Maarif-ul-Quran - Az-Zumar : 11
قُلْ اِنِّیْۤ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّیْنَۙ
قُلْ : فرما دیں اِنِّىْٓ اُمِرْتُ : بیشک مجھے حکم دیا گیا اَنْ : کہ اَعْبُدَ اللّٰهَ : میں اللہ کی عبادت کروں مُخْلِصًا : خالص کر کے لَّهُ : اسی کے لیے الدِّيْنَ : عبادت
تو کہہ مجھ کو حکم ہے کہ بندگی کروں اللہ کی خالص کر کر
خلاصہ تفسیر
آپ کہہ دیجئے کہ مجھ کو (منجانب اللہ) حکم ہوا ہے کہ میں اللہ کی اس طرح عبادت کروں کہ عبادت کو اسی کے لئے خالص رکھوں (یعنی اس میں شائبہ شرک کا نہ ہو) اور مجھ کو (یہ بھی) حکم ہوا ہے کہ (اس امت کے لوگوں میں) سب مسلمانوں میں اول (اسلام کو حق ماننے والا) میں ہوں (اور ظاہر ہے کہ قبول احکام میں نبی کا اول ہونا ضروری ہے اور) اور آپ (یہ بھی) کہہ دیجئے کہ اگر (بفرض محال) میں اپنے رب کا کہنا نہ مانوں تو میں ایک بڑے دن (یعنی قیامت) کے عذاب کا اندیشہ رکھتا ہوں اور آپ (یہ بھی) کہہ دیجئے کہ (مجھے جس بات کا حکم ہوا ہے میں تو اسی پر کاربند ہوں چنانچہ) میں تو اللہ ہی کی عبادت اس طرح کرتا ہوں کہ عبادت کو اسی کے لئے خالص رکھتا ہوں (جس میں شرک کا ذرا سا شائبہ نہیں) تو (اس کا تقاضا تو یہ ہے کہ تم بھی ایسی ہی خالص عبادت کرو لیکن اگر تم نہیں مانتے تو تم جانو اور) خدا کو چھوڑ کر تمہارا دل جس چیز (کی عبادت) کو چاہے اس کی عبادت کرو (قیامت کے روز اس کا مزہ چکھو گے اور) آپ ان سے (یہ بھی) کہہ دیجئے کہ پورے زیاں کار وہی لوگ ہیں جو اپنی جانوں سے اور اپنے متعلقین سے قیامت کے روز خسارے میں پڑے (یعنی نہ اپنی جان سے اس کو کوئی فائدہ پہنچا اور نہ اپنے متعلقین سے کیونکہ وہ متعلقین بھی اگر انہیں کی طرح گمراہ تھے تو وہ بھی گرفتار عذاب ہوں گے دوسروں کو کیا فائدہ پہنچائیں گے اور اگر وہ مومن مخلص ہو کر جنت میں ہوں گے تو بھی وہ کافروں کی کوئی سفارش کر کے نفع نہیں پہنچا سکتے) یاد رکھو کہ کھلا ہوا خسارہ یہ ہے کہ ان کے لئے ان کے اوپر سے بھی آگ کے شعلے ہوں گے اور ان کے نیچے سے بھی آگ کے محیط شعلے ہوں گے یہ وہی (عذاب) ہے جس سے اللہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے (اور اس سے بچنے کی تدبیریں بتلاتا ہے جو دین حق پر عمل کرنا ہے سو) اے میرے بندو مجھ سے (یعنی میرے عذاب سے) ڈرو (یہ حال تو کفار مشرکین کا ہوا) اور جو لوگ شیطان کی عبادت سے بچتے ہیں (شیطان کی عبادت سے مراد اس کی اطاعت ہے) اور (ہمہ تن) اللہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، وہ مستحق خوشخبری سنانے کے ہیں، سو آپ میرے ان بندوں کو خوشخبری سنا دیجئے جو (اس صفت کے ساتھ بھی موصوف ہیں کہ) اس کلام (الٰہی) کو کان لگا کر سنتے ہیں۔ پھر اس کی اچھی باتوں پر (اور اللہ کے احکام سب اچھے ہیں، جیسا کہ آگے آیت احسن الحدیث میں آتا ہے) چلتے ہیں، یہی ہیں جن کو اللہ نے ہدایت کی ہے اور یہی ہیں جو اہل عقل ہیں (سو ان لوگوں کو بشارت دے دیجئے۔ جس چیز کی بشارت دینا ہے اس کا بیان تو آگے آئے گا (آیت) لکن الذین التقوا۔ میں درمیان میں رسول اللہ ﷺ کو تسلی دینے کے لئے یہ بیان کیا گیا ہے کہ ان کافروں کا مومن بنادینا آپ کے اختیار سے خارج ہے اس لئے اس پر کوئی غم نہ کریں کہ) بھلا جس شخص پر عذاب کی (ازلی تقدیری) بات محقق ہوچکی تو کیا آپ ایسے شخص کو جو کہ (علم الٰہی میں) دوزخ میں ہے (موجیات جہنم سے) چھڑا سکتے ہیں (یعنی جو دوزخ میں جانے والے ہیں وہ کوشش سے بھی گمراہی سے باز نہیں آویں گے، اس لئے ان پر افسوس اور غم بےکار ہے) لیکن جو لوگ (ایسے ہیں کہ ان کے حق میں کلمة العذاب محقق نہیں ہوا، اور اس وجہ سے وہ آپ سے احکام سن کر) اپنے رب سے ڈرتے رہے۔ ان کے لئے (جنت کے) بالاخانے ہیں جن کے اوپر اور بالاخانے ہیں جو بنے بنائے تیار ہیں (اور) ان کے نیچے نہریں چل رہی ہیں۔ یہ اللہ نے وعدہ کیا ہے (اور) اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔
(یہ مضمون اس بشارت کا ہے جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے فبشر عباد)
Top