Maarif-ul-Quran - Al-An'aam : 90
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ هَدَى اللّٰهُ فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْ١ؕ قُلْ لَّاۤ اَسْئَلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا١ؕ اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٰى لِلْعٰلَمِیْنَ۠   ۧ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ الَّذِيْنَ : وہ جو هَدَى : ہدایت دی اللّٰهُ : اللہ فَبِهُدٰىهُمُ : سو ان کی راہ پر اقْتَدِهْ : چلو قُلْ : آپ کہ دیں لَّآ اَسْئَلُكُمْ : نہیں مانگتا میں تم سے عَلَيْهِ : اس پر اَجْرًا : کوئی اجرت اِنْ : نہیں هُوَ : یہ اِلَّا : مگر ذِكْرٰي : نصیحت لِلْعٰلَمِيْنَ : تمام جہان والے
یہ وہ لوگ تھے جن کو ہدایت کی اللہ نے سو تو چل ان کے طریقہ پر تو کہہ دے کہ میں نہیں مانگتا تم سے اس پر کچھ مزدوری، یہ تو محض نصیحت ہے جہان کے لوگوں کو
خلاصہ تفسیر
(اور ہم جو غم نہ کرنے کو اور صبر کرنے کو کہتے ہیں تو وجہ یہ ہے کہ سب انبیاء نے ایسا ہی کیا ہے چنانچہ) یہ حضرات (مذکورین) ایسے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے (اس صبر کی) ہدایت کی تھی سو (اس باب میں) آپ ﷺ بھی انہی کے طریق (صبر) پر چلئے (چونکہ آپ ﷺ کو بھی اس کی ہدایت کی گئی ہے، کیونکہ ان میں سے نہ آپ ﷺ کو نہ نفع نہ کوئی ضرر ہے جس کی وجہ سے غم اور بےصبری ہو اور اس مضمون کے اظہار کے واسطے ان سے تبلیغ کے وقت) آپ (یہ بھی) کہہ دیجئے کہ میں تم سے (اس تبلیغ قرآن) پر کچھ معاوضہ نہیں چاہتا (جس کے ملنے سے نفع اور نہ ملنے سے ضرر ہو، بےغرض نصیحت کرتا ہوں) یہ (قرآن) تو صرف تمام جہانوں کے واسطے ایک نصیحت ہے (جس کو ماننے سے تمہارا ہی نفع اور نہ ماننے سے تمہارا ہی نقصان ہے) اور ان (منکر) لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی جیسی قدر پہچاننا واجب تھی، ویسی قدر نہ پہچانی جبکہ (منہ بھر کر) یوں کہہ دیا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی بشر پر کوئی چیز (یعنی کوئی کتاب) ابھی نازل نہیں کی (یہ کہنا ناقدر شناسی اس لئے ہے کہ اس سے مسئلہ نبوت کا انکار لازم آتا ہے، اور نبوت کا منکر اللہ تعالیٰ کی تکذیب کرتا ہے، اور تصدیق حق واجب ہے، پس اس میں قدر شناسی واجب میں اخلال ہوا، یہ تو تحقیقی جواب تھا، اور الزامی مسکت جواب دینے کے لئے) آپ (ان سے) یہ کہئے کہ (یہ تو بتلاؤ کہ) وہ کتاب کس نے نازل کی ہے جس کو موسیٰ ؑ لائے تھے (یعنی توریت جس کو تم بھی مانتے ہو) جس کی یہ کیفیت ہے کہ وہ (خود مثل) نور (کے واضح) ہے اور (جن کی ہدایت کے لئے وہ آئی تھی ان) لوگوں کے لئے وہ (بوجہ بیان شرائع کے ذریعہ) ہدایت ہے جس کو تم نے (اپنی اغراض نفسانیہ کے لئے) متفرق اوراق میں رکھ چھوڑا ہے