Maarif-ul-Quran - Al-An'aam : 8
وَ قَالُوْا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ مَلَكٌ١ؕ وَ لَوْ اَنْزَلْنَا مَلَكًا لَّقُضِیَ الْاَمْرُ ثُمَّ لَا یُنْظَرُوْنَ
وَقَالُوْا : اور وہ کہتے ہیں لَوْ : کیوں لَآ اُنْزِلَ : نہیں اتارا گیا عَلَيْهِ : اس پر مَلَكٌ : فرشتہ وَلَوْ : اور اگر اَنْزَلْنَا : ہم اتارتے مَلَكًا : فرشتہ لَّقُضِيَ : تو تمام ہوگیا ہوتا الْاَمْرُ : کام ثُمَّ : پھر لَا يُنْظَرُوْنَ : انہیں مہلت نہ دی جاتی
اور کہتے ہیں کیوں نہیں اترا اس پر کوئی فرشتہ اور اگر ہم اتاریں فرشتہ تو طے ہوجائے قصہ پھر ان کو مہلت بھی نہ ملے
تیسری آیت کے نزول کا بھی ایک واقعہ ہے کہ یہی عبداللہ بن ابی امیہ اور نضر بن حارث اور نوفل بن خالد ایک مرتبہ جمع ہو کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ مطالبہ پیش کیا کہ ہم تو آپ ﷺ پر جب ایمان لائیں گے جب کہ آپ ﷺ آسمان سے ایک کتاب لے کر آئیں، اور اس کے ساتھ چار فرشتے آئیں جو اس کی گواہی دیں کہ یہ کتاب اللہ ہی کی طرف سے آئی ہے اور یہ کہ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔
اس کا جواب حق تعالیٰ نے اہک تو یہ دیا کہ یہ غفلت شعار ایسے مطالبات کرکے اپنی موت و ہلاکت کو دعوت دے رہے ہیں، کیونکہ قانون الٓہی یہ ہے کہ جب کوئی قوم کسی پیغمبر سے کسی خاص معجزہ کا مطالبہ کرے، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کا مانگا ہوا معجزہ دکھلا دیا جائے، تو اگر وہ پھر بھی مانیں اور اسلام لانے میں ذرا تاخیر کریں تو پھر ان کو عذاب عام کے ذریعہ ہلاک کردیا جاتا ہے، یہ قوم اہل مکہ بھی یہ مطالبہ کسی نیک نیتی سے تو کر نہ رہی تھی، جس سے مان لینے کی توقع کی جاتی، اس لئے فرمایاوَلَوْ اَنْزَلْنَا مَلَكًا لَّقُضِيَ الْاَمْرُ ثُمَّ لَا يُنْظَرُوْنَ یعنی اگر ہم ان کا مانگا ہوا معجزہ دکھلا دیں کہ فرشتہ بھیج دیں اور یہ قوم ماننے والی تو ہے نہیں، تو معجزہ کے دیکھنے کے بعد بھی جب خلاف ورزی کرے گی تو اللہ کا حکم ان کے ہلاک کرنے کے لئے جاری ہوجائے گا، اور اس کے بعد ان کو ذرا بھی مہلت نہ دی جائے گی، اس لئے ان کو سمجھنا چاہئے کہ ان کی مانگی ہوئی کوئی نشانی اگر ظاہر نہیں کی گئی تو اس میں ان کی خیر ہے۔
اسی بات کا ایک دوسرا جواب چوتھی آیت میں دوسرے انداز سے دیا گیا کہ یہ سوال کرنے والے عجیب بیوقوف ہیں کہ فرشتوں کے نازل کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں، کیونکہ فرشتوں کے نازل ہونے کی دو صورتیں ہیں، ایک تو یہ کہ فرشتہ اپنی اصلی ہیئت و صورت میں سامنے آجائے تو اس کی ہیت کو تو کوئی انسان برداشت نہیں کرسکتا، بلکہ ہول کھا کر فوراً مرجانے کا خطرہ ہے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ فرشتہ بشکل انسانی آئے، جیسے جبریل امین نبی کریم ﷺ کے پاس بہت مرتبہ بشکل انسانی آئے ہیں، تو اس صورت میں اس سوال کرنے والے کو جو اعتراض آپ ﷺ پر ہے وہی اس فرشتہ پر بھی ہوگا، کہ یہ اس کو ایک انسان ہی سمجھے گا۔
ان تمام معاندانہ سوالات کے جواب دینے کے بعد پانچویں آیت میں نبی کریم ﷺ کی تسلی کے لئے ارشاد فرمایا کہ یہ استہزاء و تمسخر اور ایذاء رسانی کا معاملہ جو آپ ﷺ کی قوم آپ کے ساتھ کر رہی ہے کچھ آپ ﷺ ہی کے ساتھ مخصوص نہیں، آپ ﷺ سے پہلے بھی سب رسولوں کو ایسے دلدوز اور ہمت شکن واقعات سے سابقہ پڑا ہے، مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری، اور انجام یہ ہوا کہ استہزاء و تمسخر کرنے والی قوم کو اس عذاب نے آپکڑا جس کا تمسخر کیا کرتے تھے۔
خلاصہ یہ ہے کہ آپ ﷺ کا کام تبلیغ احکام ہے، وہ کرکے آپ اپنے قلب کو فارغ فرما لیں اس کا اثر کسی نے کچھ لیا یا نہیں، اس کی نگہداشت آپ کے ذمہ نہیں، اس لئے اس میں مشغول ہو کر آپ ﷺ قلب کو مغموم نہ کریں۔
Top