Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 131
اِذْ قَالَ لَهٗ رَبُّهٗۤ اَسْلِمْ١ۙ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
اِذْ قَالَ : جب کہا لَهُ : اس کو رَبُّهُ : اس کا رب اَسْلِمْ : تو سر جھکا دے قَالَ : اس نے کہا اَسْلَمْتُ : میں نے سر جھکا دیا لِرَبِّ : رب کے لئے الْعَالَمِينَ : تمام جہان
یاد کرو جب اس کو کہا اس کے رب نے کہ حکم برداری کر تو بولا کہ میں حکم بردار ہوں تمام عالم کے پروردگار کا،
ملت ابراہیمی کا بنیادی اصول اسلام یعنی اطاعت حق ہے وہ صرف اسلام میں منحصر ہے
اس کے بعد دوسری آیت میں ملت ابراہیمی کے بنیادی اصول بتلائے گئے ارشاد ہوا۔
اِذْ قَالَ لَهٗ رَبُّهٗٓ اَسْلِمْ ۙ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ یعنی جب فرمایا ابراہیم ؑ سے ان کے رب نے کہ اطاعت اختیار کرو تو انہوں نے عرض کیا کہ میں نے اطاعت اختیار کی رب العالمین کی اس طرز بیان میں یہ بات بھی قابل نظر ہے کہ اللہ جل شانہ کے خطاب اسلم کا جواب بظاہر خطاب ہی کے انداز میں یہ ہونا چاہئے کہ اَسْلَمْتُ لَکَ یعنی میں نے آپ کی اطاعت اختیار کرلی مگر حضرت خلیل اللہ ؑ نے اس طرز خطاب کو چھوڑ کر یوں عرض کیا کہ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ یعنی میں نے پروردگار عالم کی اطاعت اختیار کرلی ایک تو اس میں رعایت ادب کے ساتھ اور حق جل وعلا شانہ کی حمد وثناء شامل ہوگئی جس کا مقام تھا دوسری اس کا اظہار ہوگیا کہ میں نے جو اطاعت اختیار کی وہ کسی پر احسان نہیں کیا بلکہ میرے لئے اس کا کرنا ہی ناگزیر تھا کیونکہ وہ رب العلمین یعنی سارے جہان کا پروردگار ہے سارے جہان اور جہان والوں کو اس کی اطاعت کے سوا کوئی چارہ کار نہیں جس نے اطاعت اختیار کی اس نے اپنا فرض ادا کرکے اپنا نفع حاصل کیا اس میں یہ بھی معلوم ہوگیا کہ ملت ابراہیمی کا بنیادی اصول اور پوری حقیقت ایک لفظ اسلام میں مضمر ہے جس کے معنی ہیں اطاعت حق اور یہی خلاصہ ہے حضرت ابراہیم ؑ کے مذہب ومسلک کا اور یہی حاصل ہے ان امتحانات کا جن سے گزر کر اللہ تعالیٰ کا یہ خلیل اپنے مقام عالی تک پہنچا ہے اور اسلام یعنی اطاعت حق ہی وہ چیز ہے جس کے لئے یہ سارا جہاں بنایا گیا اور جس کے لئے انبیاء (علیہم السلام) بھیجے گئے آسمانی کتابیں نازل کی گئیں،
اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اسلام ہی تمام انبیاء (علیہم السلام) کا مشترک دین اور نقطہ وحدت ہے حضرت آدم سے لے کر خاتم الانبیاء ﷺ تک ہر آنے والے رسول اور نبی نے اسی کی طرف دعوت دی اسی میں اپنی اپنی امت کو چلایا قرآن کریم نے واضح الفاظ میں فرمایا،
1۔ اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ (19: 3) دین تو اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے
2۔ وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُ (85: 3) اور جو شخص اسلام کے سوا کوئی دوسرا دین و مذہب اختیار کرے وہ مقبول نہیں،
اور ظاہر ہے کہ جتنے دین و مذہب مختلف انبیاء (علیہم السلام) لائے ہیں وہ سب اپنے اپنے وقت میں اللہ کے نزدیک مقبول تھے اس لئے ضروری ہے کہ وہ سب دین دین اسلام ہی ہوں اگرچہ نام ان کا کچھ بھی رکھ دیا جائے، دین موسیٰ ؑ وعیسیٰ ؑ کہا جائے یا یہودیت ونصرانیت وغیرہ مگر حقیقت سب کی اسلام ہے جس کا حاصل اطاعت حق ہے البتہ اس میں ایک خصوصیت ملت ابراہیمی کو حاصل ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی ملت کا نام بھی اسلام تجویز کیا اور اپنی امت کو بھی امت مسلمہ کا نام دیا دعا میں عرض کیا،
رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَآ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ (128: 2) اے ہمارے پروردگار بنادیجئے ہم دونوں (ابراہیم، اسمٰعیل) کو مسلم (یعنی اپنا فرمانبردار) اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک جماعت کو اپنا فرمانبردار بنا، اولاد کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا،
فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ (132: 2) تم بجز مسلم ہونے کے کسی مذہب پر جان نہ دینا۔
حضرت ابراہیم ؑ کے بعد یہ خصوصی امتیاز حضرت ابراہیم ؑ ہی کی تجویز کے مطابق امت محمدیہ (علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) کو حاصل ہوا کہ اس کا نام امت مسلمہ رکھا گیا اور اس کی ملت بھی ملت اسلامیہ کے نام سے معروف ہوئی قرآن کریم کا ارشاد ہے،
مِلَّـةَ اَبِيْكُمْ اِبْرٰهِيْمَ ۭهُوَ سَمّٰىكُمُ الْمُسْلِـمِيْنَ ڏ مِنْ قَبْلُ وَفِيْ ھٰذَا (78: 22) تم اپنے باپ ابراہیم ؑ کے دین پر قائم رہو اس نے تمہارا لقب مسلمان رکھا ہے پہلے بھی اور اس میں بھی (یعنی قرآن میں)
کہنے کو تو یہود بھی یہی کہتے ہیں کہ ہم ملت ابراہیم ؑ پر ہیں نصاریٰ بھی اور مشرکین عرب بھی لیکن یہ سب غلط فہمی یا جھوٹے دعوے تھے حقیقت میں ملت محمدیہ ہی آخری دور میں ملت ابراہیمی اور دین فطرت کے مطابق تھی،
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جتنے انبیاء (علیہم السلام) تشریف لائے اور جتنی کتابیں اور شرائع نازل ہوئے ان سب کی روح اسلام یعنی اطاعت حق ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ نفسانی خواہشات کے مقابلہ میں فرمان حق کی اطاعت اور اتباع ہوٰی کو چھوڑ کر اتباع ہدیٰ کی پابندی،
افسوس ہے کہ آج اسلام کا نام لینے والے لاکھوں مسلمان بھی اس حقیقت سے بیگانہ ہوگئی اور دین و مذہب کے نام پر بھی اپنی خواہشات کا اتباع کرنا چاہتے ہیں انھیں قرآن و حدیث کی صرف وہ تفسیر و تعبیر بھلی ہوتی ہے جو ان کی خواہش کے مطابق ہو ورنہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ جامہ شریعت کو کھینچ تان کر بلکہ چیر پھاڑ کر اپنی اغراض اور اہوا نفسانی کے بتوں کا لباس بنادیں کہ دیکھنے میں دین و مذہب کا اتباع نظر آئے اگرچہ وہ حقیقت میں خالص اتباع ہویٰ اور خواہشات کی پیروی ہے،
سو وہ شد از سجدہ راہ بتاں پیشانیم
چند بر خود تہمت دین مسلمانی نہم
غافل انسان یہ نہیں جانتا کہ یہ حیلے اور تاویلیں مخلوق کے سامنے تو چل سکتی ہیں مگر خالق کے سامنے جس کا علم ذرہ ذرہ کو محیط ہے جو دلوں کے چھپے ہوئے ارادوں بھیدوں کو دیکھتا اور جانتا ہے اس کے آگے بجز خالص اطاعت کے کوئی چیز کارگر نہیں،
کارہا با خلق آری جملہ راست
با خدا تزویر وحیلہ کے رد است
حقیقی اسلام یہ ہے کہ اپنی اغراض اور خواہشات سے بالکل خالی الذہن ہو کر انسان کو اس کی تلاش ہو کہ حضرت حق جل شانہ کی رضا کس کام میں ہے اور اس کا فرمان میرے لئے کیا ہے وہ ایک فرنبردار غلام کی طرح گوش برآواز رہے کہ کس طرف جانے کا اور کس کام کا حکم ہوتا ہے اور اس کام کو کس انداز سے کیا جائے جس سے وہ مقبول ہوا اور میرا مالک راضی ہو اسی کا نام عبادت و بندگی ہے،
