Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 34
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ١ؕ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُ١ؕ وَ الّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَهُنَّ فَعِظُوْهُنَّ وَ اهْجُرُوْهُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَ اضْرِبُوْهُنَّ١ۚ فَاِنْ اَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَیْهِنَّ سَبِیْلًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیًّا كَبِیْرًا
اَلرِّجَالُ
: مرد
قَوّٰمُوْنَ
: حاکم۔ نگران
عَلَي
: پر
النِّسَآءِ
: عورتیں
بِمَا
: اس لیے کہ
فَضَّلَ
: فضیلت دی
اللّٰهُ
: اللہ
بَعْضَھُمْ
: ان میں سے بعض
عَلٰي
: پر
بَعْضٍ
: بعض
وَّبِمَآ
: اور اس لیے کہ
اَنْفَقُوْا
: انہوں نے خرچ کیے
مِنْ
: سے
اَمْوَالِهِمْ
: اپنے مال
فَالصّٰلِحٰتُ
: پس نیکو کار عورتیں
قٰنِتٰتٌ
: تابع فرمان
حٰفِظٰتٌ
: نگہبانی کرنے والیاں
لِّلْغَيْبِ
: پیٹھ پیچھے
بِمَا
: اس سے جو
حَفِظَ
: حفاطت کی
اللّٰهُ
: اللہ
وَالّٰتِيْ
: اور وہ جو
تَخَافُوْنَ
: تم ڈرتے ہو
نُشُوْزَھُنَّ
: ان کی بدخوئی
فَعِظُوْھُنَّ
: پس امن کو سمجھاؤ
وَاهْجُرُوْھُنَّ
: اور ان کو تنہا چھوڑ دو
فِي الْمَضَاجِعِ
: خواب گاہوں میں
وَاضْرِبُوْھُنَّ
: اور ان کو مارو
فَاِنْ
: پھر اگر
اَطَعْنَكُمْ
: وہ تمہارا کہا مانیں
فَلَا تَبْغُوْا
: تو نہ تلاش کرو
عَلَيْهِنَّ
: ان پر
سَبِيْلًا
: کوئی راہ
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
كَانَ
: ہے
عَلِيًّا
: سب سے اعلی
كَبِيْرًا
: سب سے بڑا
مرد حاکم ہیں عورتوں پر اس واسطے کہ بڑائی دی اللہ نے ایک کو ایک پر اور اس واسطے کہ خرچ کئے انہوں نے اپنے مال پھر جو عورتیں نیک ہیں سو تابعدار ہیں نگہبانی کرتی ہیں پیٹھ پیچھے اللہ کی حفاظت سے اور جن کی بدخوئی کا ڈر ہو تم کو تو ان کو سمجھاؤ اور جدا کرو سونے میں اور مارو ان کو پھر اگر کہا مانیں تمہارا تو مت تلاش کرو ان پر راہ الزام کی بیشک اللہ ہے سب سے اوپر بڑا،
ربط آیات
عورتوں کے متعلق جو احکام گذر چکے ہیں، اس میں ان کی حق تلفی کی ممانعت بھی مذکور ہوئی، اب آگے مردوں کے حقوق کا ذکر ہے اور ان کے مطالبہ اور ان کو قوت کرنے کی صورت میں تادیب کی اجازت بھی دی گئی ہے، حقوق میں اختلاف واقع ہونے کی صورت میں اس کے تصفیہ کا طریق اور حقوق ادا کرنے والوں کی فضیلت بھی مذکور ہے، اس کے ساتھ ہی اس بات کی بھی تصریح ہے کہ مردوں کا درجہ عورتوں سے بڑھا ہوا ہے، اس سے یہ جواب بھی نکل آیا کہ جب مرد، عورت کے مقابل ہمیں افضل ہیں تو یہ اشکال نہیں ہونا چاہئے، کہ میراث میں ان کا حصہ عورتوں کی نسبت زیادہ کیوں ہے ؟
خلاصہ تفسیر
