Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-An'aam : 50
قُلْ لَّاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِیْ خَزَآئِنُ اللّٰهِ وَ لَاۤ اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَ لَاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّیْ مَلَكٌ١ۚ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰۤى اِلَیَّ١ؕ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الْاَعْمٰى وَ الْبَصِیْرُ١ؕ اَفَلَا تَتَفَكَّرُوْنَ۠ ۧ
قُلْ
: آپ کہ دیں
لَّآ اَقُوْلُ
: نہیں کہتا میں
لَكُمْ
: تم سے
عِنْدِيْ
: میرے پاس
خَزَآئِنُ
: خزانے
اللّٰهِ
: اللہ
وَلَآ
: اور نہیں
اَعْلَمُ
: میں جانتا
الْغَيْبَ
: غیب
وَلَآ اَقُوْلُ
: اور نہیں کہتا میں
لَكُمْ
: تم سے
اِنِّىْ
: کہ میں
مَلَكٌ
: فرشتہ
اِنْ اَتَّبِعُ
: میں نہیں پیروی کرتا
اِلَّا
: مگر
مَا يُوْحٰٓى
: جو وحی کیا جاتا ہے
اِلَيَّ
: میری طرف
قُلْ
: آپ کہ دیں
هَلْ
: کیا
يَسْتَوِي
: برابر ہے
الْاَعْمٰى
: نابینا
وَالْبَصِيْرُ
: اور بینا
اَفَلَا تَتَفَكَّرُوْنَ
: سو کیا تم غور نیں کرتے
تو کہہ میں نہیں کہتا تم سے کہ میرے پاس ہیں خزانے اللہ کے اور نہ میں جانوں غیب کی بات اور نہ میں کہوں تم سے کہ میں فرشتہ ہوں میں اسی پر چلتا ہوں جو میرے پاس اللہ کا حکم آتا ہے تو کہہ دے کب برابر ہوسکتا ہے اندھا اور دیکھنے والا سو کیا تم غور نہیں کرتے
خلاصہ تفسیر
آپ ﷺ (ان معاند لوگوں سے) کہہ دیجئے کہ نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے تمام خزانے ہیں (کہ جو کچھ مجھ سے مانگا جائے وہ اپنی قدرت سے دیدوں) اور نہ میں تمام غیب کی چیزوں کو جانتا ہوں (جو اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہے) اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں میں تو صرف اس وحی کا اتباع کرتا ہوں جو میرے پاس آتی ہے (جس میں مقتضائے وحی پر خود عمل کرنا بھی داخل ہے اور دوسروں کو دعوت دینا بھی، جیسا کہ پچھلے تمام انبیاء (علیہم السلام) کا بھی یہی حال تھا، پھر) آپ ﷺ ان سے کہئے کہ اندھا اور بینا کہیں برابر ہوسکتا ہے (اور جب یہ بات سب کو مسلم ہے) تو کیا تم (آنکھوں والا بننا نہیں چاہتے اور اس تقریر مذکور میں) غور (کامل بقصد طلب حق) نہیں کرتے (کہ حق واضح ہوجائے اور تم بیناؤں میں داخل ہوجاؤ) اور اگر (اس پر بھی وہ عناد سے باز نہ آئیں تو ان سے بحث مباحثہ بند کر دیجئے اور آپ ﷺ کا جو اصلی کام ہے تبلیغ رسالت کا اس میں مشغول ہوجائیے اور) ایسے لوگوں کو (کفر و معصیت پر عذاب الہی سے خاص طور سے) ڈرائیے (جو اعتقاداً یا کم از کم احتمالاً) اس بات سے اندیشہ رکھتے ہیں (کہ قیامت میں) اپنے رب کے پاس ایسی حالت میں جمع کئے جاویں گے کہ اللہ کے سوا (جس جس کو مددگار یا سفارش کرنے والا کفار نے سمجھا تھا اس وقت ان میں سے) نہ کوئی ان کا مددگار ہوگا اور نہ کوئی (مستقل) اشاعت کرنے والا، شاید یہ لوگ (عذاب سے) ڈر جاویں (اور کفر و معصیت سے باز آجائیں)۔
