Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 3
وَ اِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ١ۚ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ١ؕ ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَلَّا تَعُوْلُوْاؕ
وَاِنْ : اور اگر خِفْتُمْ : تم ڈرو اَلَّا : کہ نہ تُقْسِطُوْا : انصاف کرسکوگے فِي : میں الْيَتٰمٰى : یتیموں فَانْكِحُوْا : تو نکاح کرلو مَا : جو طَابَ : پسند ہو لَكُمْ : تمہیں مِّنَ : سے النِّسَآءِ : عورتیں مَثْنٰى : دو ، دو وَثُلٰثَ : اور تین تین وَرُبٰعَ : اور چار، چار فَاِنْ : پھر اگر خِفْتُمْ : تمہیں اندیشہ ہو اَلَّا : کہ نہ تَعْدِلُوْا : انصاف کرسکو گے فَوَاحِدَةً : تو ایک ہی اَوْ مَا : یا جو مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ : لونڈی جس کے تم مالک ہو ذٰلِكَ : یہ اَدْنٰٓى : قریب تر اَلَّا : کہ نہ تَعُوْلُوْا : جھک پڑو
اور اگر ڈرو کہ نہ انصاف کرسکو گے یتیم لڑکیوں کے حق میں تو نکاح کرلو جو اور عورتیں تم کو خوش آویں دو دو تین تین چارچار پھر اگر ڈرو کہ ان میں انصاف نہ کرسکو گے تو ایک ہی نکاح کرو یا لونڈی جو اپنا مال ہے اس میں امید ہے کہ ایک طرف نہ جھک پڑو گے۔
ربط آیت
ماقبل کی آیت میں یتامی کی حق تلفی کی ممانعت تھی کہ اولیاء کو ان کے اموال خرد برد کرنا حرام ہے، اس آیت میں بھی ایک دوسرے عنوان سے اس حکم کا اعادہ ہے کہ جن لوگوں کی ولایت میں یتیم لڑکیاں ہیں ان سے اس خیال سے نکاح نہ کریں کہ اپنے اختیار کی لڑکی ہے، جتنا چاہیں گے مہر مقرر کردیں گے، اور جو اموال ان کی ملک میں ہیں وہ بھی اپنے قبضہ میں آجائیں گے۔
غرض قرآن کریم کی اس آیت نے صراحتہ بتلا دیا کہ مال یتیم پر قبضہ کرنے کا ہر حیلہ اور بہانہ ناجائز ہے اور اولیاء کا فرض ہے کہ وہ دیانتداری سے ان کے حقوق کی نگہداشت کریں، چناچہ فرمایااور اگر تم کو اس بات کا احتمال (بھی) ہو (اور یقین ہو تو بدرجہ اولی) کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں (بابت ان کے مہر کے) انصاف (کی رعایت) نہ کرسکو گے تو (ان سے نکاح مت کرو بلکہ) اور (حلال) عورتوں سے جو تم کو (اپنی کسی مصلحت کے اعتبار سے) پسند ہوں نکاح کرلو (کیونکہ وہ مجبور نہیں، آزادی سے اپنی رضا ظاہر کرسکتی ہیں اور یہ نکاح اس قید کے ساتھ ہو کہ جو ایک عورت سے زیادہ کرنا چاہے تو ان صورتوں میں سے کوئی صورت ہو، ایک صورت یہ کہ ایک ایک مرد) دو دو عورتوں سے (نکاح کرلے) اور (دوسری صورت یہ کہ ایک ایک مرد) تین تین عورتوں سے (نکاح کرلے) اور (تیسری صورت یہ کہ ایک ایک مرد) چار چار عورتوں سے (نکاح کرلے) پس اگر تم کو (غالب) احتمال اس کا ہو کہ (کئی بیبیاں کر کے) عدل نہ رکھو گے (بلکہ کسی بی بی کے حقوق واجبہ ضائع ہوں گے) تو پھر ایک ہی بی بی پر بس کردیا (اگر دیکھو کہ ایک کے حقوق بھی ادا نہ ہوں گے تو) جو لونڈی (حسب قاعدہ شرعیہ) تمہاری ملک میں ہو وہی سہی اس امر مذکور میں (یعنی ایک بی بی کے رکھنے یا صرف لونڈی پر بس کرنے میں) زیادتی (بےانصافی) نہ ہونے کی توقع قریب تر ہے (کیونکہ ایک صورت میں تو کوئی تعداد نہیں جس میں برابری کرنا پڑے، دوسری صورت میں بی بی کے حقوق سے بھی کم حقوق ہیں، مثلاً مہر نہیں، صحبت کا حق نہیں تو اندیشہ اور کم ہے)
معارف و مسائل
یتیم لڑکیوں کی حق تلفی کا انسداد۔
زمانہ جاہلیت میں جن لوگوں کی ولایت میں یتیم لڑکیاں ہوتی تھیں جو شکل و صورت سے اچھی سمجھی جاتیں یا ان کی ملکیت میں کوئی مال، جائیداد ہوتی تو ان کے اولیا ایسا کرتے تھے کہ خود ان سے نکاح کرتے یا اپنی اولاد سے ان کا نکاح کردیتے تھے، جو چاہا کم سے کم مہر مقرر کردیا اور جس طرح چاہا ان کو رکھا، کیونکہ وہی ان کے ولی اور نگراں ہوتے تھے، ان کا باپ موجود نہ ہوتا تھا جو ان کے حقوق کی پوری نگرانی کرسکتا اور ان کی ازدواجی زندگی کے ہر پہلو پر نظر اور فلاح و بہبود کا مکمل انتظام کر کے ان کا نکاح کردیتا۔
