Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 153
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : جو کہ اٰمَنُوا : ایمان لائے اسْتَعِيْنُوْا : تم مدد مانگو بِالصَّبْرِ : صبر سے وَالصَّلٰوةِ : اور نماز اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ مَعَ : ساتھ الصّٰبِرِيْن : صبر کرنے والے
اے مسلمانو ! مدد لو صبر اور نماز سے، بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
ربط
تحویل قبلہ میں جو مخالفین کی طرف سے اعتراض تھا اس کے دو اثر تھے ایک مذہب اسلام پر کہ اعتراض سے مذہب کی حقانیت میں شبہ پیدا کیا جایا کرتا ہے، اوپر کی آیتوں میں اس اعتراض کا جواب دے کر اس کا اثر کا دفع کرنا مقصود تھا دوسرا اثر طبائع اہل اسلام پر کہ اعتراض سے بالخصوص جواب دینے کے بعد بھی اس پر بےجا اصرار کرنے سے قلب میں رنج اور صدمہ پیدا ہوتا ہے آیت آئندہ میں تخفیف حزن کا طریقہ کہ صبر وصلوۃ ہے بتلا کر اس دوسرے اثر کو زائل فرماتے ہیں،
خلاصہ تفسیر
اے ایمان والو ! (طبیعتوں میں غم ہلکا کرنے کے بارے میں) صبر اور نماز سے سہارا (اور مدد) حاصل کرو بلاشبہ حق تعالیٰ (ہر طرح سے) صبر کرنے والوں کے ساتھ رہتے ہیں (اور نماز پڑھنے والوں کے ساتھ تو بدرجہ اولیٰ وجہ یہ کہ نماز سب سے بڑی عبادت ہے جب صبر میں یہ وعدہ ہے تو نماز جو اس سے بڑھ کر ہے اس میں تو بدرجہ اولیٰ یہ بشارت ہوگی)
معارف و مسائل
اِسْتَعِيْنُوْا بالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ اس آیت میں یہ ہدایت ہے کہ انسان کی تمام حوائج و ضروریات کے پورا کرنے اور تمام آفات و مصائب اور تکالیف کو دور کرنے کا نسخہ اکسیر دو جزء سے مرکب ہے ایک صبر دوسرے نماز اور اس نسخہ کے تمام حوائج اور تمام مصائب کے لئے عام ہونے کی طرف قرآن عظیم نے اس طرح سے اشارہ کردیا ہے کہ اِسْتَعِيْنُوْا کو عام چھوڑا ہے کوئی خاص چیز ذکر نہیں فرمائی کہ فلاں کام میں ان دونوں چیزوں سے مدد حاصل کرو،
اس سے معلوم ہوا کہ یہ دو چیزیں ایسی ہیں کہ ان سے انسان کی ہر ضرورت میں مدد حاصل کی جاسکتی ہے تفسیر مظہری میں اس عموم کو واضح کردیا ہے اب اس دو جزئی نسخے کے دونوں اجزاء کو سمجھ لیجئے،
صبر کی اصل حقیقت
صبر کے اصلی معنی اپنے نفس کو روکنے اور اس پر قابو پانے کے ہیں قرآن وسنت کی اصطلاح میں صبر کے تین شعبے ہیں ایک اپنے نفس کو حرام و ناجائز چیزوں سے روکنا۔ دوسرے طاعات و عبادات کی پابندی پر مجبور کرنا تیسرے مصائب وآفات پر صبر کرنا یعنی جو مصیبت آگئی اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سمجھنا اور اس کے ثواب کا امیدوار ہونا اس کے ساتھ اگر تکلیف و پریشانی کے اظہار کا کوئی کلمہ بھی منہ سے نکل جائے تو وہ صبر کے منافی نہیں (ذکرہ ابن کثیر عن سعید بن جبیر)
یہ تینوں شعبے صبر کے فرائض میں داخل ہیں ہر مسلمان پر یہ پابندی عائد ہے کہ تینوں طرح کے صبر کا پابند ہو عوام کے نزدیک صرف تیسرے شعبے کو تو صبر کہا جاتا ہے دو شعبے جو صبر کی اصل اور بنیاد ہیں عام طور پر ان کو صبر میں داخل ہی نہیں سمجھا جاتا،
