Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 238
حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى١ۗ وَ قُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِیْنَ
حٰفِظُوْا : تم حفاظت کرو عَلَي الصَّلَوٰتِ : نمازوں کی وَ : اور الصَّلٰوةِ : نماز الْوُسْطٰى : درمیانی وَ : اور قُوْمُوْا : کھڑے رہو لِلّٰهِ : اللہ کے لیے قٰنِتِيْنَ : فرمانبردار (جمع)
خبردار رہو سب نمازوں سے اور بیچ والی نماز سے اور کھڑے رہو اللہ کے آگے ادب سے
خلاصہ تفسیر
حکم نمبر 34 نمازوں کی حفاظت کا بیان
اس سے آگے پیچھے طلاق وغیرہ کے احکام ہیں درمیان میں نماز کے احکام بیان فرمانا اشارہ اس طرف ہے کہ مقصود اصلی توجہ الی الحق ہے اور معاشرت اور معاملات کے احکام سے علاوہ اور مصلحتوں کے اس توجہ کی حفاظت اور ترقی بھی مقصود ہے، چناچہ جب ان کو خدائی احکام سمجھ کر عمل کیا جاوے گا تو توجہ لازم ہوگی پھر یہ کہ ان احکام میں ادائے حقوق عباد بھی ہے اور حقوق عباد کے اتلاف سے درگاہ الہی سے دوری ہوتی ہے جس کے لوازم میں سے حق وعبد دونوں کی طرف سے بےتوجہی ہے چونکہ نماز میں یہ توجہ زیادہ ظاہر ہے اس لئے اس کے درمیان میں لانے سے اس توجہ کے مقصود ہونے پر زیادہ دلالت ہوگی تاکہ بندہ اس توجہ کو ہر وقت پیش نظر رکھے۔
حٰفِظُوْا عَلَي الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى (الی قولہ) مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ محافظت کرو سب نمازوں کی (عموما) اور درمیان والی نماز (یعنی عصر) کی (خصوصا) اور (نماز) میں کھڑے ہوا کرو اللہ کے سامنے عاجز بنے ہوئے پھر اگر تم کو (باقاعدہ نماز پڑھنے میں کسی دشمن وغیرہ کا) اندیشہ ہو تو کھڑے کھڑے یا سواری پر چڑھے چڑھے (جس طرح بن سکے خواہ قبلہ کی طرف بھی منہ ہو یا نہ ہو اور گو رکوع و سجود صرف اشارہ ہی سے ممکن ہو) پڑھ لیا کرو (اس حالت میں بھی اس پر محافظت رکھو اس کو ترک مت کرو) پھر جب تم کو (بالکل) اطمینان ہوجاوے (اور اندیشہ جاتا رہے تو تم اللہ تعالیٰ کی یاد (یعنی اس ادائے نماز) اس طریق سے کرو جو تم کو (اطمینان کی حالت میں) سکھلایا ہے جس کو تم (پہلے سے) نہ جانتے تھے۔

معارف و مسائل
کثرت سے علماء کا قول بعض احادیث کی دلیل سے یہ ہے کہ بیچ والی نماز سے مراد نماز عصر ہے کیونکہ اس کے ایک طرف دو نمازیں دن کی ہیں فجر اور ظہر اور ایک طرف دو نمازیں رات کی ہیں مغرب اور عشاء، اس کی تاکید خصوصیت کے ساتھ اس لئے کی گئی کہ اکثر لوگوں کو یہ وقت کام کی مصروفیت کا ہوتا ہے اور عاجزی کی تفسیر حدیث میں سکوت کے ساتھ آئی ہے۔
اسی آیت سے نماز میں باتیں کرنے کی ممانعت ہوئی ہے پہلے کلام کرنا درست تھا اور یہ نماز کھڑے کھڑے اشارہ سے جب صحیح ہوگی جب ایک جگہ کھڑا ہوسکے اور اس میں سجدے کا اشارہ ذرا زیادہ پست کرے اور چلنے سے نماز نہیں ہوگی البتہ جب ایسا ممکن نہ ہو مثلا عین لڑائی کا وقت ہے تو نماز کو قضا کردیا جاوے گا دوسرے وقت پڑھ لیں (بیان القرآن)
Top