Maarif-ul-Quran - Al-Furqaan : 20
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّاۤ اِنَّهُمْ لَیَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَ یَمْشُوْنَ فِی الْاَسْوَاقِ١ؕ وَ جَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةً١ؕ اَتَصْبِرُوْنَ١ۚ وَ كَانَ رَبُّكَ بَصِیْرًا۠   ۧ
وَمَآ : اور نہیں اَرْسَلْنَا : بھیجے ہم نے قَبْلَكَ : تم سے پہلے مِنَ : سے الْمُرْسَلِيْنَ : رسول (جمع) اِلَّآ : مگر اِنَّهُمْ : وہ یقیناً لَيَاْكُلُوْنَ : البتہ کھاتے تھے الطَّعَامَ : کھانا وَيَمْشُوْنَ : اور چلتے پھرتے تھے فِي الْاَسْوَاقِ : بازاروں میں وَجَعَلْنَا : اور ہم نے کیا (بنایا) بَعْضَكُمْ : تم میں سے بعض کو (کسی کو) لِبَعْضٍ : بعض (دوسروں کے لیے) فِتْنَةً : آزمائش اَتَصْبِرُوْنَ : کیا تم صبرو کرو گے وَكَانَ : اور ہے رَبُّكَ : تمہارا رب بَصِيْرًا : دیکھنے والا
اور جتنے بھیجے ہم نے تجھ سے پہلے رسول سب کھاتے تھے کھانا اور پھرتے تھے بازاروں میں اور ہم نے رکھا ہے تم میں ایک دوسرے کے جانچنے کو، دیکھیں ثابت بھی رہتے ہو اور تیرا رب سب کچھ دیکھتا ہے
معارف و مسائل
سابقہ آیات میں کفار و مشرکین کی طرف سے آنحضرت ﷺ کی نبوت و رسالت پر جو شبہات پیش کئے گئے تھے اور وہاں ان کا اجمالی جواب دیا گیا تھا ان آیات میں اس کی کچھ تفصیل مذکور ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ تم نے اپنی جہالت اور حقیقت شناسی سے دوری کی وجہ سے ایک بات یہ کی ہے کہ اگر یہ اللہ کے رسول ہوتے تو ان کے پاس بہت دولت کے خزانے ہوتے بہت بڑی جائیداد اور باغات ہوتے تاکہ یہ کسب معاش سے مستغنی رہتے اس کا جواب یہ دیا گیا کہ ایسا کردینا ہمارے لئے کچھ مشکل نہیں کہ اپنے رسول کو دولت کے خزانے دیدیں، بلکہ بڑی سے بڑی حکومت و سلطنت کا مالک بنادیں۔ جیسا کہ اس سے پہلے حضرت داؤد اور سلیمان (علیہما السلام) کو ایسی دولت اور پوری دنیا پر بےمثال حکومت عطا فرما کر اپنی اس قدرت کاملہ کا اظہار بھی کیا جا چکا ہے۔ مگر عامہ خلق کی مصلحت اور بیشمار حکمتوں کا تقاضا یہ ہے کہ گروہ انبیاء کو مادی اور دنیوی مال و دولت سے الگ ہی رکھا جائے۔ خصوصاً سید الانبیاء ﷺ کے لئے حق تعالیٰ کو یہی پسند ہوا کہ وہ عام غریب مسلمانوں کی صفوف میں اور انہی جیسے حالات میں رہیں اور خود رسول اللہ ﷺ نے اپنے لئے اسی حالت کو پسند فرمایا۔ جیسا کہ مسند احمد اور ترمذی میں حضرت ابو امامہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میرے رب نے مجھ سے فرمایا کہ میں آپ کے لئے پورے بطحا مکہ اور اس کے پہاڑوں کو سونا بنا دیتا ہوں، تو میں نے عرض کیا نہیں، اے میرے پروردگار مجھے تو یہ پسند ہے کہ مجھے ایک روز پیٹ بھرائی کھانا ملے (جس پر اللہ کا شکر ادا کروں) اور ایک روز بھوکا رہوں (اس پر صبر کروں) اور حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر میں چاہتا تو سونے کے پہاڑ میرے ساتھ پھرا کرتے (مظہری)
