Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 129
رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِكَ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُزَكِّیْهِمْ١ؕ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ۠   ۧ
رَبَّنَا : اے ہمارے رب وَابْعَثْ : اور بھیج فِيهِمْ : ان میں رَسُوْلًا : ایک رسول مِنْهُمْ : ان میں سے يَتْلُوْ : وہ پڑھے عَلَيْهِمْ : ان پر آيَاتِکَ : تیری آیتیں وَ : اور يُعَلِّمُهُمُ : انہیں تعلیم دے الْكِتَابَ : کتاب وَ : اور الْحِكْمَةَ : حکمت وَيُزَكِّيهِمْ : اور انہیں پاک کرے اِنَکَ اَنْتَ : بیشک تو الْعَزِيزُ : غالب الْحَكِيمُ : حکمت والا
اے پروردگار ہمارے اور بھیج ان میں ایک رسول انہی میں کا کہ پڑھ ان پر تیری آیتیں اور سکھلائے ان کو کتاب اور تہ کی باتیں اور پاک کرے ان کو بہشک تو ہی ہے بہت زبردست بڑی حکمت والا۔
خلاصہ تفسیر
اے ہمارے پروردگار اور (یہ بھی دعا ہے کہ) اس جماعت کے اندر (جس کے پیدا ہونے کی دعا اپنی اولاد میں سے کر رہے ہیں) انہی میں کا ایک ایسا پیغمبر بھی مقرر کیجئے جو ان لوگوں کو آپ کی آیات پڑھ کر سنایا کریں اور ان کو (آسمانی) کتاب (کے مضامین) کی اور (اس میں) خوش فہمی (کا سلیقہ حاصل کرنے) کی تعلیم دیا کریں اور ان کو (اس تعلیم و تلاوت کے ذریعہ جہالت کے خیالات اور اعمال سے) پاک کریں بلاشبہ آپ ہی ہیں غالب القدرت کامل الانتظام،
تشریح لغات
يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِكَ مصدر تلاوۃ سے مشتق ہے، تلاوت کے اصلی معنی اتباع اور پیروی کے ہیں اصطلاح قرآن و حدیث میں یہ لفظ قرآن کریم اور دوسری آسمانی کتابوں اور کلام الہی کے پڑھنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ اس کلام کے پڑھنے والے کو اس کا پورا اتباع کرنا لازم ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ٹھیک اسی طرح پڑھنا ضروری ہے اپنی طرف سے کسی لفظ یا اس کی حرکات میں کمی بیشی یا تبدیلی کی اجازت نہیں امام راغب اصفہانی نے مفردات القرآن میں فرمایا ہے کہ کلام الہی کے سوا کسی دوسری کتاب یا کلام کے پڑھنے کو عرفاً تلاوت نہیں کہا جاسکتا،
وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ اس میں کتاب سے مراد کتاب اللہ ہے اور الحکمۃ کا لفظ عربی لغت میں کئی معنے کے لئے آتا ہے حق بات پر پہونچنا، عدل و انصاف، علم وحلم وغیرہ (قاموس) امام راغب اصفہانی لکھتے ہیں کہ یہ لفظ جب اللہ تعالیٰ کے لئے بولا جاتا ہے تو اس کے معنی تمام اشیاء کی پوری معرفت اور مستحکم ایجاد کے ہوتے ہیں اور جب غیر اللہ کے لئے بولا جائے تو موجودات کی صحیح معرفت اور نیک اعمال کے لئے جاتے ہیں ترجمہ شیخ الہند میں اس کا ترجمہ تہہ کی باتیں اسی مفہوم کو ادا کرتا ہے اور لفظ حکمت عربی زبان میں کئی معنی کے لئے بولا جاتا ہے علم صحیح، نیک عمل عدل و انصاف قول صادق وغیرہ (قاموس وراغب)
اس لئے دیکھنا ہے کہ اس آیت میں لفظ حکمت سے کیا مراد ہے مفسریں صحابہ کرام ؓ اجمعین وتابعین جو معانی قرآنی کی تشریح آنحضرت ﷺ سے سیکھ کر کرتے ہیں اس جگہ لفظ حکمت کے معنی بیان کرنے میں اگرچہ ان کے الفاظ مختلف ہیں لیکن خلاصہ سب کا ایک ہی ہے یعنی سنت رسول اللہ ﷺ ، امام تفسیر ابن کثیر وابن جریر نے حضرت قتادہ سے یہی تفسیر نقل کی ہے کسی نے تفسیر قرآن اور کسی نے تفقہ فی الدین فرمایا ہے اور کسی نے علم احکام شرعیہ کہا اور کسی نے کہا کہ ایسے احکام الہہ کا علم جو رسول اللہ ﷺ کے ہی بیان سے معلوم ہوسکتے ہیں ظاہر ہے کہ ان سب کا حاصل وہی حدیث وسنت رسول اللہ ﷺ ہے،
لفظ وَيُزَكِّيْهِمْ زکوٰۃ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں طہارت اور پاکی اور یہ لفظ ظاہری اور باطنی ہر طرح کی پاکی کے لئے بولا جاتا ہے،
معارف و مسائل
