بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - Nooh : 1
اِنَّاۤ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖۤ اَنْ اَنْذِرْ قَوْمَكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
اِنَّآ : بیشک ہم نے اَرْسَلْنَا : بھیجا ہم نے نُوْحًا : نوح کو اِلٰى قَوْمِهٖٓ : اس کی قوم کی طرف اَنْ اَنْذِرْ : کہ ڈراؤ قَوْمَكَ : اپنی قوم کو مِنْ : سے قَبْلِ : اس سے پہلے اَنْ يَّاْتِيَهُمْ : کہ آئے ان کے پاس عَذَابٌ اَلِيْمٌ : عذاب دردناک
ہم نے بھیجا نوح کو اس کی قوم کی طرف کہ ڈرا اپنی قوم کو اس سے پہلے کہ پہنچے ان پر عذاب درد ناک
خلاصہ تفسیر
ہم نے نوح ؑ کو ان کی قوم کے پاس (پیغمبر بنا کر) بھیجا تھا کہ تم اپنی قوم کو (وبال کفر سے) ڈراؤ قبل اس کے کہ ان پر درد ناک عذاب آوے (یعنی ان سے کہو کہ اگر ایمان نہ لاؤ گے تو تم پر عذاب الیم آوے گا، خواہ نیوی یعنی طوفان یا اخروی یعنی دوزخ غرض) انہوں نے (اپنی قوم سے) کہا کہ اے میری قوم میں تمہاری لئے صاف صاف ڈرانے والا ہوں (اور کہتا ہوں) کہ تم اللہ کی عبادت (یعنی توحید اختیار) کرو اور اس سے ڈرو اور میرا کہنا مانو وہ تمہارے گناہ معاف کر دے گا (من ذنوبکم کی تحقیق سورة احقاف میں گزر چکی) اور تم کو وقت مقرر (یعنیوقت موت) تک (بلاعقوبت) مہلت دے گا (یعنی ایمان نہ لانے پر جس عذاب کا مرنے سے پہلے وعدہ کیا جاتا ہے اگر ایمان لے آئے تو وہ عذاب نہ آوے گا اور باقی موت کے لئے جو) اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت (ہے) جب (وہ) آجاوے گا تو ٹلے گا نہیں (یعنی موت تو آنا ہر حال میں ضروری ہے ایمان میں بھی اور کفر میں بھی لیکن دونوں حالتوں میں اتنا فرق ہے کہ ایک حالت میں علاوہ عذاب آخرت کے دنیا میں بھی عذاب ہوگا اور ایک حالت میں مثل دنیا و آخرت دونوں کے عذابوں سے محفوظ رہو گے) کیا خوب ہوتا اگر تم (ان باتوں کو) سمجھتے (جب دنیا و آخرت دونوں کے عذابوں سے محفوظ رہو گے) کیا خوب ہوتا اگر تم (ان ابتوں کو) سمجھتے (جب مدتہائے دراز تک ان نصائح کا کچھ اثر قوم پر نہ ہوا تو) نوح ؑ نے (حق تعالیٰ سے) دعا (اور التجا) کی کہ اے میرے پروردگار میں نے اپنی قوکو رات کو بھی اور دن کو بھی (دین حق کی طرف) بلایا، سو میرے بلانے پر (دین سے) اور زیادہ بھاگتے رہے اور (وہ بھاگنا یہ ہوا کہ) میں نے جب کبھی ان کو (دین حق کی طرف) بلایا تاکہ (ان کے ایمان کے سبب) آپ ان کو بخشدیں تو ان لوگوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں دے لیں (تاکہ حق بات سنیں بھی نہیں اور یہ نفرت کی انتہا ہے) اور (نیز انتہائی بغض سے انہوں نے) اپنے کپڑے (اپنے اوپر) لپیٹ لئے (تاکہ حق بات کہنے والے کو دیکھیں بھی نہیں اور کہنے والا بھی ان کو نہ دیکھے) اور (انہوں نے اپنے کفر و انکار پر) اصرار کیا اور (میری اطاعت سے) غایت درجہ کا تکبر کیا (مگر باوجود اس تنفیر وتکبر کے) پھر (بھی میں ان کو مختلف طریقوں سے نصیحت کرتا رہا چنانچہ) میں نے ان کو (دین