جن (میں جتنے اوراق کو چاہا ان) کو ظاہر کردیتے ہو (جس میں تمہارے مطلب کے خلاف کوئی بات نہ ہوئی) اور بہت سی باتوں کو (جو اپنے مطلب کے خلاف ہیں، یعنی جن اوراق میں وہ لکھی ہوئی ہیں ان کو) چھپاتے ہو اور (اس کتاب کی بدولت) تم کو بہت سی ایسی باتیں تعلیم کی گئیں جن کو (قبل کتاب ملنے کے) نہ تم (یعنی قوم بنی اسرائیل جو کہ وقت نزول آیت موجود تھی) جانتے تھے اور نہ تمہارے (قریب سلسلہ کے) بڑے (جانتے تھے، مطلب یہ کہ جس توریت کی یہ حالت ہے کہ اس کو اولا تو تم مانتے ہو، دوسرے بوجہ نور و ہدیٰ ہونے کے ماننے کے قابل بھی ہے، تیسرے ہر وقت تمہارے استعمال میں ہے، گو وہ استعمال شرمناک ہے، لیکن اس کی وجہ سے گنجائش انکار تو نہیں رہی، چوتھے تمہارے حق میں وہ بڑی نعمت اور منت کی چیز ہے، اسی کی بدولت عالم بنے بیٹھے ہو، اس حیثیت سے بھی اس میں گنجائش انکار نہیں، یہ بتلاؤ کہ اس کو کس نے نازل کیا ہے، اور چونکہ اس سوال کا جواب ایسا متعین ہے کہ وہ لوگ بھی اس کے سوا کوئی جواب نہ دیتے، اس لئے خود ہی جواب دینے کے لئے حضور ﷺ کو حکم ہے کہ) آپ ﷺ (وہی) کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے (کتاب مذکور کو) نازل فرمایا ہے (اور اس سے ان کا دعویٰ عام باطل ہوگیا) پھر (یہ جواب سنا کر) ان کو ان کے مشغلہ میں بیہودگی کے ساتھ لگا رہنے دیجئے (یعنی آپ کا منصبی کام ختم ہوگیا، نہ مانیں تو آپ ﷺ فکر میں نہ پڑیں ہم آپ ہی سمجھ لیں گے) اور (جس طرح توریت ہماری نازل کی ہوئی کتاب تھی اسی طرح) یہ (قرآن) بھی (جس کی تکذیب یہود کے قول مذکور سے اصل مقصود ہے) ایسی ہی کتاب ہے جس کو ہم نے (آپ ﷺ پر) نازل کیا ہے جو بڑی (خیرو) برکت والی ہے (چنانچہ اس پر ایمان لانا اور عمل کرنا موجب فلاح و نفع دارین ہے اور) اپنے سے پہلے (نازل شدہ) کتابوں (کے منزل من اللہ ہونے) کی تصدیق کرنے والی ہے (سو ہم نے اس قرآن کو نفع خلائق اور تصدیق کتب الٓہیہ کے لئے نازل فرمایا) اور (اس لئے نازل فرمایا کہ) تاکہ آپ (اس کے ذریعہ سے) مکہ والوں کو اور آس پاس والوں کو (خصوصیت کے ساتھ عذاب الٓہی سے جو کہ مخالفت پر ہوگا) ڈرائیں (اور یوں انذار عام بھی کریں (آیت) (لیکون للعالمین نذیرًا) اور (آپ کے انداز کے بعد گو سب ایمان نہ لاویں لیکن) جو لوگ آخرت کا (پورا) یقین رکھتے ہیں (جس سے عذاب کا اندیشہ ہوجائے اور اس سے بچنے کی فکر پڑجائے اور ہمیشہ طلب طریق نجات اور یقین حق کی دھن لگ جائے خوا کسی دلیل نقلی سے یا تجویز عقلی سے) ایسے لوگ (تو) اس (قرآن) پر ایمان لے (ہی) آتے ہیں اور (ایمان و اعتقاد کے ساتھ اس کے اعمال کے بھی پابند ہوتے ہیں، کیونکہ عذاب سے نجات کامل مجموعہ پر موعود ہے، چنانچہ) وہ اپنی نماز پر مداومت رکھتے ہیں (اور جب اس عبادت پر جو کہ ہر روز پانچ بار مکرر اور شاق