Maarif-ul-Quran - Al-An'aam : 159
اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَهُمْ وَ كَانُوْا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِیْ شَیْءٍ١ؕ اِنَّمَاۤ اَمْرُهُمْ اِلَى اللّٰهِ ثُمَّ یُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے فَرَّقُوْا : تفرقہ ڈالا دِيْنَهُمْ : اپنا دین وَكَانُوْا : اور ہوگئے شِيَعًا : گروہ در گروہ لَّسْتَ : نہیں آپ مِنْهُمْ : ان سے فِيْ شَيْءٍ : کسی چیز میں (کوئی تعلق) اِنَّمَآ : فقط اَمْرُهُمْ : ان کا معاملہ اِلَى اللّٰهِ : اللہ کے حوالے ثُمَّ : پھر يُنَبِّئُهُمْ : وہ جتلا دے گا انہیں بِمَا : وہ جو كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ : کرتے تھے
جنہوں نے راہیں نکالیں اپنے دین میں اور ہوگئے بہت سے فرقے، تجھ کو ان سے کچھ سروکار نہیں، ان کا کام اللہ ہی کے حوالے ہے پھر وہی جتلا دے گا ان کو جو کچھ وہ کرتے تھے
خلاصہ تفسیر
بے شک جن لوگوں نے اپنے دین کو (جن کے وہ مکلف ہیں) جدا جدا کردیا (یعنی دین حق کو بتمامہ قبول نہ کیا، خواہ سب کو چھوڑ دیا یا بعض کو اور طریقے شرک و کفر و بدعت کے اختیار کر لئے) اور (مختلف) گروہ گروہ بن گئے آپ ﷺ کا ان سے کوئی تعلق نہیں (یعنی آپ ﷺ ان سے بری ہیں، آپ ﷺ پر کوئی الزام نہیں) بس (وہ خود اپنے نیک و بد کے ذمہ دار ہیں، اور) ان کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے (وہ دیکھ بھال رہے ہیں) پھر (قیامت میں) ان کو ان کا کیا ہوا جتلا دیں گے (اور حجت قائم کرکے استحقاق عذاب ظاہر کردیں گے) جو شخص نیک کام کرے گا اس کو (اقل درجہ) اس کے دس حصے ملیں گے (یعنی ایسا سمجھا جاوے گا کہ گویا وہ نیکی دس بار کی اور نیز ایک نیکی پر جس قدر ثواب ملتا اب دس حصے ویسے ثواب کے ملیں گے) اور جو شخص برا کام کرے گا سو اس کو اس کے برابر ہی سزا ملے گی (زیادہ نہ ملے گی) اور ان لوگوں پر (ظاہراً بھی) ظلم نہ ہوگا (کہ کوئی نیکی درج نہ ہو یا کوئی بدی زیادہ کرکے لکھ لی جاوے)۔

معارف و مسائل
سورة انعام کا بیشتر حصہ مشرکین مکہ کے خطاب اور ان کے سوال و جواب کے متعلق آیا ہے، جس میں ان کو یہ ہدایت کی گئی تھی کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کا سیدھا راستہ صرف قرآن اور رسول کریم ﷺ کے اتباع میں منحصر ہے، جس طرح آپ ﷺ سے پہلے انبیاء کے زمانہ میں ان کا اور ان کی کتاب و شریعت کا اتباع مدار نجات تھا، آج صرف آپ ﷺ کی اور آپ کی شریعت کی پیروی مدار نجات ہے، عقل سے کام لو اور اس سیدھے راستے کو چھوڑ کر دائیں بائیں کے غلط راستوں کو اختیار نہ کرو، ورنہ وہ راستے تمہیں خدا تعالیٰ سے دور کردیں گے۔
