Maarif-ul-Quran - Al-Israa : 96
قُلْ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًۢا بَیْنِیْ وَ بَیْنَكُمْ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ بِعِبَادِهٖ خَبِیْرًۢا بَصِیْرًا
قُلْ : کہہ دیں كَفٰى : کافی ہے بِاللّٰهِ : اللہ کی شَهِيْدًۢا : گواہ بَيْنِيْ : میرے درمیان وَبَيْنَكُمْ : اور تمہارے درمیان اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : ہے بِعِبَادِهٖ : اپنے بندوں کا خَبِيْرًۢا : خبر رکھنے والا بَصِيْرًا : دیکھنے والا
کہہ اللہ کافی ہے حق ثابت کرنے والا میرے اور تمہارے بیچ میں وہ ہے اپنے بندوں سے خبردار دیکھنے والا
خلاصہ تفسیر
جب یہ لوگ رسالت و نبوت کی دلائل واضحہ آجانے اور تمام شبہات دور ہوجانے کے بعد بھی نہیں مانتے تو) آپ (آخری بات) کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ میرے تمہارے درمیان (کے اختلاف میں) کافی گواہ ہے (یعنی خدا جانتا ہے کہ میں واقع میں اللہ کا رسول ہوں کیونکہ) وہ اپنے بندوں (کے احوال) کو خوب جانتا خوب دیکھتا ہے (تمہارے عناد کو بھی دیکھتا ہے) اور اللہ جس کو راہ پر لاوے وہ ہی راہ پر آتا ہے اور جس کو بےراہ کر دے تو خدا کے سوا آپ کسی کو بھی ایسوں کا مددگار نہ پاویں گے (اور بوجہ کفر کے یہ خدا کی مدد سے محروم رہے مطلب یہ ہے کہ جب تک خدا تعالیٰ کی طرف سے دست گیری نہ ہو نہ ہدایت ہو سکتی ہے نہ عذاب سے نجات) اور ہم قیامت کے روز ان کو اندھا گونگا بہرہ کر کے منہ کے بل چلائیں گے ان کا ٹھکانا دوزخ ہے (جس کی یہ کیفیت ہوگی کہ) وہ (یعنی دوزخ کی آگ) جب ذرا دھیمی ہونے لگے گی اس وقت ہم ان کے لئے اور زیادہ بھڑکا دیں گے یہ ہے ان کی سزاء اس سبب سے کہ انہوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا تھا اور یوں کہا تھا کہ کیا ہم ہڈیاں اور (وہ بھی) بالکل ریزہ ریزہ ہوجاویں گے تو کیا ہم از سر نو پیدا کر کے (قبروں سے اٹھائے جاویں گے کیا ان لوگوں کو اتنا معلوم نہیں کہ جس اللہ نے آسمان اور زمین پیدا کئے وہ اس بات پر (بدرجہ اولی) قادر ہے کہ وہ ان جیسے آدمی دوبارہ پیدا کر دے اور (منکرین کو شاید یہ وسوسہ ہو کہ ہزاروں لاکھوں مر گئے مگر اب تک تو یہ وعدہ دوبارہ زندہ ہو کر اٹھنے کا پورا ہوا نہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ) ان کے (دوبارہ پیدا کرنے کے) لئے ایک میعاد معین کر رکھی ہے کہ اس میعاد (معین کے آنے) میں ذرا شک نہیں اس پر بھی ظالم لوگ بےانکار کئے نہ رہے آپ فرما دیجئے کہ اگر تم لوگ میرے رب کی رحمت (یعنی نبوت) کے خزانوں (یعنی کمالات) کے مختار ہوتے (کہ جس کو چاہتے دیتے جس کو چاہتے نہ دیتے) تو اس صورت میں تم (اس کے) خرچ ہوجانے کے اندیشے سے ضرور ہاتھ روک لیتے (کبھی کسی کو نہ دیتے حالانکہ یہ چیز کسی کو دینے سے گھٹتی بھی نہیں) اور آدمی ہے بڑا تنگدل (کہ نہ گھٹنے والی چیز کو بھی عطا کرنے سے دریغ کرتا ہے جس کی وجہ رسولوں سے عداوت اور بخل کے علاوہ شاید یہ بھی ہو کہ اگر کسی کو نبی اور رسول بنا لیا تو پھر اس کے احکام کی پابندی کرنا پڑے گی جیسے کوئی قوم باہم اتفاق کر کے کسی کو اپنا بادشاہ بنا لے تو گو بنایا انہوں نے ہے مگر جب وہ بادشاہ بن گیا تو اس کی اطاعت کرنی پڑتی ہے)
Top