Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 156
الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ
الَّذِيْنَ : وہ جو اِذَآ : جب اَصَابَتْهُمْ : پہنچے انہیں مُّصِيْبَةٌ : کوئی مصیبت قَالُوْٓا : وہ کہیں اِنَّا لِلّٰهِ : ہم اللہ کے لیے وَاِنَّآ : اور ہم اِلَيْهِ : اس کی طرف رٰجِعُوْنَ : لوٹنے والے
کہ جب پہنچے ان کو مصیبت تو کہیں ہم تو اللہ ہی کا مال ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں،
مصائب پر صبر کے آسان کرنے کی خاص تدبیر
فاللہ تعالیٰ کی طرف سے جو بندوں کا امتحان ہوتا ہے اس کی حقیقت آیت وَاِذِ ابْتَلٰٓى اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ کی تفسیر میں گذر چکی ہے اور حوادث کے واقع ہونے سے پہلے ان کی خبر دیدینے میں یہ فائدہ ہوا کہ صبر آسان ہوجاتا ہے ورنہ دفعۃ کوئی صدمہ پڑنے سے زیادہ پریشانی ہوتی ہے اور یہ خطاب ساری امت کو ہے تو سب کو سمجھ لینا چاہئے کہ دنیا دار المحن ہے (یعنی محنتوں اور تکلیفوں کی جگہ ہے) اس لئے یہاں کے حوادث کو عجیب اور بعید نہ سمجھا جاوے تو بےصبری نہ ہوگی اور چونکہ یہ لوگ نفس عمل صبر میں سب مشترک ہیں اس لئے اس کا صلہ مشترکہ تو عام رحمت ہے جو نفس صبر پر موعود ہے اور چونکہ مقدار اور شان اور خصوصیت پر صابر کے صبر کی جدا ہے اس لئے ان خصوصیات کا صلہ جدا جدا خاص عنایتوں سے ہوگا جو ان خاص خصوصیات پر موعود ہیں جیسے دنیا میں مواقع انعام پر دعوت طعام تو عام ہوتی پھر روپے اور جوڑے ہر ایک کو علی قدر الحیثیت والخدمت دئیے جاتے ہیں،
مصیبت میں انا للہ کو سمجھ کر پڑھا جائے تو تسکین قلب کا بہترین علاج ہے
صابرین کی طرف نسبت کرکے جو یہ فرمایا ہے کہ وہ مصیبت کے وقت انا للہ وانا الیہ راجعون کہا کرتے ہیں حقیقت میں مقصود اس کی تعلیم سے یہ ہے کہ مصیبت والوں کو ایسا کہنا چاہئے کیونکہ ایسا کہنے میں ثواب بھی بڑا ہے اور اگر دل سے سمجھ کر یہ الفاظ کہے جائیں تو غم ورنج کے دور کرنے اور قلب کو تسلی دینے کے معاملہ میں بھی اکسیر کا حکم رکھتے ہیں۔
Top