Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 124
وَ اِذِ ابْتَلٰۤى اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَمَّهُنَّ١ؕ قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا١ؕ قَالَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ١ؕ قَالَ لَا یَنَالُ عَهْدِی الظّٰلِمِیْنَ
وَاِذِ : اور جب ابْتَلٰى : آزمایا اِبْرَاهِيمَ : ابراہیم رَبُّهٗ : ان کا رب بِکَلِمَاتٍ : چند باتوں سے فَاَتَمَّهُنَّ : وہ پوری کردیں قَالَ : اس نے فرمایا اِنِّيْ : بیشک میں جَاعِلُکَ : تمہیں بنانے والا ہوں لِلنَّاسِ : لوگوں کا اِمَامًا : امام قَالَ : اس نے کہا وَ : اور مِنْ ذُرِّيَّتِي : میری اولاد سے قَالَ : اس نے فرمایا لَا : نہیں يَنَالُ : پہنچتا عَهْدِي : میرا عہد الظَّالِمِينَ : ظالم (جمع)
اور جب آزمایا ابراہیم کو اس کے رب نے کئی باتوں میں پھر اس نے وہ پوری کیں، تب فرمایا میں تجھ کو کروں گا سب لوگوں کا پیشوا، بولا اور میری اولاد میں سے بھی فرمایا نہیں پہنچے گا میرا قرار ظالموں کو۔
خلاصہ تفسیر
اور جس وقت امتحان کیا حضرت ابراہیم ؑ کا ان کے پروردگار نے چند باتوں میں (اپنے احکام میں سے) اور وہ ان کو پورے طور سے بجا لائے (اس وقت) حق تعالیٰ نے (ان سے) فرمایا کہ میں تم کو (اس کے صلہ میں نبوت دے کر یا امت بڑھا کر) لوگوں کو مقتدا بناؤں گا انہوں نے عرض کیا اور میری اولاد میں سے بھی کسی کو (نبوت دیجئے) ارشاد ہوا کہ (آپ کی درخواست منظور ہے مگر اس کا ضابطہ سن لیجئے کہ) میرا (یہ) عہدہ (نبوت) خلاف ورزی (قانون) کرنے والوں کو نہ ملے گا (سو ایسے لوگوں کو تو صاف جواب ہے البتہ اطاعت کرنے والوں میں سے بعض کو نبوت دی جائے گی)
معارف و مسائل
اس آیت میں حق تعالیٰ کے خاص پیغمبر حضرت ابراہیم ؑ کے مختلف امتحانات اور ان میں ان کی کامیابی پھر اس کے انعام وصلہ کا بیان اور پھر جب حضرت خلیل اللہ ؑ نے ازراہ شفقت اپنی اولاد کے لئے بھی اسی انعام کی درخواست کی تو انعام پانے کا ایک ضابطہ ارشاد فرما دیا گیا جس میں حضرت ابراہیم ؑ کی درخواست کی منظوری مشروط صورت میں دی گئی کہ یہ انعام آپ کی ذریت کو بھی ملے گا مگر جو لوگ ذریت میں سے نافرمان اور ظالم ہوں گے وہ یہ انعام نہ پاسکیں گے،
حضرت خلیل اللہ ؑ کے عظیم امتحانات اور مضامین امتحان
یہاں چند باتیں غور طلب ہیں ؛
اول یہ کہ امتحان کسی شخص کی قابلیت معلوم کرنے لئے لیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ علیم و خیبر ہیں کسی بھی شخص کا کوئی حال یا کمال ان پر مخفی نہیں پھر اس امتحان کا مقصد کیا تھا ؟
دوسرے یہ کہ امتحان کس کس عنوان سے لیا گیا،
تیسرے یہ کہ کامیابی کس صورت میں اور کس نوعیت کی رہی،
چوتھے یہ کہ انعام کیا دیا گیا اور اس کی حیثیت کیا ہے،
پانچویں یہ کہ اس انعام کے لئے جو ضابطہ مقرر کیا گیا ہے اس کی کچھ توضیح و تفصیل۔
ان پانچوں سوالات کے جوابات بالتفصیل ملاحظہ فرمائیے،
پہلی بات کہ امتحان کا مقصد کیا تھا ؟ قرآن کے ایک لفظ ربُّہ نے اس کو حل کردیا جس میں یہ بتلایا گیا ہے کہ اس امتحان کے ممتحن خود اللہ جل شانہ ہیں اور ان کے اسماء حسنی میں سے اس جگہ لفظ رب لاکر شان ربوبیت کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے جس کے معنی ہیں کسی چیز کو آہستہ آہستہ درجہ کمال تک پہنچانا،
