Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-An'aam : 122
اَوَ مَنْ كَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰهُ وَ جَعَلْنَا لَهٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِهٖ فِی النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُهٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا١ؕ كَذٰلِكَ زُیِّنَ لِلْكٰفِرِیْنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
اَوَ
: کیا
مَنْ
: جو
كَانَ مَيْتًا
: مردہ تھا
فَاَحْيَيْنٰهُ
: پھر ہم نے اس کو زندہ کیا
وَجَعَلْنَا
: اور ہم نے بنایا
لَهٗ
: اس کے لیے
نُوْرًا
: نور
يَّمْشِيْ
: وہ چلتا ہے
بِهٖ
: اس سے
فِي
: میں
النَّاسِ
: لوگ
كَمَنْ مَّثَلُهٗ
: اس جیسا۔ جو
فِي
: میں
الظُّلُمٰتِ
: اندھیرے
لَيْسَ
: نہیں
بِخَارِجٍ
: نکلنے والا
مِّنْهَا
: اس سے
كَذٰلِكَ
: اسی طرح
زُيِّنَ
: زینت دئیے گئے
لِلْكٰفِرِيْنَ
: کافروں کے لیے
مَا
: جو
كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ
: وہ کرتے تھے (عمل)
بھلا ایک شخص جو کہ مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کردیا اور ہم نے اس کو دی روشنی کہ لئے پھرتا ہے اس کو لوگوں میں برابر ہوسکتا ہے اس کے کہ جس کا حال یہ ہے کہ پڑا ہے اندھیروں میں وہاں سے نکل نہیں سکتا اسی طرح مزین کردیئے کافروں کی نگاہ میں ان کے کام۔
خلاصہ تفسیر
ایسا شخص جو کہ پہلے مردہ (یعنی گمراہ) تھا ہم نے اس کو زندہ (یعنی مسلمان) بنادیا اور ہم نے اس کو ایک ایسا نور (یعنی ایمان) دے دیا کہ وہ اس کو لئے ہوئے آدمیوں میں چلتا پھرتا ہے (یعنی ہر وقت وہ اس کے ساتھ رہتا ہے، جس سے وہ سب مضرتوں سے مثل گمراہی وغیرہ محفوظ اور مامون دبے فکر پھرتا ہے تو) کیا ایسا شخص (بدحالی میں) اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جس کی حالت یہ ہو کہ وہ (گمراہی کی) تاریکیوں میں (گھرا ہوا) ہے (اور) ان سے نکلنے ہی نہیں پاتا (مراد یہ کہ وہ مسلمان نہیں ہوا، اور اس کا تعجب نہ کیا جاوے کہ کفر پر باوجود اس کے ظلمت ہونے کے وہ کیوں قائم رہا، وجہ یہ کہ جس طرح مومنین کو ان کا ایمان اچھا معلوم ہوتا ہے) اسی طرح کافروں کو ان کے اعمال (کفر وغیرہ) مستحسن معلوم ہوا کرتے ہیں (چنانچہ اسی وجہ سے یہ روسائے مکہ جو آپ ﷺ سے مہمل فرمائشیں اور شبہات و مجادلات پیش کرتے رہتے ہیں اپنے کفر کو مستحسن ہی سمجھ کر اس پر مصر ہیں)۔
معارف و مسائل
پچھلی آیتوں میں پہلے اس کا ذکر آیا تھا کہ مخالفین اسلام رسول اللہ ﷺ اور قرآن کے کھلے کھلے معجزات دیکھنے کے باوجود ضد اور ہٹ دھرمی سے نئے نئے معجزات کا مطالبہ کرتے ہیں، اس کے بعد قرآن نے بتلایا کہ اگر یہ لوگ واقعی حق طلب ہوتے تو جو معجزات ان کی آنکھوں کے سامنے آچکے ہیں وہ ان کو راہ حق دکھانے کے لئے کافی سے بھی زیادہ تھے، پھر ان معجزات کا بیان آیا۔