معارف و مسائل
کفار عرب کی طرف سے فرمائشی معجزات کا معاندانہ مطالبہ
کفار مکہ کے سامنے رسول کریم ﷺ کے بیشمار معجزات اور اللہ تعالیٰ کی آیات بینات کا ظہور ہوچکا تھا، رسول کریم ﷺ کا بحالت یتیمی دنیا میں تشریف لانا لکھنے پڑھنے سے بالکل الگ ایک امی محض ہو کر رہنا، ایسی زمین میں پیدا ہونا جس کے آس پاس بھی نہ کوئی عالم تھا نہ علمی مرکز، عمر شریف کے چالیس سال اسی امّیت محضہ کے عالم میں سارے اہل مکہ کے سامنے رہنا، پھر چالیس سال کے بعد دفعةً آپ ﷺ کی زبان مبارک سے ایسا محیرّ العقول حکیمانہ کلام جاری ہونا جس کی فصاحت و بلاغت نے تمام بلغار عرب کو چیلنج دے کر ہمیشہ کے لئے ان کے مونہوں پر مہر لگادی اور جس کے حکمت پرور معانی اور قیامت تک کی ضروریات انسانی کی رعایت کے ساتھ انسان کامل کی زندگی کا ایسا نظام عمل جس کو انسانی عقل و دماغ ہرگز مرتب نہیں کرسکتا، نہ صرف نظری اور فکری حیثیت سے جمع کرکے پیش کیا، بلکہ عملی طور پر بھی دنیا میں نہایت کامیابی کے ساتھ رائج کرکے دکھلا دیا، اور وہ انسان جو اپنی انسانیت کو بھلا کر بیل، بکری، گھوڑے، گدھے کی طرح اپنی زندگی کا مقصد صرف کھانے، پینے، سونے، جاگنے کو قرار دے چکا تھا، اس کو صحیح انسانیت کا سبق دیا، اس کا رخ اس بلند مقصد کی طرف پھیر دیا جس کے لئے اس کی تخلیق عمل میں آئی تھی، اس طرح رسول کریم ﷺ کی زندگی کا ہر دور اور اس میں پیش آنے والے عظیم القدر وقائع میں سے ہر ایک ایک مستقل معجزہ اور آیت الٓہیہ تھی، جس کے بعد کسی انصاف پسند عقلمند کے لئے مزید کسی آیت و معجزہ کے طلب کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہ تھی۔
لیکن کفار قریش نے اس کے باوجود دوسری قسم کے معجزات اپنی خواہش کے مطابق طلب کئے، ان کے مطلوبہ معجزات میں سے بھی بعض کو حق تعالیٰ نے واضح طور پر عمل میں لاکر دکھلا دیا، چاند کے دو ٹکڑے کرنے کا مطالبہ کیا تھا، شق قمر کا معجزہ نہ صرف قریش نے بلکہ اس وقت کی دنیا میں رہنے والوں کی بڑی تعداد نے آنکھوں سے دیکھ لیا۔
لیکن ان کے مطالبہ کے موافق ایسا عظیم الشان معجزہ ظاہر ہونے کے باوجود وہ اپنے اسی کفر و ضلالت اور ضد وعناد پر جمے رہے اور اللہ تعالیٰ کی اس آیت بینہ کو (آیت) ان ہذا الا سحر یوثر، کہہ کر نظر انداز کردیا، اور ان سب چیزوں کو دیکھنے اور سمجھنے بوجھنے کے باوجود ان کی طرف سے رسول کریم ﷺ سے روز نئے نئے معجزات کا مطالبہ رہتا تھا، اور جیسا کہ پچھلی آیتوں میں گزرا ہے(آیت) لولا نزل علیہ ایة من ربہ۔ ”یعنی یہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر محمد ﷺ سچ مچ اللہ کے رسول ہیں تو ان کا کوئی معجزہ کیوں ظاہر نہیں ہوتا، قرآن نے ان کے جواب میں آنحضرت ﷺ کو حکم دیا کہ آپ ﷺ ان لوگوں کو بتلا دیں کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت میں تو سب کچھ ہے، اس نے جس طرح تمہارے مانگے بغیر خود ہی بیشمار آیات بینات اور معجزات نازل فرما دئیے، اسی طرح وہ تمہارے مطلوبہ معجزات بھی نازل فرما سکتا ہے“۔ لیکن ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ عادة اللہ اس بارے میں یہ ہے کہ جب کسی قوم کا مطلوبہ معجزہ دکھلا دیا جائے اور پھر وہ اس پر بھی ایمان نہ لائیں تو ان کو فوری عذاب میں پکڑ لیا جاتا ہے، اس لئے قوم کی مصلحت اس میں تھی اور یہ کہ ان کے مطلوبہ معجزات ظاہر نہ کئے جائیں، مگر بہت سے لوگ جو اس دقیق حکمت سے جاہل و بیخبر ہیں، ان کا اصرار یہی رہتا ہے کہ ہمارا مطلوبہ معجزہ دکھلایا جائے۔
مذکورہ الصدر آیتوں میں ان لوگوں کے ایسے سوالات و مطالبات کا جواب ایک خاص انداز میں دیا گیا ہے۔
کفار مکہ نے رسول کریم ﷺ سے مختلف اوقات میں تین مطالبے پیش کئے تھے، اول یہ کہ اگر آپ ﷺ واقعی اللہ کے رسول ہیں تو بذریعہ معجزہ ہمارے لئے تمام دنیا کے خزائن جمع کرا دیجئے، دوسرے یہ کہ اگر آپ ﷺ واقعی سچے رسول ہیں تو ہمارے مستقبل میں پیش آنے والے تمام مفید یا مضر حالات و واقعات بتا دیجئے، تاکہ ہم مفید چیزوں کے حاصل کرنے اور مضر صورتوں سے بچنے کا انتظام پہلے ہی کرلیا کریں، تیسرے یہ کہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ ہماری ہی قوم کا ایک انسان جو ہماری ہی طرح ماں باپ سے پیدا ہوا، اور تمام بشری صفات کھانے، پینے، بازاروں میں پھرنے وغیرہ میں ہمارے ساتھ شریک ہے وہ اللہ کا رسول ﷺ بن جائے، کوئی فرشتہ ہوتا جس کی تخلیق اور اوصاف ہم سب سے ممتاز ہوتے، تو ہم اس کو خدا تعالیٰ کا رسول اور اپنا پیشوا مان لیتے۔
ان تینوں سوالات کے جواب میں ارشاد ہواقُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَاۗىِٕنُ اللّٰهِ ، ”یعنی رسول کریم ﷺ کو ہداہت دی گئی کہ ان لوگوں کے لایعنی سوالات کے جواب میں آپ ﷺ ان سے صاف کہہ دیجئے کہ تم جو مجھ سے خزائن دنیا کا مطالبہ کرتے ہو تو میں نے کب یہ دعویٰ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سب خزانے میرے ہاتھ میں ہیں، اور تم جو یہ مطالبہ کرتے ہو کہ مستقبل میں پیش آنے والے ہر مفید یا مضر معاملہ اور واقعہ کو میں تمہیں بتلا دوں تو میں نے کب یہ دعویٰ کیا ہے کہ میں ہر غیب کی چیز کو جانتا ہوں، اور تم جو مجھ میں فرشتوں کی مخصوص صفات دیکھنا چاہتے ہو، تو میں نے کب کہا ہے کہ میں فرشتہ ہوں۔
خلاصہ یہ ہے کہ مجھ سے دلیل اس چیز کی مانگی جاسکتی ہے جس کا میں نے دعویٰ کیا ہے، یعنی یہ کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں اس کی بھیجی ہوئی ہدایات انسانوں کو پہنچاتا ہوں اور خود بھی ان کا اتباع کرتا ہوں، دوسروں کو بھی اس کی تاکید کرتا ہوں، چناچہ اس کے لئے ایک دو نہیں بیشمار واضح دلائل پیش کئے جا چکے ہیں۔
