حقیقی 1 ستائش اللہ ہی کے لیے مخصوص 2 ہے جو تمام جہانوں کا پرورش کرنے والا ہے
(1 قولہ حقیقی ستائش اشارۃ الی ان الاولی ان یکون لام التعریف فی الحمد للجنس والحقیقۃ کما اختارہ جار اللہ العلامۃ وھوابلغ من الاستغراق کما لایخفی علی ارباب الذوق فافھم ذلک واستقم۔
2 ۔ قولہ مخصوص ہے۔ ھذہ ترجمۃ لام الاختصاص فی اللہ)
1 ۔ جو فعل علم اور اختیار اور قدرت اور ارادہ سے صادر ہو اس کی واقعی خوبی بیان کرنے کو حمد کہتے ہیں۔ مدح کہتے ہیں۔ مدح میں نہ فعل کا اختیار ہونا ضروری ہے اور نہ اس خوبی کا واقعی ہونا لازمی ہے اسی وجہ سے مدح کسی وقت ممنوع بھی ہوجاتی ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے۔
احثوا التراب وجوہ المداحین
مدح کرنے والوں کے منہ پر خاک ڈال دو
مگر حمد سے کسی وقت منع نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے کہ اس میں واقعی خوبی کا اظہار ہوتا ہے۔ بعض علماء نے تعریف سے حمد سے قید اختیار کو حذف کردیا ہے اس لیے کہ اس قید کے ہوتے ہوئے حق تعالیٰ شانہ کی صفات ذاتیہ کی ثناء کو حمد کہنا دشوار ہوگا۔ اس لیے کہ صفات ذاتیہ جیسے علم وقدرت افعال خداوندی کی طرح اختیاری نہیں۔ اگرچہ یہ تاویل ہوسکتی ہے کہ یہ صفات اگرچہ غیر اختیاری ہیں مگر ان کے ثمرات ضرور اختیاری ہیں یا ان کے موصوف کا فاعل مکتار ہونا حمد کے لیے کافی ہے۔ حمد اور مدح میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ حمد انہی صفات کمال پر ہوسکتی ہے جن کا صفات کمال ہونا قطعی اور یقینی ہو۔ اور ان میں کسی قسم کے نقص اور عیب کا شائبہ بھی نہ ہو۔ بخلاف مدح کے کہ اس میں نہ یہ ضروری ہے کہ وہ صفت قطعاً اور یقیناً صفت کمال ہو، ظناً بھی صفت کمال ہونا مدح کے لیے کافی ہے اور نہ یہ ضروری ہے کہ صفت کمال شائبہ نقص سے پاک ہو، بلکہ اگر اس میں کچھ نقص بھی ہو تب بھی مدح ہوسکتی ہے۔
نیز حمد میں یہ ضروری ہے کہ محاسن و کمالات کا ذکر محبت اور اجلال کے ساتھ ہو اور مدح میں یہ ضروری نہیں۔ مطلقاً محاسن اور کمالات کے بیان کرنے کو خواہ وہ محبت اور اجلال سے ہو یا نہ ہو مدح کہتے ہیں۔ جیسا کہ ایک برابر والا دوسرے برابر والے کی مدح کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ لفظ حمد سے جو تعظیم وتفخیم مترجشح ہوتی ہے وہ لفط ومدح سے نہیں ہوتی اس لیے کہ حمد کا اکثر اطلاق اس غنی حمید ہی پر ہوتا ہے۔ نیز حمد زندہ ہی کی ہوتی ہے اور مدح زندہ اور غیر زندہ دونوں کی ہوتی ہے اور حمد کے بعد سب سے پہلے اسم ذات کو ذکر فرمایا اور اس کے بعد پھر دیگر اسماء صفات وافعال کو زکر کیا، تاکہ ذاتا صفۃ اور فعلا ہر طرح سے اس کا مستحق حمد وثناء ہونا معلوم ہوجائے۔
2 ۔ ربوبیت بمعنی پرورش کرنا اور کسی شئی کو بتدریج حد کمال تک پہنچانا تربیت اگرچہ والدین سے بھی ظہوار میں آتی ہے۔ کما قال تعالی۔
قل رب ارحمھما کما ربینی صغیرا۔