مطلب یہ ہوا کہ حضرت ابراہیم ؑ کا یہ ابتلاء و امتحان کسی جرم کی پاداش میں یا نامعلوم قابلیت کا علم حاصل کرنے کے لئے نہیں بلکہ شان تربیت و ربوبیت اس کا منشاء ہے ان آزمائشوں کے ذریعے اپنے خلیل ؑ کی تربیت کرکے ان کے درجات و مقامات تک پہنچانا مقصود ہے پھر اس جملہ میں مفعول کو مقدم اور فاعل کو مؤ خر کرکے یوں ارشاد ہوا وَاِذِ ابْتَلٰٓى اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ اس میں ابراہیم ؑ کی جلالت شان کو اور نمایاں فرمایا گیا،
دوسرا سوال کہ امتحان کس عنوان سے لیا گیا ؟ اس کے متعلق قرآن شریف میں تو صرف کلمات کا لفظ آیا ہے اور اس لفظ کی تفسیر و تشریح میں حضرات صحابہ کرام ؓ اجمعین وتابعین کے مختلف اقوال ہیں کسی نے احکام الہیہ میں سے دس چیزیں شمار کیں کسی نے تیس بتلائی ہیں اور کسی نے اور کچھ کم وبیش دوسری چیزیں بتائیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں کچھ اختلاف نہیں وہ چیزیں سب کی سب ہی حضرت خلیل اللہ ؑ کے مضامین امتحان تھے ائمہ تفسیر ابن جریر اور ابن کثیر کی یہی رائے ہے۔
اللہ تعالیٰ کے نزدیک علمی موشگافیوں سے زیادہ قابل قدر اخلاق و کردار کی عملی ثابت قدمی ہے
یہی مضامین امتحان جن کی تفصیل آگے بیان ہوگی مدارس کے امتحانات کی طرح فنی مسائل اور ان کی تحقیقات نہیں بلکہ اخلاقی قدروں اور عملی ثابت قدمی کی جانچ ہے اس سے معلوم ہوا کہ بارگاہ عزوجلال میں جس چیز کی قیمت ہے وہ علمی موشگافیاں نہیں بلکہ عملی اور اخلاقی برتری ہے،
اب ان مضامین امتحان میں سے چند اہم چیزیں سنیے،
حق تعالیٰ کو منظور تھا کہ حضرت ابراہیم ؑ کو اپنی خلت کا خلعت خاص عطا فرمایا جائے اس لئے ان کو سخت امتحانات سے گذارا گیا پوری قوم کی قوم حتی کہ اپنا خاندان سب کے سب بت پرستی میں مبتلا تھے سب کے عقائد و رسوم سے مختلف ایک دین حنیف ان کو عطا کیا گیا اور اس کی تبلیغ اور قوم کو اس کی طرف دعوت دینے کا بارگراں آپ پر ڈالا گیا آپ نے پیغمبرانہ جرأت وہمت کے ساتھ بےخوف وخطر قوم کو خدائے وحدہ لاشریک لہ کی طرف بلایا بت پرستی کی شرمناک رسم کی خرابیاں مختلف عنوانات سے بیان کیں عملی طور پر بتوں کے خلاف جہاد کیا پوری قوم کی قوم آمادہ جنگ وجدال ہوگئی بادشاہ وقت نمرود اور اس کی قوم نے آپ کو آگ میں ڈال کر زندہ جلا دینے کا فیصلہ کرلیا اللہ کے خلیل ؑ نے اپنے مولا کی رضا مندی کے لئے ان سب بلاؤں پر راضی ہو کر اپنے آپ کو آگ میں ڈال دینے کے لئے پیش کردیا اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل اللہ ؑ کو امتحان میں کامیاب پایا تو آگ کو حکم دیا ؛
قُلْنَا يٰنَارُكُـوْنِيْ بَرْدًا وَّسَلٰمًا عَلٰٓي اِبْرٰهِيْمَ (69: 21) ہم نے حکم دے دیا کہ اے آگ تو ابراہیم پر ٹھنڈی اور ذریعہ سلامتی بن جا۔
جس وقت یہ حکم خداوندی آتش نمرود کے متعلق آیا تو حکم کے الفاظ عام تھے کسی خاص آگ کی تعیین کرکے حکم دیا گیا تھا اس لئے پوری دنیا میں جہاں کہیں آگ موجود تھی اس حکم خداوندی کے آتے ہی اپنی اپنی جگہ ہر آگ ٹھنڈی ہوگئی اور نار نمرود بھی اس زمرہ کا فرد بن کر ٹھنڈی پڑگئی،
قرآن میں لفظ بردًا کے ساتھ سلاماً کا اضافہ اس لئے فرمایا گیا کہ کسی چیز کی ٹھنڈک حد اعتدال سے بڑھ جائے تو وہ بھی برف کی طرح تکلیف دہ بلکہ مہلک ہوجاتی ہے اگر لفظ سلاماً ارشاد نہ ہوتا تو ممکن تھا کہ آگ برف کی طرح ٹھنڈی ہوجاتی جو بجائے خود ایک عذاب بن جاتی جیسے جہنم میں ایک عذاب زمہریر کا بھی ہے،
