Maarif-ul-Quran - Al-Furqaan : 4
وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ هٰذَاۤ اِلَّاۤ اِفْكُ اِ۟فْتَرٰىهُ وَ اَعَانَهٗ عَلَیْهِ قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ١ۛۚ فَقَدْ جَآءُوْ ظُلْمًا وَّ زُوْرًاۚۛ
وَقَالَ : اور کہا الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا : وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر) اِنْ ھٰذَآ : نہیں یہ اِلَّآ : مگر۔ صرف اِفْكُ : بہتان۔ من گھڑت افْتَرٰىهُ : اس نے سے گھڑ لیا وَاَعَانَهٗ : ور اس کی مدد کی عَلَيْهِ : اس پر قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ : دوسرے لوگ (جمع) فَقَدْ جَآءُوْ : تحقیق وہ آگئے ظُلْمًا : ظلم وَّزُوْرًا : اور جھوٹ
اور کہنے لگے جو منکر ہیں اور کچھ نہیں ہے یہ مگر طوفان باندھ لایا ہے اور ساتھ دیا ہے اس کا اس میں اور لوگوں نے سو آگئے بےانصافی اور جھوٹ پر
خلاصہ تفسیر
اور کافر لوگ (قرآن کے بارے میں) یوں کہتے ہیں کہ یہ (قرآن) تو کچھ بھی نہیں نرا جھوٹ (ہی جھوٹ) ہے جس کو اس شخص (یعنی پیغمبر) نے گھڑ لیا ہے اور دوسرے لوگوں نے اس (گھڑت) میں اس کی مدد کی ہے (مراد وہ اہل کتاب ہیں جو مسلمان ہوگئے تھے یا آپ کی خدمت میں ویسے ہی حاضر ہوا کرتے تھے) سو (ایسی بات کہنے سے) یہ لوگ بڑے ظلم اور جھوٹ کے مرتکب ہوئے (اس کا ظلم اور جھوٹ ہونا آگے بیان میں آئے گا) اور یہ (کافر) لوگ (اپنے اسی اعتراض کی تائید میں) یوں کہتے ہیں کہ یہ (قرآن) بےسند باتیں ہیں جو اگلے لوگوں سے منقول ہوتی چلی آئی ہیں جن کو اس شخص (پیغمبر) نے (عمدہ عبارت میں سوچ سوچ کر اپنے صحابہ کے ہاتھ سے) لکھوا لیا ہے (تاکہ محفوظ رہے) پھر وہی (مضامین) اس کو صبح شام پڑھ کر سنائے جاتے ہیں (تاکہ یاد رہیں، پھر وہی یاد کئے ہوئے مضامین مجمع میں بیان کرکے خدا کی طرف منسوب کردیئے جاتے ہیں) آپ (اس کے جواب میں) کہہ دیجئے کہ اس (قرآن) کو تو اس ذات (پاک) نے اتارا ہے جس کو سب چھپی باتوں کی خواہ وہ آسمانوں میں ہوں یا زمین میں ہوں خبر ہے (خلاصہ جواب کا یہ ہے کہ اس کلام کا اعجاز اس کی کھلی دلیل ہے کہ کفار کا یہ اعتراض غلط اور جھوٹ اور ظلم ہے کیونکہ اگر قرآن اساطیر الاولین، یعنی پرانے لوگوں کی کہانیاں ہوتا یا کسی دوسرے کی مدد سے تصنیف کیا گیا ہوتا تو ساری دنیا اس کی مثال لانے سے عاجز کیوں ہوتی) واقعی اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے (اس لئے ایسے ایسے جھوٹ اور ظلم پر فوری سزا نہیں دیتا)۔
اور یہ کافر لوگ (رسول اللہ ﷺ کی نسبت) یوں کہتے ہیں کہ اس رسول کو کیا ہوا کہ وہ (ہماری طرح) کھانا (بھی) کھاتا ہے اور (انتظام معاش کے لئے ہماری ہی طرح) بازاروں میں چلتا پھرتا ہے (مطلب یہ ہے کہ رسول و پیغمبر انسان کے بجائے فرشتہ ہونا چاہئے جو کھانے پینے وغیرہ کی ضروریات سے مستغنی ہو اور کم از کم اتنا تو ضرور ہی ہونا چاہیئے کہ رسول اگر خود فرشتہ نہیں ہے تو اس کا مصاحب و مشیر کوئی فرشتہ ہونا چاہئے اس لئے کہا کہ) اس (رسول) کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیجا گیا کہ وہ اس کے ساتھ رہ کر (لوگوں کو عذاب الٰہی سے) ڈراتا (اور اگر یہ بھی نہ ہوتا تو کم از کم رسول کو اپنے کھانے پینے کی ضروریات سے تو بےفکری ہوتی اس طرح) کہ اس کے پاس (غیب سے) کوئی خزانہ آپڑتا یا اس کے پاس کوئی باغ ہوتا جس سے یہ کھایا (پیا) کرتا۔ اور (مسلمانوں سے) یہ ظالم یوں (بھی) کہتے ہیں کہ (جب ان کے پاس نہ کوئی فرشتہ ہے نہ خزانہ نہ باغ اور پھر بھی یہ نبوت کا دعویٰ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی عقل میں فتور ہے اس لئے) تم لوگ ایک مسلوب العقل آدمی کی راہ پر چل رہے ہو۔ (اے محمد ﷺ دیکھئے تو یہ لوگ آپ کے لئے کیسی عجیب عجیب باتیں بیان کر رہے ہیں سو (ان خرافات سے) وہ (بالکل) گمراہ ہوگئے پھر وہ راہ نہیں پاسکتے۔
Top