صحیح بخاری میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ عہد رسالت میں ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا کہ ایک شخص کی ولایت میں ایک یتیم لڑکی تھی اور اس کا ایک باغ تھا جس میں یہ لڑکی بھی شریک تھی، اس شخص نے اس یتیم لڑکی سے خود اپنا نکاح کرلیا، اور بجائے اس کے کہ اپنے پاس سے مہر وغیرہ دیتا اس کے باغ کا حصہ بھی اپنے قبضہ میں لے لیا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی وان خفتم الاتفسطوا فی الیتمی فانکحوا ماطاب لکم من النسآء یعنی اگر تمہیں یہ خطرہ ہو کہ یتیم لڑکیوں سے خود اپنا نکاح کرنے میں تم انصاف پر قائم نہ رہو گے، بلکہ ان کی حق تلفی ہوجائے گی، تو تمہارے لئے دوسری عورتیں بہت ہیں، ان میں جو تمہارے لئے حلال اور پسند ہیں ان سے نکاح کرلو۔“
نکاح نابالغ کا مسئلہ۔
اس آیت میں یتامی سے مراد یتیم لڑکیاں ہیں اور اصطلاح شرع میں یتیم اسی لڑکی یا لڑکے کو کہا جاتا ہے جو ابھی بالغ نہ ہو، اس لئے اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ یتیم لڑکی کے ولی کو یہ بھی اختیار ہے کہ ہالت صغر سنی بلوغ سے پہلے ہی اس کا نکاح کر دے، البتہ لڑکی کی مصلحت اور آئندہ فلاح و بہبود پیش نظر رہے ایسا نہ ہو جیسے بہت سی برادریوں میں رائج ہے کہ بڑی لڑکی کا نکاح چھوٹے بچے سے کردیا، عمروں کا تناسب نہ دیکھا، یا لڑکے کے حالات و عادات کا جائزہ نہ لیا ویسے ہی نکاح کردیا۔ اور وہ بالغ لڑکیاں جن کے باپ مر چکے ہیں، اگرچہ بالغ ہوجانے کی بنا پر خود مختار ہیں لیکن لڑکیاں شرم و حیاء کی بناء پر عادة بالغ ہونے کے بعد بھی اپنے نکاح کے معاملہ میں خود کچھ نہیں بولتیں، اولیاء اور وارث جو کچھ کردیں اسی کو قبول کرلیتی ہیں، اس لئے ان کے اولیاء پر بھی لازم ہے کہ ان کی حق تلفی سے پرہیز کریں۔ بہرحال اس آیت میں یتیم لڑکیوں کے ازدواجی حقوق کی پوری نگہداشت کا حکم مذکور ہے، مگر عام حکومتوں کے قانون کی طرح اس کے نافذ کرنے کی ذمہ داری براہ راست حکومت پر ڈالنے کے بجائے خود عوام کو اللہ تعالیٰ کے خوف کا حوالہ دے کر حکم دیا گیا کہ اگر تمہیں اس میں بےانصافی کا خطرہ ہو تو پھر یتیم لڑکیوں سے شادی کے خیال کو چھوڑو، دوسری عورتیں تمہارے لئے بہت ہیں، ان سے نکاح کرو۔
ساتھ ہی ذمہ داران حکومت کا یہ فریضہ ہے کہ اس کی نگرانی کریں، کسی جگہ حق تلفی ہوتی نظر آئے تو بزور قانون حقوق ادا کرائیں۔
قرآن میں تعداد ازواج اور اسلام سے پہلے اقوام عالم میں اس کا رواج۔
ایک مرد کے لئے متعدد بیبیاں رکھنا اسلام سے پہلے بھی تقریباً دنیا کے تمام مذاہب میں جائز سمجھا جاتا تھا، عرب، ہندوستان، ایران، مصر، بابل وغیرہ ممالک کی ہر قوم میں کثرت ازواج کی رسم جاری تھی اور اس کی فطری ضرورتوں سے آج بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ دور حاضر میں یورپ نے اپنے متقدمین کے خلاف تعدد ازواج کو ناجائز کرنے کی کوشش کی تو اس کا نتیجہ بےنکاحی داشتاؤں کی صورت میں برآمد ہوا، بالاخر فطری قانون غالب آیا اور اب وہاں کے اہل بصیرت حکماء خود اس کو رواج دینے کے حق میں ہیں، مسٹر ڈیون پورٹ جو ایک مشہور عیسائی فاضل ہے، تعدد ازواج کی حمایت میں انجیل کی بہت سی آیتیں نقل کرنے کے بعد لکھتا ہے
”ان آیتوں سے یہ پایا جاتا ہے کہ تعدد ازواج صرف پسندیدہ ہی نہیں، بلکہ خدا نے اس میں خاص برکت دی ہے۔“
اسی طرح پادری نکسن اور جان ملٹن اور اپزک ٹیلر نے پرزور الفاظ میں اس کی تائید کی ہے، اسی طرح دیدک تعلیم غیر محدود تعدد ازدواج کو جائز رکھتی ہے اور اس سے دس دس، تیرہ تیرہ، ستائیس ستائیس بیویوں کو ایک وقت میں جمع رکھنے کی اجازت معلوم ہوتی ہے۔
کرشن جو ہندوؤں میں واجب التعظیم اوتار مانے جاتے ہیں ان کی سینکڑوں بیبیاں تھیں، جو مذہب اور قانون عفت و عصمت کو قائم رکھنا چاہتا ہو اور زنا کاری کا انسداد ضریر جانتا ہو اس کے لئے کوئی چارہ نہیں کہ تعداد ازواج کی اجازت دے، اس میں زنا کاری کا بھی انسداد ہے اور مردوں کی بہ نسبت عورتوں کی جو کثرت بہت سے علاقوں میں پائی جاتی ہے اس کا بھی علاج ہے، اگر اس کی اجازت نہ دی جائے تو داشتہ اور پیشہ ور کسی عورتوں کی افراط ہوگی یہی وجہ ہے کہ جن قوموں میں تعداد ازواج کی اجازت نہیں ان میں زنا کی کثرت ہے، یورپین اقوام کو دیکھ لیجئے ان کے یہاں تعدد ازواج پر تو پابندی ہے، مگر بطور دوستانہ جتنی بھی عورتوں سے مرد زنا کرتا ہے اس کی پوری اجازت ہے، کیا تماشہ ہے کہ نکاح ممنوع اور زنا جائز۔