تشریح مذکور سے آیت کا مفہوم واضح ہوگیا کہ حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی آئندہ نسل کی فلاح دنیا وآخرت کے واسطے حق تعالیٰ سے یہ دعا کی میری اولاد میں ایک رسول بھیج دیجئے جو ان کو آپکی آیات تلاوت کرکے سنائے اور قرآن وسنت کی تعلیم دے اور ان کو ظاہری و باطنی گندگیوں سے پاک کرے اس میں حضرت خلیل اللہ ؑ نے اس رسول کے لئے اپنی اولاد میں ہونے کی اس لئے دعا فرمائی کہ اول تو یہ اپنی اولاد کے لئے سعادت وشرف ہے دوسرے ان لوگوں کے لئے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ رسول جب انہی کی قوم اور برادری کے اندر ہوگا تو اس کے چال چلن سیرت و حالات سے یہ لوگ بخوبی واقف ہوں گے کسی دھوکہ فریب میں مبتلا نہ ہوں گے، حدیث میں ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کو اس دعاء کا جواب حق تعالیٰ کی طرف سے یہ ملا کہ آپ کی دعا قبول کرلی گئی اور یہ رسول آخری زمانہ میں بھیجے جائیں گے (ابن جریر وابن کثیر)
رسول اللہ ﷺ کی بعثت کی خصوصیات
مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک خاتم النبیین اس وقت تھا جبکہ آدم ؑ پیدا بھی نہیں ہوئے تھے بلکہ ان کا خمیر ہی تیار ہو رہا تھا اور میں آپ لوگوں کو اپنے معاملہ کی ابتداء بتلاتا ہوں کہ میں اپنے باپ حضرت ابراہیم ؑ کی دعا اور حضرت عیسیٰ ؑ کی بشارت اور اپنی والدہ ماجدہ کے خواب کا مظہر ہوں عیسیٰ ؑ کی بشارت سے مراد ان کا یہ قول ہے وَمُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ يَّاْتِيْ مِنْۢ بَعْدِي اسْمُهٗٓ اَحْمَدُ (6: 61) اور والدہ ماجدہ نے حالت حمل میں یہ خواب دیکھا تھا کہ میرے بطن سے ایک نور نکلا جس سے ملک شام کے محلات جگمگا اٹھے پھر قرآن میں آنحضرت ﷺ کی بعثت کا تذکرہ کرتے ہوئے دو جگہ سورة آل عمران (آیت نمبر 164) اور سورة جمعہ آیت نمبر 2 میں انہی الفاظ کا اعادہ کیا گیا ہے جو حضرت ابراہیم ؑ کی دعاء میں یہاں مذکور ہیں جس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے جس رسول کے بھیجنے کی دعا فرمائی تھی وہ آنحضرت ﷺ ہی ہیں آیت کے الفاظ کی تشریح اور اس کا مفہوم واضح ہوجانے کے بعد اس پر غور کیجئے،
بعثت رسول کے تین مقاصد
سورة بقرہ کی اس آیت میں اور سورة آل عمران اور سورة جمعہ کی آیات میں آنحضرت ﷺ کے متعلق ایک ہی مضمون ایک ہی طرح کے الفاظ میں آیا ہے جن میں آنحضرت ﷺ کے اس دنیا میں تشریف لانے کے مقاصد یا آپ کے عہدہ نبوت و رسالت کے فرائض منصبی تین بیان کئے گئے ہیں ایک تلاوت آیات دوسرے تعلیم کتاب و حکمت تیسرے لوگوں کا تزکیہ اخلاق وغیرہ۔
پہلا مقصد تلاوت آیات
یہاں پہلی بات قابل غور ہے کہ تلاوت کا تعلق الفاظ سے ہے اور تعلیم کا معانی سے یہاں تلاوت وتعلیم کو الگ الگ بیان کرنے سے یہ حاصل ہوا کہ قرآن کریم میں جس طرح معانی مقصود ہیں اس کے الفاظ بھی مستقل مقصود ہیں ان کی تلاوت و حفاظت فرض اور اہم عبادت ہے یہاں یہ بات بھی قابل نظر ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بلا واسطہ شاگرد اور مخاطب خاص وہ حضرات تھے جو عربی زبان کے نہ صرف جاننے والے بلکہ اس کے فصیح وبلیغ خطیب اور شاعر بھی تھے ان کے سامنے قرآن عربی کا پڑھ دینا بھی بظاہر ان کی تعلیم کیلئے کافی تھا ان کو الگ سے ترجمہ و تفسیر کی ضرورت نہ تھی تو پھر تلاوت آیات کو ایک علیحدہ مقصد اور تعلیم کتاب کو جداگانہ دوسرا مقصد رسالت قرار دینے کی کیا ضرورت تھی جبکہ عمل کے اعتبار سے یہ دونوں مقصد ایک ہی ہوجاتے ہیں اس میں غور کیا جائے تو دو اہم نتیجے آپ کے سامنے آئیں گے اول یہ کہ قرآن کریم دوسری کتابوں کی طرح ایک کتاب نہیں جس میں صرف معانی مقصود ہوتے ہیں الفاظ ایک ثانوی حیثیت رکھتے ہیں ان میں اگر معمولی تغیر وتبدل بھی ہوجائے تو کوئی حرج نہیں سمجھا جاتا ان کے الفاظ بغیر معنے سمجھے ہوئے پڑہتے رہنا بالکل لغو و فضول ہے بلکہ قرآن کریم کے جس طرح معانی مقصود ہیں اسی طرح الفاظ بھی مقصود ہیں اور الفاظ قرآن کے ساتھ خاص خاص احکام شرعیہ بھی متعلق ہیں یہی وجہ ہے کہ اصول فقہ میں قرآن کریم کی یہ تعریف کی گئی ہے کہ ھو النظم والمعنی جمیعا یعنی قرآن نام ہے الفاظ یا دوسری زبان میں لکھا جائے تو وہ قرآن کہلانے کا مستحق نہیں اگرچہ مضامین بالکل صحیح درست ہی ہوں ان مضامین قرآنیہ کو بدلے ہوئے الفاظ میں اگر کوئی شخص نماز میں پڑھ لے تو نماز ادا نہ ہوگی اسی طرح وہ تمام احکام جو قرآن سے متعلق ہیں اس پر عائد نہیں ہوں گے، قرآن کریم کی تلاوت کا جو ثواب احادیث صحیہ میں وارد ہے وہ بدلی ہوئی زبان یا بدلے ہوئے الفاظ پر مرتب نہیں ہوگا اور اسی لئے فقہائے امت نے قرآن کریم کا صرف ترجمہ بلا متن قرآن کے لکھنے اور چھاپنے کو ممنوع فرمایا ہے جس کو عرف میں اردو کا قرآن یا انگریزی کا قرآن کہہ دیا جاتا ہے کیونکہ درحقیقت جو قرآن اردو یا انگریزی میں نقل کیا گیا وہ قرآن کہلانے کا مستحق نہیں،
خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت میں رسول اللہ ﷺ کے فرائض منصبی میں تعلیم کتاب سے علیحٰدہ تلاوت آیات کو جداگانہ فرض قرار دے کر اس کی طرف اشارہ کردیا کہ قرآن کریم میں جس طرح اس کے معانی مقصود ہیں اسی طرح اس کے الفاظ بھی مقصود ہیں کیونکہ تلاوت الفاظ کی ہوتی ہے معانی کی نہیں اسی لئے جس طرح رسول کے فرائض میں معانی کی تعلیم داخل ہے اسی طرح الفاظ کی تلاوت اور حفاظت بھی ایک مستقل فرض ہے اس میں شبہ نہیں کہ قرآن کریم کے نزول کا اصل مقصد اس کے بتائے ہوئے نظام زندگی پر عمل کرنا اور اس کی تعلیمات کو سمجھنا اور سمجھانا ہے محض اس کے الفاظ رٹ لینے پر قناعت کرکے بیٹھ جانا قرآن کریم کی حقیقت سے بیخبر ی اور اس کی بےقدری ہے،
قرآن کریم کے الفاظ اگر بےسمجھے بھی پڑھے جائیں تو بیکار نہیں بلکہ ثواب عظیم ہیں
لیکن اس کے ساتھ یہ کہنا کسی طرح صحیح نہیں کہ جب تک قرآن کریم کے الفاظ کے معانی نہ سمجھے طوطے کی طرح اس کے الفاظ پڑھنا فضول ہے یہ اس لئے واضح کر رہا ہوں کہ آج کل بہت سے حضرات قرآن کریم کو دوسری کتابوں پر قیاس کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک کسی کتاب کے معنی نہ سمجھیں تو اس کے الفاظ کا پڑھنا پڑھانا وقت ضائع کرنا ہے مگر قرآن کریم میں ان کا یہ خیال صحیح نہیں ہے کیونکہ قرآن الفاظ معنی دونوں کا نام ہے جس طرح ان کے معانی کا سمجھنا اور اس کے دیئے ہوئے۔
احکام پر عمل کرنا فرض اور اعلیٰ عبادت ہے اسی طرح اس کے الفاظ کی تلاوت بھی ایک مستقل عبادت اور ثواب عظیم ہے،
دوسرا مقصد تعلیم کتاب
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام جو معانی قرآنی کو سب سب زیادہ جاننے والے اور سمجھنے والے تھے انہوں نے محض معنی سمجھ لینے اور عمل کرلینے کو کافی نہ سمجھا سمجھنے اور عمل کرنے کے لئے تو ایک مرتبہ پڑھ لینا کافی ہوتا انہوں نے ساری عمر تلاوت قرآن کو حرز جان بنائے رکھا بعضے صحابہ روزانہ ایک قرآن مجید ختم کرتے تھے بعض دو دن میں اور اکثر حضرات تین دن میں ختم قرآن کے عادی تھے اور ہر ہفتہ میں قرآن ختم کرنے کا تو پوری امت کا معمول رہا ہے قرآن کریم کی سات منزلیں اسی ہفتہ واری معمول کی علامت ہیں رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کا یہ عمل بتلا رہا ہے کہ جس طرح قرآن کے معانی کا سمجھنا اور عمل کرنا اصلی عبادت ہے اسی طرح اس کے الفاظ کی تلاوت بھی بجائے خود ایک اعلیٰ عبادت اور موجب انوار و برکات اور سرمایہ سعادت ونجات ہے اس لئے رسول اللہ ﷺ کے فرائض منصبی میں تلاوت آیات کو ایک مستقل حیثیت دی گئی مقصد یہ ہے کہ جو مسلمان فی الحال معانی قرآن کو نہیں سمجھتے وہ اس بدنصیبی میں مبتلا نہ ہوجائیں کہ الفاظ کو فضول سمجھ کر اس سے بھی محروم ہوجائیں کوشش کرتے رہنا ضروری ہے کہ وہ قرآن کے معانی کو سمجھیں تاکہ قرآن کریم کے حقیقی انوار و برکات کا مشاہدہ کریں اور نزول قرآن کا اصلی مقصد پورا ہو قرآن کو معاذ اللہ جنتر منتر کی طرح صرف جھاڑ پھونک میں استعمال کی چیز نہ بنائیں اور بقول اقبال مرحوم سورة یٰسینٓ کو صرف اس کام کے لئے نہ سمجھیں کہ اس کے پڑھنے سے مرنے والے کی جان سہولت سے نکل جاتی ہے،