قرآن و حدیث کی اصطلاح میں صابرین انھیں لوگوں کا لقب ہے جو تینوں طرح کے صبر میں ثابت قدم ہوں بعض روایات میں ہے کہ محشر میں نداء کی جائے گی کہ صابرین کہاں ہیں ؟ تو وہ لوگ جو تینوں طرح کے صبر پر قائم رہ کر زندگی سے گذرے ہیں وہ کھڑے ہوجائیں گے اور ان کو بلاحساب جنت میں داخلہ کی اجازت دے دیجائے گی ابن کثیر نے اس روایت کو نقل کرکے فرمایا کہ آیت قرآن اِنَّمَا يُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ (10: 39) سے بھی اس طرف اشارہ ہوتا ہے ،
نماز، دوسرا جزء اس نسخہ کا جو تمام انسانی ضروریات کو پورا کرنے اور تمام پریشانیوں اور آفتوں سے نجات دلانے میں اکسیر ہے نماز ہے صبر کی جو تفسیر ابھی لکھی گئی ہے اس سے معلوم ہوگیا ہے کہ درحقیقت نماز اور تمام عبادات صبر ہی کے جزئیات ہیں مگر نماز کو جداگانہ بیان اس لئے کردیا کہ تمام عبادات میں سے نماز ایک ایسی عبادت ہے جو صبر کا مکمل نمونہ ہے کیونکہ نماز کی حالت میں نفس کو عبادت وطاعت پر محبوس بھی کیا جاتا ہے اور تمام معاصی ومکروہات سے بلکہ بہت سے مباحات سے بھی نفس کو بحالت نماز روکا جاتا ہے اس لئے صبر جس کے معنی نفس کو اپنے قابو میں رکھ کر تمام طاعات کا پیرو اور تمام معاصی سے مجتنب و بیزار بنانا ہے نماز اس کی ایک عملی تمثیل ہے،
اس کے علاوہ نماز کو انسان کی تمام حاجات کے پورا کرنے اور تمام آفتوں مصیبتوں سے نجات دلانے میں ایک خاص تاثیر بھی ہے گو اس کی وجہ اور سبب معلوم نہ ہو جیسے دواؤں میں بہت سی ادویات کو مؤ ثر بالخاصہ تسلیم کیا جاتا ہے، یعنی کیفیات حرارت وبرودت کے حساب سے جیسے کسی خاص مرض کے ازالہ کے لئے بعض دوائیں بالخاصہ مؤ ثر ہوتی ہیں جیسے درد گردہ کے لئے فرنگی دانہ کو ہاتھ یا منہ میں رکھنا اور بہت سے امراض کے لئے عود صلیب وغیرہ کو گلے میں ڈالنا مؤ ثر بالخاصہ ہے سبب نامعلوم ہے لوہے کو کھنچنے میں مقناطیس مؤ ثر بالخاصہ ہے وجہ معلوم نہیں اسی طرح نماز تمام انسانی ضروریات کی کفالت اور تمام مصائب سے نجات دلانے میں مؤ ثر باالخاصہ ہے بشرطیکہ نماز کو نماز کی طرح آداب اور خشوع خضوع کے ساتھ پڑھا جائے ہماری جو نمازیں غیر مؤ ثر نظر آتی ہیں اس کا سبب ہمارا قصور ہے کہ نماز کے آداب اور خشوع و خضوع میں کوتاہی ہوتی ہے ورنہ رسول اللہ ﷺ کی عادت شریفہ یہ تھی کہ جب کوئی مہم پیش آتی تو نماز کی طرف رجوع فرماتے تھے اور اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ اس مہم کو پورا فرما دیتے تھے حدیث میں ہے،
اذاحزبہ امر فزع الی الصلوٰۃ۔ یعنی رسول اللہ ﷺ کو جب کوئی ضرورت پیش آتی تو نماز کی طرف رجوع فرمایا کرتے تھے۔
صبر اور نماز تمام مشکلات و مصائب سے نجات کا سبب اس لئے ہے کہ صبر سے اللہ تعالیٰ کی معیت نصیب ہوتی ہے
اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ اس کلمہ میں اس کا راز بتلا دیا گیا ہے کہ صبر حل مشکلات اور دفع مصائب کا سبب کیسے بنتا ہے ارشاد کا حاصل یہ ہے کہ صبر کے نتیجہ میں انسان کو حق تعالیٰ کی معیت نصیب ہوتی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ جس شخص کے ساتھ رب العزت کی طاقت ہو اس کا کونسا کام رک سکتا ہے اور کونسی مصیبت اس کو عاجز کرسکتی ہے،
Top