Maarif-ul-Quran - Al-An'aam : 52
وَ لَا تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ١ؕ مَا عَلَیْكَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ وَّ مَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَیْهِمْ مِّنْ شَیْءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُوْنَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ
وَ : اور لَا تَطْرُدِ : دور نہ کریں آپ الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَدْعُوْنَ : پکارتے ہیں رَبَّهُمْ : اپنا رب بِالْغَدٰوةِ : صبح وَالْعَشِيِّ : اور شام يُرِيْدُوْنَ : وہ چاہتے ہیں وَجْهَهٗ : اس کا رخ (رضا) مَا : نہیں عَلَيْكَ : آپ پر مِنْ : سے حِسَابِهِمْ : ان کا حساب مِّنْ شَيْءٍ : کچھ وَّ : اور مَا : نہیں مِنْ : سے حِسَابِكَ : آپ کا حساب عَلَيْهِمْ : ان پر مِّنْ شَيْءٍ : کچھ فَتَطْرُدَهُمْ : کہ تم انہیں دور کردو گے فَتَكُوْنَ : تو ہوجاؤ مِنَ : سے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور مت دور کر ان لوگوں کو جو پکارتے ہیں اپنے رب کو صبح اور شام چاہتے ہیں اس کی رضا تجھ پر نہیں ہے ان کے حساب میں سے کچھ اور نہ تیرے حساب میں سے ان پر ہے کچھ کہ تو ان کو دور کرنے لگے پس ہوجاوے گا تو بےانصافوں میں
خلاصہ تفسیر
اور ان لوگوں کو (اپنی مجلس سے) نہ نکالئے جو صبح و شام (یعنی علی الدوام بدوام مناسب) اپنے پروردگار کی عبادت کرتے ہیں، جس سے صرف اللہ کی رضا ہی کا مقصد رکھتے ہیں (اور کوئی غرض جاہ ومال کی نہیں، یعنی ان کی عبادت میں مداومت بھی ہے اور اخلاص بھی، اور اخلاص اگرچہ امر باطنی ہے مگر آثار و علامات سے پہچانا بھی جاسکتا ہے، اور جب تک عدم اخلاص کی کوئی دلیل نہیں، اخلاص ہی کا گمان رکھنا چاہئے) اور ان (کے باطن) کا حساب (اور تفتیش) ذرا بھی آپ ﷺ کے متعلق نہیں اور (یہ ان کے باطن کی تفتیش کا آپ سے متعلق نہیں کہ آپ ﷺ ان کو نکال دیں، (یعنی اگر ان کے باطنی اخلاص کی تفتیش آپ ﷺ کے ذمہ ہوتی تو اس کی گنجائش تھی کہ جن کے اخلاص کی تحقیق نہ ہوجائے ان کو الگ کردیں، مگر وہ آپ ﷺ کے ذمہ نہیں، اور دوسری کوئی وجہ ان کو نکالنے کے جواز کی موجود نہیں، اور چونکہ آنحضرت ﷺ امت کے مربی ہیں، اور مربی کے لئے اپنے ماتحتوں کے احوال کی تفتیش کرنے کا احتمال ہوسکتا تھا، مگر اس کا عکس کہ وہ لوگ اپنے پیغمبر ﷺ کے باطنی احوال کی تفتیش کریں، اس کا کوئی احتمال ہی نہیں اس لئے وہ قطعاً منفی ہے، اس جگہ محتمل کو متیقن کے ساتھ برابر قرار دے کر اس کی نفی کی گئی تاکہ اس کا منفی ہونا بھی یقینی ہوجاوے) ورنہ (ان کے نکالنے سے) آپ ﷺ نامناسب کام کرنے والوں میں ہوجاویں گے اور (ہم نے جو مؤ منوں کو غریب، کافروں کو رئیس بنا رکھا ہے جو بظاہر مقتضائے قیاس سے بعید ہے) تو (اس کی وجہ یہ ہے کہ) اسی طور پر ہم نے (ان میں