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس آیت میں فرائض رسول بیان کرتے ہوئے تلاوت آیات کو مستقل فرض کی حیثیت دے کر اس پر تنبیہ کردی گئی ہے کہ قرآن کریم کے الفاظ کی تلاوت اور ان کی حفاظت اور ان کو ٹھیک اس لب و لہجہ میں پڑھنا جس پر وہ نازل ہوئے ہیں ایک مستقل فرض ہے اسی طرح تلاوت آیات کے فرض کے ساتھ تعلیم کتاب کو جداگانہ فرض قرار دینے سے ایک دوسرا اہم نتیجہ یہ نکلا کہ قرآن فہمی کے لئے صرف عربی زبان کا جان لینا کافی نہیں بلکہ تعلیم رسول کی ضرورت ہے جیسے کہ تمام علوم وفنون میں یہ بات معلوم ومشاہد ہے کہ کسی فن کی کتاب کے مفہوم کو سمجھنے کے لئے محض اس کتاب کی زبان جاننا بلکہ زبان کا ماہر ہونا بھی کافی نہیں جب تک کہ اس فن کو کسی ماہر استاذ سے حاصل نہ کیا جائے مثلاً آج کل ڈاکٹری ہومیوپیتھک اور ایلوپیتھک کی کتابیں عموماً انگریزی زبان میں ہیں لیکن ہر شخص جانتا ہے کہ محض انگریزی زبان میں مہارت پیدا کرلینے اور ڈاکٹری کی کتابوں کا مطالعہ کرلینے سے کوئی شخص ڈاکٹر نہیں بن سکتا انجینئرنگ کی کتابیں پڑھنے سے کوئی انجینئر نہیں بن سکتا بڑے فنون تو اپنی جگہ پر ہیں معمولی روزمرہ کے کام محض کتاب کے مطالعہ سے بغیر استاد سے سیکھے ہوئے حاصل نہیں ہوسکتے آج تو ہر صنعت وحرفت پر سینکڑوں کتابیں لکھی ہوئی ہیں فوٹو دیکھ کر کام سکھانے کے طریقے بتائے ہیں لیکن ان کتابوں کو دیکھ کر نہ کوئی درزی بنتا ہے نہ باورچی یا لوہار اگر محض زبان جان لینا کسی فن کے حاصل کرنے اور اس کی کتاب سمجھنے کے لئے کافی ہوتا تو دنیا کے سب فنون اس شخص کو حاصل ہوجاتے جو ان کتابوں کی زبان جانتا ہے اب ہر شخص غور کرسکتا ہے کہ معمولی فنون اور ان کے سمجھنے کے لئے جب محض زبان دانی کافی نہیں تعلیم استاد کی ضرورت ہے تو مضامین قرآن جو علوم الہیہ سے لے کر طبعیات وفلسفہ تک تمام گہرے دقیق علوم پر مشتمل ہے وہ محض عربی زبان جان لینے سے کیسے حاصل ہوسکتے ہیں اور اگر یہی ہوتا تو جو شخص عربی زبان سیکھ لے وہ معارف قرآن کا ماہر سمجھا جائے تو آج ہزاروں یہودی اور نصرانی عرب ممالک میں عربی زبان کے بڑے ماہر ادیب ہیں وہ سب سے بڑے مفسر قرآن مانے جاتے اور عہد رسالت میں ابوجہل، ابولہب قرآن کے ماہر سمجھے جاتے،
غرض یہ ہے کہ قرآن کریم نے ایک طرف تو رسول کے فرائض میں تلاوت آیات کو ایک مستقل فرض قرار دیا دوسری طرف تعلیم کتاب کو جداگانہ فرض قرار دے کر بتلا دیا کہ محض تلاوت آیات کا سن لینا فہم قرآن کے لئے عربی زبان جاننے والوں کے واسطے بھی کافی نہیں بلکہ تعلیم رسول اللہ ﷺ ہی کے ذریعہ قرآنی تعلیم کا صحیح علم حاصل ہوسکتا ہے قرآن کو تعلیمات رسول اللہ ﷺ سے جدا کرکے خود سمجھنے کی فکر خود فریبی کے سوا کچھ نہیں اگر مضامین قرآنی کو بتلانے سکھانے کی ضرورت نہ ہوتی تو رسول کو بھیجنے ہی کی کوئی حاجت نہ تھی اللہ کی کتاب کسی دوسری طرح بھی انسانوں تک پہونچائی جاسکتی تھی مگر اللہ تعالیٰ علیم و حکیم ہیں وہ جانتے ہیں کہ مضامین قرآنی کی تعلیم و تفہیم کے لئے دنیا کے دوسرے علوم وفنون سے زیادہ تعلیم استاد کی ضرورت ہے اور یہاں پر عام استاد بھی کافی نہیں بلکہ ان مضامین کا استاد صرف وہ شخص ہوسکتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ سے بذریعہ وحی شرف ہم کلامی حاصل ہو جس کو اسلام کی اصطلاح میں نبی و رسول کہا جاتا ہے اس لئے قرآن کریم میں رسول اللہ ﷺ کو دنیا میں بھیجنے کا مقصد یہ قرار دیا کہ وہ قرآن کریم کے معانی و احکام کی شرح کرکے بیان فرمائیں ارشاد ہے لِتُبَيِّنَ للنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ (44: 16) یعنی ہم نے آپ کو اس لئے بھیجا ہے کہ آپ لوگوں کے سامنے اللہ کی نازل کردہ آیات کے مطالب بیان فرمائیں تعلیم کتاب کے ساتھ آپ کے فرائض میں دوسری چیز تعلیم حکمت بھی رکھی گئی ہے اور میں نے اوپر بتلایا ہے کہ حکمت کے عربی زبان کے اعتبار سے اگرچہ کئی معنی ہوسکتے ہیں لیکن اس آیت میں اور اس کے ہم معنی دوسری آیات میں صحابہ کرام ؓ اجمعین وتابعین نے حکمت کی تفسیر سنت رسول اللہ ﷺ سے کی ہے جس سے واضح ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے ذمہ جس طرح معانی قرآنی کا سمجھانا وبتلانا فرض ہے اسی طرح پیغمبرانہ تربیت کے اصول وآداب جن کا نام سنت ہے ان کی تعلیم بھی آپ کے فرائض منصبی میں داخل ہے اور اسی لئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ انما بعثت معلماً میں تو معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں اور یہ ظاہر ہے کہ جب آپ کا مقصد وجود معلم ہونا ہے تو آپ کی امت کا مقصد وجود متعلم اور طالب علم ہونا لازم ہوگیا اس لئے ہر مسلمان مرد و عورت بحیثیت مسلمان ہونے کے ایک طالب علم ہونا چاہئے جس کو تعلیمات رسول اللہ ﷺ کی لگن ہو، اگر علوم قرآن وسنت کی مکمل تحصیل اور اس میں مہارت کے لئے ہمت و فرصت نہیں ہے تو کم ازکم بقدر ضرورت علم حاصل کرنے کی فکر چاہئے،