غرض اسلام سے پہلے کثرت ازواج کی رسم بغیر کسی تحدید کے رائج تھی، ممالک اور مذاہب کی تاریخ سے جہاں تک معلوم ہوتا ہے کسی مذہب اور کسی قانون نے اس پر کوئی حد نہ لگائی تھی، نہ یہود و نصاری نے نہ ہندوؤں اور آریوں نے اور نہ پارسیوں نے۔
اسلام کے ابتدائی زمانے میں بھی یہ رسم بغیر تحدید کے جاری رہی، لیکن اس غیر محدود کثرت ازدواج کا نتیجہ یہ تھا کہ لوگ اول اول تو حرص میں بہت سے نکاح کرلیتے تھے، مگر پھر ان کے حقوق ادا نہ کرسکتے تھے، اور یہ عورتیں ان کے نکاح میں ایک قیدی کی حیثیت سے زندگی گزارتی تھیں۔
پھر جو عورتیں ایک شخص کے نکاح میں ہوتیں ان میں عدل و مساوات کا کہیں نام و نشان نہ تھا جس سے وبستگی ہوئی اس کو نوازا گیا، جس سے رخ پھر گیا اس کے کسی حق کی پروا نہیں۔
اسلام نے تعدد ازدواج پر ضروری پابندی لگائی اور عدل و مساوات کا قانون جاری کیا۔
قرآن نے عام معاشرہ کے اس ظلم عظیم کو روکا تعداد ازواج پر پابندی لگائی اور چار سے زیادہ عورتوں کو نکاح میں جمع کرنا حرام قرار دیا اور جو عورتیں ایک ہی وقت میں نکاح کے اندر ہیں ان میں مساوات حقوق کا نہایت موکد حکم اور اس کی خلاف ورزی پر وعید شدید سنائی، آیت مذکورہ میں ارشاد ہوافانکحوا ماطاب لکم من النسآء مثنی و ثلث و ربع یعنی جو حلال عورتیں تمہیں پسند ہوں ان سے نکاح کرسکتے ہو، دو دو تین تین چار چار۔“
آیت میں ماطاب کا لفظ آیا ہے، حسن بصری، ابن جبیر اور ابن مالک نے ماطاب کی تفسیر ماحل سے فرمائی ہے، یعنی جو عورتیں تمہارے لئے حلال ہیں۔
اور بعض حضرات نے ماطاب کے لفظی معنی کے اعتبار سے ”پسندیدہ“ کا ترجمہ کیا ہے۔ مگر ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں، یہ مراد ہوسکتا ہے کہ جو عورتیں طبعی طور پر تمہیں پسند ہوں اور تمہارے لئے شرعاً حلال بھی ہوں۔ اس آیت میں ایک طرف تو اس کی اجازت دی گئی کہ ایک سے زائد دو ، تین، چار عورتیں نکاح میں جمع کرسکتے ہیں، دوسری طرف چار کے عدد تک پہنچا کر یہ پابندی بھی عائد کردی کہ چار سے زائد عورتیں بیک وقت نکاح میں جمع نہیں کی جا سکتیں۔
رسول کریم ﷺ کے بیان نے اس قرآنی تخصیص اور پابندی کو اور زیادہ واضح کردیا، اس آیت کے نزول کے بعد ایک شخص غیلان بن اسلمہ ثقفی مسلمان ہوئے، اس وقت ان کے نکاح میں دس عورتیں تھیں اور وہ بھی مسلمان ہوگئی تھیں، رسول کریم ﷺ نے حکم قرآنی کے مطابق ان کو حکم دیا کہ ان دس میں سے چار کو منتخب کرلیں، باقی کو طلاق دے کر آزاد کردیں، غیلان بن اسلمہ ثقفی نے حکم کے مطابق چار عورتیں رکھ کر باقی سے علیحدگی اختیار کرلی (مشکوة شریف ص 472 بحوالہ ترمذی وابن ماجہ) مسند احمد میں اسی روایت کے تکملہ میں ایک اور واقعہ بھی مذکور ہے، اس کا ذکر کرنا بھی فائدہ سے خالی نہیں، کیونکہ اس کا تعلق بھی نسوانی حقوق سے ہے، وہ یہ کہ۔
غیلان بن اسلمہ نے حکم شرعی کے مطابق چار عورتیں رکھ لی تھیں، مگر فاروق اعظم کے زمانہ خلافت میں انہوں نے ان کو بھی طلاق دے دی اور اپنا کل مال و سامان اپنے بیٹوں میں تقسیم کردیا، فاروق اعظم ؓ کو اس کی اطلاع ملی، تو ان کو حاضر کر کے فرمایا کہ تم نے ان عورتوں کو اپنی میراث سے محروم کرنے کے لئے یہ حرکت کی ہے جو سراسر ظلم ہے، اس لئے فوراً ان کی طلاق سے رجعت کرو اور اپنا مال بیٹوں سے واپس لو، اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو یاد رکھو کہ تمہیں سخت سزا دی جائے گی۔
قیس بن الحارث اسدی ؓ فرماتے ہیں کہ میں جب مسلمان ہوا تو میرے نکاح میں آٹھ عورتیں تھیں، میں نے رسول کریم ﷺ سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا کہ ان میں سے چار رکھ لو باقی کو طلاق دیدو۔ (ابو داؤد، ص 403)
