Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 126
وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا وَّ ارْزُقْ اَهْلَهٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ مَنْ اٰمَنَ مِنْهُمْ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ١ؕ قَالَ وَ مَنْ كَفَرَ فَاُمَتِّعُهٗ قَلِیْلًا ثُمَّ اَضْطَرُّهٗۤ اِلٰى عَذَابِ النَّارِ١ؕ وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ
وَاِذْ قَالَ : اور جب کہا اِبْرَاهِيمُ : ابراہیم رَبِّ : میرے رب اجْعَلْ : بنا هٰذَا بَلَدًا : اس شہر کو اٰمِنًا : امن والا وَارْزُقْ : روزی دے اَهْلَهُ ۔ مِنَ الثَّمَرَاتِ : اس کے رہنے والے۔ پھلوں کی مَنْ اٰمَنَ : جو ایمان لائے مِنْهُمْ : ان میں سے بِاللہِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ الْآخِرِ : اور آخرت کے دن قَالَ : فرمایا وَمَنْ کَفَرَ : اور جس نے کفر کیا فَأُمَتِّعُهُ : اس کو نفع دوں گا قَلِيلًا ۔ ثُمَّ : تھوڑا سا۔ پھر اَضْطَرُّهُ : اس کو مجبور کروں گا اِلٰى : طرف عَذَابِ : عذاب النَّارِ : دوزخ وَبِئْسَ : اور وہ بری جگہ ہے الْمَصِيرُ : لوٹنے کی
اور جب کہا ابراہیم نے اے میرے رب بنا اس کو شہر امن کا اور روزی دے اس کے رہنے والوں کو میوے جو کوئی ان میں سے ایمان لاوے اللہ پر اور قیامت کے دن پر فرمایا اور جو کفر کرے اس کو بھی نفع پہنچاؤں گا تھوڑے دنوں پھر اس کو جبراً بلاؤں گا دوزخ کے عذاب میں اور وہ بری جگہ ہے رہنے کی،
خلاصہ تفسیر
اور (وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے) جس وقت ابراہیم ؑ نے (دعا میں) عرض کیا کہ اے میرے پروردگار اس (موقع) کو ایک (آباد) شہر بنا دیجئے (اور شہر بھی کیسا) امن (امان) والا اور اس کے بسنے والوں کو پھلوں (کی قسم) سے بھی عنایت کیجئے (اور میں سب بسنے والوں کو نہیں کہتا بلکہ خاص) ان کو (کہتا ہوں) جو ان میں اللہ تعالیٰ پر اور روز قیامت پر ایمان رکھتے ہوں (باقیوں کو آپ جانیں) حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا (کہ چونکہ رزق ہمارا خاص نہیں ہے اس لئے ثمرات سب کو دوں گا مومن کو بھی) اور اس شخص کو بھی جو کافر رہے (البتہ نجات آخرت چونکہ اہل ایمان کے ساتھ خاص ہے) (اس واسطے) ایسے شخص کو (جو کہ کافر رہے) تھوڑے روز (یعنی دنیا میں) تو خوب آرام برتاؤں گا (لیکن) پھر (بعد مرگ) اس کو کشاں کشاں عذاب دوزخ میں پہنچا دوں گا اور ایسی پہنچنے کی جگہ تو بہت بری ہے (اللہ بچاوے اور وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے) جبکہ اٹھا رہے تھے ابراہیم ؑ دیواریں خانہ کعبہ کی اور (ان کے ساتھ) اسماعیل ؑ بھی (اور یہ بھی کہتے جاتے تھے کہ) اے ہمارے پروردگار (یہ خدمت) ہم سے قبول فرمائیے بلاشبہ آپ خوب سننے والے جانتے والے ہیں (ہماری دعا کو سنتے ہیں ہماری نیتوں کو جانتے ہیں) اے ہمارے پروردگار اور (ہم دونوں یہ دعا بھی کرتے ہیں کہ) ہم کو اپنا اور زیادہ مطیع بنا لیجئے اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک ایسی جماعت پیدا کی جیئے جو آپ کی مطیع ہو اور (نیز) ہم کو ہمارے حج (وغیرہ) کے احکام بھی بتلا دیجئے اور ہمارے حال پر (مہربانی کے ساتھ) توجہ رکھئے اور فی الحقیقت آپ ہی ہیں توجہ فرمانے والے مہربانی کرنے والے،