اس دعویٰ رسالت کے لئے نہ یہ ضروری ہے کہ اللہ کا رسول اللہ کے سب خزانوں کا مالک ہوجائے، اور نہ یہ ضروری ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرح غیب کی ہر چھوٹی بڑی چیز سے واقف ہو، اور نہ یہ ضروری ہے کہ وہ انسانی اور بشری صفات سے جدا کوئی فرشتہ ہو، بلکہ رسول کا منصب صرف اتنا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجی ہوئی وحی کا اتباع کرے، جس میں خود اس پر عمل کرنا بھی داخل ہے، اور دوسروں کو اس پر عمل کرنے کی دعوت دینا بھی۔
اس ہدایت نامہ سے منصب رسالت ﷺ کی حقیقت کو بھی واضح فرما دیا گیا، اور رسول کے بارے میں جو غلط تصورات ان لوگوں نے قائم کر رکھے تھے ان کا ازالہ بھی کردیا گیا، اور اس کے ضمن میں مسلمانوں کو بھی یہ ہدایت کردی گئی کہ وہ عیسائیوں کی طرح اپنے رسول کو خدا نہ بنائیں اور خدائی کا مالک نہ قرار دیں، ان کی عظمت و محبت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ان کے متعلق یہود و نصاریٰ کی طرح افراط وتفریط میں اور غلو میں نہ پڑجائیں، کہ یہود نے تو اپنے انبیاء کے قتل تک سے گریز نہ کیا، اور نصاریٰ نے اپنے رسول کو خدا بنادیا۔
اس کے پہلے جملہ میں جو یہ ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے خزانے میرے ہاتھ میں نہیں ان خزانوں سے کیا مراد ہے ؟ علماء تفسیر نے بہت سی چیزوں کے نام لئے ہیں، مگر خود قرآن کریم نے جہاں اللہ کے خزانوں کا ذکر کیا ہے تو اس میں فرمایا ہے(آیت) وان من شیء الا عندنا خزائنہ، ”یعنی کوئی چیز دنیا کی ایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں“۔ اس سے معلوم ہوا کہ خزائن اللہ کا مفہوم دنیا کی تمام چیزوں پر حاوی ہے کچھ خاص چیزوں کو متعین نہیں کیا جاسکتا، اور جن حضرات مفسرین نے مخصوص چیزوں کے نام لئے ہیں، وہ بھی بطور مثال کے ہے، اس لئے اختلاف کچھ نہیں، اور جب اس آیت نے یہ بتلا دیا کہ خدائی کے سارے خزانے سید الرسل امام الانبیاء ﷺ کے ہاتھ میں بھی نہیں ہیں تو پھر امت کے کسی بزرگ یا ولی کے متعلق یہ خیال کرنا کہ وہ جو چاہیں کرسکتے ہیں، جس کو جو چاہیں دے سکتے ہیں کھلی ہوئی جہالت ہے۔
آخری جملہ میں فرمایا وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّىْ مَلَكٌ ”یعنی میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میں فرشتہ ہوں جس کی وجہ سے تم بشری صفات کو دیکھ کر رسالت کا انکار کرتے ہو“۔
درمیانی جملہ میں طرز کلام بدل کر بجائے اس کے کہ لا اقول لکم انی اعلم و الغیب، فرمایا جاتا، یعنی یہ کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میں غیب کو جانتا ہوں، ارشاد یوں فرمایا گیا کہ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَيْبَ ، یعنی میں غیب کو نہیں جانتا۔
ابوحیان نے تفسیر بحر محیط میں اس طرز کلام کے بدلنے کی ایک لطیف توجیہ یہ بیان فرمائی ہے کہ تمام خدائی خزانوں کا مالک ہونا یا نہ ہونا، اسی طرح کسی شخص کا فرشہ ہونا یا نہ ہونا یہ چیزیں تو مشاہدہ سے تعلق رکھتی ہیں، مخاطب لوگ بھی سب جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے خزائن سب آپ ﷺ کے ہاتھ میں نہیں، اور آپ ﷺ فرشتہ بھی نہیں، محض عناد سے اس کا مطالبہ کرتے تھے، ان کے جواب میں یہ کہہ دینا کافی تھا کہ میں نے کبھی اس کا دعویٰ نہیں کیا کہ میں خزائن اللہ کا مالک ہوں یا یہ کہ میں فرشتہ ہوں۔