سے) ایک (یعنی کفار) کو دوسروں (یعنی مؤ منوں) کے ذریعہ آزمائش میں ڈال رکھا ہے (یعنی اس طرز عمل میں امتحان ہے کفار کا) تاکہ یہ لوگ (مؤ منوں کے متعلق) کہا کریں کیا یہی لوگ ہیں کہ ہم سب میں سے (انتخاب کر کے) ان پر اللہ تعالیٰ نے (اپنا) فضل کیا ہے (یعنی اپنے دین اسلام کے لئے منتخب کیا ہے) کیا یہ بات نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ حق شناسوں کو خوب جانتا ہے (ان غریب لوگوں نے اپنے منعم حقیقی کا حق پہچانا، طلب ِ حق میں لگ گئے، دین ِحق اور قبول عنداللہ سے مشرف کئے گئے، اور ان رؤ سا نے ناشکری اور کفر کیا وہ اس نعمت سے محروم رہے) اور جب وہ لوگ آپ کے پاس آویں جو کہ ہماری آیتوں پر ایمان بھی رکھتے ہیں تو آپ (ان کو بشارت سنانے کے لئے) یوں کہہ دیجئے کہ تم پر سلامتی ہے (یعنی کفار پر جو ہر طرح کی آفات آخرت میں پڑیں گے ان سے تم مامون ہو، اور دوسرے یہ بھی کہ) تمہارے رب نے (اپنے فضل وکرم سے) رحمت کرنا (اور تم کو نعمتیں دینا) اپنے ذمہ مقرر کرلیا ہے (یہاں تک) کہ جو شخص تم میں سے کوئی برا کام کر بیٹھے (جو کہ) جہالت سے (ہوجاتا) کیونکہ خلاف حکم کرنا عملی جہالت ہے مگر پھر وہ اس کے بعد توبہ کرلے (اور آئندہ کو اپنے اعمال کی) اصلاح رکھے (اس میں یہ بھی آگیا کہ اگر وہ توبہ ٹوٹ جائے تو پھر توبہ کرلے) تو اللہ تعالیٰ کی یہ شان ہے کہ (اس کے لئے بھی) بڑی مغفرت کرنے والے ہیں (کہ گناہ کی سزا بھی معاف کردیں گے) اور بڑی رحمت کرنے والے ہیں (کہ طرح طرح کی نعمتیں بھی دیں گے) اور (جس طرح ہم نے اس مقام پر مؤمنین اور کفار کے حال ومآل کی تفصیل کردی) اسی طرح ہم آیات کی (جو کہ دونوں فریق کے حال ومآل پر مشتمل ہوں) تفصیل کرتے رہتے ہیں (تاکہ مؤمنین کا طریقہ بھی ظاہر ہوجاوے) اور تاکہ مجرمین کا طریقہ (بھی) ظاہر کردیا جائے (اور حق و باطل کے واضح ہونے سے طالب حق معرفت حق آسان ہوجائے)۔

معارف و مسائل
نخوت و جاہلیت کا ازالہ اور عزت وذلت کا اسلامی معیار اسلام میں امیر و غریب کا کوئی امتیاز نہیں
جن لوگوں نے انسان ہونے کے باوجود انسانیت کو نہیں پہچانا بلکہ انسان کو دنیا کے مختلف جانوروں میں سے ایک ہو شیار جانور قرار دیا، جس نے دوسرے جانوروں کو اپنا تابع و محکوم بنا کر سب سے خدمت لی، ان کے نزدیک انسان کی تخلیق کا منشاء اس کے سوا ہو ہی کیا سکتا ہے کہ وہ ایک جانور کی طرح کھانے پینے، سونے جاگنے اور دوسرے حیوانی جذبات کو استعمال کرنے ہی کو مقصد زندگی سمجھیں، اور جب مقصد زندگی صرف یہی ہو تو یہ بھی ظاہر ہے کہ اس دنیا میں اچھے برے، بڑے چھوٹے، باعزت وبے عزت، شریف و رذیل کے پہچاننے کا معیار یہی ہوسکتا ہے کہ جس کے پاس کھانے، پینے، پہننے برتنے کا سامان زیادہ ہو وہ کامیاب اور باعزت اور شریف ہے، اور جس کے پاس یہ چیزیں کم ہوں وہ بےعزت، ذلیل اور نامراد و ناکام ہے۔