ہے مداومت کرتے ہیں تو دوسری عبادات کے جو کہ گاہ گاہ اور سہل ہیں بدرجہ اولیٰ پابند ہوں گے، حاصل یہ کہ کسی کے ماننے نہ ماننے کی فکر نہ کیجئے جو اپنا بھلا چاہیں گے مان لیں گے، جو نہ چاہیں گے نہ مانیں گے آپ ﷺ اپنا کام کیجئے) اور اس شخص سے زیادہ کون ظالم ہوگا جو اللہ پر جھوٹ تہمت لگائے (اور مطلق نبوت یا خاص نبوت کا منکر ہو، جیسا اوپر بعض کا قول آیا ہے، مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلٰي بَشَرٍ مِّنْ شَيْء اور بعض کا قول تھا (آیت) (ابعث اللہ بشرا رسولاً) یا یوں کہے کہ مجھ پر وحی آتی ہے، حالانکہ اس کے پاس کسی بات کی بھی وحی نہیں آئی (جیسے مسیلمہ وغیرہ) اور (اسی طرح اس سے بھی زیادہ ظالم کون ہوگا) جو شخص کہ یوں کہے کہ جیسا کلام اللہ تعالیٰ نے (حسب دعویٰ رسول اللہ ﷺ نازل کیا ہے، اسی طرح کا میں بھی لا (کر دکھاتا ہوں (جیسا نضر یا عبداللہ مذکور کہتا تھا، غرض یہ سب لوگ بڑے ظالم ہیں) اور (ظالموں کا حال یہ ہے کہ) اگر آپ ﷺ (ان کو) اس وقت دیکھیں (تو بڑا ہولناک منظر دکھلائی دے) جبکہ یہ ظالم لوگ (جن کا ذکر ہوا) موت کی (روحانی) سختیوں میں (گرفتار) ہوں گے اور (موت کے) فرشتے (جو ملک الموت کے اعوان ہیں ان کی روح نکالنے کے واسطے ان کی طرف) اپنے ہاتھ بڑھا رہے ہوں گے (اور شدت کے ظاہر کرنے کو یوں کہتے جاتے ہوں گے کہ) ہاں (جلدی) اپنی جانیں نکالو (کہاں بچاتے پھرتے تھے، دیکھو) آج (مرنے کے ساتھ ہی) تم کو ذلت کی سزا دی جائے گی (یعنی جس میں تکلیف جسمانی بھی ہو اور ذلت روحانی بھی ہو) اس سبب سے کہ تم اللہ تعالیٰ کے ذمہ جھوٹی (جھوٹی) باتیں بکتے تھے (جیسے مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ اور اُوْحِيَ اِلَيَّ اور سَاُنْزِلُ وغیرہا)۔ اور تم اللہ تعالیٰ کی آیات (کے قبول کرنے) سے (جو کہ ذریعہ ہدایت تھی) تکبر کرتے تھے، (یہ کیفیت تو موت کے وقت ہوگی) اور (جب قیامت کا دن ہوگا تو اللہ تعالیٰ فرما دیں گے) تم ہمارے پاس (یارو مدگار سے) تنہا تنہا (ہوکر) آگئے (اور اس حالت سے آئے) جس طرح ہم نے اول بار (دنیا میں) تم کو پیدا کیا تھا (کہ نہ بدن پر کپڑا نہ پاؤں میں جوتا) اور جو کچھ ہم نے تم کو (دنیا میں سازوسامان) دیا تھا، (جس پر تم بھولے بیٹھے تھے) اس کو اپنے پیچھے ہی چھوڑ آئے (ساتھ کچھ نہ لاسکے، مطلب یہ کہ مال و دولت کے بھروسہ پر نہ رہنا، یہ سب یہاں ہی رہ جاوے گا) اور (تم میں جو بعض کو اپنے باطل معبودوں کی شفاعت کا بھروسہ تھا سو) ہم تو تمہارے ہمراہ (اس وقت) تمہارے ان شفاعت کرنے والوں کو نہیں دیکھتے (جس سے ثابت ہوا کہ واقع میں بھی تمہارے ساتھ نہیں ہیں) جن کی نسبت تم دعویٰ رکھتے تھے کہ وہ تمہارے معاملہ میں (ہمارے) شریک ہیں (کہ تمہارا جو معاملہ عبادت ہمارے ساتھ ہوتا تھا وہی ان کے ساتھ ہوتا تھا) واقعی تمہارے (اور ان کے) آپس میں تو قطع تعلق ہوگیا (کہ آج تم ان سے بیزار اور وہ تم سے بیزار، شفاعت کیا کریں گے) اور وہ تمہارا دعویٰ (جو مذکور ہوا) سب تم سے گیا گزرا ہوا (کچھ کام کا نہ نکلا تو اب پوری پوری مصیبت پڑے گی)۔

