Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 88
فَمَا لَكُمْ فِی الْمُنٰفِقِیْنَ فِئَتَیْنِ وَ اللّٰهُ اَرْكَسَهُمْ بِمَا كَسَبُوْا١ؕ اَتُرِیْدُوْنَ اَنْ تَهْدُوْا مَنْ اَضَلَّ اللّٰهُ١ؕ وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ سَبِیْلًا
فَمَا لَكُمْ : سو کیا ہوا تمہیں فِي الْمُنٰفِقِيْنَ : منافقین کے بارے میں فِئَتَيْنِ : دو فریق وَاللّٰهُ : اور اللہ اَرْكَسَھُمْ : انہیں الٹ دیا (اوندھا کردیا) بِمَا كَسَبُوْا : اس کے سبب جو انہوں نے کمایا (کیا) اَتُرِيْدُوْنَ : کیا تم چاہتے ہو اَنْ تَهْدُوْا : کہ راہ پر لاؤ مَنْ : جو۔ جس اَضَلَّ : گمراہ کیا اللّٰهُ : اللہ وَمَنْ : اور جو۔ جس يُّضْلِلِ : گمراہ کرے اللّٰهُ : اللہ فَلَنْ تَجِدَ : پس تم ہرگز نہ پاؤ گے لَهٗ : اس کے لیے سَبِيْلًا : کوئی راہ
پھر تم کو کیا ہوا کہ منافقوں کے معاملہ میں دو فریق ہو رہے ہو اور اللہ نے ان کو الٹ دیا بسبب ان کے اعمال کے کیا تم چاہتے ہو کہ راہ پر لاؤ جسکو گمراہ کیا اللہ نے اور جس کو گمراہ کرے اللہ ہرگز نہ پاوے گا تو اس کے لئے کوئی راہ
خلاصہ تفسیر
تین مختلف گروہوں کا بیان اور ان کے احکام
پہلے فرقہ کا بیان۔ (جب تم ان مرتدین کی حالت دیکھ چکے) پھر تم کو کیا ہوا کہ ان منافقین کے باب میں تم (اختلاف رائے کر کے) دو گروہو ہوگئے (کہ ایک گروہ ان کو اب بھی مسلمان کہتا ہے) حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو (ان کے علانیہ کفر کی طرف) الٹا پھیر دیا ان کے (بد) عمل کے سبب (وہ بدعمل اور تداداً دارالسلام کو باوجود قدرت کے چھوڑ دینا ہے، جو کہ اس وقت نہ ہوئے تھے اور اسی وجہ سے ان کو منافق کہا) کیا تم لوگ (اے وہ گروہ جن کو اس ترک دارالاسلام کا علامت کفر ہونا معلم نہیں) اس کا ارادہ رکھتے ہو کہ ایسے لوگوں کو ہدایت کرو جن کو اللہ تعالیٰ نے (جبکہ ان لوگوں نے گمراہی اختیار کی) گمراہی میں ڈال رکھا ہے (جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی عادت ہے کہ عزم فعل کے وقت اس فعل کو پیدا کردیتے ہیں، مطلب یہ ہے کہ غیر مومن میں گمراہ کو جو ہدایت یافتہ مومن کہتے ہو یہ تمہارے لئے جائز نہیں) اور جس کو ان لوگوں کو مومن نہ کہنا چاہئے اور بھلا وہ خود کیا مومن ہوں گے ان کے غلوفی الکفر کی تو یہ حالت ہے کہ) وہ اس تمنا میں ہیں کہ جیسے وہ کافر ہیں تم بھی (خدا نہ کرے) کافر بن جاؤ، جس میں تم اور وہ سب ایک طرح ہوجاؤ سو (ان کی جب یہ حالت ہے تو) ان میں سے کسی کو دوست مت بنانا (یعنی کسی کے ساتھ مسلمانوں کیساتھ ایسا برتاؤ مت کرنا، کیونکہ دوستی کے جواز کے لئے اسلام شرط ہے) جب تک وہ اللہ کی راہ میں (یعنی تکمیل اسلام کے لیے) ہجرت نہ کریں (کیونکہ اس وقت ہجرت کا وہ حکم تھا جو اب اقرار بالشہادتین کا ہے اور تکمیل اسلام کی قید اسلئے ہے کہ خالی دارالسلام میں آنا کافی نہیں، یوں تو کفار اہل تجارت بھی آجاتے ہیں، بلکہ اسلامی حیثیت سے آویں، یعنی اسلام بھی ظاہر کریں، تاکہ جامع اقرار و ہجرت کے ہوجاویں اور رہی قلبی تصدیق تو اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہوسکتا ہے مسلمانوں کو اس کی تفتیش ضروری نہیں) اور اگر وہ (اسلام سے) اعراض کریں (اور کافر ہی رہیں) تو ان کو پکڑو اور قتل کرو جس جگہ ان کو پاؤ (یہ پکڑنا یا تو قتل کے لئے ہے یا غلام بنانے کے لئے) اور نہ ان میں کسی کو دوست بناؤ اور نہ مددگار بناؤ (مطلب یہ کہ کسی حالت میں ان سے کوئی تعلق نہ رکھو، نہ امن میں دوستی نہ خوف میں استعانت بلکہ الگ تھلگ رہو۔)