اور مسند امام شافعی میں نوفل بن معاویہ دیلمی کا واقعہ نقل کیا ہے کہ وہ جب مسلمان ہوئے تو ان کے نکاح میں پانچ عورتیں تھیں، آنحضرت ﷺ نے ان کو بھی ایک عورت کو طلاق دینے کا حکم دیا، یہ واقعہ مشکوة شریف (ص 472) میں بھی شرح السنتہ سے نقل کیا ہے رسول کریم ﷺ اور صحابہ کرام کے اس تعامل سے آیت قرآنی کی مراد بالکل واضح ہوگئی کہ چار سے زائد عورتوں کو نکاح میں جمع کرنا حرام ہے۔
رحمتہ اللعالمین ﷺ کے لئے تعدد ازدواج
حضور اقدس ﷺ کی ذات والا صفات سراپا رحمت و برکت ہے، تبلیغ احکام اور تزکیہ نفوس اور ابلاغ قرآن آپ کا سب سے بڑا مقصد بعثت تھا، آپ نے اسلام کی تعلیمات کو قولاً و عملاً دنیا میں پھیلا دیا، یعنی آپ بتاتے بھی تھے اور کرتے بھی تھے، پھر چونکہ انسانی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں نبی کی رہبری کی ضرورت نہ ہو، نماز باجماعت سے لے کر بیویوں کے تعلقات، آل واولاد کی پرورش اور پاخانہ پیشاب اور طہارت تک کے بارے میں آپ کی قولی اور فعلی ہدایات سے کتب حدیث بھرپور ہیں، اندرون خانہ کیا کیا جواب دیا، اس طرح کے سینکڑوں مسائل ہیں جن سے ازواج مطہرات کے ذریعہ ہی امت کو رہنمائی ملی ہے، تعلیم و تبلیغ کی دینی ضرورت کے پیش نظر حضور اقدس ﷺ کے لئے کثرت ازواج ایک ضروری امر تھا، صرف حضرت عائشہ ؓ سے احکام و مسائل، اخلاق و آداب اور سیرت نبوی سے متعلق دو ہزار دو سو دس روایات مروی ہیں جو کتب حدیث میں پائی جاتی ہیں، حضرت ام سلمہ ؓ کی مرویات کی تعداد تین سو اٹہتر تک پہنچی ہوئی ہے، حافظ ابن قیم نے اعلام الموقعین (ص 9 ج 1) میں لکھا ہے کہ اگر حضرت ام سلمہ ؓ کے فتاوی جمع کئے جائیں جو انہوں نے حضور اقدس ﷺ کی وفات کے بعد دیئے ہیں تو ایک رسالہ مرتب ہوسکتا ہے۔
حضرت عائشہ ؓ کا روایت در روایت اور فقہ و فتاوی میں جو مرتبہ ہے وہ محتاج بیان نہیں، ان کے شاگردوں کی تعداد دو سو کے لگ بھگ ہے، حضور اقدس ﷺ کی وفات کے بعد مسلسل اڑتالیس سال تک علم دین پھیلایا۔
بطور مثال دو مقدس بیویوں کا مجمل حال لکھ دیا ہے دیگر ازواج مطہرات کی روایات بھی مجموعی حیثیت سے کافی تعداد میں موجود ہیں ظاہر ہے کہ اس تعلیم و تبلیغ کا نفع صرف ازواج مطہرات سے پہنچا۔
انبیاء اسلام کے مقاصد بلند اور پورے عالم کی انفرادی و اجتماعی، خانگی اور ملکی اصلاحات کی فکروں کو دنیا کے شہوت پرست انسان کیا جانیں، وہ تو سب کو اپنے اوپر قیاس کرسکتے ہیں۔ اسی کے نتیجے میں کئی صدی سے یورپ کے ملحدین اور مستشرقین نے اپنی ہٹ دھرمی سے فخر عالم ﷺ کے تعداد ازواج کو ایک خالص جنسی اور نفسانی خواہش کی پیداوار قرار دیا ہے اگر حضور اقدس ﷺ کی سیرت پر ایک سرسری نظر بھی ڈالی جائے تو ایک ہوش مند منصف مزاج کبھی بھی آپ کی کثرت ازواج کو اس پر محمول نہیں کرسکتا۔
آپ کی معصوم زندگی قریش مکہ کے سامنے اس طرح گذری کہ پچیس سال کی عمر میں ایک سن رسیدہ صاحب اولاد بیوہ (جس کے دو شوہر فوت ہوچکے تھے) سے عقد کر کے عمر کے پچیس سال تک انہی کے ساتھ گذارہ کیا، وہ بھی اس طرح کہ مہینہ مہینہ گھر چھوڑ کر غار حرا میں مشغول عبادت رہتے تھے، دوسرے نکاح جتنے ہوئے پچاس سالہ عمر شریف کے بعد ہوئے، یہ پچاس سالہ زندگی اور عنفوان شباب کا سارا وقت اہل مکہ کی نظروں کے سامنے تھا، کبھی کسی دشمن کو بھی آنحضرت ﷺ کی طرف کوئی ایسی چیز منسوب کرنے کا موقع نہیں ملا جو تقویٰ و طہارت کو مشکوک کرسکے، آپ کے دشمنوں نے آپ پر ساحر، شاعر، مجنون، کذاب، مفتری جیسے الزامات میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی، لیکن آپ کی معصوم زندگی پر کوئی ایسا حرف کہنے کی جرأت نہیں ہوئی جس کا تعلق جنسی اور نفسانی جذبات کی بےراہی روی سے ہو۔
ان حالات میں کیا یہ بات غور طلب نہیں ہے کہ جوانی کے پچاس سال اس زہد وتقوی اور لذائذ دنیا سے یک سوئی میں گذارنے کے بعد وہ کیا داعیہ تھا جس نے آخر عمر میں آپ کو متعدد نکاحوں پر مجبور کیا، اگر دل میں ذرا سا بھی انصاف ہو تو ان متعدد نکاحوں کی وجہ اس کے سوا نہیں بتلائی جاسکتی جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے اور اس کثرت ازدواج کی حقیقت کو بھی سن لیجئے تاکہ کس طرح وجود میں آئی۔