مرد حاکم ہیں عورتوں پر (دو وجہ سے، ایک تو) اس سبب سے کہ اللہ تعالیٰ نے بعضوں کو (یعنی مردوں کو) بعضوں پر (یعنی عورتوں پر قدرتی) فضیلت دی ہے، (یہ تو وہی امر ہے) اور (دوسرے) اس سبب سے کہ مردوں نے (عورتوں پر) اپنے مال (مہر میں اور نان نفقہ میں) خرچ کئے ہیں (اور خرچ کرنے والوں کا ہاتھ اونچا اور بہتر ہوتا ہے اس سے کہ جس پر خرچ کیا جاوے اور یہ امر مکتسب ہے) سو جو عورتیں نیک ہیں (وہ مرد کے ان فضائل و حقوق کی وجہ سے) اطاعت کرتی ہیں (اور) مرد کی عدم موجودگی میں (بھی) بحفاظت (وتوفیق) الٰہی (اس کی آبرو و مال کی) نگہداشت کرتی ہیں اور جو عورتیں (اس صفت کی نہ ہوں، بلکہ) ایسی ہوں کہ تم کو (قرائن سے) ان کی بد دماغی کا احتمال (قوی) ہو تو ان کو (اول) زبانی نصیحت کرو اور (نہ مانیں تو) ان کو ان کے لیٹنے کی جگہوں میں تنہا چھوڑ دو (یعنی ان کے پاس مت لیٹو) اور (اس سے بھی نہ مانیں تو) ان کو (اعتدال کے ساتھ) مارو، پھر اگر وہ تمہاری اطاعت کرنا شروع کردیں تو ان پر (زیادتی کرنے کے لئے) بہانہ (اور موقع) مت ڈھونڈو (کیونکہ) بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑی رفعت اور عظمت والے ہیں (ان کے حقوق اور قدرت اور علم سب بڑے ہیں، اگر تم ایسا کرو گے پھر وہ بھی تم پر اپنے حقوق کے متعلق ہزاروں الزام قائم کرسکتے ہیں) اور اگر (قرائن سے) تم اوپر والوں کو ان دونوں میاں بی بی میں (ایسی کشاکش کا) اندیشہ ہو (کہ اس کو وہ باہم نہ سلجھا سکیں گے) تو تم لوگ ایک آدمی جو تصفیہ کرنے کی لیاقت رکھتا ہو، مرد کے خاندان سے اور ایک آدمی جو (ایسا ہی) تصفیہ کرنے کی لیاقت رکھتا ہو عورت کے خاندان سے (تجویز کر کے اس کشاکش کے رفع کرنے کے لئے ان کے پاس) بھیجو (کہ وہ جا کر تحقیق حال کریں، اور جو بےراہی پر ہو، یا دونوں کا کچھ کچھ قصور ہو سمجھا دیں) اگر ان دونوں آدمیوں کو (سچے دل سے) اصلاح (عاملہ کی) منظور ہوگی تو اللہ تعالیٰ ان میاں بی بی میں (بشرطیکہ وہ ان دونوں کی رائے پر عمل بھی کریں) اتفاق فرما دیں گے، بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑے علم اور بڑے خبر والے ہیں (جس طریق سے ان میں باہم مصالحت ہو سکتی ہے اس کو جانتے ہیں جب حاکمین کی نیت ٹھیک دیکھیں گے وہ طریق ان کے قلب میں القاء فرما دیں گے۔)
معارف و مسائل
سورة نسآء کے شروع سے یہاں تک بیشتر احکام اور ہدایات عورتوں کے حقوق سے متعلق آتی ہیں، جن میں ان ”الم کو مٹایا گیا ہے جو اسلام سے پہلے پوری دنیا میں اس صنف نازک پر توڑے جاتے تھے، اسلام نے عورتوں کو وہ تمام انسانی حقوق دیئے جو مردوں کو حاصل ہیں، اگر عورتوں کے ذمہ مردوں کی کچھ خدمات عائد کیں تو مردوں پر بھی عورتوں کے حقوق فرض کئے۔
سورة بقرہ کی آیت میں ارشاد فرمایاولھن مثل الذی علیھن بالمعروف (2: 822) یعنی ”عورتوں کے حقوق مردوں کے ذمہ ایسے ہی واجب ہیں جیسے مردوں کے حقوق عورتوں کے ذمہ ہیں۔ ‘ اس میں دونوں کے حقوق کی مماثلت کا حکم دے کر اس کی تفصیلات کو عرف کے حوالہ سے فرمایا جاہلیت اور تمام دنیا کی ظالمانہ رسموں کا یکسر خاتمہ کردیا، ہاں یہ ضروری نہیں کہ دونوں کے حقوق صورت کے اعتبار سے متماثل ہوں، بلکہ عورت پر ایک قسم کے کام لازم ہیں تو اس کے مقابل مرد پر دوسری قسم کے کام ہیں، عورت امور خانہ داری اور بچوں کی تربیت و حفاظت کی ذمہ دار ہے، تو مردان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے کسب معاش کا ذمہ دار ہے، عورت کے ذمہ مرد کی خدمت و اطاعت ہے تو مرد کے ذمہ اس کا مہر اور نفقہ یعنی شام ضروری اخراجات کا نتظام ہے، غرض اس آیت نے عرتوں کو مردوں کے مماثل حقوق دیدیئے۔
