Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 188
وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِهَاۤ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۠   ۧ
وَلَا : اور نہ تَاْكُلُوْٓا : کھاؤ اَمْوَالَكُمْ : اپنے مال بَيْنَكُمْ : آپس میں بالْبَاطِلِ : ناحق وَتُدْلُوْا : اور (نہ) پہنچاؤ بِهَآ : اس سے اِلَى الْحُكَّامِ : حاکموں تک لِتَاْكُلُوْا : تاکہ تم کھاؤ فَرِيْقًا : کوئی حصہ مِّنْ : سے اَمْوَالِ : مال النَّاسِ : لوگ بِالْاِثْمِ : گناہ سے وَاَنْتُمْ : اور تم تَعْلَمُوْنَ : جانتے ہو
اور نہ کھاؤ مال ایک دوسرے کا آپس میں ناحق اور نہ پہنچاؤ انکو حاکموں تک کہ کھاجاؤ کوئی حصہ لوگوں کے مال میں سے ظلم کر کے (ناحق) اور تم کو معلوم ہے۔
ربط آیات و خلاصہ تفسیر
پچھلی آیتوں میں روزے کے احکام مذکور تھے جس میں حلال چیزوں کے استعمال کو ایک معین زمانے میں اور معین وقت میں حرام کردیا گیا ہے اس کے بعد مال حرام حاصل کرنے اور اس کے استعمال کرنے کی ممانعت اسی مناسبت سے ذکر کی گئی کہ عبادت صوم کا اصل منشاء یہی ہے کہ انسان کچھ عرصے حلال چیزوں سے بھی صبر کا خوگر ہوجائے گا تو حرام چیزوں سے بچنا آسان ہوجائے گا نیز یہ مناسبت بھی ہے کہ جب روزہ ختم ہو افطار کے لئے مال حلال مہیا کرنا چاہئے جس نے دن بھر روزہ رکھا شام کو مال حرام سے افطار کیا اس کا روزہ اللہ کے نزدیک قبول نہیں،
حکم ششم، مال حرام سے بچنا
اور آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق مت کھاؤ اور ان (کے جھوٹے مقدمہ) کو حکام کے یہاں اس غرض سے رجوع مت کرو کہ (اس کے ذریعہ سے) لوگوں کے مالوں کا ایک حصہ بطریق گناہ (یعنی ظلم) کے کھا جاؤ جبکہ تم کو (اپنے جھوٹ اور ظلم کا) علم بھی ہو،

معارف و مسائل
اس آیت میں حرام طریقوں سے مال حاصل کرنے اور استعمال کرنے کی ممانعت ہے جس طرح اس سے پہلے اسی سورة بقرہ کی آیت نمبر 168 میں حلال طریقہ پر حاصل کرنے اور استعمال کرنے کی اجازت کا بیان گذر چکا ہے جس میں ارشاد ہے
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِي الْاَرْضِ حَلٰلًا طَيِّبًا ڮ وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ ۭ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ۔ یعنی اے لوگوں کھاؤ زمین کی چیزوں میں سے جو چیزیں حلال اور ستھری ہیں اور شیطان کے قدم پر نہ چلو کیونکہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
اور سورة نحل آیت 114 میں ارشاد فرمایا۔
فَكُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلٰلًا طَيِّبًا وَّاشْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِيَّاهُ تَعْبُدُوْنَ۔ یعنی کھاؤ جو روزی دی تم کو اللہ تعالیٰ نے حلال اور پاک اور شکر کرو اللہ کے احسان کا اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو،
کسب مال کے اچھے برے ذرائع اور اچھائی برائی کا معیار