انصاف کی بات یہ ہے کہ اس عقیدہ و نظریہ پر اخلاق و اعمال صالحہ کی کوئی بحث ہی انسان کے شریف اور معزز ہونے میں نہیں آتی، بلکہ وہی عمل عمل صالح اور خلق خلق حسن ہوگا، جس کے ذریعہ یہ حیوانی مقاصد اچھی طرح پورے ہو سکیں۔
اسی لئے تمام انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے لائے ہوئے دین و مذہب کا پہلا اور آخری سبق یہی رہا ہے کہ اس زندگی کے بعد ایک دوسری زندگی ہے جو دائمی اور غیر منقطع ہوگی، وہاں کی راحت بھی مکمل اور دائمی ہوگی اور تکلیف و عذاب بھی مکمل اور دائمی، دنیا کی زندگی خود مقصد نہیں، بلکہ دوسری زندگی میں جو سامان کام آنے والا ہے اس کی فراہمی اس چند روزہ زندگی کا اصلی مقصد ہے
رہا مرنے کی تیاری میں مصروف
مِرا کام اور اس دنیا میں تھا کیا
اور انسان وحیوان میں یہی امتیازی فرق ہے کہ حیوانات کو اگلی زندگی کا کوئی فکر نہیں، بخلاف انسان کے اس کی سب سے بڑی فکر اہل ِ عقل وہوش کے نزدیک دوسری زندگی کی درستی ہے، اسی عقیدہ و نظریہ پر شرافت و رذالت اور عزت وذلت کا معیار ظاہر ہے کہ زیادہ کھانا پینا یا زیادہ مال و دولت جمع کرلینا نہیں ہوگا، بلکہ اخلاق حسنہ اور اعمال صالحہ ہوں گے، جن پر آخرت کی عزت کا مدار ہے۔
دنیا جس وقت بھی انبیاء (علیہم السلام) کی ہدایات اور تعلیمات اور عقیدہ آخرت سے غافل ہوئی تو اس کا طبعی نتیجہ سامنے آگیا، کہ عزت و دولت اور شرافت ورذالت کا معیار صرت روٹی اور پیٹ رہ گیا، جو اس میں کامیاب ہے وہ شریف و معزز کہلاتا ہے، جو اس میں ناکام یا ادھورا ہے وہ غریب، بےعزت، رذیل و ذلیل سمجھا جاتا ہے۔
اس لئے ہر زمانہ میں صرف حیات دنیا کی بھول بھلیّاں میں پھنسے ہوئے انسانوں نے مالدار کو معزز وشریف اور غریب و فقیر کو بےعزت ورذیل قرار دیا، حضرت نوح ؑ کی قوم نے ایمان لانے والے غریب لوگوں کو اسی معیار سے رذیل کہہ کر یہ اعتراض کیا کہ ہم ان رذیل لوگوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے، اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہمیں کوئی پیغام سنائیں تو ان غریب وغرباء کو اپنے پاس سے نکال دیجئے، (آیت) قالو انؤمن واتبعک الارذلون،”یعنی یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم آپ پر ایسی حالت میں ایمان لے آئیں جبکہ آپ کے متبعین رذیل قسم کے لوگ ہیں۔“ حضرت نوح ؑ نے ان کے اس دل خراش کلام کا جواب مخصوص پیغمبرانہ انداز میں یہ دیا کہوما علمی بما کانو یعملون،۔۔ ، (آیت) ان حسابھم الا علی ربی لوتشعرون ”یعنی میں ان کے اعمال سے پوری طرح واقف نہیں کہ یہ فیصلہ کرسکوں کہ وہ رذیل ہیں یا شریف ومعزز، بلکہ ہر شخص کے عمل کی حقیقت اور اس کا حساب میرے رب ہی کو معلوم ہے، جو دلوں کے بھید سے باخبر ہے“۔
