہیں بہت سے بہت ایک منتہائے بصر اور حد نظر ہے۔ ان کا جواب یہ ہے کہ یہ بالکل مہمل ہے اس لیے کہ آسمان کا عکس دریا اور جھیل اور تمام پانیوں اور پانی کے برتنوں میں نظر آتا ہے اور عکس کے لیے ضروری ہے کہ وہ شئے موجود ہو۔ معدوم کا عکس موجود نہیں ہوتا۔ اور ہم نے دیکھنے والوں کے لیے آسمان کو سورج اور چاند اور ستاروں سے آراستہ کیا تاکہ ان کو دیکھ کر ان کے پیدا کرنے والے کی قدرت اور حکمت پر دلیل پکڑیں اور ہم نے آسمان کو ہر شیطان مردود سے محفوظ رکھا کہ وہ آسمانوں پر چڑھ نہیں سکتے اور نہ وہاں کے حالات سے مطلع ہوسکتے ہیں۔ شیطانوں کی آسمان تک رسائی نہیں۔ مگر ہاں جو شیطان آسمان سے ورے ہیں چوری چھپے سے کان لگا کر فرشتوں کی کوئی بات سنتے ہیں تو اس کے پیچھے ایک چمکتا ہوا شعلہ ہو لیتا ہے جس سے وہ شیطان یا تو ہلاک ہوجاتا ہے یا بدحواس ہوجاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آسمان ہر طرح شیاطین سے محفوظ ہے وہاں کسی کی رسائی ممکن نہیں مگر آسمان کے قریب تک جاتے ہیں اور وہاں فرشتوں میں جو گفتگو ہوتی ہے اس میں سے کوئی ایک آدھ بات چوری سے سن کر بھاگتے ہیں شیطاطین جب کوئی خبر سننے کے لیے آسمان کے قریب جاتے ہیں تو آگ کا ایک شعلہ اس کا پیچھا کرتا ہے۔ شیطان اس سے بھاگتا ہے کبھی وہ شعلہ اسے آلگتا ہے جس سے وہ ہلاک یا زخمی ہوجاتا ہے اور کبھی وہ اس کی زد سے بچ نکلتا ہے اور جو کلمہ وہاں سے سن کو بھاگتا ہے اس کو کاہن پر القاء کرتا ہے کاہن اسمیں سو باتیں اپنی طرف سے ملا کر مشتہر کردیتا ہے صرف وہ ایک بات ان باتوں میں سچی نکلتی ہے لوگ ایک سچی بات پر اس کے معتقد ہوجاتے ہیں مگر اس کے سو جھوٹوں کی طرف خیال نہیں کرتے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ کی پیدائش سے پہلے شیاطین برابر آسمانوں پر جایا کرتے تھے اور وہاں کی خبریں کاہنوں سے آکر بیان کیا کرتے تھے۔ مگر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کے بعد صرف چوتھے آسمان تک جاتے تھے اور جب آنحضرت ﷺ پیدا ہوئے تو بالکل ان کی آمدورفت بند کردی گئی اب جو آسمان پر خبریں چرانے جاتا ہے شہاب ثاقب سے اس کو مارا جاتا ہے اور بعض علماء اس طرف گئے ہیں کہ شہاب ثاقب آنحضرت ﷺ کی بعثت سے پہلے بھی چھوڑے جاتے تھے مگر ان میں شدت اور کثرت نہ تھی مگر آپ ﷺ کی بعثت کے بعد اس میں شدت اور کثرت ہوگئی جس سے شیاطین اور جنات میں کھلبلی پڑگئی۔ مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ کی بعثت کے بعد اس کا اہتمام زیادہ ہوگیا اور آسمان کی حفاظت اور حراست میں اور زیادتی ہوگئی خلاصہ کلام یہ ہے کہ جس نبی اور رسول کو تم دیوانہ اور مجنون کہتے ہو یہ کواکب اور نجوم اس کی حفاظت اور حراست کا سامان ہیں اور خدائے برتر کی قدرت کا نشان ہیں۔ (دیکھو زاد المسیر ص 388، جلد 4 و تفسیر قرطبی ص 11 جلد 10 و روح البیان ص 449 جلد 4) دلیل دوئم اوپر عالم علوی کے حالات سے حق تعالیٰ کی خالقیت اور وحدانیت کو بیان کیا اب عالم سفلی کے حالات سے اپنی خالقیت اور وحدانیت کو ثابت کرتے ہیں کہ زمین کو پیدا کرنا اور اس کو پھیلانا جس پر بیشمار مخلوق آباد ہو سکے اور پھر پہاڑوں کا قائم کرنا اور پھر زمین میں بندوں کی روزی اور سامان زندگی کو پیدا کرنا وغیرہ وغیرہ یہ سب اس کی قدرت اور حکمت کے دلائل ہیں چناچہ فرماتے ہیں۔ اور زمین کو ہم نے پھیلایا۔ اور اتنا وسیع کیا کہ بیشمار مخلوق اس پر آباد ہو سکے اور ہم نے زمین میں پہاڑوں کے لنگر ڈال دئیے تاکہ زمین جنبش نہ کرسکے اور اگائی ہم نے اس زمین میں ہر چیز مناسب اندازہ کے ساتھ ہر چیز کو اپنی علم و حکمت سے ایک اندازہ کے ساتھ پیدا کیا۔ کوئی چیز عبث اور بےفائدہ نہیں اور اس زمین میں تمہارے لیے سامان معیشت پیدا کیا۔ یعنی تمہارا کھانا، پینا اور کپڑا جس پر تمہاری زندگی کا دارومدار ہے سب زمین سے پیدا کیا اور تمہارے فائدہ کے لیے زمین میں ہم نے ان اشخاص کو پیدا کیا جن کے تم روزی دینے والے نہیں یعنی اہل و عیال اور خدام اور جانور چرند اور پرند کو تمہاری خاطر پیدا کیا اور ان سب کا روزی رساں اللہ تعالیٰ ہے تم نہیں۔ آیت کا یہ مطلب اس صورت میں ہوگا کہ جب ومن لستم لہ برازقین کا عطف معایش پر ہو اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ ومن لستم لہ کا عطف لکم ضمیر مجرور پر ہے اور تقدیر کلام اس طرح ہے وجعلنا لکم معایش و لمن لستم لہ الخ اور مطلب یہ ہے کہ ہم نے تمہارے لیے بھی سامان زندگی پیدا کیا اور تمہارے اہل و عیال اور خڈام کے لیے بھی سامان زندگی پیدا کیا اور تمہارے سامان معاش و رزق میں سے کوئی شئے ایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں اور نہیں اتارتے ہم زمین پر اپنے خزانہ غیب سے مگر ٹھہرے ہوئے اندازہ کے مطابق یعنی گو ہمارے خزانہ میں سب کچھ ہے مگر دنیا میں اندازہ مقرر کے ساتھ اتارتے ہیں ہمارے علم اور حکمت میں جو اندازہ مقرر ہے اس کے مطابق اترتا ہے۔ اس میں نہ زیادتی مقصود ہے اور نہ کمی۔ دلیل سوئم اور ہم نے ہوائیں چلائیں جو بادلوں کو پانی سے حاملہ یعنی بار آور بناتی ہیں اور پھر ہم آسمان سے پانی اتارتے ہیں اور پھر وہ پانی تم کو پینے کو دیتے ہیں اور تم اس کا ذخیرہ نہیں رکھ سکتے تھے یہ خزانہ اللہ کے پاس ہے اور وہی اس کا محافظ ہے بقدر معلوم تم کو اس سے ملتا رہتا ہے اگر ہم بارش نازل نہ کرتے تو تم کہاں سے اتنا پانی لاتے۔ اثبات معاد یہ تمام امور اس کی قدرت اور خالقیت کے دلائل تھے۔ اب آگے معاد کو بیان فرماتے ہیں اور تحقیق ہم ہی جلاتے ہیں اور ہم ہی مارتے ہیں ہمارے سوا کسی کی قدرت نہیں اور ہم ہی سب کے وارث ہیں۔ سب فنا ہوجائیں گے اور سب کے بعد ہم ہی باقی رہیں گے۔ ہر شخص مرجا تا ہے اور اس کی کمائی اللہ کے ہاتھ میں رہتی ہے۔ اور البتہ تحقیق ہم نے خوب جان رکھا ہے ولادت اور موت اور اسلام اور اطاعت اور صف جماعت اور صف جہاد وغیرہ وغیرہ میں آگے بڑھنے والوں کو اور البتہ تحقیق ہم نے خوب جان رکھا ہے پیچھے رہنے والوں کو۔ ہماری اس تفسیر میں اشارہ اس طرف ہے کہ آگے بڑھنا اور پیچھے رہنا عام ہے۔ خواہ باعتبار ولادت اور موت کے ہو یا باعتبار اسلام اور اطاعت کے ہو یا باعتبار جماعت کے حاضری کے ہو اللہ تعالیٰ سب کے حال اور نیت سے واقف ہیں اور بیشک تیرا پروردگار سب کو میدان حشر میں جمع کرے گا۔ بلاشبہ وہ بڑی حکمتوں والا خبردار ہے وہ قیامت کے دن ہر شخص کے ساتھ اس کی نیت اور عمل کے مطابق معاملہ طے کرے گا اس کے علم و حکمت کا اندازہ لگانا ناممکن اور محال ہے۔
Top