Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 188
وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِهَاۤ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۠ ۧ
وَلَا
: اور نہ
تَاْكُلُوْٓا
: کھاؤ
اَمْوَالَكُمْ
: اپنے مال
بَيْنَكُمْ
: آپس میں
بالْبَاطِلِ
: ناحق
وَتُدْلُوْا
: اور (نہ) پہنچاؤ
بِهَآ
: اس سے
اِلَى الْحُكَّامِ
: حاکموں تک
لِتَاْكُلُوْا
: تاکہ تم کھاؤ
فَرِيْقًا
: کوئی حصہ
مِّنْ
: سے
اَمْوَالِ
: مال
النَّاسِ
: لوگ
بِالْاِثْمِ
: گناہ سے
وَاَنْتُمْ
: اور تم
تَعْلَمُوْنَ
: جانتے ہو
اور نہ کھاؤ مال ایک دوسرے کا آپس میں ناحق اور نہ پہنچاؤ انکو حاکموں تک کہ کھاجاؤ کوئی حصہ لوگوں کے مال میں سے ظلم کر کے (ناحق) اور تم کو معلوم ہے۔
ربط آیات
و
خلاصہ تفسیر
پچھلی آیتوں میں روزے کے احکام مذکور تھے جس میں حلال چیزوں کے استعمال کو ایک معین زمانے میں اور معین وقت میں حرام کردیا گیا ہے اس کے بعد مال حرام حاصل کرنے اور اس کے استعمال کرنے کی ممانعت اسی مناسبت سے ذکر کی گئی کہ عبادت صوم کا اصل منشاء یہی ہے کہ انسان کچھ عرصے حلال چیزوں سے بھی صبر کا خوگر ہوجائے گا تو حرام چیزوں سے بچنا آسان ہوجائے گا نیز یہ مناسبت بھی ہے کہ جب روزہ ختم ہو افطار کے لئے مال حلال مہیا کرنا چاہئے جس نے دن بھر روزہ رکھا شام کو مال حرام سے افطار کیا اس کا روزہ اللہ کے نزدیک قبول نہیں،
حکم ششم، مال حرام سے بچنا
اور آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق مت کھاؤ اور ان (کے جھوٹے مقدمہ) کو حکام کے یہاں اس غرض سے رجوع مت کرو کہ (اس کے ذریعہ سے) لوگوں کے مالوں کا ایک حصہ بطریق گناہ (یعنی ظلم) کے کھا جاؤ جبکہ تم کو (اپنے جھوٹ اور ظلم کا) علم بھی ہو،
معارف و مسائل
اس آیت میں حرام طریقوں سے مال حاصل کرنے اور استعمال کرنے کی ممانعت ہے جس طرح اس سے پہلے اسی سورة بقرہ کی آیت نمبر 168 میں حلال طریقہ پر حاصل کرنے اور استعمال کرنے کی اجازت کا بیان گذر چکا ہے جس میں ارشاد ہے
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِي الْاَرْضِ حَلٰلًا طَيِّبًا ڮ وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ ۭ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ۔ یعنی اے لوگوں کھاؤ زمین کی چیزوں میں سے جو چیزیں حلال اور ستھری ہیں اور شیطان کے قدم پر نہ چلو کیونکہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
اور سورة نحل آیت 114 میں ارشاد فرمایا۔
فَكُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلٰلًا طَيِّبًا وَّاشْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِيَّاهُ تَعْبُدُوْنَ۔ یعنی کھاؤ جو روزی دی تم کو اللہ تعالیٰ نے حلال اور پاک اور شکر کرو اللہ کے احسان کا اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو،
کسب مال کے اچھے برے ذرائع اور اچھائی برائی کا معیار
