Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 62
فَكَیْفَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْهِمْ ثُمَّ جَآءُوْكَ یَحْلِفُوْنَ١ۖۗ بِاللّٰهِ اِنْ اَرَدْنَاۤ اِلَّاۤ اِحْسَانًا وَّ تَوْفِیْقًا
فَكَيْفَ : پھر کیسی اِذَآ : جب اَصَابَتْھُمْ : انہیں پہنچے مُّصِيْبَةٌ : کوئی مصیبت بِمَا : اس کے سبب جو قَدَّمَتْ : آگے بھیجا اَيْدِيْهِمْ : ان کے ہاتھ ثُمَّ : پھر جَآءُوْكَ :وہ آئیں آپ کے پاس يَحْلِفُوْنَ : قسم کھاتے ہوئے بِاللّٰهِ : اللہ کی اِنْ : کہ اَرَدْنَآ : ہم نے چاہا اِلَّآ : سوائے (صرف) اِحْسَانًا : بھلائی وَّتَوْفِيْقًا : اور موافقت
پھر کیا ہو جبکہ ان کو پہنچے مصیبت اپنے ہاتھوں کے کئے ہوئے سے پھر آویں تیرے پاس قسمیں کھاتے ہوئے اللہ کی کہ ہم کو غرض نہ تھی مگر بھلائی اور ملاپ
تیسری آیت میں ان تاویلات باطلہ کا غلط ہونا واضح کیا ہے جو شرعی فیصلہ کو چھوڑ کر غیر شرعی فیصلہ کی طرف رجوع ہونے والوں کی طرف سے پیش کی جاتی تھیں، جن کا خلاصہ یہ تھا کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کو ناحق سمجھ کر نہیں چھوڑا اور دوسروں کے فیصلوں کو اس کے بالمقابل حق سمجھ کر اختیار نہیں کیا بلکہ بعض مصالح کی بناء پر ایسا کیا، مثلاً یہ مصلحت تھی کہ آپ کے پاس تو قانونی فیصلہ ہوتا، جس میں باہمی مصالحت اور رواداری کا کوئی سوال نہیں تھا، ہم مقدمہ کو دوسری جگہ اس لئے لے گئے کہ ان دونوں فریق کے لئے کوئی بھلائی کی صورت نکل آئے اور دونوں میں مصالحت کرا دی جائے۔
یہ تاویلیں ان لوگوں نے اس وقت پیش کیں جب کہ ان کا راز کھل گیا اور خباثت اور نفاق ظاہر ہوگیا ان کا آدمی حضرت عمر کے ہاتھ سے مارا گیا، غرض جب ان کے اعمال بد کے نتیجہ میں ان پر رسوائی یا قتل کی مصیبت پڑگئی، تو قسمیں کھا کر تاویلیں کرنے لگے، حق تعالیٰ نے اس آیت میں واضح فرما دیا کہ یہ اپنی قسموں اور تاویلوں میں جھوٹے ہیں انہوں نے جو کچھ کیا اپنے کفر و نفاق کی وجہ سے کیا ہے، ارشاد فرمایا کہ جب ان پر اپنے اعمال بد کے نتیجہ میں کوئی مصیبت پڑجاتی ہے، مثلاً خیانت و نفاق ظاہر ہو کر رسوائی ہوگئی، یا اس کے نتیجہ میں قتل کا واقعہ پیش آیا، تو اس وقت یہ لوگ آپ کے پاس قسمیں کھاتے ہوئے آتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ کے سوا کسی دوسرے کے پاس مقدمہ لے جانے کا سبب کفر یا حضور ﷺ کے فیصلہ کو ناحق سمجھنا نہیں تھا، بلکہ ہمارا مقصد احسان و توفیق تھا، یعنی فریقین کے لئے کوئی بھلائی اور مصالحت کی راہ تلاش کرنا مقصود تھا۔
Top