تیسرا مقصد تزکیہ
تیسرا فرض آنحضرت ﷺ کے فرائض منصبی میں تزکیہ ہے جس کے معنی ہیں ظاہری و باطنی نجاسات سے پاک کرنا ظاہری نجاسات سے تو عام مسلمان واقف ہیں باطنی نجاسات کفر اور شرک غیر اللہ پر اعتماد کلی اور اعتقاد فاسد نیز تکبر وحسد بغض حب دنیا وغیرہ ہیں اگرچہ علمی طور پر قرآن وسنت کی تعلیم میں ان سب چیزوں کا بیان آگیا ہے لیکن تزکیہ کو آپ کا جداگانہ فرض قرار دے کر اس کی طرف اشارہ کردیا گیا کہ جس طرح محض الفاظ کے سمجھنے سے کوئی فن حاصل نہیں ہوتا اسی طرح نظری وعلمی طور پر فن حاصل ہوجانے سے اس کا استعمال اور کمال حاصل نہیں ہوتا جب تک کسی مربی کے زیر نظر اس کی مشق کرکے عادت نہ ڈالے سلوک وتصوف میں کسی شیخ کامل کی تربیت کا یہی مقام ہے کہ قرآن وسنت میں جن احکام کو علمی طور پر بتلایا گیا ہے انکی عملی طور پر عادت ڈالی جائے،
ہدایت و اصلاح کے دو سلسلے کتاب اللہ اور رجال اللہ
اب اس سلسلے کی دو باتیں اور قابل نظر ہیں
اول یہ کہ اللہ جل شانہ نے ابتداء آفرانیش سے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لئے ہمیشہ ہر زمانے میں خاتم الانبیاء ﷺ تک دو سلسلے جاری رکھے ہیں ایک آسمانی کتابوں کا دوسرے اس کی تعلیم دینے والے رسولوں کا جس طرح محض کتاب نازل فرما دینے کو کافی نہیں سمجھا اسی طرح محض رسولوں کے بھیجنے پر بھی اکتفاء نہیں فرمایا بلکہ دونوں سلسلے برابر جاری رکھے اللہ جل شانہ کی اس عادت اور قرآن کریم کی شہادت نے قوموں کی صلاح و فلاح کے لئے ان دونوں سلسلوں کو یکساں طور پر جاری فرما کر ایک بڑے علم کا دروازہ کھول دیا کہ انسان کی صحیح تعلیم وتریبت کے لئے نہ صرف کتاب کافی ہے نہ کوئی مربی انسان بلکہ ایک طرف آسمانی ہدایات اور الہٰی قانون کی ضرورت ہے جس کا نام کتاب یا قرآن ہے دوسری طرف ایک معلمّ اور مربی انسان کی ضرورت ہے جو اپنی تعلیم و تربیت سے عام انسان کو آسمانی ہدایات سے روشناس کرکے ان کا خوگر بنائے کیونکہ انسان کا اصلی معلم انسان ہی ہوسکتا ہے کتاب معلم یا مربی نہیں ہوسکتی ہاں تعلیم و تربیت میں معین و مددگار ضرور ہے،
یہی وجہ ہے کہ جس طرح اسلام کی ابتداء ایک کتاب اور ایک رسول سے ہوئی اور ان دونوں کے امتزاج نے ایک صحیح اور اعلیٰ مثالی معاشرہ دنیا میں پیدا کردیا اسی طرح آگے آنیوالی نسلوں کے لئے بھی ایک طرف شریعت مطہرہ اور دوسری طرف رجال اللہ کا سلسلہ رہا قرآن کریم نے جگہ جگہ اس کی ہدایتیں دی ہیں ایک جگہ ارشاد ہوا ؛
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَكُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ (119: 9) اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور صادقین کے ساتھ رہو،
دوسری جگہ صادقین کی تعرفین اور اوصاف بیان کرکے فرمایا،
اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ صَدَقُوْ آ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ (177: 2) اور یہی لوگ سچے ہیں اور یہی ہیں پرہیزگار،
پورے قرآن کا خلاصہ سورة فاتحہ ہے اور سورة فاتحہ کا خلاصہ صراط مستقیم ہدایت ہے، یہاں بھی صراط مستقیم کا پتہ دینے کے لئے بجائے اس کے کہ صراط القرآن یاصراط الرسول یاصراط السنۃ فرمایا جاتاکچھ اللہ والے لوگوں کا پتہ دیا گیا کہ ان سے صراط مستقیم حاصل کی جائے ارشاد ہوا،
صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ یعنی صراط مستقیم ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہوا ہے نہ کہ ان لوگوں کا جو گمراہ ہوگئے،
دوسری جگہ ان کی مزید تعیین اور توضیح قرآن میں وارد ہوئی جن پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہے فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ ۚ (69: 4) اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے اپنے بعد کے لئے کچھ حضرات کے نام متعین کرکے دینی معاملات میں آپ کا اتباع کرنے کی ہدایت فرمائی ترمذی کی صحیح حدیث میں ہے،