مذکورہ آیت میں رسول کریم ﷺ اور قرآن پر ایمان لانے والوں اور کفر و انکار کرنے والوں کے کچھ حالات و خیالات اور دونوں کے نیک و بد انجام کا بیان اور مومن و کافر اور ایمان و کفر کی حقیقت کو مثالوں میں سمجھایا گیا ہے، مومن اور کافر کی مثال زندہ اور مردہ سے اور ایمان و کفر کی مثال روشنی اور اندھیرے سے دی گئی ہے، یہ قرآنی تمثیلات ہیں جن میں کوئی شاعری نہیں ایک حقیقت کا اظہار ہے۔
مومن زندہ ہے اور کافر مردہ
اس تمثیل میں مومن کو زندہ اور کافر کو مردہ بتلایا گیا ہے، وجہ یہ ہے کہ انسان اور حیوانات اور نباتات وغیرہ میں اگرچہ حیات اور زندگی کی قسمیں اور شکلیں مختلف ہیں، لیکن اتنی بات سے کوئی سمجھدار انسان انکار نہیں کرسکتا کہ ان میں سے ہر ایک کی زندگی کسی خاص مقصد کے لئے ہے، اور قدرت نے اس میں اس مقصد کو حاصل کرنے کی پوری اہلیت اور صلاحیت رکھی ہے، ارشاد قرآنی (آیت) اعطی کل شیء خلقہ ثم ھدی۔ میں اسی کا بیان ہے کہ اللہ جل شانہ نے کائنات عالم کی ہر چیز کو پیدا فرمایا اور اس کو جس مقصد کے لئے پیدا فرمایا تھا اس تک پہنچنے کی اس کو پوری ہدایت دیدی، جن کے ماتحت ہر مخلوق اپنے اپنے وظیفہ زندگی اور اپنی اپنی ڈیوٹی کا حق ادا کر رہی ہے، اس عالم میں زمین، پانی اور ہوا اور آگ، اسی طرح آسمانی مخلوقات اور چاند، سورج اور کل ستارے اپنی اپنی ڈیوٹی پوری طرح پہچان کر اپنے فرائض ادا کر رہے ہیں، اور یہی اداء فرائض ان میں سے ہر چیز کی زندگی کا ثبوت ہے، اور جس وقت جس حال میں ان میں سے کوئی چیز اپنی ڈیوٹی ادا کرنا چھوڑ دے تو وہ زندہ نہیں بلکہ مردہ ہے، پانی اگر اپنا کام پیاس بجھا دینا اور میل کچیل دور کرنا وغیرہ چھوڑ دے تو وہ پانی نہیں کہلائے گا، آگ جلنا اور جلانا چھوڑ دے تو وہ آگ نہیں رہے گی، درخت اور گھاس اگنا اور بڑھنا پھر پھل پھول لانا چھوڑ دے تو وہ درخت اور نبات نہیں رہے گی، کیونکہ اس نے اپنے مقصد زندگی کو چھوڑ دیا، تو وہ ایک بےجان مردہ کی طرح ہوگئی۔
تمام کائنات کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد ایک انسان جس میں کچھ عقل و شعور ہو اس بات پر غور کرنے کے لئے مجبور ہوگا کہ انسان کی زندگی کا مقصد کیا ہے اور اس کی ڈیوٹی کیا ہے، اور یہ کہ اگر وہ اپنے مقصد زندگی کو پورا کر رہا ہے، تو وہ زندہ کہلانے کا مستحق ہے، اور اس کو پورا نہیں کرتا تو وہ ایک مردہ لاش سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔
اب سوچنا یہ ہے کہ انسان کا مقصد زندگی کیا اور اس کے فرائض کیا ہیں، اور مذکور الصدر اصول کے مطابق یہ متعین ہے کہ اگر وہ اپنے مقصد زندگی اور ڈیوٹی کو ادا کر رہا ہے تو زندہ ہے ورنہ مردہ کہلانے کا مستحق ہے، جن بےبصیرت لوگوں نے انسا کو دنیا کی ایک خودرو گھاس یا ایک ہوشیار قسم کا جانور قرار دے دیا ہے اور ان کے نزدیک ایک انسان اور گدھے کتے میں کوئی امتیاز نہیں، ان سب کا مقصد زندگی انہوں نے اپنی نفسانی خواہشات پورا کرنا، کھانا پینا، سونا جاگنا، پھر مرجانا ہی قرار