Maarif-ul-Quran - Al-Waaqia : 13
ثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَۙ
ثُلَّةٌ : ایک بڑا گروہ ہیں مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ : اگلے لوگوں میں سے
انبوہ ہے پہلوں میں سے
ثُـلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ وَقَلِيْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ ، لفظ ثلہ بضم ثاء جماعت کو کہتے ہیں اور زمخشری نے کہا کہ بڑی جماعت کو ثلہ کہا جاتا ہے (روح)
اولین و آخرین سے کیا مراد ہے
یہاں اولین و آخرین کی تقسیم کا دو جگہ ذکر آیا ہے، اول سابقین مقربین کے سلسلہ میں، دوسرا اصحاب الیمین یعنی عامہ مومنین کے سلسلے میں، پہلی جگہ یعنی سابقین میں تو یہ فرق کیا گیا ہے کہ یہ سابقین مقربین اولین میں سے ثلہ یعنی بڑی جماعت ہوگی اور آخرین میں سے کم ہوں گے، جیسا کہ آیت مذکورہ میں ہے اور دوسری جگہ اصحاب الیمین کے بیان میں اولین و آخرین دونوں میں لفظ ثلہ وارد ہوا ہے، جس کے معنی یہ ہوئے کہ اصحاب یمین اولین میں سے بڑی جماعت ہوگی، اسی طرح آخرین میں سے بھی بڑی جماعت ہوگی (ثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ وَثُلَّةٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ)
اب قابل غور یہ امر ہے کہ اولین سے مراد کون ہیں اور آخرین سے کون، اس میں حضرات مفسرین کے دو قول ہیں، ایک یہ کہ آدم ؑ سے لے کر قرب زمانہ خاتم الانبیاء تک کی تمام مخلوقات اولین میں داخل ہیں اور خاتم الانبیاء ﷺ سے لے کر قیامت تک آنے والی مخلوق آخرین میں داخل ہے، یہ تفسیر مجاہد اور حسن بصری سے ابن ابی حاتم نے سند کے ساتھ نقل کی ہے اور ابن جریر نے بھی اسی تفسیر کو اختیار کیا ہے، بیان القرآن کے خلاصہ تفسیر میں بھی اسی کو اختیار کیا گیا ہے، جو اوپر بیان ہوچکا ہے اور اس کی دلیل میں حضرت جابر کی مرفوع حدیث نقل کی ہے، یہ حدیث ابن عساکر نے اپنی سند کے ساتھ اس طرح نقل کی ہے کہ جب پہلی آیت جو سابقین مقربین کے سلسلے میں آئی ہے نازل ہوئی ۉثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ وَقَلِيْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ ، تو حضرت عمر بن خطاب نے عجب کے ساتھ عرض کیا کہ یا رسول اللہ کیا پچھلی امتوں میں سابقین زیادہ ہوں گے اور ہم میں کم ہوں گے ؟ اس کے بعد سال بھر تک اگلی آیت نازل نہیں ہوئی، جب ایک سال کے بعد آیت نازل ہوئی ثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ وَثُلَّةٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔
اسمع یا عمر ما قد انزل اللہ ثلة من الاولین وثلة من الاخرین الا و ان من ادم الی ثلة و امتی ثلة الحدیث (ابن کثیر)
" اے عمر ! سنو ! جو اللہ نے نازل فرمایا کہ اولین میں سے بھی ثلہ یعنی بڑی جماعت ہوگی اور آخرین میں سے بھی ثلہ یعنی بڑی جماعت ہوگی اور یاد رکھو کہ آدم ؑ سے مجھ تک ایک ثلہ ہے اور میری امت دوسرا ثلہ "
اور اس مضمون کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو امام احمد اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ جب آیت ثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ وَقَلِيْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ نازل ہوئی تو صحابہ کرام پر شاق ہوا کہ ہم بہ نسبت امم سابقہ کے کم رہیں گے، اس وقت دوسری آیت نازل ہوئی، ۉثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ وَثُلَّةٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ ، اس وقت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ تم یعنی امت محمدیہ جنت میں ساری مخلوق کے مقابلہ میں چوتھائی، تہائی، بلکہ نصف اہل جنت ہو گے اور باقی نصف میں بھی کچھ تمہارا حصہ ہوگا ، (ابن کثیر) جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مجموعی طور پر اہل جنت میں اکثریت امت محمدیہ کی ہوجائے گی، مگر ان دونوں حدیثوں سے استدلال میں ایک اشکال یہ ہے کہ قَلِيْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ تو سابقین مقربین کے متعلق آیا ہے اور دوسری آیت میں جو ثُلَّةٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ آیا ہے وہ سابقین مقربین کے متعلق نہیں بلکہ اصحاب الیمین کے متعلق ہے۔
اس کا جواب روح المعانی میں یہ دیا ہے کہ صحابہ کرام اور حضرت عمر کو جو پہلی آیت سے رنج و غم ہوا، اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ انہوں نے یہ خیال کیا ہوگا کہ جو نسبت سابقین میں ہے وہی شاید اصحاب الیمین اور عام اہل جنت میں ہوگی جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ کل اہل جنت میں ہماری تعداد بہت کم رہے گی، جب اصحاب الیمین کی تشریح میں اولین و آخرین دونوں میں لفظ ثلتہ نازل ہوا تو اس شبہ کا ازالہ ہوگیا کہ مجموعی اعتبار سے اہل جنت میں امت محمدیہ کی اکثریت رہے گی، اگرچہ سابقین اولین میں ان کی تعداد مجموعہ امم سابقہ کے مقابلہ میں کم رہے خصوصاً اس وجہ سے کہ مجموعہ امم سابق میں ایک بھاری تعداد انبیاء (علیہم السلام) کی ہے، ان کے مقابلہ میں امت محمدیہ کے لوگ کم رہیں تو کوئی غم کی چیز نہیں۔
لیکن ابن کثیر، ابو حیان، قرطبی، روح المعانی، مظہری وغیرہ نے سب تفسیروں میں دوسری تفسیر کو ترجیح دی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ اولین و آخرین دونوں طبقے اسی امت کے مراد ہیں، اولین اس امت کے قرون اولیٰ یعنی صحابہ وتابعین وغیرہ ہیں، جن کو حدیث میں خیر القرون فرمایا ہے اور آخرین قرون اولیٰ کے بعد والے حضرات ہیں۔
ابن کثیر نے حضرت جابر کی مرفوع حدیث جو پہلی تفسیر کی تائید میں اوپر لکھی گئی ہے، اس کی سند کے متعلق کہا ہے ولکن فی اسنادہ نظر، دوسری تفسیر کے لئے استدلال میں، وہ آیات قرآنی پیش کی ہیں جن میں امت محمدیہ کا خیر الامم ہونا مذکور ہے جیسے کنتم خیر امۃ وغیرہ اور فرمایا کہ یہ بات بہت مستبعد ہے کہ سابقین مقربین کی تعداد خیر الامم میں دوسری امتوں کی نسبت سے کم ہو، اس لئے راج یہ ہے کہ ثـلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ سے مراد اسی امت کے قرون اولیٰ ہیں، اور قَلِيْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ سے مراد بعد کے لوگ ہیں کہ ان میں مسابقین مقربین کی تعداد کم ہوگی۔
اس قول کی تائید میں ابن کثیر نے حضرت حسن بصری کا قول بروایت ابن ابی حاتم یہ پیش کیا ہے کہ حضرت حسن نے یہ آیت السابقون السابقون تلاوت کر کے فرمایا کہ سابقین تو ہم سے پہلے گزر چکے، لیکن یا اللہ ہمیں اصحاب الیمین میں داخل فرما دیجئے اور حضرت حسن سے دوسری روایت میں یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ ثلتہ من الاولین کی تفسیر میں فرمایا ثلتہ ممن مضے من ہذہ الامۃ یعنی اولین سے مراد اسی امت کے سابقین ہیں۔
اسی طرح محمد بن سیرین نے فرمایا کہ ثـلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ وَقَلِيْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ کے متعلق علماء یہ کہتے اور توقع کرتے تھے کہ یہ اولین و آخرین سب اسی امت میں سے ہوں (ابن کثیر)
