Maarif-ul-Quran - Al-An'aam : 92
وَ هٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ مُّصَدِّقُ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْهِ وَ لِتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰى وَ مَنْ حَوْلَهَا١ؕ وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ یُؤْمِنُوْنَ بِهٖ وَ هُمْ عَلٰى صَلَاتِهِمْ یُحَافِظُوْنَ
وَهٰذَا : اور یہ كِتٰبٌ : کتاب اَنْزَلْنٰهُ : ہم نے نازل کی مُبٰرَكٌ : برکت والی مُّصَدِّقُ : تصدیق کرنے والی الَّذِيْ : جو بَيْنَ يَدَيْهِ : اپنے سے پہلی (کتابیں) وَلِتُنْذِرَ : اور تاکہ تم ڈراؤ اُمَّ الْقُرٰي : اہل مکہ وَمَنْ : اور جو حَوْلَهَا : اس کے ارد گرد وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ يُؤْمِنُوْنَ : ایمان رکھتے ہیں بِالْاٰخِرَةِ : آخرت پر يُؤْمِنُوْنَ : ایمان لاتے ہیں بِهٖ : اس پر وَهُمْ : اور وہ عَلٰي : پر (کی) صَلَاتِهِمْ : اپنی نماز يُحَافِظُوْنَ : حفاظت کرتے ہیں
اور یہ قرآن کتاب ہے جو کہ ہم نے اتاری برکت والی تصدیق کرنے والی ان کی جو اس سے پہلی ہیں اور تاکہ تو ڈراوے مکہ والوں کو اور اس کے آس پاس والوں کو اور جن کو یقین ہے آخرت کا وہ اس پر ایمان لاتے ہیں اور وہ ہیں اپنی نماز سے خبردار
ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف نازل ہونے والی کتابوں کے بارے میں ان پر حجت تمام کرنے کے بعد تیسری آیت میں ارشاد فرمایاوَهٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ، یعنی جس طرح تورات کا خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونا انھیں بھی تسلیم ہے اسی طرح یہ قرآن بھی ہم نے نازل کیا ہے اور اس کے حق و صدق ہونے کے واسطے ان کے لئے یہ شہادت کافی ہے کہ قرآن ان سب چیزوں کی تصدیق کرتا ہے جو تورات و انجیل میں نازل ہوئی ہیں، اور تورات و انجیل کے بعد اس کے نازل کرنے کی ضرورت اس لئے ہوئی کہ یہ دونوں کتابیں تو بنی اسرائیل کے لئے بھیجی گئی تھیں، ان کے دوسری شاخ بنی اسماعیل جو عرب کہلاتے ہیں اور ام القریٰ یعنی مکہ اور اس کے اردگرد بستے ہیں، ان کی ہدایت کے لئے کوئی خاص پیغمبر اور کتاب اب تک نہ آئی تھی، اب یہ قرآن ان کے لئے خصوصاً اور پورے عالم کے لئے عموماً نازل کیا گیا ہے، مکہ معظمہ کو قرآن کریم نے ام القریٰ فرمایا، یعنی تمام شہروں اور بستیوں کی جڑ اور بنیاد، اس کی وجہ یہ ہے کہ تاریخی روایات کے مطابق ابتداء آفرینش میں پیدائش زمین کی ابتداء یہیں سے ہوئی ہے، نیز یہ کہ سارے عالم کا قبلہ اور عبادت میں مرکز توجہ یہی ہے (مظہری) ام القریٰ کے ساتھ وَمَنْ حَوْلَهَا فرمایا، یعنی مکہ کے تمام اطراف جس میں پورا عالم مشرق و مغرب اور جنوب و شمال داخل ہے۔
آیت کے آخر میں ارشاد فرمایاوَالَّذِيْنَ يُؤ ْمِنُوْنَ بالْاٰخِرَة ”یعنی جو لوگ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ قرآن پر بھی ایمان لاتے ہیں اور اپنی نمازوں کی پابندی کرتے ہیں۔ اس میں یہود اور مشرکین کی ایک مشترک بیماری پر تنبیہ کی گئی ہے کہ یہ بےفکری کہ جس کو چاہا مانا جس کو چاہا رد کردیا، اور اس کے خلاف محاذ بنا لیا، یہ اس مرض کا اثر ہے کہ وہ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، جس شخص کو آخرت اور یوم الحسنات پر ایمان ہوگا اس کو خوف خدا ضرور اس طرف متوجہ کرے گا، کہ دلائل میں غور کرے، اور حق بات کو قبول کرنے میں آبائی رسوم جاہلیت کی پروا نہ کرے۔
اور اگر غور کیا جائے تو آخرت سے بےفکری ہی اُمّ الامراض ہے، کفر و شرک بھی اسی کا نتیجہ ہوتا ہے اور سارے گناہ اور معاصی بھی، آخرت پر یقین رکھنے والے سے اگر کبھی کوئی غلطی اور گناہ سرزد بھی ہوجاتا ہے تو اس کا دل تڑپ اٹھتا ہے، اور بالآخر توبہ کرکے آگے کے لئے گناہ سے بچنے کا عزم کرتا ہے، اور درحقیقت خوف خدا اور فکر آخرت ہی وہ چیز ہے جو انسان کو انسان بناتی اور جرائم سے باز رکھتی ہے، اسی لئے قرآن کریم کی کوئی سورت بلکہ کوئی رکوع بھی شاید اس سے خالی نہیں کہ جس میں فکر آخرت کی طرف متوجہ نہ کیا گیا ہو، اللہم اجعل جملة ھمو منا ھما واحداھم الآخرۃ۔
Top