اس امتحان سے فارغ ہو کر دوسرا امتحان یہ لیا گیا کہ اپنے اصلی وطن کو چھوڑ کر شام کی طرف ہجرت کرجائیں حضرت ابراہیم ؑ نے رضائے خداوندی کی تڑپ میں قوم ووطن کو بھی خیر باد کہہ دیا اور مع اہل و عیال ہجرت کرکے شام میں چلے آئے،
آنکس کہ ترا شناخت جاں راچہ کند
فرزند و عیال وخانماں راچہ کند
اب قوم ووطن کو چھوڑ کر ملک شام میں قیام کیا ہی تھا کہ یہ حکم ملا کہ بی بی ہاجرہ ؓ اور ان کے شیر خوار بچے حضرت اسماعیل ؑ کو ساتھ لے کر یہاں سے بھی کوچ کریں (ابن کثیر)
جبرئیل امین آئے اور دونوں کو ساتھ لے کر چلے راستہ میں جہاں کوئی سرسبز جگہ آتی تو حضرت خلیل اللہ ؑ فرماتے کہ یہاں ٹھہرا دیا جائے جبرئیل فرماتے کہ یہاں کا حکم نہیں منزل آگے ہے جب وہ خشک پہاڑ اور گرم ریگستان آجاتا جہاں آگے کسی وقت بیت اللہ کی تعمیر اور شہر مکہ کی بستی بسانا مقدر تھا اس ریگستان میں آپ کو اتار دیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ کے خلیل ؑ اپنے پروردگار کی محبت میں مسرور مگن اسی چٹیل میدان اور بےآب وگیاہ جنگل میں بی بی کو لے کر ٹھہر جاتے لیکن یہ امتحان اسی پر ختم نہیں ہوتا بلکہ اب حضرت ابراہیم ؑ کو حکم ملتا ہے کہ بی بی اور بچے کو یہیں چھوڑ دیں اور خود ملک شام کو واپس ہوجائیں اللہ کا خلیل حکم پاتے ہی اس کی تعمیل میں اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور شام کی طرف روانہ ہوجاتا ہے تعمیل حکم میں اتنی تاخیر بھی گوارا نہیں کہ بیوی کو یہ اطلاع ہی دیدے کہ مجھے چونکہ خدا کا یہ حکم ملا ہے اس لئے میں جارہا ہوں حضرت ہاجرہ (علیہا السلام) جس آپ کو جاتے ہوئے دیکھتی ہیں تو پکارتی ہیں مگر آپ جواب نہیں دیتے پھر پکارتی ہیں اور کہتی ہیں کہ اس لق ودق میدان میں ہمیں چھوڑ کر کہاں جا رہی ہو ؟ اس کا بھی جواب نہیں دیتے مگر وہ بی بی بھی خلیل اللہ ؑ کی بی بی تھیں سمجھ گئیں کہ ماجرا کیا ہے اور کہنے لگیں کہ کیا آپ کو اللہ تعالیٰ کا کوئی حکم ملا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں حضرت ہاجرہ (علیہا السلام) کو بھی جب حکم خداوندی کا علم ہوگیا تو نہایت اطمینان کے ساتھ فرمایا کہ جائیے جس مالک نے آپ کو چلے جانے کا حکم فرمایا ہے وہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا،
اب حضرت ہاجرہ اپنے شیرخوار بچہ کے ساتھ اس لق ودق جنگل میں وقت گذارنے لگتی ہیں، پیاس کی شدت پانی کی تلاش پر مجبور کرتی ہے بچے کو کھلے میدان میں چھوڑ کر صفا ومروہ کی پہاڑیوں پر بار بار چڑہتی اترتی ہیں کہ کہیں پانی کے آثار نظر آئیں یا کوئی انسان نظر آجائے جس سے کچھ معلومات حاصل کریں سات مرتبہ کی دوڑ دھوپ کے بعد مایوس ہو کر بچے کے پاس لوٹ آتی ہیں صفا ومروہ کے درمیان سات مرتبہ دوڑنا اسی کی یادگار کے طور پر قیامت تک آنے والی نسلوں کے لئے احکام حج میں ضروری قرار دیا گیا ہے حضرت ہاجرہ (علیہا السلام) اپنی دوڑ دھوپ ختم کرنے اور مایوس ہونے کے بعد جب بچے کے پاس آتی ہیں تو رحمت خداوندی نازل ہوتی ہے جبرئیل امین آتے ہیں اور اس خشک ریگستان کی زمین سے پانی کا ایک چشمہ نکال دیتے ہیں جس کا نام آج زمزم ہے پانی کو دیکھ کر اول جانور آجاتے ہیں پھر جانوروں کو دیکھ کر انسان پہنچتے ہیں اور مکہ کی آبادی کا سامان ہوجاتا ہے، ضروریات زندگی کچھ آسانیاں مہیا ہوجاتی ہیں،
