بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - As-Saff : 1
سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ۚ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
سَبَّحَ لِلّٰهِ : تسبیح کی ہے اللہ کے مَا فِي السَّمٰوٰتِ : ہر چیز نے جو آسمانوں میں ہے وَمَا فِي الْاَرْضِ : اور جو زمین میں ہے وَهُوَ الْعَزِيْزُ : اور وہ زبردست ہے الْحَكِيْمُ : حکمت والا ہے
اللہ کی پاکی بولتا ہے جو کچھ ہے آسمانوں اور جو کچھ ہے زمین میں اور وہی ہے زبردست حکمت والا
خلاصہ تفسیر
سب چیزیں اللہ کی پاکی بیان کرتی ہیں (قالاً یا حالاً) جو کچھ آسمانوں میں ہیں اور جو کچھ زمین میں ہیں اور وہی زبردست حکمت والا ہے (پس جو ایسا باعظمت و شان ہو اس کی اطاعت ہر حکم میں ضروری ہے، جن میں سے ایک حکم جہاد کا ہے، جو اس سورت میں مذکور ہے، جس کے نزول کا سبب یہ ہے کہ ایک بار بعض مسلمانوں نے باہم تذکرہ کیا کہ اگر ہم کو کوئی ایسا عمل معلوم ہو جو حق تعالیٰ کے نزدیک نہایت محبوب ہے تو ہم اس کو عمل میں لاویں اور اس سے قبل جنگ احد میں بعضے جہاد سے بھاگ چکے تھے جس کا قصہ سورة آل عمران میں ہے اور نیز وقت نزول حکم جہاد کے بعض کو وہ حکم گراں گزرا تھا، جس کا قصہ سورة نساء میں ہے اس پر یہ ارشاد نازل ہوا) اے ایمان والو ! ایسی بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو، خدا کے نزدیک یہ بات بہت ناراضی کی ہے کہ ایسی بات کہو جو کرو نہیں، اللہ تعالیٰ تو ان لوگوں کو (خاص طور پر) پسند کرتا ہے جو اس کے راستہ میں اس طرح مل کر لڑتے ہیں کہ گویا وہ ایک عمارت ہے جس میں سیسہ پلایا گیا ہے (یعنی جس طرح یہ عمارت مستحکم ناقابل شکست ہوتی ہے، اسی طرح وہ مجاہدین دشمن کے مقابلہ سے ہٹتے نہیں، مطلب یہ ہوا کہ تم جو کہتے ہو کہ ہم کو وہ کام معلوم ہوتا .... جو اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے تو یہ عمل تو جہاد ہے پھر اس کے نزول کے وقت گرانی کیوں ہوئی تھی اور احد میں کیوں بھاگ گئے تھے، باوجود ان تمام امور کے پیش نظر ہونے کے نہایت نازیبا بات اور خدا کو ناپسند ہے، ایسے دعویٰ کی باتیں کرنا جس کا خلاف ہونا معلوم بھی ہوچکا ہے تو اس میں لاف زنی اور غلط دعویٰ پر زجر کیا گیا، وعظ بےعمل اس کے مفہوم سے خارج ہے) اور (آگے کفار کے مستحق قتل و قتال ہونے کی علت یعنی ایذاء رسانی، تکذیب، مخالفت رسول کا بیان فرمانا مقصود ہے اور اسی کی مناسبت سے موسیٰ ؑ و عیسیٰ ؑ کا قصہ ذکر فرماتے ہیں پس ارشاد ہے کہ وہ وقت قابل ذکر ہے) جبکہ موسیٰ ؑ نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اے میری قوم مجھ کو کیوں ایذا پہنچاتے ہو حالانکہ تم کو معلوم ہے کہ میں تمہارے پاس اللہ کا بھیجا ہوا آیا ہوں (وہ ایذا میں مختلف طور پر تھیں جن میں سے بعض بعض قرآن مجید میں بھی خصوص سورة بقرہ میں مذکور ہیں اور حاصل ان سب کا سرکشی اور مخالفت ہے) پھر جب (اس فہمائش پر بھی) وہ لوگ ٹیڑھے ہی رہے (اور راہ پر نہ آئے) تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو اور (زیادہ) ٹیڑھا کردیا (یعنی مادہ مخالفت اور عصیان کا اور زیادہ بڑھ گیا جیسا کہ قاعدہ ہے کہ گناہ پر مداومت کرنے سے اللہ تعالیٰ کی طرف قلب کا میلان اور اس کی اطاعت