Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 10
فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ١ۙ فَزَادَهُمُ اللّٰهُ مَرَضًا١ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۢ١ۙ۬ بِمَا كَانُوْا یَكْذِبُوْنَ
فِىْ قُلُوْبِهِمْ : ان کے دلوں میں مَّرَضٌ : بیماری ہے فَزَادَھُمُ : پس زیادہ کیا ان کو / بڑھایا ان کو اللّٰهُ : اللہ نے مَرَضًا : بیماری میں وَ : اور لَھُمْ : ان کے لئے عَذَابٌ : عذاب ہے اَلِيْمٌ : درد ناک / المناک بِمَا : بوجہ اس کے جو كَانُوْا : تھے وہ يَكْذِبُوْنَ : جھوٹ بولتے
ان کے دلوں میں بیماری ہے پھر بڑھادی اللہ نے ان کی بیماری اور ان کیلئے عذاب دردناک ہے اس بات ہر کہ جھوٹ کہتے تھے
تیسری آیت میں فرمایا کہ ان کے دلوں میں بڑا مرض ہے سو اور بھی بڑھا دیا، اللہ نے ان کے مرض کو مرض اور بیماری اس کیفیت کو کہتے ہیں جس سے انسان اپنے اعتدال مناسب سے نکل جائے اور اس کے افعال میں خلل پیدا ہوجائے جس کا آخری نتیجہ ہلاکت اور موت ہوتا ہے ،
قرآن و حدیث کی اصطلاح میں ان نفسانی کیفیات کو بھی مرض کہا جاتا ہے جو نفس انسانی کے کمال میں خلل انداز ہوں اور جن کی وجہ سے انسان اپنے انسانی اعمال سے محروم ہوتا چلا جائے جس کا آخری نتیجہ روحانی موت و ہلاکت ہے،
حضرت جنید بغدادی نے فرمایا کہ دلوں کے امراض خواہشات نفسانی کے اتباع سے پیدا ہوتے ہیں جیسے بدن انسان کے امراض اخلاط انسان کی بےاعتدالی سے پیدا ہوتے ہیں اس آیت میں ان کے دلوں میں مخفی کفر کو مرض فرمایا گیا ہے جو روحانی اور جسمانی دونوں اعتبار سے بڑا مرض ہے روحانی مرض ہونا تو ظاہر ہے کہ اوّل تو اپنے پیدا کرنے والے پالنے والے کی ناشکری اور اس کے احکام سے سرکشی جس کا نام کفر ہے یہ خود روح انسانی کے لئے سب سے بڑا مرض اور شرافت انسانی کے لئے بدترین داغ ہے دوسرے دنیا کی اغراض کی خاطر اس کو چھپاتے رہنا اور اپنی دل کی بات کو ظاہر کرنے کی بھی جرأت نہ ہونا یہ دوسری دنائت ہے جو روح کا بہت بڑا مرض ہے اور نفاق کا جسمانی مرض ہونا اس بناء پر ہے کہ منافق کے دل میں ہمیشہ یہ دغدغہ رہتا ہے کہ کہیں میرا اصلی حال نہ کھل جائے شب و روز اس کی فکر میں رہنا خود ایک جسمانی مرض ہے اس کے علاوہ اس مرض کا لازمی نتیجہ حسد ہے کہ مسلمانوں کی ترقی کو دیکھ کر منافق کو جلن ہوگی مگر وہ مسکین اپنے دل کی سوزش کا اظہار بھی نہیں کرسکتا یہ اسباب ان کے جسمانی مرض بھی بن جاتے ہیں،
اور یہ جو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا مرض اور بھی بڑھادیا اس کا مطلب یہی ہے کہ یہ لوگ اسلام اور مسلمانوں کی ترقی سے جلتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو یہ ترقی دینا ہے اور ہر وقت اس کے مشاہدات ہوتے رہتے ہیں اس لئے ان کا یہ مرض بڑہتا ہی رہتا ہے،
(6) جھوٹ بولنے کا وبال
آیات مذکورہ میں منافقین کے عذاب الیم کی وجہ بِمَا كَانُوْا يَكْذِبُوْنَ یعنی ان کے جھوٹ بولنے کو قرار دیا ہے حالانکہ ان کے کفر ونفاق کا جرم سب سے بڑا تھا اور دوسرے جرائم مسلمانوں سے حسد ان کے خلاف سازشیں بھی بڑے جرائم تھے مگر عذاب الیم کا سبب ان کا جھوٹ بولنے کو قرار دیا اس میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ جھوٹ بولنے کی عادت ان کا اصلی جرم تھا اسی بری عادت نے ان کو کفر ونفاق تک پہنچا دیا تھا اس لئے جرم کی حیثیت اگرچہ کفر ونفاق کی بڑھی ہوئی ہے مگر ان سب خرابیوں کی جڑ اور بنیاد جھوٹ بولنا ہے اسی لئے قرآن کریم نے جھوٹ بولنے کو بت پرستی کے ساتھ جوڑ کر اس طرح ارشاد فرمایا ہے ،
فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ (30: 22) یعنی بچو بت پرستی کی نجاست سے اور بچو جھوٹ بولنے سے۔
Top