پچیس سال کی عمر سے لے کر پچاس سال کی عمر شریف ہونے تک تنہا حضرت خدیجہ ؓ آپ کی زوجہ ہیں، ان کی وفات کے بعد حضرت سودہ اور حضرت عائشہ ؓ سے نکاح ہوا، مگر حضرت سودہ تو آپ کے گھر تشریف لے آئیں اور حضرت عائشہ صغر سنی کی وجہ سے اپنے والد کے گھر ہی رہیں، پھر چند سال کے بعد 2 ھ میں مدینہ منورہ میں حضرت عائشہ کی رخصتی عمل میں آئی، اس وقت آپ کی عمر چون سال ہوچکی ہے اور دو بیویاں اس عمر میں آ کر جمع ہوئی ہیں، یہاں سے تعدد ازدواج کا معاملہ شروع ہوا، اس کے ایک سال بعد حضرت حفصہ ؓ سے نکاح ہوا، پھر کچھ ماہ بعد حضرت زینب بنت خزیمہ ؓ سے نکاح ہوا اور صرف اٹھارہ ماہ آپ کے نکاح میں رہ کر وفات پائی، ایک قول کے مطابق تین ماہ آپ کے نکاح میں زندہ رہیں، پھر 4 ھ میں حضرت ام سلمہ ؓ سے نکاح ہوا، پھر 5 ھ میں حضرت زینب بنت جحش ؓ سے نکاح ہوا، اس وقت آپ کی عمر شریف اٹھاون 58 سال ہوچکی تھی اور اتنی بڑی عمر میں آ کر چار بیویاں جمع ہوئیں، حالانکہ امت کو جس وقت چاربیویوں کی اجازت ملی تھی اس وقت ہی آپ کم از کم چار نکاح کرسکتے تھے لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا، ان کے بعد 6 ھ میں حضرت جویریہ ؓ سے اور 7 ھ میں حضرت ام حبیبہ ؓ سے اور پھر 7 ھ میں حضرت صفیہ ؓ سے پھر اسی سال حضرت میمونہ ؓ سے نکاح ہوا۔
خلاصہ۔ یہ کہ چون سال کی عمر تک آپ نے صرف ایک بیوی کے ساتھ گذارہ کیا، یعنی پچیس سال حضرت خدیجہ کے ساتھ اور چار پانچ سال حضرت سودہ کے ساتھ گذارے، پھر اٹھاون سال کی عمر میں چار بیویاں جمع ہوئیں اور باقی ازواج مطہرات دو تین سال کے اندر حرم نبوت میں آئیں۔
اور یہ بات خاص طور سے قابل ذکر ہے کہ ان سب بیویوں میں صرف ایک ہی عورت ایسی تھیں جن سے کنوارے پن میں نکاح ہوا، یعنی ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ ان کے علاوہ باقی سب ازواج مطہرات بیوہ تھیں، جن میں بعض کے دو دو شوہر پہلے گذر چکے تھے اور یہ تعداد بھی آخر عمر میں آ کر جمع ہوئی ہے۔
حضرات صحابہ مرد اور عورت سب آپ پر جاں نثار تھے، اگر آپ چاہتے تو سب بیویاں کنواریاں جمع کرلیتے، بلکہ ہر ایک ایک دو دو مہینے کے بعد بدلنے کا بھی موقع تھا، لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا۔ نیز یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ برحق نبی تھے، نبی صاحب ہوا وہوس نہیں ہوتا، جو کچھ کرتا ہے اذن الٰہی سے کرتا ہے، نبی ماننے کے بعد ہر اعتراض ختم ہوجاتا ہے اور اگر کوئی شخص آپ کو نبی ہی نہ مانے اور یہ الزام لگائے کہ آپ نے محض شہوت پرستی کی وجہ سے اپنے لئے کثرت ازدواج کو جائز رکھا تھا تو اس شخص سے کہا جائے گا کہ اگر ایسا ہوتا تو آپ اپنے حق میں کثرت ازدواج کے معاملہ میں اس پابندی کا اعلان کیوں فرماتے جس کا ذکر قرآن کریم کی آیت لایحل لک النسآء من بعد میں موجود ہے، اپنے حق میں اس پابندی کا اعلان اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ آپ نے جو کچھ کیا اپنے رب کے اذن سے کیا۔
تعدد ازدواج کی وجہ سے تعلیمی اور تبلیغی فوائد جو امت کو حاصل ہوئے اور جو احکام امت تک پہنچے اس کی جزئیات اس قدر کثیر تعداد میں ہیں کہ ان کا احصاء دشوار ہے، کتب احادیث اس پر شاہد ہیں، البتہ بعض دیگر فوائد کی طرف یہاں ہم اشارہ کرتے ہیں۔
حضرت ام سلمہ ؓ کے شوہر حضرت ابوسلمہ کی وفات کے بعد آپ نے ان سے نکاح کرلیا تھا، وہ اپنے سابق شوہر کے بچوں کے ساتھ آپ کے گھر تشریف لائیں، ان کے بچوں کی آپ نے پرورش کی، اور اپنے عمل سے بتادیا کہ کس پیار و محبت سے سوتیلی اولاد کی پرورش کرنی چاہئے، آپ کی بیویوں میں صرف یہی ایک بیوی ہیں جو بچوں کے ساتھ آئیں، اگر کوئی بھی بیوی اس طرح کی نہ ہوتی تو عملی طور پر سوتیلی اولاد کی پرورش کا خانہ خالی رہ جاتا اور امت کو اس سلسلے میں کوئی ہدایت نہ ملتی، ان کے بیٹے حضرت عمر بن ابی سلمہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی گود میں پرورش پاتا تھا، ایک بار آپ کے ساتھ کھانا کھاتے ہوئے پیالے میں ہر جگہ ہاتھ ڈالتا تھا، آپ نے فرمایابسم اللہ وکل بیمینک وکل مما یلیک (اللہ کا نام لے کر کھا، داہنے ہاتھ سے کھا اور سامنے سے کھا) (بخاری، مسلم بحوالہ مشکو ة ص 362)