اور یہ دعا مانگ کہ اے اللہ میرے ماں باپ پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے خورد سالی میں مجھ کو پالا۔
مگر والدین کی تربیت نور آفتاب کی طرح اصلی اور ذاتی خانہ زاد نہیں بلکہ نور زمین کی طرح مستعار اور عطاء غیر ہے۔ جس طرح نور زمین آفتاب کا فیض اور عطیہ ہے اسی طرح والدین کی تربیت بھی عطیہ الٰہی ہے۔
نیز حقیقی تربیت جب ہوسکتی ہے کہ کسی شے کو نیس سے ہست کیا جائے اور پھر اس کے تمام اسباب تربیت کو پیدا کیا جائے۔ اور پیدا کرنے کے بعد انتفاع کے تمام موانع دور کردئیے جائیں۔ تب تربیت مکمل ہوسکتی ہے۔ والدین اولاد کی تربیت کرتے ہیں مگر نہ اولاد ان کی مخلوق ہے اور نہ وہ سامان تربیت کی خالق ہیں بلکہ سب کا سب خدا ہی کا پیدا کیا ہوا ہے نیز والدین کی تربیت چند اشخاص کے ساتھ مخصوص ہے۔ تمام عالم کے لیے عام اور محیط نہیں اور حق تعالیٰ شانہ کی تربیت غیر محدود اور عام اور محیط ہے پس قابل ستائش وہی ربوبیت ہوسکتی ہے۔ جو اصلی اور ذاتی ہو۔ مستعار اور عطاء غیر نہ ہو۔ ہر طرح سے کامل اور مکمل ہو کسی قسم کا اس میں نقص نہ ہو۔ تمام عالمین کے لیے عام اور محیط ہو اس لیے ارشاد ہوا۔
الحمد للہ رب العلمین
یعنی حقیقی 1 ستائش خدا تعالیٰ ہی کے لیے خاص ہے کہ جس کی ربوبیت اصلی اور ذاتی اور کامل ہونے کے علاوہ تمام جہانوں کے لیے عام اور محیط ہے اسی وجہ سے جب فرعون نے کہا۔
وما رب العالمین۔ رب العالمین کیا چیز ہے۔
تو موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ ارشاد فرمایا :
رب السموات والارض وما بینھما۔ یعنی رب وہ ہے کہ جس کی تربیت سبع سموات اور سبع ارضین اور کل عالم کو محیط ہے۔
(1 ۔ اشارہ اس طرف ہے کہ الحمد کا لام تعریف۔ لام حقیقت اور لام جنس ہے یعنی حمد کی حقیقت اور جنس ہی اللہ کے لیے مخصوص ہے اور جن علماء نے لام کو استغراق کے لیے لیا ہے انہوں نے اس طرح ترجمہ کیا کہ سب تعریف واسطے اللہ کے)
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اس ارشاد کے بعد شاید فرعون کو یہ تردد ہوا ہو کہ تربیت کو صرف ذات خداوندی میں منحصر کردینا کیسے صحیح ہوسکتا ہے۔ جبکہ ہم والدین اور آفتاب اور ماہتاب کی تربیتوں کو بھی روزانہ اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہیں اس لیے موسیٰ (علیہ الصلوۃ والسلام) دوبارہ جواب کی جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا۔
ربکم ورب اٰبائکم الاولین۔ وہ رب ہے تمہارا اور تمہارے اگلے آباؤ و اجداد کا۔
یعنی تمہارے آباؤ اجداد کی تربیت اصلی اور ذاتی نہیں بلکہ عطیہ الٰہی ہے، تمہارا اور تمہارے تمام آباء اولین کا حقیقی رب اور پروردگار وہی ہے اور تیسری بار یہ فرمایا۔
رب المشرق والمغرب ومابینھما ان کنتم تعقلون۔ وہ رب ہے مشرق اور مغرب کا اور ان کے درمیان کا اگر تم کچھ عقل رکھتے ہو۔
یعنی آفتاب اور ماہتاب کو اپنی کھیتوں کا مربی سمجھنا غلط ہے اس لیے کہ خود آفتاب وماہتاب اور ان کے نور کو اسی رب العالمین نے پیدا کیا ہے۔