لیکن ایک چیز ایسی بھی ہے جس میں مردوں کو عورتوں پر تفوق اور ایک خالص فضیلت حاصل ہے، اس لئے اس آیت کے آخر میں فرمایاوللرجال علیھن درجة یعنی مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ فضیلت کا حاصل ہے۔
ان آیات میں اسی درجہ کا بیان قرآن کریم کے حکیمانہ طرز بیان کے ساتھ اس طرح کیا گیا ہے کہ مردوں کی یہ فضیلت اور تفوق خود عورتوں کی مصلحت اور فائدہ کے لئے اور عین مقتضائے حکمت ہے اس میں عورت کی نہ کسر شان ہے نہ اس کا کوئی نقصان ہے۔
ارشاد فرمایاالرجال قومون علی النسآئ (5: 43) قوام، قیام، قیم عربی زبان میں اس شخص کو کہا جاتا ہے جو کسی کام یا نظام کا ذمہ دار اور چلانے والا ہو، اسی لئے اس آیت میں قوام کا ترجمہ عموماً حاکم کیا گیا ہے، یعنی مرد عورتوں پر حاکم ہیں، مراد یہ ہے کہ ہر اجتماعی نظام کے لئے عقلاً اور عرفاً یہ ضروری ہوتا ہے کہ اس کا کوئی سربراہ یا امیر اور حاکم ہوتا ہے کہ اختلاف کے قوت اس کے فیصلہ سے کام چل سکے، جس طرح ملک و سلطنت اور ریاست کے لئے اس کی ضرورت سب کے نزدیک مسلم ہے، اسی طرح قبائلی نظام میں بھی اس کی ضرورت ہمیشہ محسوس کی گئی اور کسی ایک شخص کو قبیلہ کا سردار اور حاکم مانا گیا ہے، اسی طرح اسی عائلی نظام میں جس کو خانہ داری کہا جاتا ہے اس میں بھی ایک امیر اور سربراہ کی ضرورت ہے، عورتوں اور بچوں کے مقابل ہمیں اس کام کے لئے حق تعالیٰ نے مردوں کو منتخب فرمایا کہ ان کی عمی اور عملی قوتیں بہ نسبت عورتوں، بچوں کے زیادہ ہیں اور یہ ایسا بدیہی معاملہ ہے کہ کوئی سمجھدار عورت یا مرد اس کا انکار نہیں کرسکتا۔
خلاصہ یہ ہے کہ سورة بقرہ کی آیت میں وللرجال علیھن درجة (2: 822) فرما کر اور سورة نسآء کی آیت متذکرہ میں الرجال قومون علی النسآء فرما کر یہ بتلا دیا گیا کہ اگرچہ عورتوں کے حقوق مردوں پر ایسے ہی لازم و واجب ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر ہیں اور دونوں کے حقوق باہم ماثل ہیں، لیکن ایک چیز میں مردوں کو امتیاز حاصل ہے کہ وہ حاکم ہیں ........ اور قرآن کریم کی دوسری آیات میں یہ بھی واضح کردیا گیا کہ یہ حکومت جو مردوں کی عورتوں پر ہے محض آمریت اور ساتبداد کی حکومت نہیں، بلکہ حاکم یعنی مرد بھیق انون شرع اور مشورہ کا پابند ہے، محض اپنی طبیعت کے تقاضہ سے کوئی کام نہیں کرسکتا، اس کو حکم دیا گیا ہے کہ عاشر وھن بالمعروف (5: 91) یعنی عورتوں کے ساتھ معروف طریقہ پر اچھا سلوک کرو۔