معارف و مسائل
پچھلی آیات میں حضرت خلیل اللہ ابراہیم ؑ پر اللہ کے عظیم الشان انعامات اور ان کے بلند درجات کا ذکر تھا، جن میں پوری نسل آدم ؑ کو عموماً اور اہل مکہ و عرب کو خصوصاً عملی صورت میں یہ دکھلانا مقصود تھا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی مکمل اطاعت کو اپنا مقصد زندگی ٹھہرا لے اور اس کے لئے اپنی محبوب چیزوں کی قربانی پیش کرے جیسے حضرت خلیل اللہ علیہ الصلوٰة والسلام نے پیش کی کہ ماں باپ اور قوم و وطن سب کو اللہ کے لئے چھوڑ دیا، پھر بناء بیت اللہ کی عظیم خدمت کے لئے ملک شام کے سبزہ زاروں کو چھوڑ کر مکہ کا ریگستان اختیار کیا، بیوی اور بچہ کو جنگل میں چھوڑ کر چلے جانے کا حکم ہوا تو فوری تعمیل کی اکلوتے محبوب بیٹے کی قربانی کا حکم ہوا تو اپنے حدِّ اختیار تک اس کی مکمل تعمیل کر دکھائی، ایسے اطاعت گزاروں کا اصل بدلہ تو قیامت کے بعد جنت ہی میں ملے گا، لیکن دنیا میں بھی حق تعالیٰ ان کو وہ مرتبہ اور دولت عطا فرماتے ہیں جس کے سامنے ساری دنیا کی دولتیں ماند پڑجاتی ہیں۔
حضرت خلیل اللہ ؑ نے اپنی قوم و برادری کو اللہ کے لئے چھوڑا تو اس کے بدلہ میں ان کو انبیاء (علیہم السلام) کی جماعت ملی جو بیشتر ان کی اولاد ہی میں ہیں، عراقی اور شامی وطن کو چھوڑا تو اللہ کا گھر اور بلد امین اور امّ القریٰ یعنی مکہ نصیب ہوا، ان کی قوم نے ان کو ذلیل کرنا چاہا تو اس کے بدلہ میں ان کو ساری دنیا اور قیام تک آنے والی نسلوں کا امام اور پیشوا بنادیا کہ دنیا کی مختلف اقوام و مذاہب آپ کے بڑے بڑے اختلاف کے باوجود حضرت ابراہیم ؑ کی تعظیم و تکریم پر متفق چلے آئے ہیں۔
اس سلسلہ میں سترہ انبیاء (علیہم السلام) کی فہرست شمار کی گئی تھی جن میں سے بیشتر حضرات ابراہیم ؑ کی اولاد و ذریت میں داخل ہیں، اور یہ بتلایا گیا تھا کہ یہ سب وہ بزرگ ترین ہستیاں ہیں جن کو حق تعالیٰ نے سارے عالم کے انسانوں میں سے اپنے دین کی خدمت کے لئے منتخب فرمایا اور ان کو سیدھا راستہ دکھلایا ہے۔
مذکور الصدر آیات میں سے پہلی آیت میں رسول کریم ﷺ کو خطاب فرما کر اہل مکہ کو سنایا گیا ہے کہ کسی قوم کے آباو اجداد محض باپ داد ہونے کی حیثیت سے قابل تقلید نہیں ہوسکتے کہ ان کے ہر قول و فعل کو قابل اتباع سمجھا جائے، جیسا کہ عموماً عرب اور اہل مکہ کا خیال تھا، بلکہ تقلید و اتباع کے لئے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ہم جس کی پیروی کرتے ہیں وہ خود بھی ہدایت کے صحیح راستہ پر ہے یا نہیں، اس لئے