Maarif-ul-Quran - Al-An'aam : 29
وَ قَالُوْۤا اِنْ هِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا وَ مَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِیْنَ
وَقَالُوْٓا : اور وہ کہتے ہیں اِنْ : نہیں هِىَ : ہے اِلَّا : مگر (صرف) حَيَاتُنَا : ہماری زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَمَا : اور نہیں نَحْنُ : ہم بِمَبْعُوْثِيْنَ : اٹھائے جانے والے
اور کہتے ہیں ہمارے لئے زندگی نہیں مگر یہی دنیا کی اور ہم کو پھر نہیں زندہ ہونا
تیسری آیت میں جو یہ ارشاد فرمایا وَقَالُوْٓا اِنْ هِىَ اِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِيْنَ ، اس کا عطف عادوا پر ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ اگر ان کو دوبارہ بھی دنیا میں لوٹا دیا جائے تو پھر دنیا میں پہنچ کر یہی کہیں گے کہ ہم تو اس دنیا کی زندگی کے سوا کسی دوسری زندگی کو نہیں مانتے بس یہیں کی زندگی زندگی ہے، دوبارہ ہم کو زندہ نہیں کیا جائے گا۔
یہاں ایک سوال یہ ہوتا ہے کہ جب قیامت میں دوبارہ زندہ ہونے کو اور پھر حساب کتاب و جزاء و سزاء کو آنکھوں سے دیکھ چکیں گے تو یہ کیسے ممکن ہوگا کہ پھر یہاں آکر اس کا انکار کردیں۔
جواب یہ ہے کہ انکار کرنے کے لئے یہ لازم نہیں ہے کہ واقع میں ان کو ان واقعات اور حقائق کا یقین نہ رہے، بلکہ جس طرح آج بہت سے کفار و مجرمین اسلامی حقائق کا پورا یقین رکھے ہوئے محض عناد سے انکار و تکذیب پر جمے ہوئے ہیں، اسی طرح یہ لوگ دنیا میں واپس آنے کے بعد قیام قیامت اور دوبارہ زندگی اور آخرت کے تمام حالات کا پورا یقین رکھنے کے باوجود محض شرارت اور عناد سے پھر تکذیب پر اتر آئیں گے جیسا کہ قرآن کریم نے اسی موجودہ زندگی میں بعض کفار کے متعلق ارشاد فرمایا ہے
وجحدوا بھا واستیقنتھا انفسھم ظلما وعلوا
”یعنی یہ لوگ ہماری آیات کا انکار تو کر رہے ہیں مگر ان کے دلوں میں اس کے حق ہونے کا پورا یقین ہے“۔
جیسے یہود کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ وہ خاتم الانبیاء ﷺ کو اس طرح پہچانتے ہیں جیسے لوگ اپنے بیٹوں کا پہچانا کرتے ہیں، مگر اس کے باوجود آپ ﷺ کی مخالفت پر تلے ہوئے ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ خالق کائنات اپنے علم ازلی سے جانتے ہیں کہ ان لوگوں کا یہ کہنا کہ دوبارہ دنیا میں بھیج دیئے جائیں تو مومن صالح ہوجائیں گے بالکل جھوٹ اور فریب ہے، اگر ان کے کہنے کے مطابق دوبارہ دنیا کو پیدا کرکے ان کو اس میں چھوڑ دیا جائے تو یہ پھر وہی سب کچھ کریں گے جو پہلی زندگی میں کیا تھا۔
تفسیر مظہری میں بحوالہ طبرانی یہ روایت نبی کریم ﷺ سے نقل ہے کہ حساب کتاب کے وقت حق تعالیٰ حضرت آدم ؑ کو میزان عدل کے پاس کھڑا کرکے فرما دیں گے کہ اپنی اولاد کے اعمال کا خود معائنہ کریں اور جس شخص کے اعمال صالحہ اس کے گناہوں سے ایک ذرہ بھی بڑھ جائیں تو اس کو آپ جنت میں پہنچا سکتے ہیں، اور حق تعالیٰ کا ارشاد ہوگا کہ میں جہنم کے عذاب میں صرف اسی شخص کو داخل کروں گا، جس کے بارے میں میں جانتا ہوں، کہ وہ اگر دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے، تو پھر بھی وہی حرکتیں کرے گا جو پہلے کر گیا ہے۔
Top