جس طرح مال کی ضرورت اور مدار زندگی ہونے پر ساری دنیا اور اس کی ہر قوم وملت کا اتفاق ہے اس طرح اس پر بھی اتفاق ہے کہ اس کی تحصیل کے کچھ ذرائع پسندیدہ اور جائز ہیں کچھ ناپسند اور ممنوع ہیں چوری، ڈاکہ، دھوکہ، فریب کو ساری ہی دنیا برا سمجھتی ہے لیکن ان ذرائع کے جائز یا ناجائز ہونے کا کوئی صحیح معیار عام طور پر لوگوں کے ہاتھ میں نہیں اور ہو بھی نہیں سکتا کیونکہ اس کا تعلق پوری دنیا کے انسانوں کی صلاح و فلاح سے ہے اور پورا عالم انسانیت اس سے متاثر ہوتا ہے اس کا صحیح اور معقول معیار صرف وہی ہوسکتا ہے جو رب العالمین کی طرف سے بذریعہ وحی بھیجا گیا ہو ورنہ اگر خود انسان اس کا معیار بنانے کا مختار ہو تو جو لوگ اس کا قانون بنائیں گے وہ اپنی قوم یا اپنے وطن یا اپنی ملت کے بارے میں جو کچھ سوچیں گے وہ عام عادت کے مطابق اس سے مختلف ہوگا جو دوسری قومیں اور وطنوں کے متعلق سوچا جائے گا اور بین الاقوامی کانفرنسوں کی صورت میں پوری دنیا کی نمائندگی کی جائے تو تجربہ شاہد ہے کہ وہ بھی ساری مخلوق کو مطمئن کرنے کا ذریعہ نہیں بن سکتی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ قانون ناانصافی انجام کار جنگ وجدل اور فساد کی صورت اختیار کرے گی،
اسلامی نظام معاش ہی دنیا میں امن عام قائم کرسکتا ہے،
شریعت اسلام نے حلال و حرام اور جائز و ناجائز کا جو قانون بنایا ہے وہ صراحۃ وحی الہیٰ سے ہے یا اس سے مستفاد اور وہی ایک ایسا معقول فطری اور جامع قانون ہے جو ہر قوم وملت اور ہر ملک وطن میں چل سکتا ہے اور امن عامہ کا ضامن ہوسکتا ہے کیونکہ اس قانون الہیٰ میں قابل اشتراک چیزوں کو مشترک اور وقف عام رکھا گیا ہے جسمیں تمام انسان مساوی حق رکھتے ہیں جیسے ہوا، پانی، خود رو گھاس، آگ کی حرارت اور غیر مملوک جنگلات اور غیر آباد پہاڑی جنگلات کی پیداوار وغیرہ کہ ان میں سب انسانوں کا مشترک حق ہے کسی کو ان پر مالکانہ قبضہ جائز نہیں اور جن چیزوں کے اشتراک میں انسانی معاشرت میں خلل پیدا ہوتا ہے، یا نزاع وجدال کی صورتیں پیدا ہوتی ہیں ان میں انفرادی ملکیت کا قانون جاری فرمایا گیا کسی زمین یا اس کی پیداوار پر ابتدائی ملکیت کا قانون جدا ہے اور پھر انتقال ملکیت کا جدا اس قانون کی ہر دفعہ میں اس کا لحاظ رکھا گیا ہے کہ کوئی انسان ضروریات زندگی سے محروم نہ رہے بشرطیکہ وہ اپنی جدوجہد ان کی تحصیل میں خرچ کرے اور کوئی انسان دوسروں کے حقوق غصب کرکے یا دوسروں کو نقصان پہنچا کر سرمایہ کو محدود افراد میں مقید نہ کردے اتتقال ملکیت خواہ بعدالموت وراثت کے قانون الہیٰ کے مطابق ہو یا پھر بیع وشراء وغیرہ کے ذریعہ فریقین کی رضا مندی سے ہو مزدوری ہو یا کسی مال کا معاوضہ دونوں میں اس کو ضروری قرار دیا گیا کہ معاملہ میں کوئی دھوکہ، فریب، یا تلبیس نہ ہو اور کوئی ایسا ابہام اور اجمال نہ رہے جس کی وجہ سے باہمی منازعت کی نوبت آئے،
نیز اس کی بھی رعایت رکھی گئی ہے کہ فریقین جو رضامندی دے رہے ہیں وہ حقیقی رضامندی ہو کسی انسان پر دباؤ ڈال کر کوئی رضا مندی نہ لی گئی ہو شریعت اسلام میں جتنے معاملات باطل یا فاسد اور گناہ کہلاتے ہیں ان سب کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ ان میں وجوہ مذکور میں کسی وجہ سے کہیں کسی کا حق غصب ہوتا ہے کہیں کسی کو نقصان پہنچا کر اپنا نفع کیا جاتا ہے کہیں حقوق عامہ میں ناجائز تصرف ہوتا ہے، سود قمار وغیرہ کو حرام قرار دینے اہم وجہ یہ ہے کہ وہ حقوق عامہ کے