يا أيها الناس إني قد ترکت فيکم ما إن أخذتم به لن تضلوا کتاب اللہ وعترتي أهل بيتي (ترمذی) اے لوگوں ! میں تمہارے لئے اپنے بعد میں دو چیزیں چھوڑتا ہوں ان دونوں کو مضبوطی سے تھامے رہنا تو تم گمراہ نہ ہوگے ایک کتاب اللہ دوسری میری اولاد اور اہل بیت،
اور صحیح بخاری کی حدیث میں ہے
اقتدوا بالذین من بعدی ابی بکر وعمر۔ یعنی میرے بعد ابوبکر اور عمر کا اتباع کرو،
اور ایک حدیث میں ارشاد فرمایا،
علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الرشدین، میرے طریقہ کو اختیار کرو اور خلفائے راشدین کے طریقہ کو،
خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن کریم کی ان ہدایات اور رسول کریم ﷺ کی تعلیمات سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ قوموں کی اصلاح و تربیت کے لئے ہر قرن ہر زمانے میں دو چیزیں ضروری ہیں قرآنی ہدایات اور ان کے سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کا سلیقہ حاصل کرنے کے لئے ماہرین شریعت اور اللہ والوں کی تعلیم و تربیت اور اگر مختلف علوم وفنون اور ان کے سیکھنے سکھانے کے طریقوں پر ناقدانہ نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ اصول تعلیم و تربیت کچھ دین اور دینیات ہی کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ تمام علوم وفنون کی صحیح تحصیل اسی پر دائر ہے کہ ایک طرف ہر فن کی بہترین کتابیں ہوں تو دوسری طرف ماہرین کی تعلیم و تربیت ہر علم وفن کی ترقی و تکمیل کے یہی دو بازو ہیں لیکن دین اور دینیات میں ان دونوں بازوؤں سے فائدہ اٹھانے میں بہت سے لوگ افراط وتفریط کی غلط روش میں پڑجاتے ہیں جس کا نتیجہ بجائے فائدہ اٹھانے کے نقصان اور بجائے اصلاح کے فساد ہوتا ہے ،
بعض لوگ کتاب اللہ کو نظر انداز کرکے صرف علماء ومشائخ ہی کو قبلہ مقصود بنا لیتے ہیں اور ان کے متبع شریعت ہونے کی تحقیق نہیں کرتے اور یہ اصلی مرض یہود و نصاریٰ کا ہے کہ اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ (31: 9) یعنی ان لوگوں نے اپنے علماء ومشائخ کو اللہ کے سوا اپنا معبود اور قبلہ مقصود بنالیا ظاہر ہے کہ یہ راستہ شرک و کفر کا ہے اور لاکھوں انسان اس راستہ میں برباد ہوئے اور ہو رہے ہیں اس کے مقابلہ میں بعض وہ لوگ بھی ہیں جو علوم قرآن و حدیث کے حاصل کرنے میں کسی معلم ومربی کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے وہ کہتے ہیں کہ ہمیں صرف اللہ کی کتاب کافی ہے نہ ماہر علماء کی ضرورت، نہ تربیت یافتہ مشائخ کی حاجت یہ دوسری گمراہی ہے جس کا نتیجہ دین وملت سے نکل کر نفسانی اغراض کا شکار ہونا ہے کیوں کہ ماہرین کی امداد واعانت کے بغیر کسی فن کا صحیح حاصل ہوجانا انسانی فطرت کے خلاف ہے ایسا کرنے والا یقینا غلط فہمیوں کا شکار ہوتا ہے اور یہ غلط فہمی بعض اوقات اس کو دین وملت سے بالکل نکال دیتی ہے،
اس لئے ضرورت اس کی ہے کہ ان دو چیزوں کو اپنے اپنے مقامات اور حدود میں رکھ کر ان سے فائدہ اٹھایا جائے یہ سمجھا جائے کہ حکم اصلی صرف ایک وحدہ لاشریک لہ کا ہے اور اطاعت اصل میں اسی کی ہے رسول بھی اس پر عمل کرنے اور کرانے کا ایک ذریعہ ہے رسول کی اطاعت بھی محض اسی نظر سے کی جاتی ہے کہ وہ بعینہ اللہ جل شانہ کی اطاعت ہے ہاں اس کے ساتھ قرآن و حدیث کے سمجھنے میں اور ان کے احکام پر عمل کرنے میں جو علمی یا عملی مشکلات سامنے آئیں اس کے لئے ماہرین کے قول وفعل سے امداد لینے کو سرمایہ سعادت ونجات سمجھنا ضروری ہے آیت مذکورہ میں رسول اللہ ﷺ کے فرائض منصبی میں تعلیم کتاب کو داخل فرمانے سے ایک دوسرا فائدہ یہ بھی حاصل ہوتا ہے کہ جب قرآن فہمی کے لئے تعلیم رسول ضروری ہے اور اس کے بغیر قرآن پر صحیح عمل ناممکن ہے تو جس طرح قرآن قیامت تک محفوظ ہے اس کا ایک ایک زیر و زبر محفوظ ہے ضروری ہے کہ تعلیمات رسول بھی مجموعی حیثیت سے قیامت تک بانی اور محفوظ رہیں ورنہ محض الفاظ قرآن کے محفوظ رہنے سے نزول قرآن کا اصلی مقصد پورا نہ ہوگا اور یہ بھی ظاہر ہے کہ تعلیمات رسول اللہ ﷺ وہی ہیں جن کو سنت یا حدیث رسول کہا جاتا ہے اس کی حفاظت کا وعدہ اللہ جل شانہ کی طرف سے اگرچہ اس درجہ میں نہیں ہے جس درجہ کی حفاظت قرآن کے لئے موعود ہے،