اسی طرح دوسری آیت میں عن تراض منھما وتشاور (2: 332) کی تعلیم ہے جس میں اس کی ہدایت کی گئی ہے کہ امور خانہ داری میں بیوی کے مشورہ سے کام کریں، اس تفصیل کے بعد مرد کی حاکمیت عورت کے لئے کسی رنج کا سبب نہیں ہو سکتی، تاہم چونکہ یہ احتمال تھا کہ مردوں کی اس فضیلت اور اپنی محکومیت سے عورتوں پر کوئی ناگوار اثر ہو، اس لیے حق تعالیٰ نے اس جگہ صرف حکم بتلانے اور جاری کرنے پر اکتفاء نہیں فرمایا، بلکہ خود ہی اس کی حکمت اور وجہ بھی بتلا دی، ایک وہبی جس میں کسی کے عمل کا دخل نہیں، دوسرے کسی جو عمل کا اثر ہے۔
پہلی وجہ یہ ارشاد فرمائی بما فضل اللہ بعضھم علی بعض، یعنی اللہ تعالیٰ نے دنیا میں خاص حکمت و مصلحت کے تحت ایک کو ایک پر بڑائی دی ہے، کسی کو افضل کسی کو مفضول بنایا ہے، جیسے ایک خاص گھر کو اللہ نے اپنا بیت اللہ اور قبلہ قرار دیدیا، بیت المقدس کو خاص فضیلت دیدی، اسی طرح مردوں کی حاکمیت بھی ایک خدا داد فضیلت ہے جس میں مردوں کی سعی و عمل یا عورتوں کی کوتاہی و بےعملی کا کوئی دخل نہیں۔
دوسری وجہ کسی اور اختیاری ہے کہ مرد اپنا مال عورتوں پر خرچ کرتے ہیں، مر ادا کرتے ہیں اور ان کی تمام ضروریات کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں ........ ان دو وجہ سے مردوں کو عورتوں پر حاکم بنایا گیا۔
فائدہ۔ یہاں ایک بات اور قابل غور ہے، ابن حیان بحر محیط میں لکھتے ہیں کہ آیت میں حاکمیت رجال کی دو وجہوں کے بیان سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ کسی کو ولایت و حکومت کا استحقاق محض زور و تغلب سے قائم نہیں ہوتا، بلکہ کام کی صلاحیت و اہلیت ہی اس کو حکومت کا مستحق بنا سکتی ہے۔
مردوں کی افضلیت کے بیان کے لئے قرآن حکیم کا عجیب اسلوب۔
پہلی وجہ کے بیان میں مختصر طریقہ یہ تھا کہ رجال اور نساء کی طرف ضمیریں عائد کر کے فضلھم علیھن فرما دیا جاتا، مگر قرآن کریم نے عنوان بدل کر بعضھم علی بعض کے الفاظ اختیار کئے، اس میں یہ حکمت ہے کہ عورتوں اور مردوں کو ایک دوسرے کا بعض اور جزء قرار دے کر اس طرف اشارہ کردیا کہ اگر کسی چیز میں مردوں کی فوقیت اور افضلیت ثابت بھی ہوجائے تو اس کی ایسی مثال جیسے انسان کا سر اس کے ہاتھ سے افضل یا انسان کا دل اس کے معدہ سے افضل ہے، تو جس طرح سرکا ہاتھ سے افضل ہونا ہاتھ کے مقام اور اہمیت کو کم نہیں کرتا، اسی طرح مرد کا حاکم ہونا عورت کے درجہ کو نہیں گھٹاتا کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے کے لئے مثل اعضاء و اجزاء کے ہیں، مرد سر ہے تو عورت بدن۔
اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس عنوان سے اس طرف بھی اشارہ کردیا گیا ہے کہ یہ افضلیت جو مردوں کو عورتوں پر حاصل ہے یہ جنس اور مجموعہ کے اعتبار سے ہے، جاں تک افراد کا تعلق ہے تو بہت ممکن ہے کہ کوئی عورت کمالات علمی و عملی میں کسی مرد سے بڑھ جائے اور صفت حاکمیت میں بھی مرد سے فائق ہوجائے۔
مرد اور عورت کے مختلف اعمال تقسیم کار کے اصول پر مبنی ہیں۔