لئے مضر ہیں ان کے نتیجہ میں چند افراد پلتے بڑہتے ہیں اور پوری ملت مفلس ہوتی ہے ایسے معاملات فریقین کی رضامندی سے بھی اس لئے حلال نہیں کہ وہ پوری ملت کے خلاف ایک جرم ہے آیت مذکورہ ان تمام ناجائز صورتوں پر حاوی ہے، ارشاد ہے، وَلَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بالْبَاطِلِ یعنی نہ کھاؤ ایک دوسرے کا مال ناجائز طریق پر اس میں ایک بات تو یہ قابل غور ہے کہ قرآن کریم کے الفاظ میں اَمْوَالَكُمْ آیا ہے جس کے اصلی معنی ہیں اپنے اموال جس میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا کہ تم جو کسی دوسرے کے مال میں ناجائز تصرف کرتے ہو تو یہ غور کرو کہ دوسرے شخص کو بھی اپنے مال سے ایسی ہی محبت اور تعلق ہوگا جیسا تمہیں اپنے مال سے ہے اگر وہ تمہارے مال میں ایسا جائز تصرف کرتا تو تمہیں جو دکھ پہنچتا اس کا اس وقت بھی ایسا ہی احساس کرو کہ گویا وہ تمہارا مال ہے،
اس کے علاوہ اشارہ اس طرف بھی ہوسکتا ہے کہ جب ایک شخص دوسرے کے مال میں کوئی ناجائز تصرف کرتا ہے تو اس کا فطری نتیجہ یہ ہے کہ اگر یہ رسم چل پڑی تو دوسرے اس کے مال میں ایسا ہی تصرف کریں گے اس حیثیت سے کسی کے مال میں ناجائز تصرف درحقیقت اپنے مال میں ناجائز تصرف کے لئے راستہ ہموار کرنا ہے غور کیجئے اشیاء ضرورت میں ملاوٹ کی رسم چل جائے کوئی گھی میں تیل یا چربی ملا کر زائد پیسے حاصل کرے تو اس کو جب دودھ خریدنے کی ضرورت پڑے گی دودھ والا اس میں پانی ملا کردے گا مسالہ کی ضرورت ہوگی تو اس میں ملاوٹ ہوگی دوا کی ضرورت ہوگی اس میں بھی یہی منظر سامنے آئے گا تو جتنے پیسے ایک شخص نے ملاوٹ کرکے زائد حاصل کرلئے دوسرا آدمی وہ پیسے اس کی جیب سے نکال لیتا ہے اسی طرح دوسرے کے پیسے تیسرا نکال لیتا ہے یہ بیوقوف اپنی جگہ پیسوں کی زیادتی شمار کرکے خوش ہوتا ہے مگر انجام دیکھتا کہ اس کے پاس کیا رہا تو جو کوئی دوسرے کے مال کو غلط طریقے سے حاصل کرتا ہے درحقیقت وہ اپنے مال کے ناجائز تصرف کا دروازہ کھولتا ہے،
دوسری بات قابل غور یہ ہے کہ اس ارشاد خداوندی کے الفاظ عام ہیں کہ باطل اور ناجائز طریق سے کسی کا مال نہ کھاؤ اس میں کسی کا مال غصب کرلینا بھی داخل ہے چوری، اور ڈاکہ بھی جن میں دوسرے پر ظلم کرکے جبرا مال چھین لیا جاتا ہے اور سود، قمار، رشوت اور تمام بیوع فاسدہ اور معاملات فاسدہ بھی جو ازروئے شرع جائز نہیں اگرچہ فریقین کی رضامندی بھی متحقق ہو جھوٹ بول کر یا جھوٹی قسم کھا کر کوئی مال حاصل کرلینا یا ایسی کمائی جس کو شریعت اسلام نے ممنوع قرار دیا ہے اگرچہ اپنی جان کی محنت ہی سے حاصل کی گئی ہو وہ سب حرام اور باطل ہیں اور قرآن کے الفاظ میں اگرچہ صراحۃ کھانے کی ممانعت مذکور ہے لیکن مراد اس جگہ صرف کھانا ہی نہیں بلکہ مطلقاً استعمال کرنا ہے خواہ کھا پی کر یا پہن کر یا دوسرے طریقہ کے استعمال سے مگر محاورات میں ان سب قسم کے استعمالوں کو کھا لینا ہی بولا جاتا ہے کہ فلاں آدمی فلاں کا مال کھا گیا اگرچہ وہ مال کھانے پینے کے لائق نہ ہو،
شان نزول