معارف و مسائل
حضرت خلیل اللہ ؑ نے اللہ کی راہ میں قربانیاں دیں مال ومنال اہل و عیال اور خود اپنے نفس کی خواہشات کو نظر انداز کرکے تعمیل احکام ربانی میں مسارعت کے جو کارنامے پیش کئے وہ عجائب روزگار میں سے ہیں۔
اس کے ساتھ اہل و عیال پر شفقت و محبت ایک طبعی اور فطری امر ہونے کے ساتھ حکم ربانی بھی ہے مذکور الصدر آیات اس کا مظہر ہیں انہوں نے اپنے اہل و عیال کیلئے دین و دنیا کی آسائش و راحت کے لئے دعائیں مانگی ہیں،
حضرت ابراہیم ؑ کی دعائیں
دعا کو شروع لفظ رب سے کیا ہے جس کے معنی ہیں اے میرے پالنے والے ان الفاظ میں دعا مانگنے کا سلیقہ سکھایا ہے کہ خود یہ الفاظ حق تعالیٰ کی رحمت اور لطف وکرم کو متوجہ کرنے پر مؤ ثر دواعی ہیں پھر سب سے پہلی دعا یہ فرمائی کہ اس چٹیل میدان کو جس میں آپ کے حکم کے مطابق میں نے اپنے اہل و عیال کو لا ڈالا ہے آپ ایک شہر بنادیں تاکہ یہاں کی سکونت میں ان کو وحشت نہ ہو اور ضروریات زندگی بآسانی میسر آجائیں یہی دعا سورة ابراہیم میں ھٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا کے الفاظ سے آئی ہے جس میں البلد کو الف لام کے ساتھ ذکر کیا ہے جو عربی زبان کی اصطلاح میں معرفہ کہلاتا ہے فرق کی وجہ غالباً یہ ہے کہ پہلی دعا جو آیت سورة بقرہ میں بلدا کے لفظ سے آئی ہے یہ اس وقت کی گئی ہے جب یہ جگہ جنگل تھی شہر بنا نہیں تھا اس وقت بلد کو بغیر الف لام کے نکرہ استعمال کیا اور دوسری دیا بظاہر اسوقت کی ہے جب مکہ کی بستی بس گئی اور وہ شہر معروف بن گیا اس کا قرینہ یہ ہے کہ سورة ابراہیم کی آخری آیات میں ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ وَهَبَ لِيْ عَلَي الْكِبَرِ اِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ (39: 14) جس سے اندازہ یہ ہوتا ہے کہ دعا حضرت اسحاق کی پیدائش کے بعد کی ہے اور حضرت اسحاق حضرت سمٰعیل سے تیرہ سال بعد میں پیدا ہوئے (ابن کثیر)
دوسری دعا اس میں یہ ہے کہ اس شہر کو امن والا شہر بنا دیجئے یعنی جو قتل و غارت گری سے کفار کے تسلط سے اور آفات سے مامون و محفوظ رہے،
حضرت خلیل اللہ ؑ کی یہ دعا قبول ہوئی اور مکہ مکرمہ ایسا شہر ہوگیا کہ اس کی اپنی آبادی کے علاوہ ساری دنیا کا مرجع بن گیا اطراف عالم سے مسلمان وہاں پہنچنے کو اپنی سب سے بڑی سعادت سمجھتے ہیں اور مامون و محفوظ بھی ہوگیا کہ بیت اللہ کے مخالف کسی قوم اور کسی بادشاہ کا اس پر تسلط نہیں ہوسکا اصحاب فیل کا واقعہ خود قرآن میں مذکور ہے کہ انہوں نے بیت اللہ پر حملے کا قصد کیا تو پورے لشکر کو تباہ و برباد کردیا گیا،
