Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 278
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو ایمان لائے (ایمان والے) اتَّقُوا : تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَذَرُوْا : اور چھوڑ دو مَا : جو بَقِيَ : جو باقی رہ گیا ہے مِنَ : سے الرِّبٰٓوا : سود اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اے ایمان والو ڈرو اللہ سے اور چھوڑ دو جو کچھ باقی رہ گیا ہے سود اگر تم کو یقین ہے اللہ کے فرمانے کا،
چوتھی آیت يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤ ْمِنِيْنَ کا خلاصہ یہ ہے کہ سود و ربوٰ کی حرمت نازل ہونے کے بعد جو سود کی بقایا رقمیں کسی کے ذمہ باقی تھیں ان کا لینا دینا بھی حرام کردیا گیا۔
تشریح اس کی یہ ہے کہ سود کی حرمت نازل ہونے سے پہلے عام عرب میں سود کا رواج پھیلا ہوا تھا، آیات متذکرہ سے پہلی آیتوں میں اس کی ممانعت آئی تو حسب عادت تمام مسلمانوں نے سود کے معاملات ترک کردیئے لیکن کچھ لوگوں کے مطالبات سود کی بقایا رقموں کے دوسرے لوگوں پر تھے اسی میں یہ واقعہ پیش آیا کہ بنی ثقیف اور بنی مخزوم کے آپس میں سودی معاملات کا سلسلہ تھا اور بنو ثقیف کے لوگوں کا کچھ مطالبہ بنی مخزوم کی طرف تھا بنو مخزوم مسلمان ہوگئے تو اسلام لانے کے بعد انہوں نے سود کی رقم ادا کرنا جائز نہ سمجھا ادھر بنوثقیف کے لوگوں نے مطالبہ شروع کیا کیونکہ یہ لوگ مسلمان نہیں ہوئے تھے مگر مسلمانوں سے مصالحت کرلی تھی بنومخزوم کے لوگوں نے کہا کہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد ہم اپنی اسلامی کمائی کو سود کی ادائیگی میں خرچ نہ کریں گے،
یہ جھگڑا مکہ مکرمہ میں پیش آیا اس وقت مکہ فتح ہوچکا تھا رسول اللہ ﷺ کی طرف سے مکہ کے امیر حضرت معاذ اور دوسری روایت میں عتاب بن اسید تھے انہوں نے اس جھگڑے کا قضیہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں بغرض دریافت حکم لکھ بھیجا، اس پر قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سود کے سابقہ معاملات ختم کردئیے جائیں پچھلا سود بھی وصول نہ کیا جائے۔
یہ اسلامی قانون رائج کیا گیا تو مسلمان تو اس کے پابند تھے ہی جو غیر مسلم قبائل بطور صلح و معاہدہ اسلامی قانون کو قبول کرچکے تھے وہ بھی اس کے پابند ہوچکے تھے، لیکن اس کے باوجود جب حجۃ الوداع کے خطبہ میں رسول اللہ ﷺ نے اس قانون کا اعلان کیا تو اس کا اظہار فرمایا کہ یہ قانون کسی خاص شخص یا قوم یا مسلمانوں کے مالی مفاد کے پیش نظر نہیں بلکہ پوری انسانیت کی تعمیر اور صلاح و فلاح کے لئے جاری کیا گیا ہے اسی لئے ہم سب سے پہلے مسلمانوں کی بہت بڑی رقم سود جو غیر مسلموں کے ذمہ تھی اس کو چھوڑتے ہیں، تو اب ان کو بھی اپنے بقایا سود کی رقم چھوڑنے میں کوئی عذر نہ ہونا چاہئے۔ چناچہ اس خطبہ میں ارشاد فرمایا
(الا ان کل ربا کان فی الجاھلیۃ موضوع عنکم کلہ لکم رؤس اموالکم لا تظلمون ولا تظلمون واول ربا موضوع ربا العباس ابن عبد المطلب کلہ)
یعنی زمانہ جاہلیت میں جو سودی معامعلات کئے گئے سب کو سود چھوڑ دیا گیا اب ہر شخص کو اصل رقم ملے گی سود کی زائد رقم نہ ملے گی نہ تم زیادتی وصول کرکے کسی پر ظلم کرسکو گے اور نہ کوئی اصل رأس المال میں کمی کرکے تم پر ظلم کرسکے گا اور سب سے پہلے جو سود چھوڑا تھا وہ عباس بن عبد المطلب کا سود ہے، جس کی بہت بھاری رقمیں غیر مسلموں کے ذمہ بطور سود کے عائد ہوتی تھیں، قرآن مجید کی آیت متذکرہ میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ اور بقایا سود چھوڑنے کا حکم مذکور ہے۔
اس آیت کو شروع اس طرح کیا گیا کہ مسلمانوں کو خطاب کرکے اول اِتَّقُوا اللّٰهَ کا حکم سنایا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو اس کے بعد اصل مسئلہ کا حکم بتلایا گیا یہ قرآن حکیم کا وہ خاص طرز ہے جس میں وہ دنیا بھر کے قانون کی کتابوں سے ممتاز ہے کہ جب کوئی ایسا قانون بنایا جاتا ہے جس پر عمل کرنے میں لوگوں کو کچھ دشواری معلوم ہو تو اس کے آگے پیچھے خدا تعالیٰ کے سامنے پیشی اعمال کے حساب اور آخرت کے عذاب وثواب کا ذکر کرکے مسلمانوں کے دلوں اور ذہنوں کو اس پر عمل کرنے کے لئے تیار کیا جاتا ہے اس کے بعد حکم سنایا جاتا ہے یہاں بھی پیچھے عائد شدہ سود کی رقم کا چھوڑ دینا انسانی طبیعت پر بار ہوسکتا تھا اس لئے پہلے اِتَّقُوا اللّٰهَ فرمایا، اس کے بعد حکم دیا، وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبٰٓوا یعنی چھوڑ دو بقایا سود کو۔ آیت کے آخر میں فرمایا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤ ْمِنِيْنَ یعنی اگر تم ایمان والے ہو اس میں اشارہ کردیا کہ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ حکم خداوندی کی اطاعت کی جائے اس کی خلاف ورزی ایمان کے منافی ہے یہ حکم طبائع پر بھاری تھا، اس لئے حکم سے پہلے اِتَّقُوا اللّٰهَ اور حکم کے بعد اِنْ كُنْتُمْ مُّؤ ْمِنِيْنَ کے ارشادات ملا دئیے گئے۔
Top