دسوری وجہ اختیاری جو بیہ بیان کی گئی ہے کہ مرد اپنے مال عورتوں پر خرچ کرتے ہیں، اس میں بھی چند اہم امور کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے، مثلاً ایک تو اس کا شبہ کا ازالہ ہے جو آیات میراث میں مردوں کا حصہ دوہرا اور عورتوں کا اکہرا ہونے سے پیدا ہوسکتا ہے، کیونکہ اس آیت نے اس کی بھی ایک وجہ بتلا دی کہ مالی ذمہ داریاں تمام تر مردوں پر ہیں، عورتوں کا حال تو یہ ہے کہ شادی سے پہلے ان کے تمام مصارف کی ذمہ داری باپ پر ہے اور شادی کے بعد شوہر پر اس لئے اگر غور کیا جائے تو مرد کو دوہرا حصہ دینا اس کو کچھ زیادہ دینا نہیں ہے، وہ پھر لوٹ کر عورتوں ہی کو پہنچ جاتا ہے۔
دوسرا اشارہ ایک اہم اصول زندگی کے متعلق یہ بھی ہے کہ عورت اپنی خلقت اور فطرت کے اعتبار سے نہ اس کی متحمل ہے کہ اپنے مصارف خود کما کر پیدا کرے، نہ اس کے حالات اس کے لئے سازگار ہیں کہ وہ محنت، مزدوری اور دوسرے ذرائع کسب میں مردوں کی طرح دفتروں اور بازاروں میں پھرا کرے ........ اس لئے حق تعالیٰ نے اس کی پوری ذمہ دری مردوں پر اس کے بالمقابل نسل بڑھانے کا ذریعہ عورت کو بنایا گیا ہے، بچوں کی اور امور خانہ داری کی ذمہ داری بھی اسی پر ڈال دی گئی ہے، جبکہ مرد ان امور کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
اس لئے یہ نہیں سمجھا جاسکتا کہ عورت کو اپنے نفقات میں مرد کا محتاج کر کے اس کا رتبہ کم کردیا گیا ہے، بلکہ تقسیم کار کے اصول پر ڈیوٹیاں تقسیم کردی گئی ہیں، ہاں ڈیوٹیوں کے درمیان جو باہم تفاضل ہوا کرتا ہے وہ یہاں بھی ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ان دونوں وجہوں کے ذریعہ یہ بتلا دیا گیا کہ مردوں کی حاکمیت سے نہ عورتوں کا کوئی درجہ کم ہوتا ہے اور نہ ان کی اس میں کوئی منفعت ہے، بلکہ اس کا فائدہ بھی عورتوں ہی کی طرف عائد ہوتا ہے۔
صالح بیوی۔ اس آیت کے شروع میں بطور ضابطہ یہ بتلا دیا گیا کہ مرد عورت پر حاکم ہے اس کے بعد نیک و بد عورتوں کا بیان اس طرح فرمایافالصلحت قنثت حفظت للغیب بما حفظ اللہ ”یعنی نیک عورتیں وہ ہیں جو مرد کی حاکمیت کو تسلیم کر کے ان کی اطاعت کرتی ہیں اور مردوں کے پیٹھ پیچھے بھی اپنے نفس اور ان کے مال کی حفاظت کرتی ہیں۔“ یعنی اپنی عصمت اور گھر کے مال کی حفاظت جو امور خانہ داری میں سب سے اہم ہیں، ان کے بجا لانے میں ان کے لئے مردوں کے سامنے اور پیچھے کے حالات بالکل مساوی ہیں، یہ نہیں کہ ان کے سامنے تو اس کا اہتمام کریں، اور ان کی نظروں سے غائب ہوں تو اس میں لاپرواہی برتیں۔
رسول کریم ﷺ نے اس آیت کی تفسیر کے طور پر ارشاد فرمایا کہ
”یعنی بہترین عورت وہ ہے کہ جب تم اس کو دیکھو تو خوش رہو اور جب اس کو کوئی حکم دو تو اطاعت کرے اور جب تم غائب ہو تو اپنے نفس اور مال کی حفاظت کرے۔
اور چونکہ عورتوں کی یہ ذمہ داریاں یعنی اپنی عصمت اور شوہر کے مال کی حفاظت دونوں آسان کام نہیں، اس لئے آگے فرما دیا بما حفظ اللہ، یعنی اس حفاظت میں اللہ تعالیٰ عورت کی مدد فرماتے ہیں، انہی کی امداد اور توفیق سے وہ ان ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوتی ہیں، ورنہ نفس و شیطان کے مکائد ہر وقت ہر انسان مرد و عورت کے گھیرے ہوئے ہیں اور عورتیں خصوصاً اپنی علمی اور عملی قوتوں میں بہ نسبت مرد کمزور بھی ہیں، اس کے باوجود وہ ان ذمہ داریوں میں مردوں سے زیادہ مضبوط نظر آتی ہیں، یہ سب اللہ تعالیٰ کی توفیق اور امداد ہے، یہی وجہ ہے کہ بےحیائی کے گناہوں میں بہ نسبت مردوں کی عورتیں بہت کم مبتلا ہوتی ہیں۔