دے لیا ہے، وہ تو اہل عقل و شعور کے نزدیک قابل خطاب نہیں، عقلاء دنیا خواہ کسی مذہب و ملت اور کسی مکتب خیال سے تعلق رکھتے ہوں ابتداء عالم سے آج تک انسان کے مخدوم کائنات اور فضل المخلوقات ہونے پر متفق چلے آئے ہیں، اور یہ ظاہر ہے کہ افضل و اعلیٰ اسی چیز کو سمجھا اور کہا جاسکتا ہے، جس کا مقصد زندگی اعلیٰ و افضل ہونے کے اعتبار سے ممتاز ہو، اور ہر سمجھ بوجھ والا انسان یہ بھی جانتا ہے کہ کھانے پینے، سونے جاگنے، رہنے سہنے، اوڑھنے پہننے میں انسان کو دوسرے جانوروں سے کوئی خاص امتیاز حاصل نہیں، بلکہ بہت سے جانور اس سے بہتر اور اس سے زیادہ کھاتے پیتے ہیں، اس سے بہتر قدرتی لباس میں ملبوس ہیں، اس سے بہتر ہوا و فضاء میں رہتے بستے ہیں، اور جہاں تک اپنے نفع نقصان کے پہچاننے کا معاملہ ہے اس میں بھی ہر جانور بلکہ ہر درخت ایک حد تک باشعور ہے، مفید چیزوں کے حاصل کرنے اور مضر چیزوں سے بچنے کی خاصی صلاحیت اپنے اندر رکھتا ہے، اسی طرح دوسروں کے لئے نفع رسانی کے معاملہ میں تو تمام حیوانات اور نباتات کا قدم بظاہر انسان سے بھی آگے نظر آتا ہے کہ ان کے گوشت کھال ہڈی، پٹھے اور درختوں کی جڑ سے لے کر شاخوں اور پتوں تک ہر چیز مخلوق کے لئے کار آمد اور ان کی ضروریات زندگی پیدا کرنے میں بیشمار فوائد کی حامل ہے، بخلاف انسان کے کہ نہ اس کا گوشت کسی کے کام آتا ہے نہ کھال، نہ بال نہ ہڈی نہ پٹھے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ان حالات میں پھر حضرت انسان کس بناء پر مخدوم کائنات اور افضل المخلوقات ٹھہرتے ہیں، اب حقیقت شناسی کی منزل قریب آپہنچی، ذرا سا غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ان ساری چیزوں کے عقل و شعور کی رسائی صرف موجودہ زندگی کے وقتی اور ہنگامی نفع نقصان تک ہے، اور اسی زندگی میں وہ دوسروں کے لئے فائدہ بخش نظر آتی ہے، اس دنیا کی زندگی سے پہلے کیا تھا، اور بعد میں کیا آنے والا ہے، اس میدان میں جمادات، نباتات تو کیا کسی بڑے بڑے ہوشیار جانور کی عقل و شعور بھی کام نہیں دیتی، اور نہ اس میدان میں ان میں سے کوئی چیز کسی کیلئے کارآمد یا مفید ہوسکتی ہے، بس یہی وہ میدان ہے جن میں مخدوم کائنات اور افضل المخلوقات انسان کو کام کرنا ہے، اور اسی سے اس کا امتیاز دوسری مخلوقات سے واضح ہوسکتا ہے۔
معلوم ہوا کہ انسان کا مقصد زندگی پورے عالم کی ابتداء و انتہاء کو سامنے رکھ کر سب کے نتائج اور عواقب پر نظر ڈالنا اور یہ متعین کرنا کہ مجموعی اعتبار سے کیا چیز نافع اور مفید ہے، اور کون سی چیز مضر اور تکلیف دہ ہے، پھر اس بصیرت کے ساتھ خود اپنے لئے بھی مفید چیزوں کو حاصل کرنا اور مضر چیزوں سے بچنا اور دوسروں کو بھی ان مفید چیزوں کی طرف دعوت دینا اور بری چیزوں سے بچانے کا اہتمام کرنا ہے، تاکہ دائمی راحت و سکون اور اطمینان کی زندگی حاصل ہوسکے، اور جب انسان کا مقصد زندگی اور کمال انسانی کا یہ معیاری فائدہ خود حاصل