Maarif-ul-Quran - Al-An'aam : 124
وَ اِذَا جَآءَتْهُمْ اٰیَةٌ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ حَتّٰى نُؤْتٰى مِثْلَ مَاۤ اُوْتِیَ رُسُلُ اللّٰهِ١ؔۘؕ اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ١ؕ سَیُصِیْبُ الَّذِیْنَ اَجْرَمُوْا صَغَارٌ عِنْدَ اللّٰهِ وَ عَذَابٌ شَدِیْدٌۢ بِمَا كَانُوْا یَمْكُرُوْنَ
وَاِذَا : اور جب جَآءَتْهُمْ : ان کے پاس آتی ہے اٰيَةٌ : کوئی آیت قَالُوْا : کہتے ہیں لَنْ نُّؤْمِنَ : ہم ہرگز نہ مانیں گے حَتّٰي : جب تک نُؤْتٰى : ہم کو دیا جائے مِثْلَ مَآ : اس جیسا جو اُوْتِيَ : دیا گیا رُسُلُ : رسول (جمع) اللّٰهِ : اللہ اَللّٰهُ : اللہ اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے حَيْثُ : کہاں يَجْعَلُ : رکھے (بھیجے رِسَالَتَهٗ : اپنی رسالت سَيُصِيْبُ : عنقریب پہنچے گی الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اَجْرَمُوْا : انہوں نے جرم کیا صَغَارٌ : ذلت عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے ہاں وَعَذَابٌ : اور عذاب شَدِيْدٌ : سخت بِمَا : اس کا بدلہ كَانُوْا يَمْكُرُوْنَ : وہ مکر کرتے تھے
اور جب آتی ہے ان کے پاس کوئی آیت تو کہتے ہیں کہ ہم ہرگز نہ مانیں گے جب تک کہ نہ دیا جائے ہم کو جیسا کچھ کہ دیا گیا ہو اللہ کے رسولوں کو، اللہ خوب جانتا ہے اس موقع کو جہاں بھیجے اپنے پیغام، عنقریب پہنچے گی گنہگاروں کو ذلت اللہ کے ہاں اور عذاب سخت اس وجہ سے کہ وہ مکر کرتے تھے
دوسری آیت میں انہی قریشی سرداروں کی ایک ایسی گفتگو کا ذکر ہے جو حق کے مقابلہ میں محض ہٹ دھرمی اور استہزاء و تمسخر کے انداز میں تھی، پھر اس کا جواب دیا گیا۔
امام بغوی رحمة اللہ علیہ نے بروایت قتادہ نقل کیا ہے کہ قریش کے سب سے بڑے سردار ابوجہل نے ایک مرتبہ کہا کہ بنو عبد مناف (یعنی نبی کریم ﷺ کے خاندان) سے ہم نے ہر محاذ پر مقابلہ کیا، جس میں کبھی ہم ان سے پیچھے نہیں رہے، لیکن اب وہ یوں کہتے ہیں کہ تم شرافت و بزرگی میں ہمارا مقابلہ اس لئے نہیں کرسکتے کہ ہمارے خاندان میں ایک نبی آئے ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آتی ہے، پھر کہا کہ میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ ہم کبھی ان کا اتباع نہ کریں گے، جب تک خود ہمارے پاس ایسی ہی وحی نہ آنے لگے، جیسی ان کے پاس آتی ہے، آیت مذکورہ میں (آیت) وَاِذَا جَاۗءَتْهُمْ اٰيَةٌ قَالُوْا لَنْ نُّؤ ْمِنَ حَتّٰي نُؤ ْتٰى مِثْلَ مَآ اُوْتِيَ رُسُلُ اللّٰهِ کا یہی مطلب ہے۔
نبوت و رسالت کسبی اور اختیاری نہیں، بلکہ ایک عہدہ ہے، جس کے عطا کرنے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے
قرآن کریم نے یہ قول نقل کرنے کے بعد جواب دیا(آیت) اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ ، یعنی اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت و نبوت کس کو عطا فرمائے، مطلب یہ ہے کہ اس بیوقوف نے اپنی جہالت سے یہ سمجھ رکھا ہے کہ نبوت اور پیغمبری خاندانی شرافت یا قوم کی سرداری اور مالداری کے ذریعہ حاصل کی جاسکتی ہے، حالانکہ نبوت اللہ تعالیٰ کی خلافت کا عہدہ ہے، جس کا حاصل کرنا کسی کے اختیار میں نہیں، کتنے ہی کمالات حاصل کرلینے کے بعد بھی کوئی اپنے اختیار سے یا کمال کے زور سے نبوت و رسالت حاصل نہیں کرسکتا وہ خالص عطائے حق جل شانہ ہے، وہ جس کو چاہتے ہیں عطا فرما دیتے ہیں۔
اس سے ثابت ہوا کہ رسالت و نبوت کوئی کسبی اور اختیاری چیز نہیں جس کو علمی، عملی کمالات یا مجاہدہ و ریاضت وغیرہ کے ذریعہ حاصل کیا جاسکے، کوئی شخص مقامات ولایت میں کتنی ہی اونچی پرواز کرکے بھی نبوت حاصل نہیں کرسکتا، بلکہ وہ محض فضل خداوندی ہے جو خداوندی علم و حکمت کے ماتحت خاص بندوں کو دیا جاتا ہے یاں یہ ضروری ہے کہ جس شخص کو حق تعالیٰ کے علم میں یہ مقام اور عہدہ دینا منظور ہوتا ہے اس کو شروع ہی سے اس کے قابل بنا کر پیدا کیا جاتا ہے اس کے اخلاق و اعمال کی خاص تربیت کی جاتی ہے۔
آخر آیت میں ارشاد فرمایا (آیت) ۭسَيُصِيْبُ الَّذِيْنَ اَجْرَمُوْا صَغَارٌ عِنْدَ اللّٰهِ وَعَذَابٌ شَدِيْدٌۢ بِمَا كَانُوْا يَمْكُرُوْنَ ، اس میں لفظ صغار، حاصل مصدر ہے جس کے معنی ہیں ذلت و رسوائی، معنی اس جملہ کے یہ ہیں کہ یہ حق کے مخالف جو آج اپنی قوم میں بڑے اور رئیس کہلاتے ہیں عنقریب ان کی بڑائی اور عزت خاک میں ملنے والی ہے، ان کو اللہ تعالیٰ کے پاس سخت ذلت و رسوائی پہنچنے والی ہے، اور سخت عذاب ہونے والا ہے۔
اللہ کے پاس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ قیامت کے روز جب یہ اللہ کے سامنے حاضر ہوں گے تو ذلیل و خوار ہو کر حاضر ہوں گے، اور پھر ان کو سخت عذاب دیا جائے گا، اور یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ اگرچہ اس وقت ظاہر میں یہ بڑے عزت دار رئیس ہیں لیکن اللہ کی طرف سے ان کو سخت ذلت و رسوائی پہنچنے والی ہے، وہ دنیا میں بھی ہوسکتی ہے اور آخرت میں بھی، جیسا کہ انبیاء (علیہم السلام) کے مخالفین کے متعلق دنیا کی تاریخ میں اس کا مشاہدہ ہوتا رہا ہے، کہ انجام کار ان کے مخالفین دنیا میں بھی ذلیل ہوئے، ہمارے نبی کریم ﷺ کے بڑے بڑے مخالفین جو اپنی عزت کی ڈینگ مارا کرتے تھے، ایک ایک کرکے یا تو دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے، اور جو نہ ہوئے تو ذلیل و خوار ہو کر ہلاک ہوئے، ابوجہل، ابولہب وغیرہ قریشی سرداروں کا حال دنیا کے سامنے آ گیا، اور فتح مکہ نے ان سب کی کمریں توڑ دیں۔
Top