یہ آیت ایک خاص واقعہ میں نازل ہوئی ہے واقعہ یہ ہے کہ حضرات صحابہ کرام میں سے دو صاحبوں کا آپس میں ایک زمین پر جھگڑا ہوا مقدمہ رسول اللہ ﷺ کی عدالت میں پیش ہوا مدعی کے پاس گواہ نہ تھے آنحضرت ﷺ نے شرعی ضابطہ کے مطابق مدعاعلیہ کو حلف کرنے کا حکم دیا وہ حلف پر آمادہ ہوگیا اس وقت آنحضرت ﷺ نے بطور نصیحت ان کو یہ آیت سنائی، اِنَّ الَّذِيْنَ يَشْتَرُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَاَيْمَانِهِمْ ثَــمَنًا قَلِيْلًا جس میں قسم کھا کر کوئی مال حاصل کرنے پر وعید مذکور ہے صحابی نے جب یہ آیت سنی تو قسم کھانے کو ترک کردیا اور زمین مدعی کے حوالہ کردی (روح المعانی)
اس واقعہ میں یہ آیت نازل ہوئی جس میں ناجائز طریق پر کسی کا مال کھانے یا حاصل کرنے کو حرام قرار دیا ہے اور اس کے آخر میں خاص طور پر جھوٹا مقدمہ بنانے اور جھوٹی قسم کھانے اور جھوٹی شہادت دینے اور دلوانے کی سخت ممانعت اور اس پر وعید آئی ہے ارشاد ہے اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِيْقًا مِّنْ اَمْوَال النَّاس بالْاِثْمِ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ یعنی نہ لے جاؤ اموال کے مقدمات حکام تک تاکہ ان کے ذریعہ تم لوگوں کے اموال کا کوئی حصہ کھا جاؤ بطریق گناہ جب کہ تم جانتے بھی ہو کہ اس میں تمہارا کوئی حق نہیں تم جھوٹا مقدمہ بنا رہے ہو۔ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص کسی مغالطہ کی بناء پر اس چیز کو اپنا حق سمجھتا ہے وہ اگر عدالت میں دعویٰ دائر کرکے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرے تو وہ اس وعید میں داخل نہیں اسی جیسے ایک واقعہ میں آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا ؛
انما انا بشر وانتم تختصمون الی ولعل بعضکم ان یکون الحن بحجتہ من بعض فاقضی لہ علیٰ نحو ما اسمع منہ فمن قضیت لہ بشیء من حق اخیہ فلا یاخذنہ فانما اقطع لہ قطعۃً من النار (رواہ البخاری ومسلم عن ام سلمۃ) یعنی میں ایک انسان ہوں اور تم میرے پاس اپنے مقدمات لاتے ہو اس میں یہ ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص اپنے معاملہ کو زیادہ رنگ آمیزی کے ساتھ پیش کرے اور میں اسی سے مطمٔن ہو کر اس کے حق میں فیصلہ کردو تو (یاد رکھو کہ حقیقت حال تو صاحب معاملہ کو خود معلوم ہوتی ہے) اگر فی الواقع وہ اس کا حق نہیں ہے تو اس کو لینا نہیں چاہئے کیونکہ اس صورت میں جو کچھ میں اس کو دوں گا وہ جہنم کا ایک قطعہ ہوگا،
آنحضرت ﷺ نے اس ارشاد میں واضح فرما دیا کہ اگر امام یا قاضی یا امام المسلمین کی مغالطہ کی وجہ سے کوئی فیصلہ کردے جس میں ایک کا حق دوسرے کو ناجائز طور پر مل رہا ہو تو اس عدالتی فیصلہ کی وجہ سے وہ اس کے لئے حلال نہیں ہوجاتا، اور جس کے لئے حلال ہے اس کے لئے حرام نہیں ہوجاتا الغرض عدالت کا فیصلہ کسی حلال کو حرام یا حرام کو حلال نہیں بناتا، اگر کوئی شخص دھوکہ فریب یا جھوٹی شہادت یا جھوٹی قسم کے ذریعہ کسی کا مال بذریعہ عدالت لے لے تو اس کا وبال اس کی گردن پر رہے گا اس کو چاہئے کہ آخرت کے حساب کتاب اور علیم وخبیر کی عدالت میں پیشی کا خیال کرکے اس کو چھوڑ دے،