اطاعت شعار، تابعدار عورتوں کی فضیلت جہاں اس آیت سے مفہوم ہوتی ہے وہاں اس سلسلہ میں احادیث بھی وارد ہیں۔
ایک حدیث میں رسول کریم ﷺ نے فرمایاکہ جو عورت اپنے شوہر کی تابعدار و مطیع ہو اس کے لئے استغفار کرتے ہیں پرندے ہوا میں، اور مچھلیاں دریا میں، اور فرشتے آسمانوں میں اور درندے جنگلوں میں۔ (بحر محیط)
نافرمان بیوی اور اس کی اصلاح کا طریقہ۔
اس کے بعد ان عورتوں کا ذکر ہے جو اپنے شوہروں کی فرمانبردار نہیں یا جن سے اس کام میں کوتاہی ہوتی ہے، قرآن کریم نے ان کی اصلاح کے لئے مردوں کو علی الترتیب تین طریقے بتلائے، والتی تخافون نسوزھن فعظوھن واھجروھن فی المضاجع واضربوھن ”یعنی عورتوں کی طرف سے اگر نافرمانی کا صدور یا اندیشہ ہو، تو پہلا درجہ ان کی اصلاح کا یہ ہے کہ نرمی سے ان کو سجھاؤ اور اگر وہ محض سمجھانے بجھانے سے باز نہ آئیں، تو دوسرا درجہ یہ ہے کہ ان کا بسترہ اپنے سے علیحدہ کردو، تاکہ وہ اس علیحدگی سے شوہر کی ناراضگی کا احساس کر کے اپنے فعل پر نادم ہوجائیں قرآن کریم کے الفاظ میں فی المضاجع کا لفظ ہے، اس سے فقہاء رحمہہ اللہ نے یہ مطلب نکالا کہ جدائی صرف بسترہ میں ہو، مکان کی جدائی نہ کرے کہ عورت کو مکان میں تنہا چھوڑ دے اس میں ان کو رنج بھی زیادہ ہوگا اور فساد بڑھنے کا اندیشہ بھی اس میں زیادہ ہے۔ ایک صحابی سے روایت ہے
”میں نے رسول کریم ﷺ سے عرض کیا کہ ہماری بیویوں کا ہم پر کیا حق ہے آپ نے فرمایا جب تم کھاؤ تو انہیں بھی کھلاؤ اور تم پہنو تو انہیں بھی پہناؤ اور چہرے پر مت مارو، اگر اس سے علیحدگی کرنا چاہو تو صرف اتنی کرو کہ (بستر الگ کردو) مکان الگ نہ کرو۔
اور جو اس شریفانہ سزا و تنبیہ سے بھی متاثر نہ ہو تو پھر اس کو معمولی مار مارنے کی بھی اجازت ہے، جس سے اس کے بدن پر اثر نہ پڑے، اور ہڈی ٹوٹنے یا زخم لگنے تک نوبت نہ آئے اور چہرہ پر مارنے کو مطلقاً منع فرما دیا گیا ہے۔“
ابتدائی دو سزائیں تو شریفانہ سزائیں ہیں، اس لئے انبیاء و صلحاً سے قولاً بھی ان کی اجازت منقول ہے اور اس پر عمل بھی ثابت ہے مگر تیسری سزا یعنی مار پیٹ کی اگرچہ بدرجہ مجبوری ایک خاص انداز میں مرد کو اجازت دی گئی ہے مگر اس کے ساتھ ہی حدیث میں یہ بھی ارشاد ہے ولن یضرب خیارکم، یعنی ”اچھے مرد یہ مارنے کی سزا عورتوں کو نہ دیں گے چناچہ انبیاء (علیہم السلام) سے کہیں ایسا عمل منقول نہیں۔
ابن سعد اور بیہقی نے حضرت صدیق اکبر کی صاحبزادی سے یہ روایت نقل کی ہے کہ پہلے مردوں کو مطلقاً عورتوں کو مارنے سے منع کردیا گیا تھا، مگر پھر عورتیں شیر ہوگئیں تو یہ اجازت مکرر دی گئی۔