کا جذبہ کم ہوتا چلا جاتا ہے) اور اللہ تعالیٰ (کا معمول ہے کہ وہ) ایسے نافرمانوں کو ہدایت (کی توفیق) نہیں دیتا (اسی طرح یہ لوگ رسول اللہ کو انواع مخالفت سے ایذائیں پہنچاتے ہیں، اس لئے ان کا ٹیڑھا پن اور فسق زیادہ ہوتا جاتا ہے کہ امید اصلاح کی نہیں رہی، پس ان کا فساد مٹانے کے لئے قتال کا حکم دینا مصلحت ہوا) اور (اسی طرح وہ وقت بھی قابل تذکرہ ہے) جبکہ عیسیٰ بن مریم ؑ نے (ارشاد) فرمایا کہ اے بنی اسرائیل میں تمہارے پاس اللہ کا بھیجا ہوا آیا ہوں کہ مجھ سے پہلے جو توراة (آ چکی) ہے اس کی تصدیق کرنے والا ہوں اور میرے بعد جو ایک رسول آنے والے ہیں جن کا نام (مبارک) احمد ہوگا، میں ان کی بشارت دینے والا ہوں (اور اس بشارت کا عیسیٰ ؑ سے منقول ہونا خود اہل کتاب کے بیان سے حدیثوں میں ثابت ہے، چناچہ خازن میں بروایتہ ابو داؤد بخاشی بادشاہ حبشہ کا جو کہ نصاریٰ کے عالم بھی تھے، یہ قول آیا ہے کہ واقعی آپ ہی ہیں جن کی بشارت عیسیٰ ؑ نے دی تھی اور خازن ہی میں تزمذی سے عبداللہ بن سلام کا قول جو کہ علماء یہود میں سے تھے آیا ہے کہ تورات میں رسول اللہ ﷺ کی صف لکھی ہے اور یہ کہ عیسیٰ ؑ آپ کے ساتھ مدفون ہوں گے اور چونکہ عیسیٰ ؑ تورات کے مبلغ تھے، اس لئے توراة میں اس بشارت کا ہونا نیز عیسیٰ ؑ سے منقول کہا جاوے گا اور مولانا رحمت اللہ صاحب نے اظہار الحق میں خود توراة کے موجودہ نسخوں سے متعدد بشارتیں نقل کی ہیں جلد دوم صفحہ 164 مطبوعہ قسطنطنیہ اور ان مضامین کا نا جیل موجودہ میں نہ ہونا اس لئے مضر نہیں کہ حسب تحقیق علماء محققین انا جیل کے نسخے محفوظ نہیں رہے، مگر تاہم جو کچھ موجودہ ہیں ان میں بھی اس قسم کا مضمون موجود ہے، چناچہ یوحنا کی انجیل مترجمہ عربی مطبوعہ لندن سن 1831 ء و سن 1833 ء کے چودہویں باب میں ہے کہ ”تمہاری لئے میرا جانا ہی بہتر ہے کیونکہ اگر میں نہ جاؤں تو فارقلیط تمہارے پاس نہ آوے، پس اگر میں جاؤں تو اس کو تمہارے پاس بھیج دوں گا“ فارقلیط ترجمہ احمد کا ہے، اہل کتاب کی عادت ہے کہ وہ ناموں کا بھی ترجمہ کردیتے ہیں، عیسیٰ ؑ نے عبرانی میں احمد فرمایا تھا، جب یونانی میں ترجمہ ہوا تو بیرکلوطوس لکھ دیا جس کے معنی ہیں احمد یعنی بہت سراہا گیا، بہت حمد کرنے والا، پھر جب یونانی سے عبرانی میں ترجمہ کیا تو اس کو فارقلیط کردیا اور بعض عبرانی نسخوں میں ایک تک نام مبارک احمد موجود ہے، دیکھو پادری پار کہرست کی یہ عبارت دباد حمدہ خل ہکوٹیم از حمایت الاسلام مطبوعہ بریلی سن 1873 ء ص 8481 ترجمہ اپالوجی گاؤ فری ہینگنس مطبوعہ لندن سن 1829 ء اور اس فارقلیط کی نسبت اس انجیل یوحنا میں یہ الفاظ ہیں ”وہ تمہیں سب چیزیں سکھا دے گا“ یہ ہیں وہ الفاظ جو نبی مستقل ہونے پر دال ہیں اور پوری بحث اس مقام کی تفسیر حقانی میں ہے اس کا ایک شمہ نقل کیا گیا ہے، غرض عیسیٰ ؑ نے یہ ارشاد فرمایا) پھر جب (یہ تمام مضامین ارشاد فرما کر اپنی نبوت کے اثبات کے لئے) وہ (عیسیٰ علیہ السلام) ان لوگوں کے پاس کھلی دلیلیں لائے تو وہ لوگ (ان دلائل یعنی معجزات کی نسبت) کہنے لگے کہ یہ صریح جادو ہے (اور جادو بتا کر نبوت کی تکذیب کی، کمافی الماتدة واذکففت بنی اسرآئیل عنک اذ جئتہم بالبینت الخ اسی طرح بعد عیسیٰ ؑ کے پھر رسول اللہ ﷺ کے