Maarif-ul-Quran - As-Saff : 2
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : اے لوگو جو ایمان لائے ہو لِمَ تَقُوْلُوْنَ : کیوں تم کہتے ہو مَا لَا : وہ جو نہیں تَفْعَلُوْنَ : تم کرتے
اے ایمان والو ! کیوں کہتے ہو منہ سے جو نہیں کرتے
اس سورة نے یہ بھی بتلا دیا کہ احب الاعمال جس کی تلاش میں یہ حضرات تھے وہ جہاد فی سبیل اللہ ہے اور ساتھ ہی ان حضرات نے جو ایسے کلمات کہے تھے کہ اگر ہمیں معلوم ہوجائے تو ہم اس پر عمل کرنے میں ایسی ایسی جانبازی دکھائیں وغیرہ جن میں ایک قسم کا دعویٰ ہے کہ ہم ایسا کرسکتے ہیں، اس پر ان حضرات کو تنبیہ کی گئی کہ کسی مومن کے لئے ایسے دعوے کرنا درست نہیں، اسے کیا معلوم ہے کہ وقت پر وہ اپنے ارادے کو پورا کر بھی سکے گا یا نہیں، اس کے اسباب کا جمع ہونا اور موانع کا زائل ہونا اس کے اختیار میں نہیں، پھر خود اس کے دست وبازو اور اعضاء وجوارح بلکہ قلبی عزم و ارادہ ان میں سے کوئی چیز بھی بالکلیہ اس کے قبضہ میں نہیں اسی لئے خود رسول اللہ ﷺ کو بھی قرآن کریم میں یہ تلقین کی گئی ہے کہ جو کام آپ کو آئندہ کل میں کرنا ہو اگر اس کو بیان کرنا ہے تو انشاء اللہ کی قید کے ساتھ بیان کرو کہ اگر اللہ نے چاہا تو میں کل فلاں کام کروں گا (آیت) (لاتقولن لشای انی فاعل ذلک غدا الاان یشآء اللہ) صحابہ کرام کی نیت و قصد خواہ دعوے کا نہ ہو مگر صورت دعویٰ کی تھی وہ اللہ کے نزدیک پسند نہیں کہ کوئی شخص کسی کام کے کرنے کا دعویٰ کرے بجز اس کے کہ اس کو اللہ کی مشیت کے حوالہ کرے اور انشاء اللہ ساتھ کہے، اس تنبیہ کیلئے یہ آیات نازل ہوئیں۔
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ ۝ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْن۔ مالا تفعلون کے ظاہری معنی تو یہ ہیں کہ جو کام تمہیں کرنا نہیں ہے اس کا دعویٰ کیوں کرتے ہو، جس سے ایسے کام کے دعوے کی ممانعت تو واضح ہو ہی گئی جس کو کرنے کا عزم و ارادہ ہی انسان کے دل میں نہ ہو کیونکہ یہ تو محض ایک جھوٹا دعویٰ ہے نام و نمود وغیرہ کے لئے ہوسکتا ہے مگر ظاہر ہے کہ شان نزول کے واقعہ میں جن صحابہ نے مذاکرہ کیا وہ ایسے نہ تھے کہ دل میں کچھ کرنے کا ارادہ ہی نہ ہو اور دعویٰ کریں، اس لئے اس کے مفہوم میں یہ بھی شامل ہے کہ اگرچہ دل میں عزم و ارادہ کام کرنے کا ہو پھر بھی اپنے نفس پر بھروسہ کر کے دعویٰ کرنا کہ ہم فلاں کام کریں گے شان عبدیت کے خلاف ہے، اول تو اس کے کہنے ہی کی کیا ضرورت ہے جب موقع ملے کر گزرنا چاہئے اور کسی مصلحت سے کہنا بھی پڑے تو اس کو انشاء اللہ کے ساتھ مقید کر دے تو پھر وہ دعویٰ نہیں رہے گا۔
مسئلہاس سے معلوم ہوا کہ ایسے کام کا دعویٰ کرنا جس کے کرنے کا ارادہ ہی نہ ہو اور اس کو کرنا ہی نہ ہو یہ تو گناہ کبیرہ اور اللہ کی سخت ناراضی کا سبب ہے، کبر مقتا عند اللہ کا مصداق یہی ہے اور جہاں یہ صورت نہ ہو بلکہ ارادہ کرنے کا ہو وہاں بھی اپنی قوت وقدرت پر بھروسہ کر کے دعویٰ کرنا ممنوع و مکروہ ہے۔
دعویٰ اور دعوت میں فرق
مذکورہ تفسیر سے یہ معلوم ہوگیا کہ ان آیات کا تعلق دعوے سے ہے کہ جو کام آدمی کو کرنا نہیں ہے اس کا دعویٰ کرنا اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا سبب ہے، رہا معاملہ دعوت و تبلیغ اور وعظ و نصیحت کا کہ جو کام آدمی خود نہیں کرتا اس کی نصیحت دوسروں کو کرے اور اس کی طرف دوسرے مسلمانوں کو دعوت دے، وہ اس آیت کے مفہوم میں تو شامل نہیں، اس کے احکام دوسری آیات اور احادیث میں مذکور ہیں، مثلاً قرآن کریم نے فرمایا (آیت) اتامرون الناس بالبر و تنسون انفسکم، یعنی تم لوگوں کو تو نیک کام کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھلا دیتے ہو کہ خود اس نیکی پر عمل نہیں کرتے۔
اس آیت نے امر بالمعروف اور وعظ و نصیحت کرنے والوں کو اس بات پر شرمندہ کیا ہے کہ لوگوں کو ایک نیک کام کی دعوت دو اور خود اس پر عمل نہ کرو اور مقصد یہ ہے کہ جب دوسروں کو نصیحت کرتے ہو تو خود اپنے آپ کو نصیحت کرنا اس سے مقدم ہے جس کام کی طرف لوگوں کو بلاتے ہو خود بھی اس پر عمل کرو۔
لیکن یہ نہیں فرمایا کہ جب خود نہیں کرتے تو دوسروں کو کہنا بھی چھوڑ دو ، اس سے معلوم ہوا کہ جس نیک کام کے خود کرنے کی ہمت و توفیق نہیں ہے اس کی طرف دوسروں کو بلانے اور نصیحت کرنے کا سلسلہ نہ چھوڑے، امید ہے کہ اس وعظ و نصیحت کی برکت سے کسی وقت اس کو بھی عمل کی توفیق ہوجاوے، جیسا کہ بکثرت تجربہ و مشاہدہ میں آیا ہے، البتہ اگر وہ عمل واجب یا سنت مؤ کدہ کے درجہ میں ہو تو آیات مذکورہ پر نظر کر کے اپنے نفس میں نادم و شرمندہ ہونے کا سلسلہ جاری رکھنا بھی واجب ہے اور اگر مستحبات کے متعلق ہے تو یہ سلسلہ ندامت بھی مستحب ہے۔
Top