اور روح المعانی میں اس دوسری تفسیر کی تائید میں ایک حدیث مرفوع بسند حسن حضرت ابوبکرہ کی روایت سے یہ نقل کی ہے۔
اخرج مسدد فی مسندہ وابن المنذر و الطبرانی و ابن مردویہ بسند حسن عن ابی بکرة عن النبی ﷺ فی قولہ سبحانہ ثلة من الاولین و ثلة من الاخرین قال ھما جمیعا من ھذہ الامة
" مسدد نے اپنی مسند میں اور ابن المنذر، طبرانی اور ابن مردویہ نے سند حسن کے ساتھ حضرت ابوبکرہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے آیت ۉثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ وَثُلَّةٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ کی تفسیر میں فرمایا کہ یہ دونوں جماعتیں اسی امت محمدیہ میں سے ہوں گی "
اور حضرت ابن عباس سے بھی سند ضعیف کے ساتھ حدیث مرفوع بہت سے حضرات محدثین نے نقل کی ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں ھما جمیعا من امتی، یعنی یہ دونوں اولین و آخرین میری ہی امت میں سے ہوں گے۔
اس تفسیر کے مطابق شروع آیت میں كُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰثَةً کا مخاطب امت محمدیہ ہی ہوگی اور یہ تینوں قسمیں امت محمدیہ ہی کی ہوں گی (روح المعانی)
تفسیر مظہری میں پہلی تفسیر کو اس لئے بہت بعید قرار دیا ہے کہ آیات قرآن کی واضح دلالت اس پر ہے کہ امت محمدیہ تمام امم سابقہ سے افضل ہے اور ظاہر یہ ہے کہ کسی امت کی فضیلت اس کے اندر اعلیٰ طبقہ کی زیادہ تعداد ہی سے ہوتی ہے، اس لئے یہ بات بعید ہے کہ افضل الامم کے اندر سابقین مقربین کی تعداد کم ہو آیات قرآن کنتم خیر امة اخرجت للناس اور لتکونوا شھدآء علی الناس ویکون الرسول علیکم شھیدا سے امت محمدیہ کی افضلیت سب امتوں پر ثابت ہے۔ اور ترمذی، ابن ماجہ و دارمی نے حضرت بہز بن حکیم سے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں۔
انتم تتمون سبعین امة انتم اخیرھا واکرمھا علی اللہ تعالیٰ
" تم ستر سابقہ امتوں کا تتمہ ہوگے جن میں تم سب سے آخر میں اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ اکرم و افضل ہو گے "
اور امام بخاری نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم اس پر راضی ہو کہ اہل جنت کے چوتھائی تم لوگ ہوجاؤ گے، ہم نے عرض کیا کہ بیشک ہم اس پر راضی ہیں تو آپ نے فرمایا
والذی نفسی بیدہ انی لارجو ان تکونوا نصف اہل الجنة (از مظہری)
" قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے مجھے یہ امید ہے کہ تم (یعنی امت محمدیہ) اہل جنت کے نصف ہو گے "
اور ترمذی، حاکم و بیہقی نے حضرت بریدہ سے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اس کی سند کو حسن اور حاکم نے صحیح کہا ہے، الفاظ حدیث کے یہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔
اہل الجنتہ مائة وعشرون صفا ثمانون منہا من ھذہ الامۃ و اربعون من سائر الامم (مظہری)
" اہل جنت کل ایک سو بیس صفوں میں ہوں گے جن میں سے اسی صفیں اس امت کی ہوں گی باقی چالیس صفوں میں ساری امتیں شریک ہوں "
مذکور الصدر روایات میں اس امت کے اہل جنت کی نسبت دوسری امتوں کے اہل جنت سے کہیں چوتھائی کہیں نصف اور اس آخری روایت میں دو تہائی مذکور ہے، اس میں کوئی تعارض اس لئے نہیں کہ یہ آنحضرت ﷺ کا اندازہ بیان کیا گیا ہے اس اندازہ میں مختلف اوقات میں زیادتی ہوتی رہی۔ واللہ اعلم
Top