نوح ؑ نے ان جاہل اور متکبر انسانی شرافت و رذالت کی حقیقت سے ناآشانہ لوگوں کا رخ ایک واضح حقیقت کی طرف پھیر کر یہ بتلا دیا کہ شریف و رذیل کے الفاظ تم لوگ استعمال کرتے ہو اور ان کی حقیقت سے واقفیت نہیں، بس پیسہ والے کو شریف اور غریب کو رذیل کہنے لگے، حالانکہ شرافت و رذالت کا معیار پیسہ نہیں، بلکہ اعمال و اخلاق ہیں، اس موقع پر حضرت نوح ؑ یہ فرما سکتے تھے کہ اعمال و اخلاق کے معیار پر یہ لوگ تم سے زیادہ شریف و معزز ہیں، لیکن پیغمبرانہ طرز تبلیغ و اصلاح نے اس کی اجازت نہ دی، کہ ایسا جملہ کہیں جس سے مخاطب کو اشتعال ہو، اس لئے صرف اتنا فرما دیا کہ رذالت کا مدار تو افعال و اعمال پر ہے اور میں ان کے اعمال سے پوری طرح واقف نہیں، اس لئے ان کے شریف یا رذیل ہونے کا فیصلہ نہیں کرسکتا۔
نوح ؑ کے بعد بھی ہر زمانہ میں قوم کے غریب لوگ خواہ وہ اپنے اخلاق و اعمال کے اعتبار سے کتنے ہی شریف اور باعزت ہوں مگر دنیا پرست، نخوت شعار لوگ ان کو حقیر و ذلیل کہتے آئے ہیں، اور یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنی بصیرت اور اخلاق صالحہ کی بنا پر ہر زمانہ میں انبیاء (علیہم السلام) کی دعوت قبول کرنے میں پہل کی، یہاں تک کہ مذاہب و ملل کی تاریخ پر نظر رکھنے والوں کے نزدیک کسی پیغمبر کی صدق و حقانیت کی ایک دلیل یہ بن گئی کہ ان کے ابتدائی متبعین قوم کے غریب لوگ ہوں، یہی وجہ تھی کہ جب ہرقل شاہ روم کے پاس آنحضرت ﷺ کا گرامی نامہ دعوت اسلام کے لئے پہنچا اور اس نے آپ کی حقانیت و صدق کی تحقیق کرنا چاہی تو واقف کار لوگوں سے آنحضرت ﷺ کے بارے میں جو سوالات کئے ہیں ان میں ایک سوال یہ بھی تھا کہ ان کے اکثر متبعین غریب عوام ہیں یا قوم کے بڑے لوگ ؟ جب اس کو بتلایا گیا کہ غریب لوگ ہیں تو اس نے کہا ہم اتباع الرسل یعنی رسولوں کے ابتدائی متبعین یہی لوگ ہوا کرتے ہیں۔
آنحضرت ﷺ کے عہد مبارک میں پھر یہی سوال کھڑا ہوا، متذکرہ آیات میں اسی کا جواب خاص ہدایات کے ساتھ مذکور ہے۔
ابن کثیر رحمة اللہ علیہ نے امام ابن جریر رحمة اللہ علیہ کی روایت سے نقل کیا ہے کہ کفار قریش کے چند سردار عتبہ، شیبہ، ابن ربیعہ اور مطعم بن عدی اور حارث بن نوفل وغیرہ، آنحضرت ﷺ کے چچا ابو طالب کے پاس آئے اور کہا، آپ کے بھتیجے محمد ﷺ کی بات سننے اور ماننے سے ہمارے لئے ایک رکاوٹ یہ بھی ہے کہ ان کے اردگرد ہر وقت وہ لوگ رہتے ہیں جو یا تو ہمارے غلام تھے، ہم نے ان کو آزاد کردیا، اور یا وہ لوگ ہیں جو ہمارے ہی رحم وکرم پر زندگی گزارتے تھے، ان حقیر و ذلیل لوگوں کے ہوتے ہوئے ہم ان کی مجلس میں شریک نہیں ہوسکتے۔ آپ ان سے کہہ دیں کہ اگر ہمارے آنے کے وقت وہ ان لوگوں کو مجلس سے ہٹا دیا کریں تو ہم ان کی بات سنیں اور غور کریں۔
ابو طالب نے آنحضرت ﷺ سے ان کی بات نقل کی تو فاروق اعظم ؓ نے یہ رائے دی کہ اس میں کیا حرج ہے، کچھ دنوں کے لئے آپ یہ بھی کر دیکھیں، یہ لوگ تو اپنے بےتکلف محبین ہیں، ان لوگوں کے آنے کے وقت مجلس سے ہٹ جایا کریں گے۔