حضرت جویریہ ؓ ایک جہاد میں قید ہو کر آئی تھیں، دوسرے قیدیوں کی طرح یہ بھی تقسیم میں آگئیں، اور ثابت بن قیس یا انکے چچا زاد بھائی کے حصہ میں ان کو لگا دیا گیا، لیکن انہوں نے اپنے آقا سے اس طرح معاملہ کرلیا کہ اتنا اتنا مال تم کو دیدوں گی مجھے آزاد کردو، یہ معاملہ کر کے حضور ﷺ کے پاس آئیں اور مالی امداد چاہی، آپ نے فرمایا اس سے بہتر بات نہ بتادوں ؟ وہ یہ کہ میں تمہاری طرف سے مال ادا کر دوں اور تم سے نکاح کرلوں، انہوں نے بخوشی منظور کرلیا، تب آپ نے ان کی طرف سے مال اد اکر کے نکاح فرما لیا، ان کی قوم کے سینکڑوں افراد حضرات صحابہ کی ملکیت میں آ چکے تھے، کیونکہ وہ سب لوگ قیدی ہو کر آئے تھے، جب صحابہ کو پتہ چلا کو جویریہ آپ کے نکاح میں آگئی ہیں تو آحضرت ﷺ کے احترام کے پیش نظر سب نے اپنے اپنے غلام باندی آزاد کردیئے، سبحان اللہ حضرات صحابہ کرام کے ادب کی کیا شان تھی، اس جذبے کے پیش نظر کہ یہ لوگ سرکار دو عالم ﷺ کے سسرال والے ہوگئے، ان کو غلام بنا کر کیسے رکھیں، سب کو آزاد کردیا، حضرت عائشہ ؓ اس واقعہ کے متعلق فرماتی ہیں۔
”آنحضرت ﷺ کے جویریہ سے نکاح کرلینے سے بنو المصلق کے سو گھرانے آزاد ہوئے میں نے کوئی عورت ایسی نہیں دیکھی جو جویریہ سے بڑھ کر اپنی قوم کے لئے بڑی برکت والی ثابت ہوئی ہو۔“
حضرت ام حبیبیہ ؓ نے اپنے شوہر کے ساتھ بابتداء اسلام ہی میں مکہ میں اسلام قبول کیا تھا اور پھر دونوں میاں بیوی ہجرت کر کے قافلہ کے دور سے افراد کے ساتھ حبشہ چلے گئے تھے، وہاں ان کا شوہر نصرانی ہوگیا اور چند دن کے بعد مر گیا، آنحضرت ﷺ نے نجاشی کے واسطہ سے ان کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا، جسے انہوں نے قبول کرلیا اور وہیں حبشہ میں نجاشی ہی نے آنحضرت ﷺ کے ساتھ ان کا نکاح کردیا، دلچسپ بات یہ ہے کہ حضرت ام حبیبہ ابوسفیان ؓ کی صاحبزادی تھیں اور حضرت ابوسفیان اس وقت اس گروہ کے سرخیل تھے جس نے اسلام دشمن کو اپنا سب سے بڑا مقصد قرار دیا تھا اور وہ مسلمان کو اور پیغمبر خدا ﷺ کو اذیت دینے اور انہیں فنا کے گھاٹ اتار دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے جب ان کو اس نکاح کی اطلاع ہوئی تو بلا اختیار ان کی زبان سے یہ الفاظ نکلےھو الفعل لایجدع انفہ ، (یعنی محمد ﷺ جوان مرد ہیں ان کی ناک نہیں کاٹی جاسکتی) مطلب یہ کہ وہ بلند ناک والے معزز ہیں ان کو ذلیل کرنا آسان نہیں، ادھر تو ہم ان کو ذلیل کرنے کی تیاریوں میں لگے ہوئے ہیں اور ادھر ہماری لڑکی ان کے نکاح میں چلی گئی۔
غرض اس نکاح نے ایک نفسیاتی جنگ کا اثر کیا اور اسلام کے مقابلہ میں کفر کے قائد کے حوصلے پست ہوگئے، اس نکاح کی وجہ سے جو سیاسی فائدہ اسلام اور مسلمانوں کو پہنچا اس کی اہمیت اور ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ خدا کے مدبر اور حکیم رسول ﷺ نے اس فائدہ کو ضرور پیش نظر رکھا ہوگا۔
یہ چند باتیں لکھی گئی ہیں ان کے علاوہ سیرت پر عبور رکھنے والے حضرات کو بہت کچھ حکمتیں آپ کے تعدد ازدواج میں مل سکتی ہیں، اس سلسے میں سیدی حکیم الامت قدس سرہ کے رسالے ”کثرت ازواج لصاحب المعراج“ کا دیکھنا بھی مفید ہوگا۔
یہ تفصیل ہم نے ملحدین و مستشرقین کے پھیلائے ہوئے پر فریب جال کو کاٹنے کے لئے لکھی ہے، کیونکہ ان کے اس دام تزدیر میں بہت سے وہ تعلیم یافتہ اور ناواقف مسلمان بھی پھنس جاتے ہیں جو سیرت نبوی اور تاریخ اسلام سے بیخبر ہیں اور اسلامیات کا علم مستشرقین ہی کے کتابوں سے حاصل کرتے ہیں۔
اگر متعدد بیویوں میں مساوات اور عدل و پر قدرت نہ ہو تو صرف ایک بیوی پر اکتفا کیا جائے۔