نو مولود بچہ جن کو آج حضرت اسماعیل ؑ کہا جاتا ہے نشو ونما پاتے ہیں اور کام کاج کے قابل ہوجاتے ہیں حضرت ابراہیم ؑ باشارات ربانی گاہ گاہ تشریف لاتے ہیں اور بی بی وبچہ کو دیکھ جاتے ہیں اس وقت پھر اللہ تعالیٰ اپنے خلیل کا تیسرا امتحان لیتے ہیں یہ بچہ اس بیکسی اور بےسرو سامانی میں پروان چڑھا اور بظاہر اسباب باپ کی تربیت اور شفقت سے بھی محروم رہا اب والد ماجد کو بظاہر یہ حکم ملتا ہے اس بچے کو اپنے ہاتھ سے ذبح کردو ارشاد قرآنی ہے،
فَلَمَّا بَلَــغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يٰبُنَيَّ اِنِّىْٓ اَرٰى فِي الْمَنَامِ اَنِّىْٓ اَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰى ۭ قَالَ يٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُــؤ ْمَرُ ۡ سَتَجِدُنِيْٓ اِنْ شَاۗءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِيْنَ (102: 37) جب بچہ اس قابل ہوگیا کہ باپ کے ساتھ کام کاج میں کچھ مدد دے سکے تو ابراہیم ؑ نے اس سے کہا کہ اے بیٹے میں خواب میں یہ دیکھتا ہوں کہ تجھ کو ذبح کر رہا ہوں تو بتلا کہ تیرا کیا خیال ہے ؟ فرزند سعید نے عرض کیا کہ ابا جان آپ کو جو حکم ملا ہے اس کی تعمیل کیجئے آپ مجھے بھی اس کی تعمیل میں انشاء اللہ ثابت قدم پائیں گے،
اس کے بعد کا واقعہ ہر مسلمان جانتا ہے کہ حضرت خلیل اللہ ؑ صاحبزادے کو ذبح کرنے کے لئے منیٰ کے جنگل میں گئے اور اپنی طرف سے حکم حق جل وعلا شانہ کی پوری تعمیل کردی مگر وہاں مقصود بچے کو ذبح کرانا نہیں بلکہ شفیق باپ کا امتحان کرنا تھا واقعہ خواب کے الفاظ میں غور کیا جائے کہ اس میں یہ نہیں دیکھا تھا کہ ذبح کردیا بلکہ ذبح کا عمل کرتے دیکھا جو حضرت ابراہیم ؑ نے کر دکھایا اور اس عمل کو بذریعہ وحی منام دکھلانے میں بھی شاید یہی مصلحت ہو کہ بذریعہ کلام حکم ذبح دینا منظور نہ تھا اسی وجہ سے ارشاد یہ ہوا کہ صدقت الرؤ یا کہ خواب میں جو کچھ دیکھا تھا آپ نے اس کو پورا کردیا جب اسمیں وہ پورے اترے تو اللہ تعالیٰ نے جنت سے اس کا فدیہ نازل فرما کر اس کی قربانی کا حکم دے دیا اور یہ سنت ابراہیمی آنے والی دنیا کے لئے دائمی سنت بن گئی،
یہ کڑے اور سخت امتحانات تھے جن میں حضرت خلیل اللہ ؑ کو گزارا گیا اس کے ساتھ ہی دوسرے بہت سے اعمال و احکام کی پابندیاں آپ پر عائد کی گئیں جن میں سے دس خصائل فطرت کے نام سے موسوم ہیں جن کا تعلق بدن کی صفائی ستھرائی اور پاکی سے ہے اور یہ خصائل فطرت آنے والی تمام امتوں کے لئے بھی مستقل احکام بن گئے حضرت خاتم الانبیاء ﷺ نے اپنی امت کو ان تمام امور کے لئے تاکیدی احکام دیئے،
اور ابن کثیر نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے ایک روایت میں یہ بھی نقل کیا ہے کہ پورا اسلام تیس حصوں میں دائر ہے جس میں سے دس سورة برأت میں مذکور ہیں اور دس سورة احزاب میں اور دس سورة مومنون میں حضرت ابراہیم ؑ نے ان تمام چیزوں کا پورا حق ادا کیا اور ان سب امتحانات میں پورے اترے اور کامیاب رہے،
سورة برأت میں مومنین کی صفات بیان کرتے ہوئے مسلمان کی دس مخصوص علامات وصفات کا اس طرح بیان کیا گیا ہے،
اَلتَّاۗىِٕبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّاۗىِٕحُوْنَ الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاهُوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَالْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰهِ ۭ وَبَشِّرِ الْمُؤ ْمِنِيْنَ (112: 9) وہ ایسے ہیں جو توبہ کرنیوالے عبادت کرنیوالے حمد کرنیوالے روزہ رکھنے والے رکوع و سجدہ کرنیوالے نیک باتوں کی تعلیم کرنیوالے اور بری باتوں سے روکنے والے اور اللہ کی حدود کا خیال رکھنے والے اور ایسے مؤمنین کو آپ خوش خبری سنا دیجئے،
اور سورة مؤ منون کی دس صفات یہ ہیں
قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤ ْمِنُوْنَ ۙالَّذِيْنَ هُمْ فِيْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَ وَالَّذِيْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ وَالَّذِيْنَ هُمْ للزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَ وَالَّذِيْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَ اِلَّا عَلٰٓي اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُوْمِيْنَ ۚفَمَنِ ابْتَغٰى وَرَاۗءَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْعٰدُوْنَ وَالَّذِيْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رٰعُوْنَ وَالَّذِيْنَ هُمْ عَلٰي صَلَوٰتِهِمْ يُحَافِظُوْنَ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَ الَّذِيْنَ يَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ ۭ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ (11133)
یقینا ان مسلمانوں نے فلاح پائی جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں اور جو لغو باتوں سے برکنار رہنے والے ہیں اور جو اپنے آپ کو پاک کرنیوالے ہیں اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنیوالے ہیں لیکن بیویوں سے یا اپنی لونڈیوں سے کیونکہ ان پر کوئی الزام نہیں ہاں جو اس کے علاوہ طلب گار ہوں ایسے لوگ حد سے تجاوز کرنے والے ہیں اور جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا خیال رکھنے والے ہیں اور جو اپنی نمازوں کی پابندی کرتے ہیں ایسے ہی لوگ وارث ہونے والے ہیں جو فردوس کے وارث ہوں گے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے،
اور سورة احزاب میں مذکورہ دس صفات یہ ہیں
اِنَّ الْمُسْلِمِيْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ وَالْمُؤ ْمِنِيْنَ وَالْمُؤ ْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِيْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِيْنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِيْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِيْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِيْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّاۗىِٕـمِيْنَ وَالـصـىِٕمٰتِ وَالْحٰفِظِيْنَ فُرُوْجَهُمْ وَالْحٰفِظٰتِ وَالذّٰكِرِيْنَ اللّٰهَ كَثِيْرًا وَّالذّٰكِرٰتِ ۙ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِيْمًا (35: 33)
بیشک اسلام کے کام کرنیوالے مرد اور اسلام کے کام کرنیوالی عورتیں اور ایمان لانیوالے مرد اور ایمان لانے والی عورتیں اور فرمانبرداری کرنیوالی عورتیں، اور راستباز مرد اور راستباز عورتیں اور صبر کرنیوالے مرد اور صبر کرنیوالی عورتیں اور خشوع کرنیوالے مرد اور خشوع کرنیوالی عورتیں اور خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنی والی عورتیں اور روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرنے والے مرد اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرنے والی عورتیں اور بکثرت اللہ کو یاد کرنے والے مرد اور بکثرت اللہ کی یاد کرنے والی عورتیں ان سب کیلئے اللہ تعالیٰ نے مغفرت اور اجر عظیم تیار کر رکھا ہے،