کرنا اور دوسروں کو پہنچانا ہے، تو اب قرآن کی یہ تمثیل حقیقت بن کر سامنے آجاتی ہے کہ زندہ صرف وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لائے، اور عالم کی ابتداء و انتہاء اور اس میں مجموعی اعتبار سے نفع و نقصان کو وحی الٓہی کی روشنی میں پہچانے، کیونکہ نری عقل انسانی نے نہ کبھی اس میدان کو سَر کیا ہے نہ کرسکتی ہے، بڑے بڑے عقلاء و حکماء اور فیلسوفان عالم نے انجام کار اس کا اقرار کیا ہے، مولانا رومی رحمة اللہ علیہ نے خوب فرمایا ہے
زیرکان موشگافان دہی
کردہ ہر خرطوم خطِّ ابلہی
اور جب مقصد زندگی کے اعتبار سے زندہ صرف وہ شخص ہے جو وحی الٓہی کا تابع اور مومن ہو تو یہ بھی متعین ہوگیا جو ایسا نہیں وہ مردہ کہلانے کا مستحق ہے مولانا رومی رحمة اللہ علیہ نے خوب فرمایا ہے
زندگی از بہر اطاعت و بندگی است، بےعبادت زندگی شرمندگی ست
آدمیت لخم و شحم دپوست نیست، آدمیت جز رضائے دوست نیست
یہ قرآنی مثال تھی مومن و کافر کی کہ مومن زندہ اور کافر مردہ ہے، دوسری مثال ایمان و کفر کی نور و ظلمت کے ساتھ دی گئی ہے۔
ایمان نور ہے اور کفر ظلمت
ایمان کو نور اور کفر کو ظلمت اور اندھیرہ قرار دیا گیا ہے، ذرا غور کیا جائے تو یہ مثال بھی کوئی خیالی مثال نہیں، ایک حقیقت کا بیان ہے، یہاں بھی روشنی اور اندھیرے کے اصل مقصد پر غور کیا جائے تو حقیقت سامنے آجائے گی کہ روشنی کا مقصد یہ ہے کہ اس کے ذریعہ نزدیک و دور کی اشیاء کو دیکھ سکیں، جس کے نتیجہ میں مضر چیزوں سے بچنے اور مفید کا اختیار کرنے کا موقع ملے۔
اب ایمان کو دیکھو کہ وہ ایک نور ہے جس کی روشنی تمام آسمانوں اور زمین اور ان سب سے باہر کی تمام چیزوں پر حاوی ہے، صرف یہی روشنی پورے عالم کے انجام اور تمام امور کے صحیح نتائج کو دکھا سکتی ہے، جس کے ساتھ یہ نور ہو تو وہ خود بھی تمام نقصان دہ و مضر چیزوں سے بچ سکتا ہے، اور دوسروں کو بھی بچا سکتا ہے، اور جس کو یہ روشنی حاصل نہیں وہ خواہ اندھیرے میں ہے، مجموعہ عالم اور پوری زندگی کے اعتبار سے کیا چیز نافع ہے کیا مضر اس کا کوئی امتیاز نہیں کرسکتا، صرف پاس پاس کی چیزوں کو ٹٹول کر کچھ پہچان لیتا ہے، مگر بعد میں آنے والی دائمی زندگی کی اس کو کچھ خبر نہیں، نہ اس کے نفع و ضرر کا اسے کچھ ادراک ہے، قرآن کریم نے اسی مضمون کے لئے ارشاد فرمایا ہے
(آیت) یعلمون ظاھرا من الحیوة الدنیا وھم عن الآخرۃ ھم غافلون، یعنی یہ لوگ ظاہری دنیوی زندگی اور اس کے کھرے کھوٹے کو تو کچھ پہچانتے ہیں، مگر عالم آخرت سے قطعاً غافل ہیں۔
دوسری ایک آیت میں پچھلی منکر اور کافر امتوں کا ذکر کرنے کے بعد قرآن کریم نے فرمایا ہے(آیت) وکانوا مستبصرین، یعنی آخرت کے معاملہ میں ایسی شدید غفلت اور بےعقلی برتنے والے اس دنیا میں بیوقوف نادان نہ تھے، بلکہ مستبصرین، یعنی روشن خیال لوگ تھے، مگر یہ ظاہری سطحی روشن خیالی صرف دنیا کی چند روزہ زندگی کے سنوارنے ہی میں کام دے سکتی تھی آخرت کی دائمی زندگی میں اس نے کچھ کام نہ دیا۔
