Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 194
اَلشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَ الْحُرُمٰتُ قِصَاصٌ١ؕ فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَیْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَیْكُمْ١۪ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ
اَلشَّهْرُ الْحَرَامُ : حرمت والا مہینہ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ : بدلہ حرمت والا مہینہ وَ : اور الْحُرُمٰتُ : حرمتیں قِصَاصٌ : قصاص فَمَنِ : پس جس اعْتَدٰى : زیادتی کی عَلَيْكُمْ : تم پر فَاعْتَدُوْا : تو تم زیادتی کرو عَلَيْهِ : اس پر بِمِثْلِ : جیسی مَا : جو اعْتَدٰى : اس نے زیادتی کی عَلَيْكُمْ : تم پر وَاتَّقُوا : اور تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ مَعَ : ساتھ المتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں
حرمت والا مہینہ بدلہ (مقابل ہے) حرمت والے مہینہ کے اور ادب رکھنے میں بدلہ ہے، پھر جس نے تم پر زیادتی کی تم اس پر زیادتی کرو جیسی اس نے زیادتی کی تم پر اور ڈرتے رہو اللہ سے اور جان لو کہ اللہ ساتھ ہے پرہیزگاروں کے،
معارف و مسائل
7 ہجری میں جب رسول اللہ ﷺ نے صلح حدیبیہ کے قانون کے مطابق فوت شدہ عمرہ ادا کرنے کے لئے بہ معیت صحابہ کرام ؓ اجمعین مکہ کے سفر کا ارادہ کیا تو صحابہ کرام جانتے تھے کہ ان کفار کے معاہدوں اور صلح کا کچھ اعتبار نہیں ممکن ہے کہ وہ جنگ کرنے لگیں تو اس جنگ میں صحابہ کرام ؓ اجمعین کے لئے ایک اشکال تو یہ تھا کہ حرم مکہ میں جنگ کی نوبت آئے گی جو اسلام میں ناجائز ہے اس کا جواب پچھلی آیت میں دے دیا گیا کہ حرم مکہ کی حرمت مسلمانوں پر ضرور لازم ہے لیکن اگر کفار حدود حرم میں ہی مسلمانوں سے جنگ کرنے لگیں تو ان کو بھی مدافعت میں جنگ کرنا جائز ہے۔
دوسرا اشکال یہ تھا کہ یہ مہینہ ذیقعدہ کا ہے جو ان چار مہینوں میں سے ہے جن کو اشہر حرم کہا جاتا ہے اور ان میں کسی سے کسی جگہ جنگ کرنا جائز نہیں تو اگر مشرکین مکہ نے ہمارے خلاف جنگ شروع کردی تو ہم اس مہینے میں دفاعی جنگ کیسے کرسکتے ہیں اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی کہ جیسے حرم مکہ کی حرمت سے حالت دفاع مستثنی ہے اسی طرح اگر اشہر حرم میں کافر ہم سے قتال کرنے لگیں تو ہم کو بھی ان سے دفاعی جنگ لڑناجائز ہے۔
مسئلہاشہر حرم چار مہینے ہیں، ذیقعدہ، ذی الحجہ، محرم یہ تین ماہ تو مسلسل ہیں چوتھا مہینہ رجب کا ہے اسلام سے پہلے بھی ان چار مہینوں میں جنگ کو حرام سمجھا جاتا تھا اور مشرکین مکہ بھی اس کے پابند تھے ابتداء اسلام میں بھی 7 ہجری تک یہی قانون نافذ تھا اسی لئے صحابہ کرام کو اشکال پیش آیا اس کے بعد یہ حرمت قتال منسوخ کرکے عام قتال کی اجازت باجماع امت دے دیگئی مگر افضل اب بھی یہی ہے کہ ان چار مہینوں میں ابتداء بالقتال نہ کی جائے صرف مدافعت کی ضرورت سے قتال کیا جائے اس لحاظ سے یہ کہنا بھی فی الجملہ درست ہے کہ اشہر حرم کی حرمت منسوخ نہیں باقی ہے جیسے حرم مکہ میں قتال کی اجازت بضرورت مدافعت دینے سے حرم مکہ کی حرمت منسوخ نہیں ہوئی بلکہ صرف ایک استثنائی صورت پر عمل ہوا،
Top