آیت مذکور کا تعلق بھی اسی قسم کے ایک واقعہ سے ہے، اس کا شان نزول ہے کہ زید بن ابی زبیر نے اپنی لڑکی حبیبہ کا نکاح حضرت سعد بن ربیع سے کردیا تھا، ان کے آپس میں کچھ اختلاف پیش آیا، شوہر نے ایک طمانچہ مار دیا، حبیبہ نے اپنے والد سے شکایت کی، والد ان کو لے کر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ نے حکم دے دیا کہ حبیبہ کو حق حاصل ہے کہ جس زور سے سعد بن ربیع نے ان کے طمانچہ مارا ہے وہ بھی اتنی ہی زر سے ان کے طمانچہ ماریں۔
یہ دونوں حکم نبوی سن کر چلے کہ اس کے مطابق سعد بن ربیع سے اپنا انتقام لیں، مگر اسی وقت آیت مذکورہ نازل ہوگئی، جس میں آخری درجہ میں مرد کے لئے عورت کی مارپیٹ کو بھی جائز قرار دے دیا ہے اور اس پر مرد سے قصاص یا اتنقام لینے کی اجازت نہیں دی، آیت نازل ہونے پر آنحضرت ﷺ نے ان دونوں کو بلوا کر حق تعالیٰ کا حکم سنا دیا، اور انتقام لینے کا پہلا حکم منسوخ فرما دیا۔
آیت کے آخر میں ارشاد فرمایا کہ ان تدابیر سہ گانہ کے ذریعہ اگر وہ تابعدار ہوجائیں تو پھر تم بھی چشم پوشی سے کام لو، معمولی باتوں پر الزام کی راہ نہ تلاش کرو، اور سمجھ لو کہ اللہ کی قدرت سب پر حاوی ہے۔
خلاصہ مضمون۔ آیت سے بنیادی اصول کی حیثیت سے جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ اگرچہ پچھلی آیات کے ارشادات کے مطابق مردوں اور عورتوں کے حقوق باہم متماثل ہیں بلکہ عورتوں کے حقوق کی ادائیگی کا اس وجہ سے زیادہ اہتمام کیا گیا ہے کہ وہ بہ نسبت مرد کے ضعیف ہیں، اپنے حقوق اپنی قوت بازو کے ذریعہ مرد سے حاصل نہیں کرسکتیں، لیکن اس مساوات کے یہ معنی نہیں کہ عورت و مرد میں کوئی تفاضل یا درجہ کا کوئی فرق ہی نہ ہو، بلکہ بقتضائے حکمت و انصاف دو سبب سے مردوں کو عورتوں پر حاکم بنایا گیا ہے
اولتو جنس مرد کو اپنے علمی اور عملی کمالات کے اعتبار سے عورت کی جنس پر ایک خدا داد فضیلت اور فوقیت حاصل ہے، جس کا حصول جنس عورت کے لئے ممکن نہیں ........ افراد و احاد اور اتفاقی واقعات کا معاملہ الگ ہے۔
دوسرے یہ کہ عورتوں کی تمام ضروریات کا تکفل مرد اپنی کمائی اور اپنے مال سے کرتے ہیں ........ پہلا سبب وہی غیر اختیاری اور دوسرا کسبی اور اختیاری ہے اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ایک ہی مال باپ کی اولاد میں سے بعض کو حاکم بعض کو محکوم بنانے کے لئے عقل و انصاف کی رو سے دو چیزیں ضروری تھیں، ایک جس کو حاکم بنایا جائے اس میں علم و عمل کے اعتبار سے حاکمیت کی صلاحیت، دوسرے اس کی حاکمیت پر محکوم کی رضامندی پہلا سبب مرد کی صلاحیت حاکمیت کو واضح کر رہا ہے اور دوسرا سبب محکوم کی رضا مندی کو، کیونکہ بوقت نکاح جب عورت اپنے مہر اور نان نفقہ کے تکفل کی شرط پر نکاح کی اجازت دیتی ہے تو اس کی اس حاکمیت کو تسلیم اور منظور کرتی ہے۔
الغرض اس آیت کے پہلے جملہ میں خانگی اور عائلی نظام کا ایک بنیادی اصول بتلایا گیا ہے کہ اکثر چیزوں میں مساوات حقوق کے باوجود مرد کو عورت پر ایک فضیلت حاکمیت کی حاصل ہے اور عورت محکوم و تابع ہے۔