اس پر آیر مذکورہ نازل ہوئی، جس میں سختی کے ساتھ ایسا کرنے سے رسول کریم ﷺ کو منع فرما دیا گیا، نزول آیت کے بعد فاروق اعظم ؓ کو معذرت کرنا پڑی، کہ میری رائے غلط تھی۔
اور یہ غریب لوگ جن کے بارے میں یہ گفتگو ہوئی اس وقت حضرت بلال حبشی ؓ صہیب رومی ؓ عمار بن یاسر رضٰ اللہ عنہ، مولیٰ ابی حذیفہ ؓ، صبیح ؓ مولیٰ اسید ؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ، مقداد ابن عمرو ؓ مسعود بن القاری ؓ ذوالشمالین ؓ وغیرہ صحابہ کرام تھے، جن کی عزت و شرافت کا پروانہ آسمان سے نازل ہوا، اور قرآن میں اسی کے متعلق دوسری جگہ اس کی تاکید ان الفاظ میں آئی(آیت) واصبر نفسک مع الذین یدعون ”جس میں آنحضرت ﷺ کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ آپ ﷺ اپنے نفس کو ان لوگوں میں باندھ رکھیں جو صبح و شام یعنی ہر وقت اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں اخلاص کے ساتھ، آپ ﷺ اپنی نظریں ان کے سوا کسی پر نہ ڈالئے۔ جس کی غرض یہی ہوسکتی ہے کہ حیات دنیا کی زینت مقصود ہو، اور ایسے لوگوں کی بات نہ مانئے جن کے دلوں کو ہم نے اپنے ذکر سے غفلت میں ڈال دیا، اور جو اپنی نفسانی خواہشات کے پیرو ہوگئے، اور جن کا کام ہی حدود سے نکل جانا ہے“۔
آیت مذکورہ میں ان غریب لوگوں کی صفت یہ بتلائی کہ وہ صبح شام اپنے رب کو پکارتے ہیں، اس میں صبح و شام سے مراد محاورہ کے مطابق روز وشب کے تمام اوقات ہیں، اور پکارنے سے مراد عبادت کرنا ہے، اور روزوشب کی اس عبادت کے ساتھ یہ قید بھی لگا دی کہ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَهٗ جس سے بتلا دیا کہ عبادت میں جب تک اخلاص نہ ہو اس کا کوئی اعتبار نہیں۔
آخر آیت میں جو یہ ارشاد فرمایا گیا کہ ان کا حساب آپ ﷺ کے ذمہ نہیں، اور آپ ﷺ کا حساب ان کے ذمہ نہیں، ابن عطیہ اور زمخشری وغیرہ کی تحقیق کے مطابق اس میں حسابھم اور علیہم کی ضمیریں ان روساء مشرکین کی طرف راجع ہیں، جو غریب مسلمانوں کو مجلس سے ہٹا دینے کی فرمائش کیا کرتے تھے، تو حق تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو بتلا دیا کہ یہ لوگ خواہ ایمان لائیں یا نہ لائیں آپ ﷺ بمقابلہ غرباء مسلمین کے ان کی پروا نہ کریں، کیونکہ ان کے حساب کی ذمہ داری آپ ﷺ پر نہیں۔ جیسا کہ آپ ﷺ کے حساب کی ذمہ داری ان پر نہیں، اگر یہ ذمہ داری آپ ﷺ پر ہوتی، یعنی ان کے مسلمان نہ ہونے پر آپ ﷺ سے مواخذہ ہوتا تو اس صورت میں آپ رؤ ساء مشرکین کی خاطر غرباء مسلمین کو مجلس سے ہٹا سکتے تھے، اور جب ایسا نہیں تو ان کو مجلس سے ہٹانا کھلی بےانصافی ہے۔ اگر آپ ﷺ ایسا کریں تو آپ ﷺ کا شمار بےانصاف لوگوں میں ہوجائے گا۔