جس طرح مال کی ضرورت اور مدار زندگی ہونے پر ساری دنیا اور اس کی ہر قوم وملت کا اتفاق ہے اس طرح اس پر بھی اتفاق ہے کہ اس کی تحصیل کے کچھ ذرائع پسندیدہ اور جائز ہیں کچھ ناپسند اور ممنوع ہیں چوری، ڈاکہ، دھوکہ، فریب کو ساری ہی دنیا برا سمجھتی ہے لیکن ان ذرائع کے جائز یا ناجائز ہونے کا کوئی صحیح معیار عام طور پر لوگوں کے ہاتھ میں نہیں اور ہو بھی نہیں سکتا کیونکہ اس کا تعلق پوری دنیا کے انسانوں کی صلاح و فلاح سے ہے اور پورا عالم انسانیت اس سے متاثر ہوتا ہے اس کا صحیح اور معقول معیار صرف وہی ہوسکتا ہے جو رب العالمین کی طرف سے بذریعہ وحی بھیجا گیا ہو ورنہ اگر خود انسان اس کا معیار بنانے کا مختار ہو تو جو لوگ اس کا قانون بنائیں گے وہ اپنی قوم یا اپنے وطن یا اپنی ملت کے بارے میں جو کچھ سوچیں گے وہ عام عادت کے مطابق اس سے مختلف ہوگا جو دوسری قومیں اور وطنوں کے متعلق سوچا جائے گا اور بین الاقوامی کانفرنسوں کی صورت میں پوری دنیا کی نمائندگی کی جائے تو تجربہ شاہد ہے کہ وہ بھی ساری مخلوق کو مطمئن کرنے کا ذریعہ نہیں بن سکتی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ قانون ناانصافی انجام کار جنگ وجدل اور فساد کی صورت اختیار کرے گی،
اسلامی نظام معاش ہی دنیا میں امن عام قائم کرسکتا ہے،
شریعت اسلام نے حلال و حرام اور جائز و ناجائز کا جو قانون بنایا ہے وہ صراحۃ وحی الہیٰ سے ہے یا اس سے مستفاد اور وہی ایک ایسا معقول فطری اور جامع قانون ہے جو ہر قوم وملت اور ہر ملک وطن میں چل سکتا ہے اور امن عامہ کا ضامن ہوسکتا ہے کیونکہ اس قانون الہیٰ میں قابل اشتراک چیزوں کو مشترک اور وقف عام رکھا گیا ہے جسمیں تمام انسان مساوی حق رکھتے ہیں جیسے ہوا، پانی، خود رو گھاس، آگ کی حرارت اور غیر مملوک جنگلات اور غیر آباد پہاڑی جنگلات کی پیداوار وغیرہ کہ ان میں سب انسانوں کا مشترک حق ہے کسی کو ان پر مالکانہ قبضہ جائز نہیں اور جن چیزوں کے اشتراک میں انسانی معاشرت میں خلل پیدا ہوتا ہے، یا نزاع وجدال کی صورتیں پیدا ہوتی ہیں ان میں انفرادی ملکیت کا قانون جاری فرمایا گیا کسی زمین یا اس کی پیداوار پر ابتدائی ملکیت کا قانون جدا ہے اور پھر انتقال ملکیت کا جدا اس قانون کی ہر دفعہ میں اس کا لحاظ رکھا گیا ہے کہ کوئی انسان ضروریات زندگی سے محروم نہ رہے بشرطیکہ وہ اپنی جدوجہد ان کی تحصیل میں خرچ کرے اور کوئی انسان دوسروں کے حقوق غصب کرکے یا دوسروں کو نقصان پہنچا کر سرمایہ کو محدود افراد میں مقید نہ کردے اتتقال ملکیت خواہ بعدالموت وراثت کے قانون الہیٰ کے مطابق ہو یا پھر بیع وشراء وغیرہ کے ذریعہ فریقین کی رضا مندی سے ہو مزدوری ہو یا کسی مال کا معاوضہ دونوں میں اس کو ضروری قرار دیا گیا کہ معاملہ میں کوئی دھوکہ، فریب، یا تلبیس نہ ہو اور کوئی ایسا ابہام اور اجمال نہ رہے جس کی وجہ سے باہمی منازعت کی نوبت آئے،
نیز اس کی بھی رعایت رکھی گئی ہے کہ فریقین جو رضامندی دے رہے ہیں وہ حقیقی رضامندی ہو کسی انسان پر دباؤ ڈال کر کوئی رضا مندی نہ لی گئی ہو شریعت اسلام میں جتنے معاملات باطل یا فاسد اور گناہ کہلاتے ہیں ان سب کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ ان میں وجوہ مذکور میں کسی وجہ سے کہیں کسی کا حق غصب ہوتا ہے کہیں کسی کو نقصان پہنچا کر اپنا نفع کیا جاتا ہے کہیں حقوق عامہ میں ناجائز تصرف ہوتا ہے، سود قمار وغیرہ کو حرام قرار دینے اہم وجہ یہ ہے کہ وہ حقوق عامہ کے لئے