Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 186
وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ١ؕ اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ١ۙ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّهُمْ یَرْشُدُوْنَ
وَاِذَا : اور جب سَاَلَكَ : آپ سے پوچھیں عِبَادِيْ : میرے بندے عَنِّىْ : میرے متعلق فَاِنِّىْ : تو میں قَرِيْبٌ : قریب اُجِيْبُ : میں قبول کرتا ہوں دَعْوَةَ : دعا الدَّاعِ : پکارنے والا اِذَا : جب دَعَانِ : مجھ سے مانگے ۙفَلْيَسْتَجِيْبُوْا : پس چاہیے حکم مانیں لِيْ : میرا وَلْيُؤْمِنُوْا : اور ایمان لائیں بِيْ : مجھ پر لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَرْشُدُوْنَ : وہ ہدایت پائیں
اور جب تجھ سے پوچھیں میرے بندے مجھ کو سو میں تو قریب ہوں قبول کرتا ہوں دعا مانگنے والے کی دعا کو جب مجھ سے دعا مانگے تو چاہئیے کہ وہ حکم مانین میرا اور یقین لائیں مجھ پر تاکہ نیک راہ پر آئیں۔
خلاصہ تفسیر مع ربط آیات
پچھلی تین آیتوں میں روزہ اور رمضان کے احکام اور فضائل کا ذکر تھا اور اس کے بعد بھی ایک طویل آیت میں روزہ اور اعتکاف کے احکام کی تفصیل ہے درمیان کی اس مختصر آیت میں بندوں کے حال پر حق تعالیٰ کی خاص عنایت ان کی دعائیں سننے اور قبول کرنے کا ذکر فرما کر اطاعت احکام کی ترغیب دی گئی ہے کیونکہ روزہ کی عبادت میں رخصتوں سہولتوں کے باوجود کسی قدر مشقت ہے اس کو سہل کرنے کے لئے اپنی مخصوص عنایت کا ذکر فرمایا کہ میں اپنے بندوں سے قریب ہی ہوں جب بھی وہ دعاء مانگتے ہیں میں ان کی دعائیں قبول کرتا ہوں اور ان کی حاجات کو پورا کردیتا ہوں۔
ان حالات میں بندوں کو بھی چاہئے کہ میرے احکام کی تعمیل میں کچھ مشقت بھی ہو تو برداشت کریں اور امام ابن کثیر نے اس درمیانی جملہ ترغیب دعا کی یہ حکمت بتلائی ہے کہ اس آیت میں اشارہ کردیا کہ روزہ کے بعد دعا قبول ہوتی ہے اس لئے دعاء کا خاص اہتمام کرنا چاہئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔
للصائم عند فطرہٖ دعوۃ مستجابۃ (ابوداؤد طیالسی بروایۃ عبداللہ بن عمر) یعنی روزہ افطار کرنے کے وقت روزہ دار کی دعا مقبول ہے،
اسی لئے حضرت عبداللہ بن عمر افطار کے وقت سب گھر والوں کو جمع کرکے دعا کیا کرتے تھے تفسیر آیت کی یہ ہے،
اور (اے محمد ﷺ جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق دریافت کریں (کہ میں ان سے قریب ہوں یا دور) تو (میری طرف سے ان سے فرما دیجئے کہ) میں قریب ہی ہوں (اور باستثناء نامناسب درخواست کے) منظور کرلیتا ہوں (ہر) عرضی درخواست کرنے والے کی جب کہ وہ میرے حضور میں درخواست دے سو (جس طرح میں ان کی عرض معروض کو منظور کرلیتا ہوں) ان کو چاہئے کہ میرے احکام کو (بجاآوری کے ساتھ) قبول کیا کریں (اور چونکہ ان احکام میں کوئی نامناسب نہیں اس لئے اس میں استثناء ممکن نہیں) اور مجھ پر یقین رکھیں (یعنی میری ہستی پر بھی میرے حاکم ہونے پر بھی میرے حکیم ہونے پر اور رعایت ومصالح پر بھی اس طرح) امید ہے کہ وہ لوگ رشد (و فلاح) حاصل کرسکیں گے،
مسئلہاس آیت میں اِنِّىْ قَرِيْبٌ فرما کر اس طرف اشارہ کردیا کہ دعا آہستہ اور خفیہ کرنا چاہئے دعا میں آواز بلند کرنا پسند نہیں ابن کثیر نے آیت کا شان نزول یہی ذکر کیا ہے کہ کسی گاؤں والے نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ ہمارے رب اگر ہم سے قریب ہے تو ہم آہستہ آواز سے مانگا کریں اور دور ہو تو بلند آواز سے پکارا کریں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
Top