Maarif-ul-Quran - Al-An'aam : 162
قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ
قُلْ : آپ کہ دیں اِنَّ : بیشک صَلَاتِيْ : میری نماز وَنُسُكِيْ : میری قربانی وَمَحْيَايَ : اور میرا جینا وَمَمَاتِيْ : اور میرا مرنا لِلّٰهِ : اللہ کے لیے رَبِّ : رب الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہان
تو کہہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور مرنا اللہ ہی کے لئے ہے جو پالنے والا سارے جہان کا ہے
تیسری آیت میں فرمایا (آیت) قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ، اس میں لفظ ”نُسُک“ کے معنی قربانی کے بھی آتے ہیں، اور حج کے ہر فعل کو بھی نُسُک کہتے ہیں، اعمال حج کو ”مناسک“ کہا جاتا ہے، اور لفظ مطلق عبادت کے معنی میں بھی مستعمل ہوتا ہے، اسی لئے ناسک بمعنی عابد بولا جاتا ہے، اس جگہ ان میں سے ہر ایک معنی مراد لئے جاسکتے ہیں، اور مفسرین صحابہ وتابعین سے یہ سب تفسیریں منقول بھی ہیں، مگر مطلق عبادت کے معنی اس جگہ زیادہ مناسب معلوم ہوتے ہیں، معنی آیت کے یہ ہوگئے کہ ”میری نماز اور میری تمام عبادات اور میری پوری زندگی اور پھر موت یہ سب اللہ رب العالمین کے لئے ہے۔
اس میں فروع اعمال میں سے اول نماز کا ذکر کیا، کیونکہ وہ تمام اعمال صالحہ کی روح اور دین کا عمود ہے، اس کے بعد تمام اعمال و عبادات کا اجمالی ذکر فرمایا، اور پھر اس سے ترقی کرکے پوری زندگی کے اعمال و احوال کا ذکر کیا، اور آخر میں موت کا، ان سب کا ذکر کرکے فرمایا کہ ہماری یہ سب چیزیں صرف اللہ رب العالمین کے لئے ہیں، جس کا کوئی شریک نہیں، اور یہی ایمان کامل اور اخلاص کامل کا نتیجہ ہے، کہ انسان اپنی زندگی کے ہر حال میں اور ہر کام میں اس کو پیش نظر رکھے کہ میرا اور تمام جہان کا ایک رب ہے، میں اس کا بندہ اور ہر وقت اس کی نظر میں ہوں، میرا قلب، دماغ، آنکھ، کان، زبان اور ہاتھ پیر، قلم اور قدم اس کی مرضی کے خلاف نہ اٹھنا چاہئے، یہ وہ مراقبہ ہے کہ اگر انسان اس کو اپنے دل دماغ میں مستحضر کرلے تو صحیح معنی میں انسان اور کامل انسان ہوجائے، اور گناہ و معصیت اور جرائم کا اس کے آس پاس بھی گزر نہ ہو۔
تفسیر در منشور میں اسی آیت کے تحت میں نقل کیا ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ فرمایا کرتے تھے کہ میرا دل چاہتا ہے کہ ہر مسلمان اس آیت کو بار بار پڑھا کرے اور اس کو وظیفہ زندگی بنالے۔
اس آیت میں نماز اور تمام عبادات کا اللہ کے لئے ہونا تو ظاہر ہے کہ ان میں شرک یا ریاء یا کسی دنیوی مفاد کا دخل نہ ہونا مراد ہے، اور زندگی اور موت کا اللہ کے لئے ہونا، اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ میری موت وحیات ہی اس کے قبضہ قدرت میں ہے، تو پھر زندگی کے اعمال و عبادات بھی اسی کے لئے ہونا لازم ہے، اور یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ جتنے اعمال زندگی سے وابستہ ہیں وہ بھی صرف اللہ کے لئے ہیں، جیسے نماز، روزہ اور لوگوں کے ساتھ معاملات کے حقوق و فرائض وغیرہ اور جو اعمال موت سے متعلق ہیں، یعنی وصیت اور اپنے بعد کے لئے جو ہر انسان کوئی نظام چاہتا اور سوچتا ہے وہ سب اللہ رب العالمین کے لئے اور اسی کے احکام کے تابع ہے۔
پھر فرمایا (آیت) وَبِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَ ”یعنی مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسی قول وقرار اور اخلاص کامل کا حکم دیا گیا ہے، اور میں سب سے پہلا فرمانبردار مسلمان ہو“۔ مراد یہ ہے کہ اس امت میں سب سے پہلا مسلمان میں ہوں، کیونکہ ہر امت کا پہلا مسلمان خود وہ نبی یا رسول ہوتا ہے جس پر وحی نازل کی جاتی ہے۔
اور پہلا مسلمان ہونے سے اس طرف اشارہ ہوسکتا ہے کہ مخلوقات میں سب سے پہلے رسول کریم ﷺ کا نور مبارک پیدا کیا گیا ہے، اس کے بعد تمام آسمان و زمین اور مخلوقات وجود میں آئے ہیں، جیسا کہ ایک حدیث میں ارشاد ہےاول ما خلق اللّٰہ تعالیٰ نوری (روح المعانی)
Top