مضر ہیں ان کے نتیجہ میں چند افراد پلتے بڑہتے ہیں اور پوری ملت مفلس ہوتی ہے ایسے معاملات فریقین کی رضامندی سے بھی اس لئے حلال نہیں کہ وہ پوری ملت کے خلاف ایک جرم ہے آیت مذکورہ ان تمام ناجائز صورتوں پر حاوی ہے، ارشاد ہے، وَلَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بالْبَاطِلِ یعنی نہ کھاؤ ایک دوسرے کا مال ناجائز طریق پر اس میں ایک بات تو یہ قابل غور ہے کہ قرآن کریم کے الفاظ میں اَمْوَالَكُمْ آیا ہے جس کے اصلی معنی ہیں اپنے اموال جس میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا کہ تم جو کسی دوسرے کے مال میں ناجائز تصرف کرتے ہو تو یہ غور کرو کہ دوسرے شخص کو بھی اپنے مال سے ایسی ہی محبت اور تعلق ہوگا جیسا تمہیں اپنے مال سے ہے اگر وہ تمہارے مال میں ایسا جائز تصرف کرتا تو تمہیں جو دکھ پہنچتا اس کا اس وقت بھی ایسا ہی احساس کرو کہ گویا وہ تمہارا مال ہے،
اس کے علاوہ اشارہ اس طرف بھی ہوسکتا ہے کہ جب ایک شخص دوسرے کے مال میں کوئی ناجائز تصرف کرتا ہے تو اس کا فطری نتیجہ یہ ہے کہ اگر یہ رسم چل پڑی تو دوسرے اس کے مال میں ایسا ہی تصرف کریں گے اس حیثیت سے کسی کے مال میں ناجائز تصرف درحقیقت اپنے مال میں ناجائز تصرف کے لئے راستہ ہموار کرنا ہے غور کیجئے اشیاء ضرورت میں ملاوٹ کی رسم چل جائے کوئی گھی میں تیل یا چربی ملا کر زائد پیسے حاصل کرے تو اس کو جب دودھ خریدنے کی ضرورت پڑے گی دودھ والا اس میں پانی ملا کردے گا مسالہ کی ضرورت ہوگی تو اس میں ملاوٹ ہوگی دوا کی ضرورت ہوگی اس میں بھی یہی منظر سامنے آئے گا تو جتنے پیسے ایک شخص نے ملاوٹ کرکے زائد حاصل کرلئے دوسرا آدمی وہ پیسے اس کی جیب سے نکال لیتا ہے اسی طرح دوسرے کے پیسے تیسرا نکال لیتا ہے یہ بیوقوف اپنی جگہ پیسوں کی زیادتی شمار کرکے خوش ہوتا ہے مگر انجام دیکھتا کہ اس کے پاس کیا رہا تو جو کوئی دوسرے کے مال کو غلط طریقے سے حاصل کرتا ہے درحقیقت وہ اپنے مال کے ناجائز تصرف کا دروازہ کھولتا ہے،
دوسری بات قابل غور یہ ہے کہ اس ارشاد خداوندی کے الفاظ عام ہیں کہ باطل اور ناجائز طریق سے کسی کا مال نہ کھاؤ اس میں کسی کا مال غصب کرلینا بھی داخل ہے چوری، اور ڈاکہ بھی جن میں دوسرے پر ظلم کرکے جبرا مال چھین لیا جاتا ہے اور سود، قمار، رشوت اور تمام بیوع فاسدہ اور معاملات فاسدہ بھی جو ازروئے شرع جائز نہیں اگرچہ فریقین کی رضامندی بھی متحقق ہو جھوٹ بول کر یا جھوٹی قسم کھا کر کوئی مال حاصل کرلینا یا ایسی کمائی جس کو شریعت اسلام نے ممنوع قرار دیا ہے اگرچہ اپنی جان کی محنت ہی سے حاصل کی گئی ہو وہ سب حرام اور باطل ہیں اور قرآن کے الفاظ میں اگرچہ صراحۃ کھانے کی ممانعت مذکور ہے لیکن مراد اس جگہ صرف کھانا ہی نہیں بلکہ مطلقاً استعمال کرنا ہے خواہ کھا پی کر یا پہن کر یا دوسرے طریقہ کے استعمال سے مگر محاورات میں ان سب قسم کے استعمالوں کو کھا لینا ہی بولا جاتا ہے کہ فلاں آدمی فلاں کا مال کھا گیا اگرچہ وہ مال کھانے پینے کے لائق نہ ہو،
شان نزول