حق کی طرف) با آواز بلند بلایا (مراد اس سے خطاب و وعظ عام ہے جس میں عادة آواز بلند ہوتی ہے) پھر میں نے ان کو (خطاب خاص کے طور پر) علانیہ بھی سمجھایا اور ان کو بالکل خفیہ بھی سمجھایا (یعنی جتنے طریقے نفع کے ہو سکتے تھے سب ہی طرح سمجھایا، غرض اوقات میں بھی عموم کیا گیا، کماقال لیلاً ونھاراً اور کیفیات میں بھی کما قال دعوتھم جھاراً الخ) اور (اس سمجھانے میں) میں نے (ان سے یہ) کہا کہ تم اپنے پروردگار سے گناہ بخشواؤ (یعنی ایمان لے آؤ تاکہ گناہ بخشے جائیں) بیشک وہ بخشنے والا ہے (اگر تم ایمان لے آؤ گے تو علاوہ اخروی نعمت کے) کہ (مغفرت ہے دنیوی نعمتیں بھی تم کو عطا کریگا، چنانچہ) کثرت سے تم پر بارش بھیجے گا اور تمہارے مال اور اولاد میں ترقی دے گا اور تمہارے لئے باغ لگا دے گا اور تمہارے لئے نہریں بہا دے گا (ان نعمتوں کے ذکر شے شاید یہ فائدہ ہو کہ اکثر طبائع میں نقد اور جلد حاصل ہونے اولی چیزوں کی طلب زیادہ ہے۔ در منشور میں قتادہ کا قول ہے کہ وہ لوگ دنیا کے زیادہ حریض تھے اس لئے یہ فرمایا اور اس پر یہ شبہہ نہ کیا جاوے کہ بسا اوقات یہ امور دنیویہ ایمان وا ستغفار پر مرتب نہیں ہوتے، بات یہ ہے کہ یا تو یہ وعدہ خاص انہی لوگوں کے لئے ہوگا اور اگر عام ہو تو قاعدہ ہے کہ موعود سے افضل کوئی چیز بلحاظ بھی ایفائے وعدہ ہی ہوتا ہے بلکہ وعدہ سے زیادہ، اس ایمان کامل پر روحانی مسرت و قناعت و رضا بالقضا ضرور عطا ہوتا ہے جو ان اشیاء سے بھی افضل و اکمل ہے بلکہ ساری متاع دنیا اور سبا شیاء مذکورہ کا اصلی مقصد بھی تو دل کا سکون و آرام ہی ہے۔ آگے نوح ؑ کا تتمہ کلام ہے یعنی میں نے ان سے یہ بھی کہا کہ) تم کو کیا ہوا کہ تم اللہ تعالیٰ کی عظمت کے معتقد نہیں ہو حالانکہ (مقضیات اعتقاد عظمت کے موجود ہیں کہ) اس نے تم کو طرح طرح سے بنایا (کہ عناصر اربعہ سے تمہاری غذا، پھر غذا سے نطفہ اور نطفہ کے بعد علقہ و مضغہ وغیرہ کی مختلف صورتوں سے گزر کر مکمل انسان بنا یہ دلیل تو خود انسان کی ذات سے متعلق تھی، آگے دلیل آفاقی فرماتے ہیں کہ) کیا تم کو معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح سات آسمان اوپر تلے پیدا کئے اور ان میں چاند کو نور (کی چیز) بنایا اور سورج کو (مثل) چراغ (روشن کے) بنایا (اور چاند گو سب آسمانوں میں نہیں ہے مگر فیھن باعتبار مجموعہ کے فرما دیا اور اس کے متعلق کچھ سورة فرقان میں گزر چکا ہے) اور اللہ تعالیٰ نے تم کو زمین سے ایک خاص طور پر پیدا کیا (یا تو اس طرح کہ حضرت آدم ؑ مٹی سے بنائے گئے اور یا اس طرح کہ انسان نطفہ سے بنا اور نطفہ غذا سے اور غذا عناصر سے بنی اور عناصر میں غالب اجزاء مٹی کے ہیں) پھر تم کو (بعد مرگ) زمین ہی میں لیجاوے گا اور (قیامت میں پھر اسی زمین سے) تم کو باہر لے آوے گا اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے زمین کو (مثل) فرش (کے) بنایا تاکہ تم اس کے کھلے رستوں میں چلو (یہ تمامتر وہ کلام ہے جس کی حکایت نوح ؑ نے حق