Maarif-ul-Quran - Al-Israa : 90
وَ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ یَنْۢبُوْعًاۙ
وَقَالُوْا : اور وہ بولے لَنْ نُّؤْمِنَ : ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے لَكَ : تجھ پر حَتّٰى : یہانتک کہ تَفْجُرَ : تو رواں کردے لَنَا : ہمارے لیے مِنَ الْاَرْضِ : زمین سے يَنْۢبُوْعًا : کوئی چشمہ
اور بولے ہم نہ مانیں گے تیرا کہا جب تک تو نہ جاری کر دے ہمارے واسطے زمین سے ایک چشمہ
خلاصہ تفسیر
سابقہ آیات میں کفار کے چند سوالات اور ان کے جوابات ذکر کئے گئے ہیں مذکور الصدر آیات میں ان کے چند معاندانہ سوالات اور بےسروپا فرمائشوں کا ذکر اور ان کا جواب ہے (اخرجہ ابن جریر عن ابن عباس) اور یہ لوگ (باوجود اس کے کہ اعجاز قرآنی کے ذریعے آپ کی نبوت و رسالت کا کافی اور واضح ثبوت ان کو مل چکا پھر بھی از راہ عناد ایمان نہیں لاتے اور یہ بہانے کرتے ہیں کہ) کہتے ہیں کہ ہم آپ پر ہرگز ایمان نہ لاویں گے جب تک آپ ہمارے لئے (مکہ کی) زمین سے کوئی چشمہ جاری نہ کردیں یا خاص آپ کے لئے کھجور اور انگور کا کوئی باغ نہ ہو پھر اس باغ کے بیچ بیچ میں جگہ جگہ بہت سی نہریں آپ جاری کردیں یا جیسا آپ کہا کرتے ہیں آپ آسمان کے ٹکڑے ہم پر نہ گراویں (جیسا کہ اس آیت قرآن میں ارشاد ہے (آیت) اِنْ نَّشَاْ نَخْسِفْ بِهِمُ الْاَرْضَ اَوْ نُسْقِطْ عَلَيْهِمْ كِسَفًا مِّنَ السَّمَاۗءِ (یعنی ہم چاہیں تو ان کو زمین کے اندر دھنسا دیں یا ان پر آسمان کے ٹکڑے گرا دیں) یا آپ اللہ کو اور فرشتوں کو (ہمارے) سامنے نہ لاکھڑا کردیں (کہ ہم کھلم کھلا دیکھ لیں) یا آپ کے پاس کوئی سونے کا بنا ہوا گھر نہ ہو یا آپ آسمان پر (ہمارے سامنے) نہ چڑھ جاویں اور ہم تو آپ کے (آسمان پر) چڑھنے کا کبھی بھی یقین نہ کریں گے جب تک کہ (وہاں سے) آپ ہمارے پاس ایک کتاب نہ لاویں جس کو ہم پڑھ بھی لیں (اور اس میں آپ کے آسمان پر پہنچنے کی تصدیق بطور رسید لکھی ہوئی ہو) آپ (ان سب خرافات کے جواب میں) فرما دیجئے کہ سبحان اللہ میں بجز اس کے کہ آدمی ہوں (مگر) پیغمبر ہوں اور کیا ہوں (کہ ان فرمائشوں کو پورا کرنا میری قدرت میں ہو یہ قدرت مطلقہ تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کی صفت ہے بشریت اپنی ذات میں خود عجز و بےاختیاری کو مقتضی ہے رہا رسالت کا معاملہ تو وہ بھی اس کو متقضی نہیں ہے کہ اللہ کے رسول کو ہر چیز کا مکمل اختیار ہو بلکہ نبوت و رسالت کے لئے تو اتنی بات کافی ہے کہ رسالت کی کوئی صاف واضح دلیل آ جاوے جس پر اہل عقل کو اعتراض نہ ہو سکے اور وہ دلیل اعجاز قرآنی اور دوسرے معجزات کی صورت میں بارہا پیش کی جا چکی ہے اس لئے نبوت و رسالت کے لئے ان فرمائشوں کا مطالبہ کا حق نہیں جس چیز کو وہ حکمت کے مطابق دیکھتے ہیں ظاہر بھی کردیتے ہیں مگر یہ ضروری نہیں کہ تمہاری سب فرمائشیں پوری کریں اور جس وقت ان لوگوں کے پاس ہدایت (یعنی رسالت کی صحیح دلیل مثل اعجاز قرآن کے) پہنچ چکی اس وقت ان کو ایمان لانے سے بجز اس کے اور کوئی (قابل التفات) بات مانع نہیں ہوئی کہ انہوں نے (بشریت کو رسالت کے منافی سمجھا اس لئے کہا) کیا اللہ تعالیٰ نے بشر کو رسول بنا کر بھیجا ہے (یعنی ایسا نہیں ہو سکتا) آپ (جواب میں ہماری طرف سے) فرما دیجئے کہ اگر زمین پر فرشتے (رہتے) ہوتے کہ اس پر چلتے بستے تو ہم البتہ ان پر آسمان سے فرشتہ کو رسول بنا کر بھیجتے۔

معارف و مسائل
بے سروپا معاندانہ سوالات کا پیغمبرانہ جواب
آیات مذکورہ میں جو سوالات اور فرمائشیں رسول کریم ﷺ سے اپنے ایمان لانے کی شرط قرار دے کر کی گئیں وہ سب ایسی ہیں کہ ہر انسان ان کو سن کر ایک قسم کا تمسخر اور ایمان نہ لانے کا بیہودہ بہانے کے سوا کچھ نہیں سمجھ سکتا ایسے سوالات کے جواب میں انسان کو فطرۃ غصہ آتا ہے اور جواب بھی اسی انداز کا دیتا ہے مگر ان آیات میں ان کے بیہودہ سوالات کا جو جواب حق تعالیٰ نے اپنے رسول کریم ﷺ کو تلقین فرمایا وہ قابل نظر اور مصلحین امت کے لئے ہمیشہ یاد رکھنے اور لائحہ عمل بنانے کی چیز ہے کہ ان سب کے جواب میں نہ ان کی بےوقوفی کا اظہار کیا گیا نہ ان کی معاندانہ شرارت کا نہ ان پر کوئی فقرہ کسا گیا بلکہ نہایت سادہ الفاظ میں اصل حقیقت کو واضح کردیا گیا کہ تم لوگ شاید یہ سمجھتے ہو کہ جو شخص خدا کا رسول ہو کر آئے اسے سارے خدائی اختیارات کا مالک اور ہر چیز پر قادر ہونا چاہئے یہ تخیل غلط ہے رسول کا کام صرف اللہ کا پیغام پہنچانا ہے اللہ تعالیٰ ان کی رسالت کو ثابت کرنے کے لئے بہت سے معجزات بھی بھیجتے ہیں مگر وہ سب کچھ محض اللہ تعالیٰ کی قدرت و اختیار سے ہوتا ہے رسول کو خدائی کے اختیارات نہیں ملتے وہ ایک انسان ہوتا ہے اور انسان قوت وقدرت سے باہر نہیں ہوتا بجز اس کے کہ اللہ تعالیٰ ہی اس کی امداد کے لئے اپنی قوت قاہرہ کو ظاہر فرما دیں۔
Top