دور رسالت میں کفار موجودین نے آپ کی تکذیب کی اور مخالفت کی اور یہ ظلم عظیم ہے، پس اس ظلم کا تعدیہ مٹانے کے لئے قتال کا حکم دینا مصلحت ہوا) اور (واقعی) اس شخص سے زیادہ کون ظالم ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھے، حالانکہ وہ اسلام کی طرف بلایا جاتا ہو اور اللہ ایسے ظالم لوگوں کو ہدایت (کی توفیق) نہیں دیا کرتا (اللہ پر جھوٹ باندھنا یہ ہے کہ نبوت کی تکذیب کی، اثبات المنفی اور نفی المثبت یعنی جو چیز اللہ کی طرف سے نہ ہو اس کو اللہ کی طرف منسوب کرنا اور جو اللہ کی طرف سے واقع میں ہو اس کی نفی کرنا، دونوں افتراء علی اللہ ہیں اور وہو یدعی اس لئے بڑھایا کہ اس سے زیادہ تقبیح ہوگئی، یعنی خود تو متنبہ کرنے سے بھی متنبہ نہ ہوا اور واللہ لایہدی اس لئے بڑھایا کہ ان کی حالت موجودہ اصلاح سے بعید ہوگئی اس لئے سزائے قتال ہی تجویز کیا جانا مصلحت ہوا، چناچہ جس کو اب بھی اسلام کی خبر نہ پہنچی ہو اول اس کو دعوت اسلام کرنا چاہئے جس اس سے انکار کرے جو کہ ظاہراً علامت ناامیدی کی ہے تب جہاد مشروع ہے، آگے ترغیب جہاد کیلئے وعدہ نصرت و غلبہ حق اور مغلوبیت باطل ارشاد ہے کہ) یہ لوگ یوں چاہتے ہیں کہ اللہ کے تور (یعنی دین اسلام) کو اپنے منہ سے (پھونک مار کر) بجھا دیں (یعنی تدبیرعملی کے ساتھ منہ سے بھی رد و اعتراض کی باتیں اس غرض سے کرتے ہیں کہ دین حق کو فروغ نہ ہو اور بعض اوقات قولی شبہات موثر ہوجاتے ہیں، یا یہ تمثیل ہے کہ ان کی ایسی مثال ہے جیسے کوئی منہ سے نور الٰہی کو بجھانا چاہتا ہو یعنی ایسے طریقہ سے بجھاوے جس میں ناکام رہے) حالانکہ اللہ اپنے نور (مذکور) کو کمال تک پہنچا کر رہے گا گو کافر لوگ کیسے ہی ناخوش ہوں (چنانچہ) وہ اللہ ایسا ہے جس نے (اسی اتمام نور کے لئے) اپنے رسول ﷺ کو ہدایت (کا سامان یعنی قرآن) اور سچا دین (یعنی اسلام) دے کر (دنیا میں) بھیجا ہے تاکہ اس (دین) کو (کہ وہ نورمذکور ہے) تمام (بقیہ) دینوں پر غالب کر دے (کہ یہی اتمام ہے) گو مشرک کیسے ہی ناخوش ہوں (وقد مر تفسیر الاتمام و الظہور فی سورة البراة فی مثل ہذہ الآیة)
معارف و مسائل
شان نزول
ترمذی نے حضرت عبداللہ بن سلام سے روایت کیا ہے اور حاکم نے اس کو روایت کر کے سند کو صحیح قرار دیا ہے کہ صحابہ کرام کی ایک جماعت نے آپس میں یہ مذاکرہ کیا کہ اگر ہمیں یہ معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب عمل کونسا ہے تو ہم اس پر عمل کریں، بغوی نے اس میں یہ بھی نقل کیا ہے کہ ان حضرات میں سے بعض نے کچھ ایسے الفاظ بھی کہے کہ اگر ہمیں احب الاعمال عنداللہ معلوم ہوجائے تو ہم اپنی جان و مال سب اس کے لئے قربان کردیں (مظہری)
ابن کثیر نے بحوالہ مسند احمد روایت کیا ہے کہ ان چند حضرات نے آپس میں جمع ہو کر یہ مذاکرہ کیا اور چاہا کہ کوئی صاحب جا کر رسول اللہ ﷺ سے اس کا سوال کریں مگر کسی کی ہمت نہ ہوئی ابھی یہ لوگ اسی حالت پر تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سب لوگوں کو نام بنام اپنے پاس بلایا (جس سے معلوم ہوا کہ آپ کو بذریعہ وحی ان کا اجتماع اور ان کی گفتگو معلوم ہوگئی تھی) جب یہ سب لوگ حاضر خدمت ہوگئے تو رسول اللہ ﷺ نے پوری سورة صف پڑھ کر سنائی جو اسی وقت آپ پر نازل ہوئی تھی۔
Top