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ ہم نے قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں،
جس کا یہ نتیجہ ہے کہ اس کے الفاظ اور زیر زبر تک بالکل محفوظ چلے آئے ہیں اور قیامت تک اسی طرح محفوظ رہیں گے سنت رسول اللہ ﷺ کے الفاظ اگرچہ اس طرح محفوظ نہیں لیکن محفوظ نہیں لیکن مجموعی حیثیت سے آپ کی تعلیمات کا محفوظ رہنا آیت مذکورہ کی رو سے لازمی ہے اور بحمد اللہ آج تک وہ محفوظ چلی آتی ہیں جب کسی طرف سے اس میں رخنہ اندازی یا غلط روایات کی آمیزش کی گئی ماہرین سنت نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ نکھار کر رکھ دیا اور قیامت تک یہ سلسلہ بھی اسی طرح رہے گا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں قیامت تک ایسی جماعت اہل حق اور اہل علم قائم رہے گی جو قرآن و حدیث کو صحیح طور پر محفوظ رکھے گی، اور ان میں ڈالے گئے ہر رخنہ کی اصلاح کرتی رہے گی،
خلاصہ یہ ہے کہ جب قرآن پر عمل کرنے کے لئے تعلیم رسول ضروری ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ قرآن پر عمل قیامت تک فرض ہے تو لازم ہے کہ قیامت تک تعلیمات رسول بھی باقی اور محفوظ رہیں اس لئے آیت میں تعلیمات رسول اللہ ﷺ کے قیامت تک باقی اور محفوظ رہنے کی بھی پیشینگوئی موجود ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام سے لے کر آج تک علم حدیث کے ماہر علماء اور مستند کتابوں کے ذریعہ محفوظ رکھا ہے اس سے اس دجل والحاد کی حقیقت کھل جاتی ہے جو آجکل بعض لوگوں نے احکام اسلام سے جان بچانے کے لئے یہ بہانہ تراشا ہے کہ موجودہ ذخیرہ حدیث محفوظ اور قابل اطمینان نہیں ہے ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ ذخیرہ حدیث سے اعتماد اٹھ جائے تو قرآن پر بھی اعتماد کا کوئی راستہ نہیں رہتا،
آیت مذکورہ میں رسول اللہ ﷺ کا تیسرا فرض منصبی تزکیہ قرار دیا ہے تزکیہ کے معنی باطنی نجاسات اور گندگیوں سے پاک کرنا ہے یعنی شرک و کفر اور عقائد فاسدہ سے نیز بری اخلاق تکبر حرص وطمع بغض وحسد، حُب مال وجاہ وغیرہ سے پاک کرنا،
اصلاح انسان کیلئے صرف تعلیم صحیح بھی کافی نہیں اخلاقی تربیت بھی ضروری ہے
تزکیہ کو تعلیم سے جدا کرکے مستقبل مقصد رسالت اور رسول کا فرض منصبی قرار دینے میں اس طرف اشارہ ہے کہ تعلیم کتنی ہی صحیح ہو محض حاصل نہ کرے کیونکہ تعلیم کا کام درحقیقت سیدھا اور صحیح راستہ دکھلا دینا ہے مگر ظاہر ہے کہ منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے محض راستہ جان لینا تو کافی نہیں جب تک ہمت کر کے قدم نہ اٹھائے اور راستہ نہ چلے اور ہمت کا نسخہ بجز اہل ہمت کی صحبت اور اطاعت کے اور کچھ نہیں ورنہ سب کچھ جاننے سمجھنے کے بعد بھی حالت یہ ہوتی ہے کہ،
جانتا ہوں ثواب اطاعت وزہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی۔
عمل کی ہمت و توفیق کسی کتاب کے پڑھنے یا سمجھنے سے پیدا نہیں ہوتی اس کی صرف ایک ہی تدبیر ہے کہ اللہ والوں کی صحبت اور ان سے ہمت کی تربیت حاصل کرنا اسی کا نام تزکیہ ہے قرآن کریم نے تزکیہ کو مقاصد رسالت میں ایک مستقل مقصد قرار دے کر تعلیمات اسلام کی نمایاں خصوصیت کو بتلایا ہے کیونکہ محض تعلیم اور ظاہری تہذیب تو ہر قوم اور ہر ملت میں کسی نہ کسی صورت سے کامل یا ناقص طریق پر ضروری سمجھی جاتی ہے ہر مذہب وملت اور ہر سوسائٹی میں اس کو انسانی ضروریات میں داخل سمجھا جاتا ہے اس میں اسلام کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس نے صحیح اور مکمل تعلیم پیش کی جو انسان کی انفرادی زندگی سے لے کر عائلی پھر قبائلی زندگی اور اس سے آگے بڑھ کر سیاسی وملکی زندگی پر حاوی اور بہترین نظام کی حامل ہے جس کی نظیر دوسری اقوام وملل میں نہیں پائی جاتی اس کے ساتھ تزکیہ اخلاق اور باطنی طہارت ایک ایسا کام ہے جس کو عام اقوام اور سوسائیٹیوں نے سرے سے نظر انداز کر رکھا ہے انسانی لیاقت و استعداد کا معیار اس کی تعلیمی ڈگریاں سمجھی جاتی ہیں انہی ڈگریوں کے وزن کے ساتھ انسانوں کا وزن گھٹتا بڑہتا ہے اسلام نے تعلیم کے ساتھ تزکیہ کا ضمیمہ لگا کر تعلیم کے اصل مقصد کو پورا کر دکھایا،
