Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 49
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ یُزَكُّوْنَ اَنْفُسَهُمْ١ؕ بَلِ اللّٰهُ یُزَكِّیْ مَنْ یَّشَآءُ وَ لَا یُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف (کو) الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يُزَكُّوْنَ : پاک۔ مقدس کہتے ہیں اَنْفُسَھُمْ : اپنے آپ کو بَلِ : بلکہ اللّٰهُ : اللہ يُزَكِّيْ : مقدس بناتا ہے مَنْ : جسے يَّشَآءُ : وہ چاہتا ہے وَلَا يُظْلَمُوْنَ : اور ان پر ظلم نہ ہوگا فَتِيْلًا : دھاگے برابر
کیا تو نے نہ دیکھا ان کو جو اپنے آپ کو پاکیزہ کہتے ہیں بلکہ اللہ ہی پاکیزہ کرتا ہے جس کو چاہے اور ان پر ظلم نہ ہوگا
اپنی مدح سرائی اور عیوب سے پاک ہونیکا دعویٰ جائز نہیں
قولہ تعالیٰ الم ترا الی الذین یزکون انفسھم یہود اپنے آپ کو مقدس بتلاتے تھے، جس پر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا کہ ذرا ان لوگوں کو دیکھو جو اپنی پاکی بیان کر رہے ہیں، ان پر تعجب کرنا چاہئے۔
اس سے معلوم ہوا کہ کسی کو اپنی یا دوسروں کی پاکی بیان کرنا جائز نہیں ہے، یہ ممانعت تین وجہ سے ہے
(1) اپنی مدح کا سبب اکثر کبر ہوتا ہے، تو حقیقت میں ممانعت کبر سے ہوئی۔
(2) یہ کہ خاتمہ کا حال اللہ کو معلوم ہے کہ تقوی و طہارت پر ہوگا یا نہیں، اس لئے اپنے آپ کو مقدس بتلانا خلاف خوف الٰہی ہے، چناچہ ایک روایت میں حضرت زینب بنت ابی سلمہ فرماتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ تمہارا نام کیا ہے ؟ اس وقت چونکہ میرا نام برہ تھا (جس کے معنی ہیں گناہوں سے پاک) میں نے وہی بتلایا، تو آپ نے فرمایالاتزکوا انفسکم، اللہ اعلم باھل البر منکم، سموھا زینب (رواہ مسلم بحوالہ مشکوة) ”یعنی تم اپنے آپ کی گناہوں سے پاکی بیان نہ کرو کیونکہ یہ علم صرف اللہ ہی کو کہ تم میں سے کون پاک ہے، پھر برہ کے بجائے آپ نے زینب نام رکھا۔“ (مظہری)
(3) ممانعت کی تیسری وجہ یہ ہے کہ اکثر اوقات اس دعوے سے لوگوں کو یہ وہم ہونے لگتا ہے کہ یہ آدمی اللہ کے ہاں اس لئے مقبول ہے کہ یہ تمام نقائص اور عیوب سے پاک ہے، حالانکہ یہ جھوٹ ہے، کیونکہ بہت سے عیوب بندہ میں موجود ہوتے ہیں۔ (بیان القرآن)
مسئلہ۔ اگر مذکورہ عوارض نہ ہوں تو نعمت کے اظہار کے طور پر اپنی صفت بیان کرنے کی اجازت ہے۔ (بیان القرآن)
Top