Maarif-ul-Quran - Al-An'aam : 98
وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَّ مُسْتَوْدَعٌ١ؕ قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّفْقَهُوْنَ
وَهُوَ : اور وہی الَّذِيْٓ : وہ۔ جو۔ جس اَنْشَاَكُمْ : پیدا کیا تمہیں مِّنْ : سے نَّفْسٍ : وجود۔ شخص وَّاحِدَةٍ : ایک فَمُسْتَقَرٌّ : پھر ایک ٹھکانہ وَّمُسْتَوْدَعٌ : اور سپرد کیے جانے کی جگہ قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰيٰتِ : بیشک ہم نے کھول کر بیان کردیں آیتیں لِقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يَّفْقَهُوْنَ : جو سمجھتے ہیں
اور وہی ہے جس نے تم سب کو پیدا کیا ایک شخص سے پھر ایک تو تمہارا ٹھکانا ہے اور ایک امانت رکھی جانے کی جگہ البتہ ہم نے کھول کر سنا دیئے پتے اس قوم کو جو سوچتے ہیں
چوتھی آیت میں ارشاد ہے وَهُوَ الَّذِيْٓ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَّمُسْـتَوْدَعٌ مستقر قرار سے بنا ہے اس جگہ کو مستقر کہتے ہیں جو کسی چیز کے لئے جائے قرار ہو، اور مستودع، ودیعت سے مشتق ہے، جس کے معنی ہیں کسی چیز کو کسی کے پاس عارضی طور سے چند روز رکھ دینے کے، تو مستودع اس جگہ کو کہا جائے گا جہاں کوئی چیز عارضی طور پر چند روز رکھی جائے۔
یعنی اللہ تعالیٰ ہی وہ ذات پاک ہے جس نے انسان کو ایک جان یعنی حضرت آدم ؑ سے پیدا فرمایا، پھر اس کے لئے ایک مستقر یعنی مدت تک رہنے کی جگہ بنادی، اور ایک مستودع یعنی چند روزہ رہنے کی جگہ۔
قرآن کریم کے الفاظ تو یہی ہیں، ان کی تعبیر و تفسیر میں بہت سے احتمال ہیں، اسی لئے علماء تفسیر کے اقوال اس میں مختلف ہیں، کسی نے فرمایا مستودع ماں کا پیٹ، اور مستقر یہ دنیا ہے، کسی نے فرمایا کہ مستودع قبر ہے اور مستقر دار آخرت، اور بھی متعدد اقوال ہیں، اور الفاظ قرآنی میں سب کی گنجائش ہے، حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمة اللہ علیہ نے تفسیر مظہری میں اس کو ترجیح دی کہ مستقر دا رالآخرت کا مقام جنت یا دوزخ ہے، اور انسان کی ابتداء آفرینش سے آخرت تک جتنے مراحل اور درجات ہیں وہ سب مستودع یعنی چند روزہ قیام کی جگہ ہیں، خواہ شکم مادر ہو یا زمین پر رہنے سہنے کی جگہ یا قبر و برزخ، قرآن کریم کی ایک آیت سے بھی اس کی ترجیح معلوم ہوتی ہے، جس میں فرمایا(آیت) لترکبن طبقا عن طبق، یعنی تم ایک درجہ سے دوسرے درجہ کی طرف ہمیشہ چڑھتے رہو گے، جس کا حاصل یہ ہے کہ دار آخرت سے پہلے پہلے انسان اپنی پوری زندگی میں ایک مسافر کی حیثیت رکھتا ہے، جو ظاہری سکون وقرار کے وقت بھی درحقیقت سفر عمر کے منازل طے کر رہا ہے
مسافر ہوں کہاں جانا ہے، ناواقف ہوں منزل سے
اول سے پھرتے پھرتے گورنگ پہنچا ہوں مشکل سے
اس آخری آیت میں ظاہری ٹیپ ٹاپ اور مخلوقات کی نیر نگیوں میں مشغول ہو کر اپنے اصلی مستقر اور خدا وآخرت سے غافل ہوجانے والے کی آنکھیں کھول دی گئی ہیں، تاکہ وہ حقیقت کو پہچانے اور دنیا کے دھوکہ و فریب سے نجات پائے، مولانا جامی رحمة اللہ علیہ نے خوب فرمایا کہ
ہمہ اندر زمین ترازین است
کہ تو طفلی و خانہ رنگین است
Top