اس بنیادی اصول کے ماتحت عملی دنیا میں عورتوں کے دو طبقے ہوگئے، ایک وہ جنہوں نے اس بنیادی اصول اور اپنے معاہدہ کی پابندی کی اور مرد کی حاکمیت کو تسلیم کر کے اس کی اطاعت کی ........ دوسرے وہ جو اس اصول پر پوری طرح قائم نہ رہا، پہلا طبقہ تو خانگی امن و اطمینان کا خود ہی کفیل ہے، اس کو کسی اصلاح کی حاجت نہیں۔
دوسرے طبقہ کی اصلاح کے لئے آیت کے دوسرے جملہ میں ایک ایسا مرتب نظام بتلایا گیا کہ جس کے ذریعہ گھر کی اصلاح گھر کے اندر ہی ہوجائے اور میاں بیوی کا جھگڑا انہیں دونوں کے درمیان نمٹ جائے کسی تیسرے کی مداخلت کی ضرورت نہ ہو، اس میں مردوں کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ اگر عورتوں سے نافرمانی یا اطاعت میں کچھ کمی محسوس کرو تو سب سے پہلا کام یہ کرو کہ سمجھا بجھا کر ان کی ذہنی اصلاح کرو، اس سے کام چل گیا تو معاملہ یہیں ختم ہوگیا عورت ہمیشہ کے لئے گناہ سے اور مرد قلبی اذیت سے اور دونوں رنج و غم سے بچ گئے اور اگر فہمائش سے کام نہ چلا تو دوسرا درجہ یہ ہے کہ ان کو تنبیہ کرنے اور اپنی ناراضی کا اظہار کرنے کے لئے خود علیحدہ بستر پر سو یہ ایک معمولی سزا اور بہترین تنبیہ ہے، اس سے عورت متنبہ ہوگی تو جھگڑا یہیں ختم ہوگیا اور اگر وہ اس شریفانہ سزا پر بھی اپنی نافرمانی اور کج روی سے باز نہ آئی تو تیسرے درجہ میں معمولی مار مار نے کی بھی اجازت دے دیگئی جس کی حد یہ ہے کہ بدن پر اس مار کا اثر و زخم نہ ہو ........ مگر اس تیسرے درجہ کی سزا کے استعمال کو رسول کریم ﷺ نے پسند نہیں فرمایا، بلکہ ارشاد فرمایا کہ شریف اور بھلے لوگ ایسا نہیں کریں گے۔
بہرحال اس معمولی مارپیٹ سے بھی اگر معاملہ درست ہوگیا تب بھی مقصد حاصل ہوگیا، اس میں مردوں کو عورتوں کی اصلاح کے لئے جہاں یہ تین اختیارات دیئے گئے وہیں آیت کے آخر میں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ فان اطعنکم فلاتبغوا علیھن سبیلا یعنی اگر ان سہ نمبری تدبیروں سے وہ تمہاری بات ماننے لگیں تو اب تم بھی زیادہ بال کی کھال نہ نکالو“ اور الزام تراشی میں مت لگو، بلکہ کچھ چشم پوشی سے کام لو اور خوب سمجھ لو کہ اگر اللہ تعالیٰ نے عورتوں پر تمہیں کچھ بڑائی دی ہے تو اللہ تعای کی بڑائی تمہارے اوپر بھی مسط ہے، تم زیادتی کرو گے تو اس کی سزا تم بھگتو گے۔
جھگڑا اگر طول پکڑ جائے تو دونوں طرف سے برادری کے حکم سے صلح کرائی جائے۔ یہ نظام تو وہ تھا کہ جس کے ذریعہ گھر کا جھگڑا گھر ہی میں ختم ہوجائے، لیکن بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ جھگڑا طول پکڑ لیتا ہے، خواہ اس وجہ سے کہ عورت کی طبیعت میں تمردو سرکشی ہو یا اس بناء پر کہ مرد کا قصور اور اس کی طرف سے بےجا تشدد ہو، بہرحال اس صورت میں گھر کی بات کا باہر نکلنا تو لازمی ہے، لیکن عام عادت کے مطابق تو یہ ہوتا ہے کہ طرفین کے حامی ایک دوسرے کو برا کہتے ہیں اور الزام لگاتے پھرتے ہیں، جس کا نتیجہ جانبین سے اشتعال اور پھر دو شخصوں کی لڑائی خاندانی جھگڑے کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔
Top