Maarif-ul-Quran - Al-An'aam : 5
فَقَدْ كَذَّبُوْا بِالْحَقِّ لَمَّا جَآءَهُمْ١ؕ فَسَوْفَ یَاْتِیْهِمْ اَنْۢبٰٓؤُا مَا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ
فَقَدْ كَذَّبُوْا : پس بیشک انہوں نے جھٹلایا بِالْحَقِّ : حق کو لَمَّا : جب جَآءَهُمْ : ان کے پاس آیا فَسَوْفَ : سو جلد يَاْتِيْهِمْ : ان کے پاس آجائے گی اَنْۢبٰٓؤُا : خبر (حقیقت) مَا كَانُوْا : جو وہ تھے بِهٖ : اس کا يَسْتَهْزِءُوْنَ : مذاق اڑاتے وہ
سو بیشک جھٹلایا انہوں نے حق کو جب ان تک پہنچا سو اب آئی جاتی ہے ان کے آگے حقیقت اس بات کی جس پر ہنستے تھے
پانچویں آیت میں اسی غفلت شعاری کی مزید تفصیل بعض واقعات کی طرف اشارہ کرکے بیان فرمائی ہے کہ فَقَدْ كَذَّبُوْا بالْحَقِّ لَمَّا جَاۗءَهُمْ ۭ فَسَوْفَ يَاْتِيْهِمْ اَنْۢبٰۗـؤ ُ ا مَا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ ، یعنی جب حق ان کے سامنے آیا تو انہوں نے حق کو جھٹلا دیا، حق سے مراد قرآن بھی ہوسکتا ہے اور نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس بھی۔
کیونکہ آنحضرت ﷺ ابتداء عمر سے آخر تک انہی قبائل عرب کے درمیان رہے، بچپن سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپا انہی کی آنکھوں کے سامنے آیا، ان کو یہ بھی پوری طرح واضح تھا کہ آنحضرت ﷺ نے کسی انسان سے مطلقاً کوئی تعلیم حاصل نہیں کی، یہاں تک کہ اپنا نام بھی خود نہ لکھتے تھے، پورے عرب میں آپ کا لقب امی مشہور تھا، چالیس سال کی عمر اسی حال میں ان کے درمیان گزری، کہ نہ کبھی شعر و شاعری سے دلچسپی ہوئی نہ کبھی کوئی علم وتعلیم سے مناسبت ہوئی، پھر چالیس سال پورے ہوتے ہی دفعةً آپ ﷺ کی زبان مبارک سے وہ حقائق و معارف اور علوم و فنون جاری ہوگئے کہ دنیا کے بڑے بڑے ماہر فلاسفر بھی ان کے سامنے عاجز نظر آئے، عرب کے تمام فصحاء و بلغاء کو اپنے لائے ہوئے کلام کا مقابلہ کرنے کے لئے چیلنچ دیا۔ یہ لوگ جو آنحضرت ﷺ کو شکست دینے کے لئے اپنی جان ومال، عزت و آبرو، اولاد و خاندان سب کچھ قربان کرنے کے لئے ہر وقت تلے رہتے تھے، ان میں سے کسی کی یہ جرأت نہ ہوئی کہ اس چیلنچ کو قبول کرکے قرآن کی ایک آیت کی مثال ہی پیش کردیتے۔
اسی طرح نبی کریم ﷺ اور قرآن کا اپنا وجود خود حقانیت کی بہت بڑی نشانی تھی، اس کے علاوہ آنحضرت ﷺ کے ہاتھوں ہزاروں معجزات اور کھلی کھلی نشانیاں ایسی ظاہر ہوئیں جس کا انکار کوئی صحیح الحواس انسان نہیں کرسکتا، مگر ان لوگوں نے ان ساری نشانیوں کو یکسر جھٹلا دیا، اسی لئے اس آیت میں ارشاد فرمایاففَقَدْ كَذَّبُوْا بالْحَقِّ لَمَّا جَاۗءَهُمْ۔
آخر آیت میں ان کے کفر و انکار اور تکذیب کے انجام بد کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ارشاد فرمایافَسَوْفَ يَاْتِيْهِمْ اَنْۢبٰۗـؤ ُ ا مَا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ ، یعنی آج تو یہ انجام سے غافل لوگ رسول کریم ﷺ کے معجزات اور آپ ﷺ کی لائی ہوئی ہدایات اور قیامت و آخرت سب کا مذاق اڑاتے ہیں، لیکن بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے، جب یہ سارے حقائق ان کی آنکھوں کے سامنے آجائیں گے، قیامت قائم ہوگی، ایمان و عمل کا حساب دینا ہوگا، اور ہر شخص اپنے کئے کی جزاء و سزاء پائے گا، مگر اس وقت کا یقین و اقرار ان کے کام نہ آئے گا۔ کیونکہ وہ روز عمل نہیں بلکہ روز جزا ہوگا۔ ابھی غور و فکر کی فرصت خدا تعالیٰ نے دے رکھی ہے، اس کو غنیمت سمجھ کر آیات الٓہیہ پر ایمان لانے ہی میں دنیا و آخرت کی فلاح ہے۔
Top