اس تفصیل کو سننے کے بعد قرآن مجید کی آیت مذکور کو پھر ایک مرتبہ پڑھ لیجئے
اَوَمَنْ كَانَ مَيْتًا فَاَحْيَيْنٰهُ وَجَعَلْنَا لَهٗ نُوْرًا يَّمْشِيْ بِهٖ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُهٗ فِي الظُّلُمٰتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص جو پہلے مردہ یعنی کافر تھا، پھر ہم نے اس کو زندہ کردیا، یعنی مسلمان بنادیا، اور ہم نے اس کو ایک ایسا نور یعنی ایمان دے دیا جس کو لئے ہوئے وہ لوگوں میں پھرتا ہے، اس شخص کے برابر ہوسکتا ہے جس کی مثال ایسی ہے کہ وہ قسم قسم کی اندھیریوں میں گھرا ہوا ہے، جس سے نکلنے نہیں پاتا، یعنی کفر کی اندھیریوں میں مبتلا ہے، وہ خود ہی اپنے نفع نقصان کو نہیں پہچانتا، اور ہلاکت سے نہیں بچ سکتا دوسروں کو کیا نفع پہنچا سکتا ہے۔
نور ایمان کا فائدہ دوسروں کو بھی پہنچتا ہے
اس آیت نُوْرًا يَّمْشِيْ بِهٖ فِي النَّاس فرما کر اس طرف بھی ہدایت کردی گئی ہے کہ نور ایمان صرف کسی مسجد یا خانقاہ یا گوشہ و حجرہ کے ساتھ مخصوص نہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے یہ نور دیا ہے وہ اس کو لے کر سب جگہ لوگوں کے رزم دبزم میں لئے پھرتا ہے، اور ہر جگہ اس روشنی سے خود بھی فائدہ اٹھاتا ہے، اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچاتا ہے، نور کسی ظلمت سے دب نہیں سکتا، جیسا کہ مشاہدہ ہے کہ ایک ٹمٹماتا ہوا چراغ بھی اندھیرے میں مغلوب نہیں ہوتا، ہاں اس کی روشنی دور تک نہیں پہنچتی، تیز روشنی ہوتی ہے تو دور تک پھیلتی ہے کم ہوتی ہے تو تھوڑی جگہ کو روشن کرتی ہے، مگر اندھیرے پر بہرحال غالب ہی رہتی ہے، اندھیری اس پر غالب نہیں آتی، وہ روشنی ہی نہیں جو اندھیری سے مغلوب ہوجائے، اسی طرح وہ ایمان ہی نہیں جو کفر سے مغلوب یا مرعوب ہوجائے، یہ نور ایمان انسانی زندگی کے ہر شعبہ ہر حال ہر دور میں اس کے ساتھ ہے۔
اسی طرح اس مثال میں ایک اور اشارہ یہ بھی ہے کہ جس طرح روشنی کا فائدہ ہر انسان و حیوان کو ارادہ و بےارادہ ہر حال میں کچھ نہ کچھ پہنچتا ہے، فرض کرو کہ نہ روشنی والا یہ چاہتا ہے کہ دوسرے کو فائدہ پہنچے، نہ دوسرا یہ قصد کرکے نکلا ہے کہ اس کی روشنی سے مجھے فائدہ پہنچے، مگر جب روشنی کسی کے ساتھ ہوگی تو اس سے جبری اور قدرتی طور پر سب کو ہی فائدہ پہنچے گا، اسی طرح مومن کے ایمان سے دوسروں کو بھی کچھ نہ کچھ فائدہ پہنچتا ہے، خواہ اس کو احساس ہو یا نہ ہو، آخر آیت میں ارشاد فرمایا (آیت) كَذٰلِكَ زُيِّنَ لِلْكٰفِرِيْنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ یعنی ان واضح کھلے ہوئے دلائل کے باوجود منکرین اور کفار جو بات کو نہیں مانتے اس کی وجہ یہ ہے کہ ”ہر کس بخیال خویش خبطے دارد“۔ شیطان اور نفسانی خواہشات نے ان کی نظروں میں ان کے برے اعمال ہی کو خوبصورت اور بھلا بنا رکھا ہے جو سخت مغالطہ ہے۔ نعوذ باللہ منہ۔
Top