یہ آیت ایک خاص واقعہ میں نازل ہوئی ہے واقعہ یہ ہے کہ حضرات صحابہ کرام میں سے دو صاحبوں کا آپس میں ایک زمین پر جھگڑا ہوا مقدمہ رسول اللہ ﷺ کی عدالت میں پیش ہوا مدعی کے پاس گواہ نہ تھے آنحضرت ﷺ نے شرعی ضابطہ کے مطابق مدعاعلیہ کو حلف کرنے کا حکم دیا وہ حلف پر آمادہ ہوگیا اس وقت آنحضرت ﷺ نے بطور نصیحت ان کو یہ آیت سنائی، اِنَّ الَّذِيْنَ يَشْتَرُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَاَيْمَانِهِمْ ثَــمَنًا قَلِيْلًا جس میں قسم کھا کر کوئی مال حاصل کرنے پر وعید مذکور ہے صحابی نے جب یہ آیت سنی تو قسم کھانے کو ترک کردیا اور زمین مدعی کے حوالہ کردی (روح المعانی)
اس واقعہ میں یہ آیت نازل ہوئی جس میں ناجائز طریق پر کسی کا مال کھانے یا حاصل کرنے کو حرام قرار دیا ہے اور اس کے آخر میں خاص طور پر جھوٹا مقدمہ بنانے اور جھوٹی قسم کھانے اور جھوٹی شہادت دینے اور دلوانے کی سخت ممانعت اور اس پر وعید آئی ہے ارشاد ہے اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِيْقًا مِّنْ اَمْوَال النَّاس بالْاِثْمِ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ یعنی نہ لے جاؤ اموال کے مقدمات حکام تک تاکہ ان کے ذریعہ تم لوگوں کے اموال کا کوئی حصہ کھا جاؤ بطریق گناہ جب کہ تم جانتے بھی ہو کہ اس میں تمہارا کوئی حق نہیں تم جھوٹا مقدمہ بنا رہے ہو۔ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص کسی مغالطہ کی بناء پر اس چیز کو اپنا حق سمجھتا ہے وہ اگر عدالت میں دعویٰ دائر کرکے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرے تو وہ اس وعید میں داخل نہیں اسی جیسے ایک واقعہ میں آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا ؛
انما انا بشر وانتم تختصمون الی ولعل بعضکم ان یکون الحن بحجتہ من بعض فاقضی لہ علیٰ نحو ما اسمع منہ فمن قضیت لہ بشیء من حق اخیہ فلا یاخذنہ فانما اقطع لہ قطعۃً من النار (رواہ البخاری ومسلم عن ام سلمۃ) یعنی میں ایک انسان ہوں اور تم میرے پاس اپنے مقدمات لاتے ہو اس میں یہ ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص اپنے معاملہ کو زیادہ رنگ آمیزی کے ساتھ پیش کرے اور میں اسی سے مطمٔن ہو کر اس کے حق میں فیصلہ کردو تو (یاد رکھو کہ حقیقت حال تو صاحب معاملہ کو خود معلوم ہوتی ہے) اگر فی الواقع وہ اس کا حق نہیں ہے تو اس کو لینا نہیں چاہئے کیونکہ اس صورت میں جو کچھ میں اس کو دوں گا وہ جہنم کا ایک قطعہ ہوگا،
آنحضرت ﷺ نے اس ارشاد میں واضح فرما دیا کہ اگر امام یا قاضی یا امام المسلمین کی مغالطہ کی وجہ سے کوئی فیصلہ کردے جس میں ایک کا حق دوسرے کو ناجائز طور پر مل رہا ہو تو اس عدالتی فیصلہ کی وجہ سے وہ اس کے لئے حلال نہیں ہوجاتا، اور جس کے لئے حلال ہے اس کے لئے حرام نہیں ہوجاتا الغرض عدالت کا فیصلہ کسی حلال کو حرام یا حرام کو حلال نہیں بناتا، اگر کوئی شخص دھوکہ فریب یا جھوٹی شہادت یا جھوٹی قسم کے ذریعہ کسی کا مال بذریعہ عدالت لے لے تو اس کا وبال اس کی گردن پر رہے گا اس کو چاہئے کہ آخرت کے حساب کتاب اور علیم وخبیر کی عدالت میں پیشی کا خیال کرکے اس کو چھوڑ دے،