ھو الذی جعل الشمس ضیاء والقمر نورا اسی نے سورج کو چمکتا ہا اور چاند کو روشن بنایا
اگر وہ رب العالین شمس وقمر کو روشنی نہ بخشتا یا کھیتیاں پکانے کی خاصیت ان میں نہ رکھتا تو کہاں سے کھیتیاں پکاتے۔
رب العالمین میں ربوبیت خداوندی کا تمام اجناس و انواع اور تمام افراد واشخاص کو محیط ہونا بیان فرمایا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے پہلی آیت یعنی رب السموات والارض میں اس کی ربوبیت کا تمام مکتبہ مختلفہ کو محیط ہونا بیان فرمایا اور دوسری آیت ربکم ورب ابائکم الاولین۔ میں اس کی ربوبیت کا ماضی اور حال اور مستقبل اور تمام اوقات اور ازمنہ مختلفہ کو محیط ہونا بیان فرمایا اور تیسری بار رب المشرق والمغرب فرما کر اس کی ربوبیت کا تمام اوضاع اور حالات تمام تغیرات اور کیفیات کو محیط ہونا بیان فرمایا۔ خلاصہ کلام یہ کہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیعت کسی شخص اور کسی زمان کسی مکان اور کسی حالت اور وضع کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ سب کو عام اور محیط ہے اس لیے وہی لائق عبادات اور مستحق حمد وثناء ہے۔
حضرات صوفیہ کرام قدس اللہ اسرارہم فرماتے ہیں کہ ارواح کے کانوں میں سب سے پہلے وصف ربوبیت ہی کا نغمۂ جانفزا پہنچا ہے اور اسی وصف سے اول خدا کو پہچانا ہے۔ کما قال تعالی۔
واذ اخذ ربک من بنی ادم من ظھورھم ذریتھم واشھدھم علی انفسہم الست بربکم۔ قالوا بلی۔
اس وقت کو یاد کرو کہ تیرے رب نے بنی آدم کی پشت سے ان کی ذریت کو نکالا اور خود ان کو ان کی جانوں پر گواہ بنایا کیا میں تمہارا رب نہیں۔ سب نے کہا بیشک آپ ہمارے رب ہیں۔
حق تعالیٰ شانہ نے سب سے پہلے اسی اسم رب کے ساتھ ارواح کو مخاطب کیا اور اسی نام سے ان سے عہد اور میثاق لیا اور بظاہر یہی وجہ ہوگی کہ اول الانبیاء حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر خاتم الانبیاء ﷺ تک تمام انبیاء ومرسلین اور عباد و مخلصین کی جو دعائیں حق تعالیٰ شانہ نے قرآن کریم میں ذکر فرمائی ہیں۔ وہ اکثر وبیشتر کلمہ ربنا سے وارد ہوئی ہیں اور ایک مقام پر یعنی ربنا اننا سمعنا منادیا۔ الخ۔ ان آیات میں کلمہ ربنا سے دعا کرنے والوں کو اولوا الالباب فرمایا ہے۔
3 ۔ عالم اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خالق کا علم حاصل ہوتا ہو۔ عالم علامت سے مشتق ہے۔ عالم کو عالم اس لیے کہتے ہیں کہ وہ علامت ہے اسماء الٰہی اور صفات خداوندی کے لیے عالم میں جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ اسی کے کسی اسم کا مظہر اور آئینہ ہے مومن و کافر اس کی شان اور انعام اور انتقام کے مظہر ہیں۔ صاحب عزت اور صاحب ذلت اس کی شان تعز من تشاء وتذل من تشاء کے آئینہ میں ہیں۔ عالم غیب اور عالم شہادت اس کے نام نامی ہو الظاہر والباطن کے لیے آئینہ ہیں۔