چار بیویوں تک کی اجازت دے کر فرمایا فان خفتم الاتعدلوا فواحدة اوماملکت ایمانکم ”یعنی اگر تم کو اس کا خوف ہو کہ عدل نہ کرسکو گے تو ایک ہی بیوی پر بس کرو، یا جو کنیز شرعی اصول کے مطابق تمہاری ملک ہو اس سے گذارہ کرلو۔“
اس سے معلوم ہوا کہ ایک سے زیادہ نکاح کرنا اسی صورت میں جائز اور مناسب ہے جبکہ شریعت کے مطابق سب بیویوں میں برابری کرسکے اور سب کے حقوق کا لحاظ رکھ سکے، اگر اس پر قدرت نہ ہو تو ایک ہی بیوی رکھی جائے، زمانہ جاہلیت میں یہ ظلم عام تھا کہ ایک ایک شخص کئی کئی بیویاں رکھ لیتا تھا جس کا ذکر چند احادیث کے حوالہ سے اس آیت کے ضمن میں پہلے گزرا ہے اور بیویوں کے حقوق میں مساوات اور عدل کا مطلق خیال نہ تھا جس کی طرف زیادہ میلان ہوگیا اس کو ہر حیثیت سے نوازنے اور خوش رکھنے کی فکر میں لگ گئے اور دوسری بیویوں کے حقوق نظر انداز کر ڈالتے، قرآن کریم نے صاف صاف فرما دیا کہ اگر عدل نہ کرسکو تو ایک ہی بیوی رکھو، یا کنیز سے گذارہ کرلو، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مملوک کنیز جس کا ذکر آیت میں ہے اس کی خاص شرائط ہیں، جو عموماً آج کل مفقود ہیں، اس لئے اس زمانے میں کسی کو مملوک شرعی کنیز کہہ کر بےنکاح رکھ لینا حرام ہے، اس کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں۔
حاصل یہ ہے کہ اگرچہ قرآن کریم نے چار عورتیں تک نکاح میں رکھنے کی اجازت دے دی اور اس حد کے اندر جو نکاح کئے جائیں گے وہ صحیح اور جائز ہوں گے لیکن متعدد بیویاں ہونے کی صورت میں ان میں عدل و مساوات قائم رکھنا واجب ہے اور اس کے خلاف کرنا گناہ عظیم ہے، اس لئے جب ایک سے زائد نکاح کا ارادہ کرو تو پہلے اپنے حالات کا جائزہ لو، کہ سب کے حقوق عدل و مساوات کے ساتھ پورا کرنے کی قدرت بھی ہے یا نہیں، اگر یہ احتمال غالب ہو کہ عدل و مساوات قائم نہ رکھ سکو گے تو ایک سے زائد نکاح پر اقدام کرنا اپنے آپ کو ایک عظیم گناہ میں مبتلا کرنے پر اقدام ہے اس سے باز رہنا چاہئے اور اس حالت میں صرف ایک ہی بیوی پر اکتفا کرنا چاہئے۔ خلاصہ یہ ہے کہ چار سے زائد عورتوں سے کسی نے بیک وقت یعنی ایک ہی ایجاب و قبول میں نکاح کرلیا تو وہ نکاح سرے سے باطل ہے، کیونکہ چار سے زائد نکاح کا کسی کو حق نہیں اور چار کے اندر جو نکاح کئے جائیں وہ نکاح تو بہرل ہوجائیں گے، لیکن بیویوں میں عدل و مساوات قائم نہ رکھی تو سخت گناہ ہوگا اور جس کی حق تلفی ہو رہی ہو قاضی کی عدالت میں دعویٰ کر کے اپنا حق وصول کرسکے گی۔
رسول کریم ﷺ نے سب بیویوں کے درمیان پوری مساوات و عدل کی سخت تاکید فرمائی ہے اور اس کے خلاف کرنے پر سخت وعیدیں سنائی ہیں اور خود اپنے عمل کے ذریعے بھی اس کو واضح فرمایا ہے، بلکہ رسول کریم ﷺ تو ان معاملات میں بھی مساوات فرماتے تھے جن میں مساوات لازم نہیں۔
ایک حدیث میں آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کے نکاح میں دو عورتیں ہوں اور وہ ان کے حقوق میں برابری اور انصاف نہ کرسکے تو وہ قیامت میں اس طرح اٹھایا جائے گا کہ اس کا ایک پہلو گرا ہوا ہوگا۔ (مشکوة، ص 872)
البتہ یہ مساوات ان امور میں ضروری ہے جو انسان کے اختیار میں ہیں، مثلاً نفقہ میں برابری، شب باشی میں برابری، رہا وہ امر جو انسان کے اختیار میں نہیں، مثلاً قلب کا میلان کسی کی طرف زیادہ ہوجائے وہ اس غیر اختیاری معاملہ میں اس پر کوئی مواخذہ نہیں، بشرطیکہ اس میلان کا اثر اختیاری معاملات پر نہ پڑے، رسول کریم ﷺ نے خود بھی اختیاری معاملات میں پوری مساوات قائم فرمانے کے ساتھ حق تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کیا
”یا اللہ یہ میری برابر والی تقسیم ہے، ان چیزوں میں جو میرے اختیار میں ہیں، اب وہ چیز جو آپ کے قبضہ میں ہے، میرے اختیار میں نہیں ہے اس پر مجھ سے مواخذہ نہ کرنا۔“
ظاہر ہے کہ جس کام پر ایک رسول معصوم بھی قادر نہیں، اس پر کوئی دوسرا کیسے قادر ہوسکتا ہے، اس لئے قرآن کریم کی دوسری آیت میں اس غیر اختیاری معاملہ کا ذکر اس طرح فرمایا