تعالیٰ سے بطور فرمایا کی کی اور یہ سب حکایت عرض کر کے) نوح ؑ نے (یہ) کہا کہ اے میرے پروردگار ان لوگوں نے میرا کہنا مانا اور ایسے شخصوں کی پیروی کی کہ جن کے مال اور اولاد نے ان کو نقصان ہی زیادہ پہنچایا (مراد ان شخصوں سے رؤسا ہیں جن کا عوام اتباع کیا کرتے ہیں اور مال اور اولاد کا ان رؤسا کو نقصان پہنچانا بایں معنے ہے کہ مال و اولاد سرکشی کا سبب بن گئے) اور (انہوں نے جن کا اتباع کیا ہے وہ ایسے ہیں) جنہوں نے (حق کے مٹانے میں) بڑی بڑی تدبیریں کیں اور جنہوں نے (اپنے تابعین سے یہ) کہا کہ تم اپنے معبودوں کو ہرگز نہ چھوڑنا اور نہ (بالخصوص) ود کو اور رسواع کو اور یغوث کو اور یعوق کو اور نسر کو چھوڑنا (خصوصیت ان کے ذکر کی اس لئے ہے کہ یہ بت زیادہ مشہور تھے) اور ان (رئیس) لوگوں نے بہتوں کو (بہکا بہکا کر) گمراہ کردیا (وہ مکر کبار یہی گمراہ کرنا ہے) اور (چونکہ مجھ کو آپ کے ارشاد لن یومن فی قومک الامن قدامن سے معلوم ہوگیا کہ یہ اب ایمان نہ لاویں گے اس لئے یہ بھی دعا کرتا ہوں کہ) ان ظالموں کی گمراہی اور بڑھا دیجئے (تاکہ یہ لوگ مستحق ہلاکت ہوجائیں، اس سے معلوم ہوا کہ مقصود دعا کرنا زیادہ ضلال کی نہیں بلکہ استحقاق ہلاکت کی ہے اور تحقیق اس دعا کی سورة یونس میں قصہ موسیٰ ؑ میں گزری ہے۔ غرض انجام ان لوگوں کا یہ ہوا کہ) اپنے ان ہی گناہوں کے سبب وہ غرق کئے گئے پھر (بعد غرق برزخی یا اخروی) دوزخ میں داخل کئے گئے اور خدا کے سوا ان کو کچھ حمایتی بھی میسر نہ ہوئے اور نوح ؑ نے (یہ بھی) کہا کہ اے میرے پروردگار کافروں میں سے زمین پر ایک باشندہ بھی مت چھوڑ (بلکہ سب کہ ہلاک کر دے اور عموم ہلاکت و عموم بعثت کی بحث سورة صافات میں گزری ہے آگے اس دعا کی علت ہے کیونکہ) اگر آپ ان کو روئے زمین پر رہنے دیں گے تو (حب ارشاد لن یومن الخ) یہ لوگ آپ کے بندوں کو گمراہ کریں گے اور (آگے بھی) ان کے محض فاجر اور کافر ہی اولاد پیدا ہوگی (اور کافروں کے لئے بددعا کرنے کے بعد مؤمنین کے لئے دعا فرمائی کہ) اے میرے رب مجھ کو اور میرے ماں باپ کو اور جو مومن ہونے کی حالت میں میرے گھر میں داخل ہیں ان کو (یعنی اہل و عیال باستثاء زوجہ اور کنعان کے) اور تمام مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو بخشدیجئے اور (چونکہ مقصود مقام میں بد دعا ہے کافروں کے لئے اور مومنین کے لئے دعا محض مقابلے کی ھمناسبت سے ہوگئی تھی اس لئے پھر مضمون بد دعا کی طرف عود ہے جس میں وَلَا تَزِدِ الظّٰلِمِيْنَ اِلَّا ضَلٰلًا کے مقصود کی تفسیر ہے یعنی) ان ظالموں کی ہلاکت اور بڑھا دیجئے (یعنی ان کی نجات کی کوئی صورت نہ رہے ہلاک ہی ہوجاویں اور یہی مقصود تھا اس دعا سے کہ ان کی گمراہی بڑھا دی جائے اور ظاہراً معلوم ہوتا ہے کہ نوح ؑ کے والدین مومن تھے اور اگر اس کے خلاف ثابت ہوجائے تو والدین سے مراد آباد و امہات بعدیہ ہوں گے، اول دعا اپنے نفس کے لئے کی پھر اصول کے لئے پھر اہل و عیال کے لئے پھر عام تابعین کے لئے۔)
Top