Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 37
اِ۟لَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ وَ یَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَ یَكْتُمُوْنَ مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ١ؕ وَ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّهِیْنًاۚ
الَّذِيْنَ : جو لوگ يَبْخَلُوْنَ : بخل کرتے ہیں وَيَاْمُرُوْنَ : اور حکم کرتے (سکھاتے) ہیں النَّاسَ : لوگ (جمع) بِالْبُخْلِ : بخل وَيَكْتُمُوْنَ : اور چھپاتے ہیں مَآ : جو اٰتٰىھُمُ : انہیں دیا اللّٰهُ : اللہ مِنْ : سے فَضْلِهٖ : اپنا فضل وَاَعْتَدْنَا : اور ہم نے تیار کر رکھا ہے لِلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے عَذَابًا : عذاب مُّهِيْنًا : ذلت والا
اور سکھاتے ہیں لوگوں کو بخل اور چھپاتے ہیں جو ان کو دیا اللہ نے اپنے فضل سے اور تیار کر رکھا ہے ہم نے کافروں کے لئے عذاب ذلت کا
اس کے بعد الذین یبخلون میں بیان ہے کہ جو لوگ متکبرین ہوتے ہیں وہ حقوق واجبہ میں بھی بخل کرتے ہیں اپنی ذمہ داریوں کو نہیں سمجھتے اور دوسروں کو بھی اپنے قول و عمل سے اس بری صفت کو اختیار کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔
آپ میں بخل کا لفظ آیا ہے، جس کا اطلاق عرف عام میں حقوق مالیہ کے اندر کوتاہی کرنے پر ہوتا ہے، لیکن آیت کے شان نزول سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بخل کا لفظ عام معنی میں استعمال کیا گیا ہے، جو بخل بالمال اور بخل بالعلم دونوں کو شامل ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت یہود مدینہ کے حق میں نازل ہوئی تھی، یہ لوگ بہت زیادہ مغرور تھے، انتہاء درجہ کے کنجوس تھے، مال خرچ کرنے میں بھی بخل کرتے تھے اور اس علم کو بھی چھپاتے تھے جو انہیں اپنی الہامی کتابوں سے حاصل ہوا تھا، ان کتابوں میں آنحضرت ﷺ کی بعثت کی بشارت تھی اور آپ کی علامات کا بھی ذکر تھا، لیکن یہود نے ان سب کا یقین کرلینے کے بعد بھی بخل سے کام لیا، نہ خود اس علم کے تقاضے پر عمل کیا اور نہ دوسروں کو بتلایا کہ وہ عمل کرتے۔
آگے فرمایا کہ ایسے لوگ جو اللہ کے دیئے ہوئے مال و دولت میں بھی بخل کرتے ہیں اور علم و ایمان کے معاملہ میں بھی بخیل ہیں، ایسے لوگ نعمت خداوندی کے ناسپاس ہیں اور ان کے لئے اہانت آمیز عذاب تیار کرلیا گیا۔
اتفاق کی فضیلت اور بخل کی مذمت کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔
”حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہر صبح کے وقت دو فرشتے نازل ہوتے ہیں، ان میں سے ایک یہ کہتا ہے اے اللہ ! بھلائی کے راستہ میں خرچ کرنے والے کو اچھا عوض عطا فرما، اور دوسرا کہتا ہے اے اللہ ! بخیل کو (مال و دولت کی) تباہی سے ہمکنار کر۔“
”حضرت اسماء ؓ سے روایت ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ اے اسماء ! خیر کے راستہ میں خرچ کیا کرو اور گن گن کر نہ دے ورنہ اللہ بھی تمہارے حق میں گننا شروع کر دے گا اور انفاق سے بچنے کے لئے بہت زیادہ حفاظت نہ برتو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی حفاظت کرنا شروع کر دے گا اور کم از کم جو تجھ سے ہو سکے اس کے دینے سے دریغ نہ کرو۔“
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ سخی اللہ سے بھی قریب ہے جنت سے بھی قریب ہے اور لوگوں کی نظروں میں بھی پسندیدہ ہے، اور جہنم کی آگ سے دور ہے اور بخیل اللہ سے بھی دور ہے جنت سے بھی دور ہے لوگوں سے بھی دور ہے اور آگ سے قریب ہے اور جاہل آدمی جو سخاوت کرتا ہو (اور فرائض کو ادا کرنے اور محرمات سے بچنے کا اہتمام کرتا ہو) اس کنجوس سے بہتر ہے جو عبادت گذار ہو۔“
”حضرت ابو سعید ؓ سے روایت ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا دو عادتیں کسی مومن میں جمع نہیں ہوتیں، بخل اور بد اخلاقی۔“
Top