امام ابوحنیفہ کے نزدیک جن معاملات میں کوئی عقد یا فسخ ہوتا ہو اور جن میں قاضی یا جج کو بھی شرعا اختیارات حاصل ہوتے ہیں ایسے معاملات میں اگر جھوٹی قسم یا جھوٹی شہادت کی بناء پر بھی کوئی فیصلہ قاضی نے صادر کردیا تو شرعاً وہ عقد یا فسخ صحیح ہوجائے گا اور حلال و حرام کے احکام اس پر عائد ہوجائیں گے اگرچہ جھوٹ بولنے اور شہادت دلوانے کا وبال اس کی گردن پر رہے گا۔
مال حلال کی برکات اور حرام کی نحوست
حرام سے بچنے اور حلال کے حاصل کرنے کے لئے قرآن کریم نے مختلف مقامات میں مختلف عنوانات سے تاکیدیں فرمائی ہیں ایک آیت میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے کہ انسان کے اعمال و اخلاق میں بہت بڑا دخل حلال کھانے کو ہے اگر اس کا کھانا پینا حلال نہیں تو اس سے اخلاق حمیدہ اور اعمال صالحہ کا صدور مشکل ہے ارشاد ہے
يٰٓاَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّيِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحً آ اِنِّىْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌ (51: 23) یعنی اے گروہ انبیاء حلال اور پاک چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو میں تمہارے اعمال کی حقیقت سے واقف ہوں۔
اس آیت میں حلال کھانے کے ساتھ عمل صالح کا حکم فرما کر اشارہ کردیا ہے کہ اعمال صالحہ کا صدور جب ہی ہوسکتا ہے جبکہ انسان کا کھانا پینا حلال ہو، اور آنحضرت ﷺ نے ایک حدیث میں یہ بھی واضح فرما دیا کہ اس آیت میں اگرچہ خطاب انبیاء (علیہم السلام) کو ہے مگر یہ حکم کچھ انھیں کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ سب مسلمان اس کے مامور ہیں اس حدیث کے آخر میں آپ نے یہ بھی فرمایا کہ حرام مال کھانے والے کی دعاء قبول نہیں ہوتی بہت سے آدمی عبادت وغیرہ میں مشقت اٹھاتے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کے سامنے ہاتھ دعاء کے لئے پھیلاتے ہیں اور یا رب یا رب پکارتے ہیں مگر کھانا ان کا حرام، پینا ان کا حرام، لباس ان کا حرام ہے تو ان کی یہ دعاء کہاں قبول ہوسکتی ہے،
رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کا ایک بہت بڑا حصہ اسی کام کے لئے وقف رہا ہے کہ امت کو حرام سے بچانے اور حلال کے استعمال کرنے کی ہدایتیں دی،
ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے حلال کھایا اور سنت کے مطابق عمل کیا اور لوگ اس کی ایذاؤں سے محفوظ رہے وہ جنت میں جائے گا صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ آج کل تو یہ حالات آپ کی امت میں عام ہیں بیشتر مسلمان ان کے پابند ہیں آپ نے فرمایا ہاں ! آئندہ بھی ہر زمانہ میں ایسے لوگ رہیں گے جو ان احکام کے پابند ہوں گے (یہ حدیث ترمذی نے روایت کی ہے اور اس کو صحیح فرمایا ہے)
ایک دوسری حدیث میں ارشاد ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت عبداللہ بن عمر سے فرمایا کہ چار خصلتیں ایسی ہیں جب وہ تمہارے اندر موجود ہیں تو پھر دنیا میں کچھ بھی حاصل نہ ہو تو تمہارے لئے کافی ہیں وہ چار خصلتیں یہ ہیں کہ ایک امانت کی حفاظت، دوسرے سچ بولنا، تیسرے حسن خلق، چوتھے کھانے میں حلال کا اہتمام،