در راہ عشق وسوسہ اہرمن بسے ست
ہشدار وگوش رابہ پیام سروش دار
اسی جذبہ اطاعت و محبت کا کمال انسان کی ترقی کا آخری مقام ہے جس کو مقام عبدیت کہا جاتا ہے یہی وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر حضرت ابراہیم ؑ خلیل اللہ کا خطاب پاتے ہیں اور سید الرسل خاتم الانبیاء ﷺ کو عبدنا کا خطاب ملتا ہے اسی عبدیت اور اطاعت کے ذیلی درجات پر امت کے اولیاء اقطاب وابدال کے درجات دائر ہوتے ہیں اور یہی حقیقی توحید ہے جس کے حاصل ہونے پر انسان کے خوف وامید صرف ایک اللہ تعالیٰ کے ساتھ وابستہ ہوجاتے ہیں،
امید و ہراسش نباشد زکس
ہمیں ست بنیاد توحید وبس
غرض اسلام کے معنی اور حقیقت اطاعت حق ہے اور اس کا راستہ صرف اتباع سنت رسول اللہ ﷺ میں منحصر ہے جس کو قرآن کریم نے واضح الفاظ میں اس طرح ارشاد فرمایا
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤ ْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا (65: 4)
تیرے رب کی قسم وہ کبھی مومن نہ ہوں گے جب تک وہ آپ کو اپنے تمام اختلافی معاملات میں حاکم تسلیم نہ کرلیں اور پھر آپ کے فیصلہ سے کوئی دلی تنگی محسوس نہ کریں اور فیصلہ کو ٹھنڈے دل سے تسلیم نہ کریں،
مسئلہآیت مذکورہ میں حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی اولاد کو وصیت فرمائی اور ان سے عہد لیا وہ یہ تھا کہ اسلام کے سوا اور کسی حالت اور کسی ملت پر نہ مرنا مراد اس کی یہ ہے کہ اپنی زندگی میں اسلام اور اسلامی تعلیمات پر پختگی سے عمل کرتے رہو تاکہ اللہ تعالیٰ تمہارا خاتمہ بھی اسلام پر فرما دے جیسا کہ بعض روایات میں ہے کہ تم اپنی زندگی میں جس حالت کے پابند رہو گے اسی حالت پر تمہاری موت بھی ہوگی اور اسی حالت میں محشر میں قائم ہوگے اللہ جل شانہ کی عادت یہی ہے کہ جو بندہ نیکی کا قصد کرتا ہے اور اس کے لئے اپنے مقدور کے مطابق کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو نیکی کی توفیق دیدیتے ہیں اور یہ کام اس کے لئے آسان کردیتے ہیں،
اس معا ملہ میں اس حدیث سے شبہ نہ کیا جائے جس میں یہ ارشاد ہے کہ بعض آدمی جنت کے کام اور اہل جنت کا عمل ہمیشہ کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس شخص اور جنت کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فیصلہ رہ جاتا ہے مگر پھر اس کی تقدیر غالب آجاتی ہے اور اہل دوزخ کے سے کام کرنے لگتا ہے اور انجام کار دوزخ میں جاتا ہے اسی طرح بعض آدمی دوزخ کے کام میں مشغول رہتا ہے، یہاں تک کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے پھر تقدیر غالب آتی ہے اور آخر عمر میں اہل جنت کے کام کرنے لگتا ہے اور جنت میں داخل ہوجاتا ہے،
وجہ یہ ہے کہ اس حدیث کے بعض الفاظ میں یہ قید بھی لگی ہوئی ہے کہ فیما یبدو للناس یعنی جس نے عمر بھر جنت کے کام کئے اور آخر میں دوزخ کے کام میں لگا درحقیقت اس کے پہلے کام بھی دوزخ ہی کے عمل تھے مگر لوگوں کے ظاہر میں اور دیکھنے میں وہ اہل جنت کے عمل معلوم ہوتے تھے اسی طرح جو دوزخ کے اعمال میں مشغول رہا آخر میں جنت کے کام کرنے لگا درحقیقت وہ اول ہی سے جنت کے کام میں تھا مگر ظاہر نظر میں لوگ اس کو گناہگار سمجھتے تھے (ابن کثیر)
خلاصہ یہ ہے کہ جو آدمی نیک کام میں مشغول رہے اس کو اللہ تعالیٰ کے وعدہ اور عادت کی بناء پر یہی امید رکھنی چاہئے کہ اس کا خاتمہ بھی نیکی پر ہوگا،
Top