خلاصہ اس کا یہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کا عام طور پر فقر و فاقہ میں رہنا اللہ تعالیٰ کی ہزاروں حکمتوں اور عام انسانوں کی مصالح کی بنا پر ہے اور اس میں بھی وہ اس حالت پر مجبور نہیں ہوتے اگر وہ چاہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو بڑا مالدار صاحب جائیداد بنا سکتے ہیں مگر ان کی ذات کو حق تعالیٰ نے ایسا بنایا ہے کہ وہ مال و دولت سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے، فقر و فاقہ ہی کو پسند کرتے ہیں۔
دوسری بات کفار نے یہ کہی تھی کہ یہ پیغمبر ہوتے تو عام انسانوں کی طرح کھاتے پیتے نہیں، اور کسب معاش کے لئے بازاروں میں نہ پھرتے اس اعتراض کی بنیاد بہت سے کفار کا یہ خیال ہے کہ اللہ کا رسول انسان نہیں ہوسکتا، فرشتہ ہی رسول ہوسکتا ہے۔ جس کا جواب قرآن کریم میں جابجا آیا ہے۔ اور یہاں اس کا یہ جواب دیا گیا کہ جن انبیاء کو تم بھی نبی اور رسول مانتے ہو وہ بھی تو انسان ہی تھے انسانوں کی طرح کھاتے پیتے بازاروں میں پھرتے تھے جس سے تمہیں یہ نتیجہ نکال لینا چاہئے تھا کہ کھانا پینا اور بازار میں پھرنا منصب نبوت و رسالت کے خلاف نہیں۔ آیات مذکورہ میں وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ اِلَّآ اِنَّهُمْ لَيَاْكُلُوْنَ الطَّعَام الآیة میں اسی مضمون کا بیان ہے۔
مخلوق میں معاشی مساوات کا نہ ہونا بڑی حکمت پر مبنی ہے
وَجَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةً ، اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ حق تعالیٰ کو قدرت تو سب کچھ تھی وہ سارے انسانوں کو یکساں مالدار بنا دیتے، سب کو تندرست رکھتے، کوئی بیمار نہ ہوتا۔ سب کو عزت و جاہ کے اعلیٰ مرتبہ پر فائز کردیتے کوئی ادنی یا کم رتبہ نہ رہ جاتا مگر نظام عالم میں اس کی وجہ سے بڑے رخنے پیدا ہوتے اس لئے حق تعالیٰ نے کسی کو مالدار بنایا، کسی کو غریب مفلس، کسی کو قوی، کسی کو ضعیف، کسی کو تندرست، کسی کو بیمار، کسی کو صاحب عزت و جاہ، کسی کو گمنام۔ اس اختلاف انواع و اصناف اور اختلاف احوال میں ہر طبقے کا امتحان اور آزمائش ہے۔ غنی کے شکر کا غریب کے صبر کا امتحان ہے اسی طرح بیمار و تندرست کا حال ہے۔ اسی لئے رسول اللہ ﷺ کی تعلیم یہ ہے کہ جب تمہاری نظر کسی ایسے شخص پر پڑے جو مال و دولت میں تم سے زیاد ہے یا صحت وقوت اور عزت و جاہ میں تم سے بڑا ہے تو تم فوراً ایسے لوگوں پر نظر کرو جو ان چیزوں میں تم سے کم حیثیت رکھتے ہیں (تاکہ تم حسد کے گناہ سے بھی بچ جاؤ اور اپنی موجودہ حالت میں اللہ تعالیٰ کا شکر کرنے کی توفیق ہو۔) (رواہ البخاری و مسلم) مظہری
Top