”عورتوں کے درمیان تم پوری برابری ہرگز نہ کرسکو گے۔“
جس میں بتلا دیا کہ میلان قلب اور محبت ایک غیر اختیاری معاملہ ہے، اس میں برابری کرنا انسان کے بس میں نہیں، لیکن آگے اس غیر اختیاری معاملہ کی اصلاح کے لئے بھی ارشاد فرمایافلا تمیلوا کل المیل، یعنی ”اگر کسی ایک بیوی سے زیادہ محبت ہو تو اس میں تو تم معذور ہو، لیکن دوسری بیوی سے کلی بےاعتنائی اور بےتوجہی اس حالت میں بھی جائز نہیں“ اس آیت کے جملے فان خفتم الاتعدلوا فواحدة میں جس عدل و مساوات کا بیان ہے، یہ وہی امور اختیاریہ کا عدل ہے کہ اس میں بےاعتدالی گناہ عظیم ہے اور جس شخص کو اس گناہ میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ ہو اس کو یہ ہدایت کی گئی کہ ایک سے زائد نکاح نہ کرے۔
ایک شبہ اور اس کا جواب۔
مذکورہ بالا تفصیل و تشریح کو نظر انداز کردینے کی وجہ سے بعض لوگ سورة نساء کی آیت مذکورہ اور اس آیت (4: 921) کو ملانے سے ایک عجیب مغالطہ میں مبتلا ہوگئے، وہ یہ کہ آیت سورة نساء میں تو یہ حکم دیا گیا کہ اگر عدل و مساوات قائم نہ رکھنے کا خطرہ ہو تو پھر ایک ہی نکاح پر بس کرو اور اس دوسری آیت میں قطعی طور پر یہ واضح کردیا کہ عدل و مساوات ہو ہی نہیں سکتا، تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک سے زائد نکاح مطلقاً جائز نہ رہے، لیکن ان کو سوچنا چاہئے کہ اگر اللہ تعالیٰ جل شانہ کا مقصود ان تمام آیات میں ایک سے زائد نکاح کو روکنا ہی ہوتا تو بھی اس تفصیل میں جانے کی ضرورت ہی کیا تھی کہ فانکحوا ماطاب لکم من النسآء مثنی وثلاث وربع (یعنی نکاح کرو جو پسند آئیں تم کو عورتیں دو دو تین تین چار چار) کیونکہ اس صورت میں تو بےانصافی یقینی ہے، پھر خطرہ ہونے کے کوئی معنی ہی باقی نہیں رہتے۔
اس کے علاوہ رسول کریم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کا عملی اور قولی بیان اور مسلسل تعامل بھی اس پر شاہد ہے کہ ایک سے زائد نکاح کو کسی وقت اسلام میں نہیں روکا گیا۔ بات وہی ہے جو اوپر بیان ہوچکی ہے کہ سورة نساء کی پہلی آیت میں امور اختیاریہ کے عدل و مساوات کا ذکر ہے اور دوسری آیت میں محبت اور قلبی میلان میں عدم مساوات پر قدرت نہ ہونے کا بیان ہی اس لئے دونوں آیتوں میں نہ کوئی تعارض ہے اور نہ ان آیات میں مطلقاً تعدد ازدواج کی ممانعت کی کوئی دلیل ہے۔
آیت کے ختم پر ارشاد فرمایا ذلک ادنی الا تعولوا اس آیت میں دو کلمے ہیں، ایک کلمہ ادنی یہ لفظ دلو سے مشتق ہے، جو قرب کے معنی میں ہے، اور دوسرا لفظ لاتعولوا ہے، عال یعول، مال یمیل کے معنی میں ہے، جس کے معنی میلان کے ہیں اور یہاں ناجائز میلان اور ظلم و جور کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس آیت میں جو کچھ تم کو بتلایا گیا ہے (یعنی عدل نہ کرسکنے کی صورت میں ایک بیوی پر اکتفا کرنا یا باندی کے ساتھ گذارہ کرلینا) یہ ایسی چیز ہے کہ اس کو اختیار کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے میں تم ظلم کرنے سے بچ سکو گے اور زیادتی و تعددی کے مواقع ختم ہو سکیں گے۔
یہاں ایک شبہ یہ ہے کہ جب ایک بیوی ہوگی تو ظلم کا بالکل کوئی موقع نہ ہوگا، پھر لفظ ادنی بڑھا کر یہ کیوں فرمایا کہ اس پر عمل پیرا ہونا اس بات کے قریب ہے کہ تم ظلم نہ کرو، بلکہ یہ فرمانا چاہئے کہ تم بالکل اس ظلم سے بچ جاؤ گے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ لفظ ادنی بڑھا کر اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ چونکہ بہت سے لوگ ایک بیوی کو بھی ظلم و ستم کا تختہ بنائے رکھتے ہیں، اس لئے ظلم کا راستہ بند کرنے کے لئے صرف یہ کافی نہیں کہ ایک سے زائد نکاح نہ کرو، وہاں یہ ضرور ہے کہ اس صورت میں ظلم کا خطرہ کم ہوجائے گا اور تم عدل کے قریب پہنچ جاؤ گے اور ظلم وجور سے مکمل رہائی اس وقت ہوگی جبکہ ایک بیوی کے حقوق پورے ادا کئے جائیں اس کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ ہے، اس کی خامیوں سے درگزر اور اس کی کجی پر صبر کیا جائے۔
Top