امام ابوحنیفہ کے نزدیک جن معاملات میں کوئی عقد یا فسخ ہوتا ہو اور جن میں قاضی یا جج کو بھی شرعا اختیارات حاصل ہوتے ہیں ایسے معاملات میں اگر جھوٹی قسم یا جھوٹی شہادت کی بناء پر بھی کوئی فیصلہ قاضی نے صادر کردیا تو شرعاً وہ عقد یا فسخ صحیح ہوجائے گا اور حلال و حرام کے احکام اس پر عائد ہوجائیں گے اگرچہ جھوٹ بولنے اور شہادت دلوانے کا وبال اس کی گردن پر رہے گا۔
مال حلال کی برکات اور حرام کی نحوست
حرام سے بچنے اور حلال کے حاصل کرنے کے لئے قرآن کریم نے مختلف مقامات میں مختلف عنوانات سے تاکیدیں فرمائی ہیں ایک آیت میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے کہ انسان کے اعمال و اخلاق میں بہت بڑا دخل حلال کھانے کو ہے اگر اس کا کھانا پینا حلال نہیں تو اس سے اخلاق حمیدہ اور اعمال صالحہ کا صدور مشکل ہے ارشاد ہے
يٰٓاَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّيِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحً آ اِنِّىْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌ (51: 23) یعنی اے گروہ انبیاء حلال اور پاک چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو میں تمہارے اعمال کی حقیقت سے واقف ہوں۔
اس آیت میں حلال کھانے کے ساتھ عمل صالح کا حکم فرما کر اشارہ کردیا ہے کہ اعمال صالحہ کا صدور جب ہی ہوسکتا ہے جبکہ انسان کا کھانا پینا حلال ہو، اور آنحضرت ﷺ نے ایک حدیث میں یہ بھی واضح فرما دیا کہ اس آیت میں اگرچہ خطاب انبیاء (علیہم السلام) کو ہے مگر یہ حکم کچھ انھیں کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ سب مسلمان اس کے مامور ہیں اس حدیث کے آخر میں آپ نے یہ بھی فرمایا کہ حرام مال کھانے والے کی دعاء قبول نہیں ہوتی بہت سے آدمی عبادت وغیرہ میں مشقت اٹھاتے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کے سامنے ہاتھ دعاء کے لئے پھیلاتے ہیں اور یا رب یا رب پکارتے ہیں مگر کھانا ان کا حرام، پینا ان کا حرام، لباس ان کا حرام ہے تو ان کی یہ دعاء کہاں قبول ہوسکتی ہے،
رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کا ایک بہت بڑا حصہ اسی کام کے لئے وقف رہا ہے کہ امت کو حرام سے بچانے اور حلال کے استعمال کرنے کی ہدایتیں دی،
ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے حلال کھایا اور سنت کے مطابق عمل کیا اور لوگ اس کی ایذاؤں سے محفوظ رہے وہ جنت میں جائے گا صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ آج کل تو یہ حالات آپ کی امت میں عام ہیں بیشتر مسلمان ان کے پابند ہیں آپ نے فرمایا ہاں ! آئندہ بھی ہر زمانہ میں ایسے لوگ رہیں گے جو ان احکام کے پابند ہوں گے (یہ حدیث ترمذی نے روایت کی ہے اور اس کو صحیح فرمایا ہے)
ایک دوسری حدیث میں ارشاد ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت عبداللہ بن عمر سے فرمایا کہ چار خصلتیں ایسی ہیں جب وہ تمہارے اندر موجود ہیں تو پھر دنیا میں کچھ بھی حاصل نہ ہو تو تمہارے لئے کافی ہیں وہ چار خصلتیں یہ ہیں کہ ایک امانت کی حفاظت، دوسرے سچ بولنا، تیسرے حسن خلق، چوتھے کھانے میں حلال کا اہتمام،