مذکورہ آیات سے پہلی آیت میں ایک عام خطاب ہے جس میں مشرکین عرب اور یہود و نصاریٰ اور مسلمان سب داخل ہیں، ان سب کو مخاطب کرکے اللہ کے سیدھے راستے سے منحرف ہونے والوں کا انجام بد بیان کیا گیا ہے، اور رسول اللہ ﷺ کو ہدایت کی گئی ہے کہ آپ ﷺ کا ان غلط راستوں پر چلنے والوں سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے۔ پھر ان میں غلط راستے وہ بھی ہیں جو صراط مستقیم سے بالکل مخالف جانب لے جانے والے ہیں، جیسے مشرکین اور اہل کتاب کے راستے، اور وہ راستے بھی ہیں جو مخالف جانب میں تو نہیں مگر سیدھے راستے سے ہٹا کر دائیں بائیں لے جانے والے ہیں، وہ شبہات اور بدعات کے راستے ہیں، وہ بھی انسان کو گمراہی میں ڈال دیتے ہیں۔ (آیت) اِنَّ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِيْ شَيْءٍ ۭ اِنَّمَآ اَمْرُهُمْ اِلَى اللّٰهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ ،”یعنی وہ لوگ جنہوں نے راہیں نکالیں اپنے دین میں اور ہوگئے بہت سے فرقے، تجھ کو ان سے کچھ سروکار نہیں، ان کا کام اللہ ہی کے حوالے ہے، پھر وہ جتلائے گا ان کو جو کچھ وہ کرتے تھے“۔
اس آیت میں غلط راستوں پر پڑنے والوں کے متعلق اول تو یہ بتلا دیا کہ اللہ کا رسول ﷺ ان سے بری ہے، رسول کریم ﷺ سے ان کا کوئی تعلق نہیں، پھر ان کو یہ وعید شدید سنائی کہ ان کا معاملہ بس خدا تعالیٰ کے حوالے ہے وہی ان کو قیامت کے روز سزا دیں گے۔
دین میں تفرق ڈالنا اور فرقے بن جانا جو اس آیت میں مذکور ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ اصول دین کے اتباع کو چھوڑ کر اپنے خیالات اور خواہشات کے مطابق یا شیطانی مکر وتلبیس میں مبتلا ہو کر دین میں کچھ نئی چیزیں بڑھا دے یا بعض چیزوں کو چھوڑ دے۔
دین میں بدعت ایجاد کرنے پر وعید شدید
تفسیر مظہری میں ہے کہ اس میں پچھلی امتوں کے لوگ بھی داخل ہیں جنہوں نے اپنے اصول دین کو ترک کرکے اپنی طرف سے کچھ چیزیں ملا دی تھیں، اور اس امت کے اہل بدعت بھی جو دین میں اپنی طرف سے بےبنیاد چیزوں کو شامل کرتے رہتے ہیں، رسول کریم ﷺ نے ایک حدیث میں اس مضمون کو اس طرح واضح فرمایا ہے کہ
”میری امت میں بھی وہی حالات پیش آویں گے جو بنی اسرائیل کو پیش آئے، جس طرح کی بد اعمالیوں میں وہ مبتلا ہوئے میری امت کے لوگ بھی مبتلا ہوں گے، بنی اسرائیل بہتر (72) فرقوں میں بٹ گئے تھے، میری امت کے تہتر (73) فرقے ہوجاویں گے جن میں سے ایک فرقہ کے علاوہ سب دوزخ میں جائیں گے، صحابہ کرام نے عرض کیا کہ وہ نجات پانے والا فرقہ کون سا ہے، فرمایا ما انا علیہ و اصحابی، یعنی وہ جماعت جو میرے طریقہ پر اور میرے صحابہ کے طریقہ پر چلے گی وہ نجات پائے گی، (اس روایت کو ترمذی، ابوداؤد نے بروایت ابن عمر ؓ نقل کیا ہے)“۔
اور طبرانی نے بسند معتبر حضرت فاروق اعظم ؓ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا کہ اس آیت میں جن فرقوں کا ذکر ہے وہ اہل بدعت اور اپنی خواہشات و خیالات کے تابع نئے طریقے ایجاد کرنے والے ہیں، یہی مضمون حضرت ابوہریرہ ؓ سے صحیح سند کے ساتھ منقول ہے، اسی لئے رسول کریم ﷺ نے دین میں نئے نئے طریقے اپنی طرف سے ایجاد کرنے کو بڑی تاکید کے ساتھ منع فرمایا ہے۔
امام احمد، ابو داؤد، ترمذی وغیرہ نے بروایت عرباض بن ساریہ ؓ نقل کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ
”تم میں سے جو لوگ میرے بعد زندہ رہیں گے وہ بہت اختلافات دیکھیں گے، اس لئے (میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ) تم میری سنت اور خلفائے راشدین کی سنت کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے اس کے مطابق ہر کام میں عمل کرو، نئے نئے طریقوں سے بچتے رہو، کیونکہ دین میں نئی پیدا کی ہوئی ہر چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے“۔
ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ جو شخص جماعت سے ایک بالشت بھر جدا ہوگیا اس نے اسلام کا قلادہ اپنی گردن سے نکال دیا (رواہ ابو داؤد و احمد)۔
تفسیر مظہری میں ہے کہ جماعت سے مراد اس حدیث میں جماعت صحابہ ہے، وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے آقا محمد ﷺ کو رسول بنا کر بھیجا، اور آپ ﷺ کو قرآن عطا فرمایا، اور قرآن کے علاوہ دوسری وحی عطا فرمائی، جس کو حدیث یا سنت کہا جاتا ہے، پھر قرآن میں بہت سی آیات مشکل یا مجمل یا مبہم ہیں، ان کی تفسیر وبیان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کے ذریعہ بیان کرنے کا وعدہ فرمایا، (آیت) ثم ان علینا بیانہ کا یہی مطلب ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے قرآن کے مشکلات اور مبہمات کی تفسیر اور اپنی سنت کی تفصیلات اپنے بلا واسطہ شاگرودں یعنی صحابہ کرام کو اپنے قول و عمل کے ذریعہ سکھلائیں، اس لئے جمہور صحابہ کا عمل پوری شریعت الٓہیہ کا بیان و تفسیر ہے۔
اس لئے مسلمان کی سعادت اسی میں ہے کہ ہر کام میں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کا اتباع کرے، اور جس آیت یا حدیث کی مراد میں اشتباہ ہو اس میں اس کو اختیار کرے جس کو جمہور صحابہ کرام نے اختیار فرمایا ہو۔
اس مقدس اصول کو نظر انداز کردینے سے اسلام میں مختلف فرقے پیدا ہوگئے کہ تعامل صحابہ اور تفسیرات صحابہ کو نظر انداز کرکے اپنی طرف سے جو جی میں آیا اس کو قرآن و سنت کا مفہوم قرار دیدیا، یہی وہ گمراہی کے راستے ہیں جن سے قرآن کریم نے بار بار روکا اور رسول کریم ﷺ نے عمر بھر بڑی تاکید کے ساتھ منع فرمایا، اور اس کے خلاف کرنے والوں پر لعنت فرمائی۔
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ چھ آدمیوں پر میں لعنت کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ بھی ان پر لعنت کرے، ایک وہ شخص جس نے کتاب اللہ میں اپنی طرف سے کچھ بڑھا دیا (یعنی خواہ کچھ الفاظ بڑھا دیئے یا معنی میں ایسی زیادتی کردی جو تفسیر صحابہ کے خلاف ہے) دوسرے وہ شخص جو تقدیر الٓہی کا منکر ہوگیا، تیسرے وہ شخص جو امت پر زبردستی مسلط ہوجائے تاکہ عزت دیدے اس شخص کو جس کو اللہ نے ذلیل کیا ہے اور ذلت دیدے اس شخص کو جس کو اللہ نے عزت دی ہے، چوتھے وہ شخص جس نے اللہ کے حرام کو حلال سمجھا، یعنی حرم مکہ میں قتل و قتال کیا، یا شکار کھیلا، پانچویں وہ شخص جس نے میری عترت و اولاد کی بےحرمتی کی، چھٹے وہ شخص جس نے میری سنت کو چھوڑ دیا۔
Top