لیکن علم ِ غیب کا مسئلہ ایسا نہ تھا، کیونکہ وہ لوگ اپنے نجومیوں، کاہنوں کے بارے میں بھی اس کا اعتقاد رکھتے تھے کہ وہ غیب کو جانتے ہیں، تو اللہ کے رسول ﷺ کے بارے میں ایسا اعتقاد رکھنا کچھ مستبعد نہ تھا، خصوصاً جب کہ رسول کریم ﷺ کی زبان مبارک سے انہوں نے بہت سی غیب کی خبریں بھی سنی تھیں، اور ان کے مطابق واقعہ ہونے کا مشاہدہ بھی کیا تھا، اس لئے یہاں صرف دعویٰ اور قول کی نفی کرنے کو کافی نہ سمجھا بلکہ اصل فعل کی نفی کی گئی اور یہ فرمایا وَلَآ اَعْلَمُ الْغَيْبَ ، یعنی میں غیب کو نہیں جانتا۔ اس میں ان کی اس غلط فہمی کو بھی رفع کردیا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی یا الہام جن غیب کی چیزوں کا علم کسی فرشتہ یا رسول یا ولی کو دیے دیا جائے اصطلاح قرآنی میں اس کو علم غیب یا اس کے جاننے والے کو عالم الغیب کہا جاسکتا۔
اسی سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ اس معاملہ میں کسی مسلمان کو کلام نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کو غیب کی ہزاروں لاکھوں چیزوں کا علم عطا فرمایا تھا، بلکہ تمام فرشتوں اور اولین و آخرین کو جتنا علم دیا گیا ہے ان سب سے زیادہ حضور ﷺ کو علم عطا فرمایا گیا ہے۔ یہی پوری امت کا عقیدہ ہے، ہاں اس کے ساتھ ہی قرآن و سنت کی بیشمار تصریحات کے مطابق تمام ائمہ سلف و خلف کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ تمام کائنات کا علم محیط صرف حق تعالیٰ شانہ کی مخصوص صفت ہے۔ جس طرح اس کے خالق و رازق، قادر مطلق ہونے میں کوئی فرشتہ یا رسول اس کے برابر نہیں ہوسکتا، اسی طرح اس کے علم محیط میں بھی کوئی اس کے برابر نہیں ہوسکتا، اسی لئے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی فرشتہ یا پیغمبر کو غیب کی لاکھوں چیزیں معلوم ہونے کے باوجود عالم الغیب نہیں کہا جاسکتا۔
خلاصہ یہ ہے کہ سرور کائنات سید الرسل امام الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ کے کمالات کے بارے میں بڑا جامع جملہ یہ ہے کہ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر۔
کمالات علمی میں بھی یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کے بعد تمام فرشتوں اور انبیاء و رسل سے آپ کا علم بڑھا ہوا ہے، مگر خدا تعالیٰ کے برابر نہیں، برابری کا دعویٰ کرنا عیسائیت کے غلو کا راستہ ہے۔
آخر آیت میں یہ ارشاد فرمایا کہ اندھا اور بینا برابر نہیں ہوسکتے، مطلب یہ ہے کہ نفسانی جذبات اور ضد وعناد کو چھوڑ کر حقیقت کو دیکھو تاکہ تمہارا شمار اندھوں میں نہ رہے، تم بصیر اور بینا ہوجاؤ اور یہ بینائی تمہیں ذرا سے غور و فکر سے حاصل ہوسکتی ہے۔
Top