جو خوش نصیب حضرات رسول اللہ ﷺ کے سامنے زیر تعلیم رہے تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کا باطنی تزکیہ بھی ہوتا گیا اور جو جماعت صحابہ کرام ؓ اجمعین آپ کی زیر تربیت تیار ہوئی ایک طرف ان کی عقل و دانش اور علم و حکمت کی گہرائی کا یہ عالم تھا کہ ساری دنیا کے فلسفے اس کے سامنے گرد ہوگئے تو دوسری طرف ان کے تزکیہ باطنی اور تعلق مع اللہ اور اعتماد علی اللہ کا یہ درجہ تھا جو خود قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا،
وَالَّذِيْنَ مَعَهٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَهُمْ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانًا (29: 48) اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر سخت اور آپس میں رحمدل ہیں تم انہیں رکوع سجدہ کرتے ہوئے دیکھو گے وہ اللہ کا فضل اور اس کی رضا مندی تلاش کرتے ہیں،
یہی وجہ تھی کہ وہ جس طرف چلتے تھے فتح ونصرت ان کے قدم لیتی تھی تائید ربانی ان کے ساتھ ہوتی تھی ان کے محیر العقول کارنامے جو آج بھی ہر قوم وملت کے ذہنوں کو مرعوب کئے ہوئے ہیں وہ اسی تعلیم وتزکیہ کے اعلیٰ نتائج ہیں آج دنیا میں تعلیم کو بہتر بنانے کے لئے نصابوں کی تبدیل و ترمیم پر تو سب لوگ غور کرتے ہیں لیکن تعلیم کی روح کو درست کرنے کی طرف عام طور پر توجہ نہیں دی جاتی کہ مدرس اور معلم کی اخلاقی حالت اور مصلحانہ تربیت کو دیکھا جائے اس پر زور دیا جائے اس کا نتیجہ ہے کہ ہزار کوششوں کے بعد بھی ایسے مکمل انسان پیدا نہیں ہوتے جن کے عمدہ اخلاق دوسروں پر اثر انداز ہوں اور دوسروں کی تربیت کرسکیں،
یہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ اساتذہ جس علم وعمل اور اخلاق و کردار کے مالک ہوں گے ان سے پڑھنے والے طلبہ زیادہ سے زیادہ انہی جیسے پیدا ہوسکیں گے اس لئے تعلیم کو مفید اور بہتر بنانے کے لئے نصابوں کی تدوین ترمیم سے زیادہ اس نصاب کے پڑھانے والوں کی علمی وعملی و اخلاقی حالات پر نظر ڈالنا ضروری ہے،
یہاں تک رسالت ونبوت کے تین مقاصد کا بیان تھا آخر میں مختصر طور پر یہ بھی سن لیجئے کہ سردار دو عالم رسول اللہ ﷺ کو جو تین فرائضِ منصبی سپرد کئے گئے تھے ان کو آپ نے کس حد تک پورا فرمایا آپ کو ان کے پورا کرنے میں کہاں تک کامیابی ہوئی اس کے لئے اتناجان لینا کافی ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس دنیا سے تشریف لے جانے سے پہلے پہلے تلاوت آیات کا یہ درجہ ہوگیا تھا کہ تقریباً پورے جزیرۃ العرب میں قرآن پڑھا جارہا تھا ہزاروں اس کے حافظ تھے سینکڑوں ایسے حضرات تھے جو روزانہ یا تیسرے روز پورا قرآن ختم کرتے تھے تعلیم کتاب و حکمت کا یہ مقام تھا۔
یتیمے کہ ناکردہ قرآں درست
کتب خانہ چند ملت بشست
دنیا کے سارے فلسفے قرآن کے سامنے ماند ہوچکے تھے توراۃ و انجیل کے تحریف شدہ صحائف افسانہ بن چکے تھے قرآنی اصول کو عزت وشرف کا معیار مانا جاتا تھا تزکیہ کا یہ عالم تھا کہ ساری بد اخلاقیوں کے مرتکب افراد تہذیب اخلاق کے معلم بن گئے بد اخلاقیوں کے مریض نہ صرف صحت یاب بلکہ کامیاب معالج اور مسیحا بن گئے جو رہزن تھے رہبر بن گئے غرض بت پرست لوگ ایثار و ہمدردی کے مجسمے بن گئے تند خوئی اور جنگ جوئی کی جگہ نرمی اور صلح جوئی نظر آنے لگی چور اور ڈاکو لوگوں کے اموال کے محافظ بن گئے،
الغرض حضرت خلیل اللہ ؑ نے جن مقاصد کے لئے دعا فرمائی اور رسول کریم ﷺ کو ان کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا تھا وہ تینوں مقصد آپ کے عہد مبارک ہی میں نمایاں طور پر کامیاب ہوئے پھر آپ کے بعد آپ کے صحابہ کرام نے تو ان کو مشرق سے مغرب اور جنوب سے شمال تک ساری دنیا میں عام کردیا۔ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہٖ واصحابہٖ اجمعین وسلم تسلیماً کثیراً بعد ومن صلی وصام وقعد وقام،
Top