انبیاء (علیہم السلام) کی ایک مختصر فہرست شمار کرکے فرمایا گیا کہ اولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ هَدَى اللّٰهُ فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْ یعنی یہی وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت دی ہے، پھر فرمایا فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْ ، یعنی آپ ﷺ بھی ان کی ہدایت اور طریق کار کو اختیار فرماویں۔
اس میں ایک ہدایت تو اہل عرب اور تمام امت کو یہ ہے کہ تقلید آبائی کی وہم پرستی کو چھوڑیں، اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ہدایت یافتہ بزرگوں کا اتباع کریں۔
دوسری ہدایت خود رسول کریم ﷺ کو ہے کہ آپ ﷺ بھی انہی انبیاء سابقین کا طریق اختیار فرمائیں۔
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کی شریعتوں میں فروعی اور جزوی اختلافات پہلے بھی ہوتے رہے، اور ملت اسلام میں بھی ان سے مختلف بہت سے احکام نازل ہوئے ہیں تو پھر حضور ﷺ کو انبیاء سابقین کے طریق پر چلنے اور عمل کرنے کا کیا مطلب ہوا ؟ دوسری آیات اور روایات حدیث کے پیش نظر اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں تمام فروعی اور جزوی احکام میں انبیاء سابقین کا طریق کار اختیار کرنے کا حکم نہیں، بلکہ اصول دین، توحید، رسالت، آخرت میں ان کا طریق اختیار کرنا مقصود ہے جو کسی پیغمبر کی شریعت میں اَدَل بدل نہیں ہوئے، آدم ؑ سے لے کر خاتم الانبیاء ﷺ تک تمام انبیاء (علیہم السلام) کا یہی ایک عقیدہ اور طریقہ رہا ہے، باقی فروعی احکام جن میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی، ان میں بھی طریقہ کار مشترک رہا اور جن میں حالات کے بدلنے کی وجہ سے بتقاضائے وقت و حکمت کوئی دوسرا حکم دیا گیا اس کی تعمیل کی گئی۔
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا معمول یہ تھا کہ جب تک آپ ﷺ کو بذریعہ وحی کوئی خاص ہدایت نہ آئی تھی تو آپ فروعی معاملات میں بھی پچھلے انبیاء (علیہم السلام) کے طریقہ کار پر چلتے تھے (مظہری وغیرہ)
اس کے بعد آنحضرت ﷺ کو خصوصیت کے ساتھ ایک ایسے اعلان کا حکم دیا گیا جس کا اعلان تمام انبیاء سابقین بھی کرتے چلے آئے ہیں، وہ یہ کہ قُلْ لَّآ اَسْــــَٔـلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا ”یعنی میں تمہاری زندگی سنوارنے کے لئے جو ہدایات تمہیں دے رہا ہوں اس پر تم سے کوئی فیس اور معاوضہ نہیں لیتا، تم اس کو مان لو تو میرا کوئی نفع نہیں اور نہ مانو تو کوئی نقصان نہیں، یہ تو تمام دنیا جہان کے لوگوں کے لئے نصیحت و خیر خواہی کا پیغام ہے، تعلیم و تبلیغ پر کوئی معاوضہ نہ لینا تمام انبیاء (علیہم السلام) میں ہمیشہ مشترک چلا آیا ہے، اور تبلیغ کے مؤ ثر ہونے میں اس کا بڑا دخل ہے۔
Top