حضرت سعد بن ابی وقاص نے آنحضرت ﷺ سے درخواست کی کہ میرے لئے یہ دعا فرما دیجئے کہ میں مقبول الدعاء ہوجاؤں جو دعا کیا کروں قبول ہوا کرے آپ نے فرمایا اے سعد اپنا کھانا حلال اور پاک بنالو مستجاب الدعوات ہوجاؤ گے اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد ﷺ کی جان ہے بندہ جب اپنے پیٹ میں حرام لقمہ ڈالتا ہے تو چالیس روز تک اس کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا اور جس شخص کا گوشت حرام مال سے بنا ہو اس گوشت کے لئے تو جہنم کی آگ ہی لائق ہے،
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ کوئی بندہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوتا جب تک اس کا قلب اور زبان مسلم نہ ہوجائے اور جب تک اس کے پڑوسی اس کی ایذاؤں سے محفوظ نہ ہوجائیں اور جب کوئی بندہ مال حرام کماتا ہے پھر اس کو صدقہ کرتا ہے تو وہ قبول نہیں ہوتا اور اگر اس میں سے خرچ کرتا ہے تو برکت نہیں ہوتی اور اگر اس کو اپنے وارثوں کے لئے چھوڑ جاتا ہے تو وہ جہنم کی طرف جانے کے لئے اس کا توشہ ہوتا ہے بیشک اللہ تعالیٰ بری چیز سے برے عمل کو نہیں دھوتے ہاں اچھے عمل سے برے عمل کو دھو دیتے ہیں۔
محشر میں ہر انسان سے پانچ اہم سوالات
اور حضرت معاذ بن جبل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔
ما تزال قدما عبد یوم القیامۃ حق یسأل عن اربع عن عمرہ فیما افناہ وعن شبابہٖ فیما ابلاہ وعن مالہ من این اکتسبہ وفیما انفقہ وعن علمہ ماذا عمل فیہ (البیہقی، ترغیب) قیامت کے روز محشر میں کوئی بندہ اپنی جگہ سے سرک نہ سکے گا جب تک اس سے چار سوالوں کا جواب نہ لیا جائے ایک یہ کہ اس نے اپنی عمر کس کام میں فنا کی دوسرے یہ کہ اپنی جوانی کس شغل میں برباد کی تیسرے یہ کہ اپنا مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا اور چوتھی یہ کہ اپنے علم پر کہاں تک عمل کیا۔
حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ خطبہ دیا جس میں فرمایا کہ اے جماعت مہاجرین پانچ خصلتیں ہیں جن کے متعلق میں اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتا ہوں کہ وہ تمہارے اندر پیدا ہوجائیں ایک یہ ہے کہ جب کسی قوم میں بےحیائی پھیلتی ہے تو ان پر طاعون اور وبائیں اور ایسے نئے نئے امراض مسلط کردئیے جاتے ہیں جو ان کے آباء و اجداد نے سنے بھی نہ تھے اور دوسرے یہ کہ جب کسی قوم میں ناپ تول کے اندر کمی کرنے کا مرض پیدا ہوجائے تو ان پر قحط اور گرانی اور مشقت و محنت اور حکام کے مظالم مسلط کردئیے جاتے ہیں اور تیسرے یہ کہ جب کوئی قوم زکوٰۃ ادا نہ کرے تو بارش بند کردی جاتی ہے اور چوتھے یہ کہ جب کوئی قوم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے عہد کو توڑ ڈالے تو اللہ تعالیٰ ان پر اجنبی دشمن مسلط فرما دیتے ہیں جو ان کے مال بغیر کسی حق کے چھین لیتا ہے اور پانچویں یہ کہ جب کسی قوم کے ارباب اقتدار کتاب اللہ کے قانون پر فیصلہ نہ کریں اور اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام ان کے دل کو نہ لگیں تو اللہ تعالیٰ ان کے آپس میں منافرت اور لڑائی جھگڑے ڈال دیتے ہیں (یہ روایت ابن ماجہ اور بیہقی وغیرہ نے نقل کی ہے اور حاکم نے اس کو صحیح علیٰ شرط مسلم فرمایا ہے)
اللہ تعالیٰ ہم کو اور سب مسلمانوں کو ان آفات سے محفوظ رہنے کی توفیق کامل عطا فرمائیں وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔
Top