دوسرے فرقہ کا بیان۔
مگر (ان کفار میں) جو لوگ ایسے ہیں جو کہ (تمہارے ساتھ مصالحت سے رہنا چاہتے ہیں، جس کے دو طریقے ہیں ایک تو یہ کہ بواسطہ صلح ہو یعنی) ایسے لوگوں سے جاملتے ہیں (یعنی ہم عہد ہوجاتے ہیں) کہ تمہارے اور ان کے درمیان عہد (صلح) ہے، (جیسے بنو مدلج، کہ ان سے صلح ہوئی تو ان کے ہم عہد بھی اس استثناء میں آگئے تو بنو مدلج بدرجہ اولی مستثنی ہوئے) یا (دوسرے طریقہ یہ ہے کہ بلا واسطہ صلح ہو اس طرح سے کہ) خود تمہارے پاس اس حال سے آویں کہ ان کا دل تمہارے ساتھ اور نیز اپنی قوم کے ساتھ بھی لڑنے سے منقبض ہو (اس لئے نہ تو اپنی قوم کے ساتھ ہو کہ تم سے لڑیں اور نہ تمہارے ساتھ ہو اپنی قوم سے لڑیں بلکہ (ان سے بھی صلح رکھیں اور تم سے بھی، پس دونوں طریقوں میں جس طریق سے کوئی مصالحت رکھے وہ حکم مذکور پکڑنے اور قتل سے مستثنی ہیں) اور (تم ان لوگوں کی) درخواست صلح میں اللہ تعالیٰ کا احسان مانو کہ ان کے دل میں تمہاری ہیبت ڈال دی ورنہ) اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ان کو تم پر مسلط (اور لدیر) کردیتا پھر وہ تم سے لڑنے لگتے (مگر اللہ تعالیٰ نے تم کو اس پریشانی سے بچا لیا) پھر اگر (صلح کر کے) وہ تم سے کنارہ کش رہیں یعنی تم سے نہ لڑیں اور تم سے معاملہ سلامت روی کا رکھیں (ان سب الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ صلح سے رہیں کوئی لفظ تاکید کے لئے فرما دیئے) تو (اس حالت صلح میں) اللہ تعالیٰ نے تم کو ان پر (قتل یا قید وغیرہ کی) کوئی راہ نہیں دی (یعنی اجازت نہیں دی)
تیسرے فرقہ کا بیان۔
بعضے ایسے بھی تم کو ضرور ملیں گے (یعنی ان کی یہ حالت معلوم ہوگی) کہ (براہ دھوکہ) وہ یہ (بھی) چاہتے ہیں کہ تم سے بھی بےخطر ہو کر رہیں اور اپنی قوم سے بھی بےخطر ہو کر رہیں (اور ساتھ ہی اس کے) جب کبھی ان کو (صریح مخالفین کی طرف سے) شرارت (و فساد) کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے (یعنی ان سے مسلمانوں سے لڑنے کے لئے کہا جاتا ہے) تو وہ (فوراً) اس (شرارت) میں جاگرتے ہیں (یعنی مسلمانوں سے لڑنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں اور وہ دھوکہ کی صلح توڑ دیتے ہیں) سو یہ لوگ اگر (صلح توڑدیں اور) تم سے (یعنی تمہاری لڑائی سے) کنارہ کش نہ ہوں اور نہ تم سے سلامت روی رکھیں اور نہ اپنے ہاتھوں کو (تمہارے مقابلہ سے) روکیں (سب کا مطلب مثل سابق کے ایک ہی ہے کہ صلح توڑ دیں) تو تم (بھی) ان کو پکڑو اور قتل کرو جہاں کہیں ان کو پاؤ اور ہم نے تم کو ان پر صاف حجت دی ہے (جس سے ان کا قتل کرنا ظاہر ہے اور وہ حجت ان کا نقص عہد ہے)
معارف و مسائل
مذکورہ آیات میں تین فرقوں کا بیان ہے، جن کے متعلق دو حکم مذکور ہیں، واقعات ان فرقوں کے مندرجہ روایات سے واضح ہوں گے۔
پہلی روایت۔
عبد بن حمید نے مجاہد سے روایت کیا کہ بعض مشرکین مکہ سے مدینہ آئے اور ظاہر کیا کہ ہم مسلمان اور مہاجر ہو کر آئے ہی، پھر مرتد ہوگئے اور حضرت رسول مقبول ﷺ سے اسباب تجارت لانے کا بہانہ نہ کرے کے پھر مکہ چل دیئے اور پھر نہ آئے ان کے بارے میں مسلمانوں کی رائے مختلف ہوئی، بعض نے کہا یہ کافر ہیں بعض نے کہا یہ مومن ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کا کافر ہونا آیت فما لکم فی المنفقین فئتین میں بیان کردیا اور ان کے قتل کا حکم دیا۔