یہ شہر قتل و غارت گری سے بھی محفوظ چلا آیا ہے اسلام سے پہلے بھی زمانہ جاہلیت والے کتنی ہی خرابیوں اور کفر و شرک کی رسموں میں مبتلا ہونے کے باوجود بیت اللہ اور اس کے ماحول حرم کی تعظیم و تکریم کو ایسا مذہبی فریضہ سمجھتے تھے کہ کیسا ہی دشمن وہاں کسی کو مل جائے حرم میں اس سے قصاص یا انتقام نہ لیتے تھے بلکہ سکان حرم کی تعظیم و تکریم بھی پورے عرب میں عام تھی اسی لئے مکہ والے ملک شام اور یمن سے تجارتی درآمد وبرآمد کا سلسلہ رکھتے تھے اور کوئی ان کی راہ میں حائل نہ ہوتا تھا،
حدود حرم میں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے جانوروں کو بھی امن دیا ہے اس میں شکار جائز نہیں ایسا ہی جانوروں میں بھی یہ قدرتی احساس پیدا فرما دیا ہے کہ حدود حرم میں آکر جانور اپنے آپ کو محفوظ سمجھتا ہے کسی شکاری آدمی سے نہیں گھبراتا،
حرم محترم کے مامون ہونے کے یہ احکام جو دعا ابراہیمی کا نتیجہ ہیں زمانہ جاہلیت سے قائم چلے آتے تھے اسلام اور قرآن نے ان کو اور زیادہ نکھارا اور تقویت پہنچائی حجاج ابن یوسف اور پھر قرامطہ کے ظلم وستم اور بدکاریوں سے جو قتل و قتال حرم میں ہوا اول تو وہ خود اسلام کا نام لینے والوں کے ہاتھوں ہوا کوئی کافر قوم حملہ آورنہ تھی اور کوئی شخص خود اپنے گھر کو آگ لگائے تو وہ امن کے منافی نہیں اس کے علاوہ یہ واقعات شاذہ ہیں جو حضرت ابراہیم ؑ سے لے کر آج تک ہزاروں سال کی مدت میں گنے چنے ہیں اور قتل و قتال کے بعد ایسا کرنے والوں کا انجام بد بھی سب کے سامنے آگیا،
خلاصہ یہ ہے کہ دعاء ابراہیمی کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اس شہر کو ایک مامون شہر اور تمام دنیا کے لیے امن کی جگہ قدرتی طور پر بھی بنادی ہے یہاں تک کہ دجال کو بھی حرم میں داخل ہونے کی قدرت نہ ہوگی اور شرعی طور پر بھی یہ احکام جاری فرمادئیے کہ حرم میں باہمی قتل و قتال تو کیا جانوروں کا شکار بھی حرام کردیا گیا،
تیسری دعا یہ فرمائی کہ اس شہر کے باشندوں کو پھلوں کا رزق عطا فرمائیے مکہ مکرمہ اور اس کے آس پاس کی زمین نہ کسی باغ وچمن کی متحمل تھی نہ وہاں دور دور تک پانی کا نام ونشان تھا مگر حق تعالیٰ نے دعا ابراہیمی کو قبول فرمایا اور مکہ کے قریب ہی طائف کا ایک ایسا خطہ بنادیا جس میں ہر طرح کے بہترین پھل بکثرت پیدا ہوتے اور مکہ مکرمہ آکر فروخت ہوتے ہیں بعض اسرائیل روایات میں ہے کہ طائف دراصل ملک شام کا خطہ تھا جس کو بحکم خداوندی جبرئیل امین نے یہاں منتقل کردیا،
حکمت ابراہیمی
حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی دعاء میں یہ نہیں فرمایا کہ مکہ اور اس کے ماحول کو گلزار اور پھلوں کی زمین یا قابل کاشت بنا دیجئے بلکہ دعا یہ فرمائی کہ یہ چیزیں پیدا کہیں اور ہوں مگر مکہ میں پہنچا کریں اس میں شاید یہ راز ہو کہ حضرت خلیل اللہ ؑ یہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی اولاد کا شتکاری یا باغبانی کے کاموں میں مشغول ہوجائے کیونکہ ان کو اس جگہ آباد کرنے کا منشاء تو حضرت ابراہیم ؑ نے خود یہ فرما دیا رَبَّنَا لِيُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت خلیل اللہ ؑ اپنی اولاد کا اصل مشغلہ بیت اللہ کی حفاظت اور نماز کو رکھنا چاہتے تھے ورنہ کیا مشکل تھا کہ خود مکہ مکرمہ کو ایسا گلزار بنادیا جاتا کہ دمشق وبیروت اس پر رشک کرتے،
رزق ثمرات تمام ضروریات زندگی کو شامل ہے
لفظ ثمرات جو ثمرہ کی جمع ہے اس کے معنی پھل کے ہیں اور بظاہر اس سے مراد درختوں کے پھل لیکن سورة قصص آیت نمبر 57 میں اس دعا کی قبولیت کا اظہار ان الفاظ میں فرما دیا ہے یجبی الیہ ثمرات کل شیء ان الفاظ میں ایک تو اس کی تصریح ہے کہ خود مکہ میں یہ پھل پیدا کرنے کا وعدہ نہیں بلکہ دوسرے مقامات سے یہاں لائے جایا کریں گے کیونکہ لفظ یجبیٰ کا یہی مفہوم ہے دوسرے ثمرات کل شجر نہیں فرمایا بلکہ ثمرات کل شیء فرمایا اس تغییر لفظی سے ذہن اس طرف جاتا ہے کہ یہاں ثمرات کو عام کرنا مقصود ہے کیونکہ ثمرہ عرف میں ہر چیز سے حاصل ہونے والی پیداوار کو کہا جاتا ہے درختوں سے پیدا ہونے والے پھل جس طرح اس میں داخل ہیں اسی طرح مشینوں سے حاصل ہونے والا کل سامان بھی مشینوں کے ثمرات ہیں اسی طرح مختلف دستکاریوں سے بننے والا سامان ان دستکاریوں کے ثمرات ہیں اس طرح ثمرات کل شیء میں تمام ضروریات زندگی داخل ہوجاتی ہیں اور حالات و واقعات کا مشاہدہ بھی یہ ثابت کرتا ہے کہ حق تعالیٰ نے اگرچہ ارض حرم کو نہ کاشت کی زمین بنایا ہے نہ صنعتکاری کی لیکن دنیا بھر میں پیدا ہونے والی اور بننے والی چیزیں یہاں عام طور پر مل جاتی ہیں اور یہ بات شاید آج بھی کسی بڑے سے بڑے تجارتی یا صنعتی شہر کو حاصل نہ ہو کہ دنیا بھر کی مصنوعات بکثرت وبآسانی وہاں مل جاتی ہیں،
حضرت خلیل اللہ ؑ کی احتیاط
اس آیت میں جبکہ اہل مکہ کے لئے امن اور فراخی عیش کی دعا کی گئی تو ان میں مومن کافر سب داخل تھے اور اس سے پہلے حضرت خلیل اللہ ؑ نے جب ایک دعا میں اپنی پوری ذریت کو بغیر امتیاز مومن و کافر جمع کیا تھا تو حق تعالیٰ کی طرف سے یہ ارشاد آیا تھا کہ یہ دعا مؤ منوں کے حق میں قبول ہے ظالم مشرکوں کے حق میں قابل قبول نہیں وہ دعا تھی امامت و اقتدار کی حضرت خلیل اللہ ؑ کو جو مقام خلت پر فائز اور خشیۃ اللہ سے لبریز تھے صرف مؤمنین کے لئے کرتا ہوں حق تعالیٰ کی طرف سے اس خشیت و احتیاط کی قدر کی گئی اور فرمایا ومن کفر یعنی یہ دنیوی خوش حالی اور اقتصادی فراخی ہم سبھی اہل مکہ کو عطا کریں گے اگرچہ وہ ظالم مشرک و کافر ہی ہوں البتہ مؤمنین کو یہ خوش حالی جس طرح دنیا میں دی جائے گی اسی طرح آخرت میں بھی عطا ہوگی اور کافروں کو آخرت میں عذاب کے سوا کچھ نہیں۔
Top