حضرت سعد بن ابی وقاص نے آنحضرت ﷺ سے درخواست کی کہ میرے لئے یہ دعا فرما دیجئے کہ میں مقبول الدعاء ہوجاؤں جو دعا کیا کروں قبول ہوا کرے آپ نے فرمایا اے سعد اپنا کھانا حلال اور پاک بنالو مستجاب الدعوات ہوجاؤ گے اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد ﷺ کی جان ہے بندہ جب اپنے پیٹ میں حرام لقمہ ڈالتا ہے تو چالیس روز تک اس کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا اور جس شخص کا گوشت حرام مال سے بنا ہو اس گوشت کے لئے تو جہنم کی آگ ہی لائق ہے،
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ کوئی بندہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوتا جب تک اس کا قلب اور زبان مسلم نہ ہوجائے اور جب تک اس کے پڑوسی اس کی ایذاؤں سے محفوظ نہ ہوجائیں اور جب کوئی بندہ مال حرام کماتا ہے پھر اس کو صدقہ کرتا ہے تو وہ قبول نہیں ہوتا اور اگر اس میں سے خرچ کرتا ہے تو برکت نہیں ہوتی اور اگر اس کو اپنے وارثوں کے لئے چھوڑ جاتا ہے تو وہ جہنم کی طرف جانے کے لئے اس کا توشہ ہوتا ہے بیشک اللہ تعالیٰ بری چیز سے برے عمل کو نہیں دھوتے ہاں اچھے عمل سے برے عمل کو دھو دیتے ہیں۔
محشر میں ہر انسان سے پانچ اہم سوالات
اور حضرت معاذ بن جبل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔
ما تزال قدما عبد یوم القیامۃ حق یسأل عن اربع عن عمرہ فیما افناہ وعن شبابہٖ فیما ابلاہ وعن مالہ من این اکتسبہ وفیما انفقہ وعن علمہ ماذا عمل فیہ (البیہقی، ترغیب) قیامت کے روز محشر میں کوئی بندہ اپنی جگہ سے سرک نہ سکے گا جب تک اس سے چار سوالوں کا جواب نہ لیا جائے ایک یہ کہ اس نے اپنی عمر کس کام میں فنا کی دوسرے یہ کہ اپنی جوانی کس شغل میں برباد کی تیسرے یہ کہ اپنا مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا اور چوتھی یہ کہ اپنے علم پر کہاں تک عمل کیا۔
حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ خطبہ دیا جس میں فرمایا کہ اے جماعت مہاجرین پانچ خصلتیں ہیں جن کے متعلق میں اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتا ہوں کہ وہ تمہارے اندر پیدا ہوجائیں ایک یہ ہے کہ جب کسی قوم میں بےحیائی پھیلتی ہے تو ان پر طاعون اور وبائیں اور ایسے نئے نئے امراض مسلط کردئیے جاتے ہیں جو ان کے آباء و اجداد نے سنے بھی نہ تھے اور دوسرے یہ کہ جب کسی قوم میں ناپ تول کے اندر کمی کرنے کا مرض پیدا ہوجائے تو ان پر قحط اور گرانی اور مشقت و محنت اور حکام کے مظالم مسلط کردئیے جاتے ہیں اور تیسرے یہ کہ جب کوئی قوم زکوٰۃ ادا نہ کرے تو بارش بند کردی جاتی ہے اور چوتھے یہ کہ جب کوئی قوم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے عہد کو توڑ ڈالے تو اللہ تعالیٰ ان پر اجنبی دشمن مسلط فرما دیتے ہیں جو ان کے مال بغیر کسی حق کے چھین لیتا ہے اور پانچویں یہ کہ جب کسی قوم کے ارباب اقتدار کتاب اللہ کے قانون پر فیصلہ نہ کریں اور اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام ان کے دل کو نہ لگیں تو اللہ تعالیٰ ان کے آپس میں منافرت اور لڑائی جھگڑے ڈال دیتے ہیں (یہ روایت ابن ماجہ اور بیہقی وغیرہ نے نقل کی ہے اور حاکم نے اس کو صحیح علیٰ شرط مسلم فرمایا ہے)
اللہ تعالیٰ ہم کو اور سب مسلمانوں کو ان آفات سے محفوظ رہنے کی توفیق کامل عطا فرمائیں وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔
Top