حضرت حکیم الامت تھانوی نے فرمایا کہ ان کا منافق کہنا بایں معنی ہے کہ جب اسلام کا دعویٰ کیا تھا جب بھی منافق تھے دل سے ایمان نہ لائے تھے اور منافقین گو قتل نہ کئے جاتے تھے لیکن جب تک ہی کہ اپنا کفر چھپاتے تھے اور ان لوگوں کا ارتداد ظاہر ہوگیا تھا اور جنہوں نے مسلمان کہا شاید حسن ظن کی وجہ سے کہا ہو، اور ان کے دلائل ارتداد میں کچھ تاویل کرلی ہوگی اور اس تاویل کی بنیاد رائے محض ہوگی جس کی تائید دلیل شرعی سے نہ ہوگیا اس لئے معتبر نہیں رکھی گئی۔
دوسری روایت۔
ابن ابی شیبہ نے حسن سے رایت کیا کہ سراقہ بن مالک مدلجی نے بعد واقعہ بدر و احد کے رسول اللہ ﷺ کے حضور میں آ کر درخواست کی کہ ہماری قوم بنی مدلج سے صلح کرلیجئے، آپ نے حضر خالد کو تکمیل صلح کے لئے وہاں بھیج دیا، مضمون صلحیہ تھا
”ہم رسول اللہ ﷺ کے خلاف کسی کی مدد نہ کریں گے اور قریش مسلمان ہوجائیں گے تو ہم بھی مسلمان ہوجائیں گے اور جو قومیں ہم سے متحد ہوں گی وہ بھی اس معاہدہ میں ہمارے شریک ہیں۔“
اس پر یہ آیت ودوالوتکفرون الی قولہ الا الذین یصلون الخ نازل ہوئی۔
تیسری روایت۔ حضرت ابن عباس سے روایت کیا گیا کہ آیتہ ستجدون اخرین الخ میں جن کا ذکر ہے مراد ان سے قبیلہ اسد اور غطفان ہیں کہ مدینہ میں آئے اور ظاہراً اسلام کا دعویٰ کرتے اور اپنی قوم سے کہتے کہ ہم تو بندر اور عقرب (بچھو) پر ایمان لائے ہیں اور مسلمانوں سے کہتے کہ ہم تمہارے دین پر ہیں۔
اور ضحاک نے ابن عباس سے یہی حالت بنی عبدالدار کی نقل کی ہے، پہلی اور دوسری روایت روح المعانی اور تیسری معالم میں ہے۔
حضرت تھانوی نے فرمایا کہ اس تیسری روایت والوں کی حالت مثل پہلی روایت والوں کے ہوئی، کہ دلیل سے ان کا پہلے ہی سے مسلمان نہ ہونا ثابت ہوگیا، اسی لئے ان کا حکم مثل عام کفار کے ہے، یعنی مصالحت کی حالت میں ان سے قتال نہ کیا جائے اور مصالحت نہ ہونے کی صورت میں قتال کیا جائے، چناچہ پہلی روایت والوں کے باب میں دوسری آیت یعنی فان تولو فخذوم واقتلوھم میں گرفتار کرنے اور قتل کا حکم اور تیسری آیت الا الذین یصلون الخ میں مصالحت میں ان کا استثناء موجودہ جن کی مصالحت کا ذکر دوسری روایت میں ہے اور تاکید استثناء کے لئے پھر فان اعتزالوکم کی تصریح کردی۔
اور تیسری روایت والوں کے باب میں چوتھی آیت یعنی ستجدون اخرین الخ میں بیان فرما دیا کہ اگر یہ لوگ تم سے کنارہ کش نہیں ہوتے بلکہ مقاتلہ کرتے ہیں تو تم ان سے جہاد کرو، اس سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ اگر وہ صلح کریں تو ان سے قتال نہ کیا جائے۔ (بیان القرآن)
خلاصہ یہ کہ یہاں تین فرقوں کا ذکر فرمایا گیا
1۔ جو ہجرت کہ شرط اسلام کے زمانہ میں باوجود قدرت کے ہجرت نہ کریں یا کرنے کے بعد دارالاسلام سے نکل کر دارالحرب میں چلے جائیں۔
2۔ مسلمانوں سے جنگ نہ کرنے کا معاہدہ خود کرلیں یا ایسا معاہدہ کرنے والوں سے معاہدہ کرلیں۔
3۔ جو دفع الوقتی کی غرض سے صلح کرلیں اور جب مسلمانوں کے خلاف جنگ کی دعوت دی جائے تو اس میں شریک ہوجائیں اور اپنے عہد پر قائم نہ رہیں۔
پہلے فریق کا حکم عام کفار کی مانند ہے، دوسرا فریق قتل اور پکڑ دھکڑ سے مستثنی ہے، تیسرا فریق اسی سزا کا مستحق ہے جس کا پہلا فریق تھا، ان آیتوں کے کل دو حکم مذکور ہیں، یعنی عدم صلح کے وقت قتال اور مصالحت کے وقت قتال نہ کرنا۔
Top