دوسری آیت میں ارشاد فرمایا گیا کہ ہم نے اسی طرح ایک کو دوسروں کے ذریعہ آزمائش میں ڈال رکھا ہے، تاکہ رؤ ساء قریش خدا تعالیٰ کی اس قدرت قاہرہ کا تماشا دیکھیں، کہ غریب مسلمان جن کو وہ حقیر و ذلیل سمجھتے تھے، اللہ کے رسول ﷺ کا اتباع کرنے سے کس مقام پر پہنچے اور دنیا و آخرت میں ان کو کیسی عزت حاصل ہوئی، اور وہ یہ کہتے پھریں کہ کیا یہی غریب لوگ اللہ کے انعام و اکرام کے مستحق تھے کہ ہم سب اشراف کو چھوڑ کر ان کو نوازا گیا
ہر دمش برمن دل سوختہ لطف دگراست
ایں گدابیں کہ چہ سائشتہ انعام افتاد
کشاف وغیرہ کی تحقیق کے مطابق ان کا یہ قول اس ابتلاء و امتحان کا نتیجہ ہے جو ان کا ضعفاء و مسلمین کے ذریعہ لیا گیا تھا وہ اس امتحان میں ناکام ہوئے، بجائے اس کے کہ قدرت کے اس مظاہرہ پر غور کرکے اس نتیجہ پر پہنچے کہ شرافت و رذالت، مال و دولت وغیرہ پر موقوف نہیں، بلکہ اس کا مدار اخلاق و اعمال پر ہے، وہ الٹا اللہ تعالیٰ پر یہ الزام لگانے لگے کہ مستحق اعزاز تو ہم تھے، ہمیں چھوڑ کر ان کو اعزاز کیوں دیا گیا ؟ حق تعالیٰ نے اس کے جواب میں پھر ان کو اصل حقیقت کی طرف اس جملہ سے متوجہ فرمایااَلَيْسَ اللّٰهُ بِاَعْلَمَ بالشّٰكِرِيْنَ ، یعنی اللہ تعالیٰ خوب جانتے ہیں کہ کون لوگ حق شناس اور شکر گزار ہیں، مطلب یہ ہے کہ حقیقت کے اعتبار سے شریف و معزز وہ شخص ہے جو اپنے محسن کا حق پہچانے اور شکر گزار ہو، اور وہی مستحق انعام و اکرام ہے نہ کہ وہ جو رات دن اپنے منعم و محسن کی نعمتوں میں کھیلنے کے باوجود اس کی نافرمانی کرتا ہے۔
چند احکام و ہدایات
آیات مذکورہ سے چند احکام و ہدایت مستفاد ہوئیں
اول یہ کہ کسی کے پھٹے کپڑے یا ظاہری خستہ حالی دیکھ کر اس کو حقیر و ذلیل سمجھنے کا کسی کو حق نہیں، بسا اوقات ایسے لباس میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو اللہ کے نزدیک نہایت معزز و مقبول ہیں، ایک حدیث میں رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہبہت سے شکستہ حال غبار آلود لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ وہ اللہ کے مقبول ہیں، اگر کسی کام کے لئے قسم کھا بیٹھیں کہ ایسا ہوگا تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم کو ضرور پورا فرماتے ہیں۔
دوسرے یہ کہ شرافت و رذالت کا معیار محض دنیا کی دولت و ثروت کو سمجھنا انسانیت کی توہین ہے، اس کا اصل مدار اخلاق و اعمال صالحہ پر ہے۔
تیسرے یہ کہ کسی قوم کے مصلح اور مبلغ کے لئے اگرچہ تبلیغ عام بھی ضروری ہے جس میں موافق مخالفت، ماننے والے اور نہ ماننے والے سب مخاطب ہوں۔ لیکن ان لوگوں کو حق مقدم ہے جو اس کی تعلیمات کو اپنا کر اس پر چل رہے ہوں، دوسروں کی خاطر ان کو مؤ خر کرنا یا نظر انداز کرنا جائز نہیں، مثلاً غیر مسلموں کی تبلیغ کے لئے ناواقف مسلمانوں کی تعلیم و اصلاح کو مؤ خر نہیں کرنا چاہئے۔
چوتھے یہ کہ اللہ تعالیٰ کے انعامات بقدر شکرگزاری بڑھتے ہیں جو شخص انعامات الٓہیہ کی زیادتی کا طالب ہے اس پر لازم ہے کہ قول و عمل سے شکر گزاری کو اپنا شعار بنالے۔
Top