مفسر القرآن حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ مسلمان کے لئے جتنی، علمی، عملی اخلاقی صفات مطلوب ہیں وہ ان تینوں سورتوں کی چند آیات میں جمع کردی گئی ہیں اور یہی صفات وہ کلمات ہیں جن میں حضرت خلیل اللہ ؑ کا امتحان لیا گیا اور آیت وَاِذِ ابْتَلٰٓى اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰت میں انہی صفات کی طرف اشارہ ہے،
ان آیات کے متعلق قابل غور سوالات میں سے دو سوالوں کا جواب یہاں تک ہوگیا،
تیسرا سوال یہ تھا کہ اس امتحان میں حضرت ابراہیم ؑ کی کامیابی کا درجہ اور مقام کیا رہا، تو وہ خود قرآن کریم نے اپنے مخصوص انداز میں ان کو سند کامیابی عطا فرمائی ارشاد ہوا،
وَاِبْرٰهِيْمَ الَّذِيْ وَفّيٰٓ (37: 53) (وہ ابراہیم ؑ جس نے پورا کر دکھایا)
اس کا حاصل یہ ہے کہ ہر امتحان کی مکمل اور سو فیصدی کامیابی کا اعلان فرمادیا،
چوتھا سوال کہ اس امتحان پر انعام کیا ملا اس کا ذکر خود اسی آیت میں آچکا ہے یعنی،
قَالَ اِنِّىْ جَاعِلُكَ للنَّاسِ اِمَامًا (124: 2) (امتحان کے بعد) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں بنانے والا ہوں،
اس سے ایک طرف تو یہ معلوم ہوا کہ حضرت خلیل اللہ ؑ کو اس کامیابی کے صلہ میں امامت خلق اور پیشوائی کا انعام دیا گیا دوسری طرف یہ بھی معلوم ہوا کہ خلق خدا کے امام ومقتداء اور پیشوا بننے کے لئے جو امتحان درکار ہے وہ دنیا کے مدارس اور یونیورسٹیوں جیسا امتحان نہیں جس میں چند مسائل کی فنی تحقیق اور علمی موشگانی کو کامیابی کا اعلی درجہ سمجھا جاتا ہے اس عہدے کے حاصل کرنے کے لئے ان تیس اخلاقی اور عملی صفات میں کامل اور مکمل ہونا شرط ہے جن کا ذکر ابھی بحوالہ آیات آچکا ہے قرآن کریم نے ایک دوسری جگہ بھی یہی مضمون اس طرح بیان فرمایا ہے ،
وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ اَىِٕمَّةً يَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوْا وَكَانُوْا بِاٰيٰتِنَا يُوْقِنُوْنَ (24: 32) یعنی ہم نے ان میں سے امام اور پیشوا بنائے کہ وہ ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدایت کریں جب انہوں نے اپنے نفس کو خلاف شرع سے روکا اور ہماری آیتوں پر یقین کیا،
اس آیت میں امامت و پیشوائی کے لئے ان تیس صفات کا خلاصہ دو لفظوں میں کردیا گیا ہے یعنی صبر ویقین، یقین علمی اور اعتقادی کمال اور صبر عملی اور اخلاقی کمال ہے اور وہ تیس صفات جن کا ذکر ابھی اوپر گذر چکا ہے سب کی سب انہی دو وصفوں میں سموئی ہوئی ہیں،
پانچواں سوال یہ تھا کہ آئندہ آنے والی نسلوں کو منصب امامت و پیشوائی دینے کے لئے جو یہ ضابطہ ارشاد ہوا ہے کہ فاسق اور ظالم لوگوں کو یہ منصب نہ ملے گا اس کا کیا مطلب ہے ؟
اس کی توضیح یہ ہے کہ امامت و پیشوائی ایک حیثیت سے اللہ جل شانہ کی خلافت ہے یہ کسی شخص کو نہیں دی جاسکتی جو اس کا باغی اور نافرمان ہو اسی لئے مسلمانوں پر لازم ہے کہ اپنے اختیار سے اپنا نمائندہ یا امیر کسی ایسے شخص کو مقرر نہ کریں جو اللہ تعالیٰ کا باغی یا نافرمان ہو،
Top